ڈاکٹرعبدالحمید کمالی
فکروفلسلفہ کی دنیا کا ایک عظیم نام، جسے فراموش کردیا گیا
وقیع ہے۔ مجھے قوی اُمید ہے کہ ان کے دیگر مقالات کی طرح ان مقالات کا بھی علمی دنیا میں پوری گرم جوشی سے خیرمقدم کیا جائے گا۔ بہ قول ڈاکٹر وحید قریشی پروفیسر عبدالحمید کمالی اقبالیات کے بالخصوص اور سنجیدہ فلسفیانہ موضوعات کے معتبر اور مستند عالم ہیں ان کا یہ بحرعلم ان کی ہر تحریر میں جھلکتا ہے۔''
دسمبر1993ء میں پروفیسر کمالی نے "The Origin and Status of Man in the Light of Science and Revelation" پر اقبال میموریل لیکچر دیا جو اقبال سہ ماہی کی پچاسویں سال گرہ کی خصوصی اشاعت 2000ء میں شامل اشاعت کیا گیا۔
جنوری 1993ء میں خلیفہ عبدالحکیم میوریل لیکچر کی بنیاد پڑی۔ کمالی صاحب نے اس کا پہلا افتتاحی لیکچر دیا جو خود ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کے افکار پر مشتمل تھا۔
قبل ازیں اپنے استاد پر آپ نے دو مضامین اور بھی لکھے۔ اقبال ریویو کے خلیفہ عبدالحکیم نمبر میں ان کے مضمون کا عنوان ہے ''خلیفہ عبدالحکیم کا عمومی فلسفہ'' اور دوسرا خلیفہ صاحب کی رحلت پر یعنی 7 فروری 1959ء کو روزنامہ امروز میں بعنوان: ''ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم: ان کے فلسفے سے ایک تعارف'' لکھا۔ کمالی صاحب ریڈیو پاکستان سے بھی منسلک رہے۔
آپ کے اس مضمون پر "Sufism and the Modern European Thought" جو آپ کی تصنیف "Self and Social Experience" میں شامل ہے، ایریل نے روزنامہ ڈان میں تبصرہ کیا۔ سہ ماہی مجلہ اقبال ''قائداعظم نمبر جولائی-اکتوبر 2001ئ'' قائداعظم کے 145ویں سال ولادت کے موقع پر خصوصی شمارے میں کمالی صاحب کا مضمون 'اقلیم ہند: برٹش امپیریلیزم کے اہداف (ماضی، حال اور مستقبل کے آئینے میں)' اس مجلے کے حصہ اردو کا طویل ترین مضمون ہے۔
(تاریخ کے شعبے سے متعلق نام ور شخصیتوں نے اس مضمون کی بڑی تحسین کی)۔ یہ مقالہ اصل میں ستر کی دہائی میں پروفیسر کمالی کے مضمون اقبال، جناح اور پاکستان کے سلسلے میں ہے، یہ لیکچر اقبال اور اساسی اسلامی وجدان نامی آپ کے مجموعے میں شامل ہے۔ زمان و مکان کے موضوع پر کمالی صاحب نے 1988ء سے اقبال ریویو میں اردو سلسلہ جاری کیا نیز بزمِ اقبال کے جریدہ اقبال سہ ماہی میں انگریزی سلسلہ مابعد جاری کیا۔
یہ انگریزی سلسلہ کتابی شکل میں ''اسپیس ٹائم اور آرڈرس آف ری آلٹی'' کے نام سے 1998ء میں بزمِ اقبال، لاہور سے شائع ہوا۔ انگریزی کتاب کے مختلف عنوانوں پر روزناموں، رسالوں وغیرہ میں وقتاً فوقتاً اچھے تبصرے ہوتے رہے ہیں اس کتاب نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔
رسالہ ''غایت الامکان فی درایت المکان'' کا تعارف اور ترجمہ کمالی صاحب نے1971ء میں اس کے مختلف نسخوں کے موازنوں کے بعد کیا تھا۔ 2000ء میں اسی رسالے کے حوالے سے ایک بین الاقوامی سیمینار کا اسلامک فاؤنڈیشن شکاگو یونیورسٹی الی نائے کے شہریوں کے اشتراک سے امریکا میں انعقاد ہوا۔
کمالی صاحب کے ترجمے نیز ان کی انگریزی کتاب ''اسپیس ٹائم اینڈ ورلڈ آرڈر ان دی مسلم کاسمولوجی'' کو وہاں کے اربابِ سیمینار نے بہت سراہا جس کا ایک شعبہ (سیکشن) ''حقوق انسانی'' اور دوسرا شعبہ زماںو مکاں اور حرکت'' کے موضوع پر تھا۔ اس دوسرے شعبے کا اہم سبب رسالہ ''غایت الامکان فی درایت المکان'' تھا۔ چناںچہ اس سیمینار کے اربابِ انتظام نے کمالی صاحب کو اس کے اس شعبے کی صدارت کے لیے نام زد کیا۔
اس موضوع پر جدیدافکار اور مسلم افکار کے درمیان جو بے شمار عبوری نکات تھے ان کی وضاحت پر مشتمل مقالہ، جو حاصل سیمینار قرار پایا، اس کا عنوان تھا "Cosmological View of Space Time in Islam"۔ یہ اس سلسلے میں اہم ترین مقالہ شمار کیا گیا۔ ہجرت نبوی کو چودہ سو سال پورے ہورہے تھے، حکومت پاکستان نے نئی ہجرہ صدی کے آغاز پر انٹر نیشنل اسکالرز ہجرہ کانفرنس اسلام آباد میں مارچ1981ء میں منعقد کی۔
ویمن ڈویژن نے بیگم رضی کمالی کا نام تجویز کیا، ان کو بھی مدعو کیا گیا۔ اس کانفرنس کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ پوری کانفرنس میں ''مسڑاینڈمسز''کو مندوب بنانے کی صرف دو ہی مثالیں تھیں ایک ''مسڑ اینڈ مسز کمالی'' اور دوسری ''مسڑ اینڈ مسز حسین'' جو غالباً انڈیا آفس لائبریری سے یہاں مدعو تھے۔
آپ کے بے پناہ شہرت حاصل کرنے والے اردو کے کئی مضامین میں مشاہدات و تاثرات (جس میں آپ نے خود اپنی مختصر سی سوانح اور اہم واقعات بیان کیے ہیں) 1993ء اور کلچر اور ہم1994ء میں بزمِ اقبال سے شائع ہوئے شامل ہیں، یہ مضامین جن جن حلقوں میں گئے خصوصی اہمیت کے حامل سمجھے گئے۔ ڈاکٹر ساجد علی لکھتے ہیں کہ پروفیسر کمالی ان معدودے چند افراد میں سے تھے جو فلسفے کی تینوں بڑی روایتوں مغربی، اسلامی اور ہندی سے بہت گہری واقفیت رکھتے تھے۔ کمالی صاحب کی تصانیف، تفکر، تدبر، فہم اور بصیرت کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔''
ڈاکٹر صاحب ان معدودے چند اہلِ علّم میں شامل ہیں جو اگر کسی موضوع پر بات کرتے تو اس کے ہر ہر پہلو کو مدنظر رکھتے۔ کمالی صاحب کی ہر تحریر کئی کتابوں سے زیادہ وقیع اور معتبر ہے۔ پروفیسر عبدالحفیظ، صدر شعبۂ فلسفہ جامعہ پنجاب، لاہور نے اپنے مقالہ 'مسئلہ ذات و صفات' میں (اقبالیات جولائی ستمبر 1999ء ) آپ کے خیالات بیان کیے ہیں اور ان پر اظہارِخیال بھی کیا ہے۔
یہ تبصرہ آپ کے ان مضامین 'مقولہ صفات اور تصور اسما' اور 'ماہیت خود آگہی اور خودی کی تشکیل' پر کیا گیا۔ نیز ڈاکٹر عبدالحفیظ نے اپنے ایک انگریزی مقالے میں کمالی صاحب کے نقطۂ نظر کا مغربی فلسفی سے موازنہ کیا ہے، جس کا عنوان ہے : "H. A Wolfson and A. H. Kamali on the Origin of the Problem of ۔ "Divine Attributes in Muslim Kalam" یہ مضمون اقبال اکادمی کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے۔
آپ کی تحریریں صرف فکری اور فلسفیانہ موضوعات سے متعلق ہی نہ تھیں بلکہ انہوں نے مسلم معاشرے کے زندہ مسائل کو بھی اپنی تحقیق و تحریر کا موضوع بنایا۔ معاشرتی اور سیاسی مسائل سے آپ کی وابستگی اور آگاہی کا ہی اثر تھا کہ آپ اخبارات، روزناموں، جرائد وغیرہ سے بھی وابستہ رہے۔ آپ ایسے صاحب علم و فضل تھے جو فلسفہ، اقبالیات کے حوالے سے ایک سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ آپ اقبال شناسی کی روایت کا ہمیشہ ایک درخشاں ستارہ رہے۔
مختصر علالت کے باعث بروز ہفتہ ۲ مئی۲۰۱۵ء بمطابق ۱۲ رجب المرجب ۱۴۳۶ھ کو اذان فجر کے قریب (تہجد کے وقت) آپ دنیا سے رخصت فرماگئے 'ایک شجر سایہ دار جس سے دنیا محروم ہوگئی'۔ بلاشبہہ ایک عالم کی موت پورے جہاں کی موت ہوتی ہے۔ آپ نے کبھی کسی صلّے یا ستائش کی تمنا رکھی نہ توقع۔ طالب علم جب آپ کے کاموں سے استفادہ کرتے آپ سے راہ نمائی حاصل کرتے تو اسی کو آپ اپنے لیے سب سے بڑا ایوارڈ تصوّر کرتے۔
آپ ریسرچ اسکالرز کی راہ نمائی بھی کرتے۔ 1999ء میں آپ گورنر کے دانش وروں کے فورم کے اہم ممبر بھی رہے۔ حکومتِ وقت کو چاہیے کہ اپنی 'علم شناسی' کا ثبوت دیتے ہوئے ڈاکٹرکمالی کی خدمات کا اعتراف ملکی سطح پر کرے اور ملک کی جامعات میں اِن کے نام کی چیئرز قائم کرے' کسی قومی شاہراہ کو اِن کے نام سے منسوب کیا جائے' پاکستان کا سب سے بڑا قومی اعزاز، بعداز وفات ہی سہی، انہیں دیا جائے۔
دسمبر1993ء میں پروفیسر کمالی نے "The Origin and Status of Man in the Light of Science and Revelation" پر اقبال میموریل لیکچر دیا جو اقبال سہ ماہی کی پچاسویں سال گرہ کی خصوصی اشاعت 2000ء میں شامل اشاعت کیا گیا۔
جنوری 1993ء میں خلیفہ عبدالحکیم میوریل لیکچر کی بنیاد پڑی۔ کمالی صاحب نے اس کا پہلا افتتاحی لیکچر دیا جو خود ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کے افکار پر مشتمل تھا۔
قبل ازیں اپنے استاد پر آپ نے دو مضامین اور بھی لکھے۔ اقبال ریویو کے خلیفہ عبدالحکیم نمبر میں ان کے مضمون کا عنوان ہے ''خلیفہ عبدالحکیم کا عمومی فلسفہ'' اور دوسرا خلیفہ صاحب کی رحلت پر یعنی 7 فروری 1959ء کو روزنامہ امروز میں بعنوان: ''ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم: ان کے فلسفے سے ایک تعارف'' لکھا۔ کمالی صاحب ریڈیو پاکستان سے بھی منسلک رہے۔
آپ کے اس مضمون پر "Sufism and the Modern European Thought" جو آپ کی تصنیف "Self and Social Experience" میں شامل ہے، ایریل نے روزنامہ ڈان میں تبصرہ کیا۔ سہ ماہی مجلہ اقبال ''قائداعظم نمبر جولائی-اکتوبر 2001ئ'' قائداعظم کے 145ویں سال ولادت کے موقع پر خصوصی شمارے میں کمالی صاحب کا مضمون 'اقلیم ہند: برٹش امپیریلیزم کے اہداف (ماضی، حال اور مستقبل کے آئینے میں)' اس مجلے کے حصہ اردو کا طویل ترین مضمون ہے۔
(تاریخ کے شعبے سے متعلق نام ور شخصیتوں نے اس مضمون کی بڑی تحسین کی)۔ یہ مقالہ اصل میں ستر کی دہائی میں پروفیسر کمالی کے مضمون اقبال، جناح اور پاکستان کے سلسلے میں ہے، یہ لیکچر اقبال اور اساسی اسلامی وجدان نامی آپ کے مجموعے میں شامل ہے۔ زمان و مکان کے موضوع پر کمالی صاحب نے 1988ء سے اقبال ریویو میں اردو سلسلہ جاری کیا نیز بزمِ اقبال کے جریدہ اقبال سہ ماہی میں انگریزی سلسلہ مابعد جاری کیا۔
یہ انگریزی سلسلہ کتابی شکل میں ''اسپیس ٹائم اور آرڈرس آف ری آلٹی'' کے نام سے 1998ء میں بزمِ اقبال، لاہور سے شائع ہوا۔ انگریزی کتاب کے مختلف عنوانوں پر روزناموں، رسالوں وغیرہ میں وقتاً فوقتاً اچھے تبصرے ہوتے رہے ہیں اس کتاب نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔
رسالہ ''غایت الامکان فی درایت المکان'' کا تعارف اور ترجمہ کمالی صاحب نے1971ء میں اس کے مختلف نسخوں کے موازنوں کے بعد کیا تھا۔ 2000ء میں اسی رسالے کے حوالے سے ایک بین الاقوامی سیمینار کا اسلامک فاؤنڈیشن شکاگو یونیورسٹی الی نائے کے شہریوں کے اشتراک سے امریکا میں انعقاد ہوا۔
کمالی صاحب کے ترجمے نیز ان کی انگریزی کتاب ''اسپیس ٹائم اینڈ ورلڈ آرڈر ان دی مسلم کاسمولوجی'' کو وہاں کے اربابِ سیمینار نے بہت سراہا جس کا ایک شعبہ (سیکشن) ''حقوق انسانی'' اور دوسرا شعبہ زماںو مکاں اور حرکت'' کے موضوع پر تھا۔ اس دوسرے شعبے کا اہم سبب رسالہ ''غایت الامکان فی درایت المکان'' تھا۔ چناںچہ اس سیمینار کے اربابِ انتظام نے کمالی صاحب کو اس کے اس شعبے کی صدارت کے لیے نام زد کیا۔
اس موضوع پر جدیدافکار اور مسلم افکار کے درمیان جو بے شمار عبوری نکات تھے ان کی وضاحت پر مشتمل مقالہ، جو حاصل سیمینار قرار پایا، اس کا عنوان تھا "Cosmological View of Space Time in Islam"۔ یہ اس سلسلے میں اہم ترین مقالہ شمار کیا گیا۔ ہجرت نبوی کو چودہ سو سال پورے ہورہے تھے، حکومت پاکستان نے نئی ہجرہ صدی کے آغاز پر انٹر نیشنل اسکالرز ہجرہ کانفرنس اسلام آباد میں مارچ1981ء میں منعقد کی۔
ویمن ڈویژن نے بیگم رضی کمالی کا نام تجویز کیا، ان کو بھی مدعو کیا گیا۔ اس کانفرنس کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ پوری کانفرنس میں ''مسڑاینڈمسز''کو مندوب بنانے کی صرف دو ہی مثالیں تھیں ایک ''مسڑ اینڈ مسز کمالی'' اور دوسری ''مسڑ اینڈ مسز حسین'' جو غالباً انڈیا آفس لائبریری سے یہاں مدعو تھے۔
آپ کے بے پناہ شہرت حاصل کرنے والے اردو کے کئی مضامین میں مشاہدات و تاثرات (جس میں آپ نے خود اپنی مختصر سی سوانح اور اہم واقعات بیان کیے ہیں) 1993ء اور کلچر اور ہم1994ء میں بزمِ اقبال سے شائع ہوئے شامل ہیں، یہ مضامین جن جن حلقوں میں گئے خصوصی اہمیت کے حامل سمجھے گئے۔ ڈاکٹر ساجد علی لکھتے ہیں کہ پروفیسر کمالی ان معدودے چند افراد میں سے تھے جو فلسفے کی تینوں بڑی روایتوں مغربی، اسلامی اور ہندی سے بہت گہری واقفیت رکھتے تھے۔ کمالی صاحب کی تصانیف، تفکر، تدبر، فہم اور بصیرت کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔''
ڈاکٹر صاحب ان معدودے چند اہلِ علّم میں شامل ہیں جو اگر کسی موضوع پر بات کرتے تو اس کے ہر ہر پہلو کو مدنظر رکھتے۔ کمالی صاحب کی ہر تحریر کئی کتابوں سے زیادہ وقیع اور معتبر ہے۔ پروفیسر عبدالحفیظ، صدر شعبۂ فلسفہ جامعہ پنجاب، لاہور نے اپنے مقالہ 'مسئلہ ذات و صفات' میں (اقبالیات جولائی ستمبر 1999ء ) آپ کے خیالات بیان کیے ہیں اور ان پر اظہارِخیال بھی کیا ہے۔
یہ تبصرہ آپ کے ان مضامین 'مقولہ صفات اور تصور اسما' اور 'ماہیت خود آگہی اور خودی کی تشکیل' پر کیا گیا۔ نیز ڈاکٹر عبدالحفیظ نے اپنے ایک انگریزی مقالے میں کمالی صاحب کے نقطۂ نظر کا مغربی فلسفی سے موازنہ کیا ہے، جس کا عنوان ہے : "H. A Wolfson and A. H. Kamali on the Origin of the Problem of ۔ "Divine Attributes in Muslim Kalam" یہ مضمون اقبال اکادمی کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے۔
آپ کی تحریریں صرف فکری اور فلسفیانہ موضوعات سے متعلق ہی نہ تھیں بلکہ انہوں نے مسلم معاشرے کے زندہ مسائل کو بھی اپنی تحقیق و تحریر کا موضوع بنایا۔ معاشرتی اور سیاسی مسائل سے آپ کی وابستگی اور آگاہی کا ہی اثر تھا کہ آپ اخبارات، روزناموں، جرائد وغیرہ سے بھی وابستہ رہے۔ آپ ایسے صاحب علم و فضل تھے جو فلسفہ، اقبالیات کے حوالے سے ایک سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ آپ اقبال شناسی کی روایت کا ہمیشہ ایک درخشاں ستارہ رہے۔
مختصر علالت کے باعث بروز ہفتہ ۲ مئی۲۰۱۵ء بمطابق ۱۲ رجب المرجب ۱۴۳۶ھ کو اذان فجر کے قریب (تہجد کے وقت) آپ دنیا سے رخصت فرماگئے 'ایک شجر سایہ دار جس سے دنیا محروم ہوگئی'۔ بلاشبہہ ایک عالم کی موت پورے جہاں کی موت ہوتی ہے۔ آپ نے کبھی کسی صلّے یا ستائش کی تمنا رکھی نہ توقع۔ طالب علم جب آپ کے کاموں سے استفادہ کرتے آپ سے راہ نمائی حاصل کرتے تو اسی کو آپ اپنے لیے سب سے بڑا ایوارڈ تصوّر کرتے۔
آپ ریسرچ اسکالرز کی راہ نمائی بھی کرتے۔ 1999ء میں آپ گورنر کے دانش وروں کے فورم کے اہم ممبر بھی رہے۔ حکومتِ وقت کو چاہیے کہ اپنی 'علم شناسی' کا ثبوت دیتے ہوئے ڈاکٹرکمالی کی خدمات کا اعتراف ملکی سطح پر کرے اور ملک کی جامعات میں اِن کے نام کی چیئرز قائم کرے' کسی قومی شاہراہ کو اِن کے نام سے منسوب کیا جائے' پاکستان کا سب سے بڑا قومی اعزاز، بعداز وفات ہی سہی، انہیں دیا جائے۔