کراچی کا انداز رہائش کس سرعت سے بدل گیا
رہائش کی تاریخ کے اس پورے منظرنامے میں مشترکہ طرز رہائش، خاص طور پر ایشیا کا خصوصی طرۂ امتیاز رہا
گھر کے نام سے ذہن میں ایک محفوظ چاردیواری کا تصور ابھرتا ہے، مگر سہل پسند انسانی فطرت اس چاردیواری میں سہولتوں کا ایک سماں بھی چاہتی ہے۔ گاؤں کے کچے مکانوں سے شہر کی بلند و بالا اور پُرتعیش رہائش گاہوں تک کا یہ سفر اسی فطرت کی تسکین کے سوا کچھ اور نہیں۔
یہ سفر نہ صرف طرز رہائش کی تاریخ بلکہ خوب سے خوب تر کی چاہ اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ رہائش کی تاریخ کے اس پورے منظرنامے میں مشترکہ طرز رہائش، خاص طور پر ایشیا کا خصوصی طرۂ امتیاز رہا، مگر دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں نے جہاں دنیا کی معیشت کو زبوں حال کیا، وہیں معاشرت کی کچھ قیمتی قدروں کو بھی پامال کردیا۔ پامالی کی اس فہرست میں جوائنٹ فیملی سسٹم کی ایک قابل قدر ریت بھی تھی۔ برصغیر کی یہ خوش قسمتی تھی کہ یہاں دادا سے پوتے تک یعنی تین نسلوں کے اکٹھے ایک ہی گھر میں رہنے کی روایت کو کوئی گزند نہ پہنچی۔
کراچی کی قدیم بستیوں کے باسی کہیں تنکوں سے پروئی جھونپڑیوں، کہیں لکڑی کی کھپچیوں سے بنے نشیمن تو کہیں پتھر اور چکنی مٹی سے گندھے اپنے اپنے آشیانوں میں مشترکہ انداز رہائش کی روایت سے جڑے یہاں کی سماجی زندگی کو رواں دواں رکھے ہوئے تھے۔
وقت کا دھارا بہتا رہا، کراچی اپنی مخصوص اور محدود جغرافیائی حدود میں سمٹا اپنے باسیوں کو فیض پہنچاتا رہا کہ اچانک ہی 1839ء میں کراچی پر انگریزوں نے حملہ کردیا۔ آمد کے آٹھ دس سال بعد کراچی کی بندرگاہ کو ترقی دینے کے ساتھ ساتھ شہر میں کئی اور ترقیاتی کاموں کا آغاز کیا، تو آس پاس سے آنے والے اس کی جغرافیائی حدود میں توسیع کا باعث بنتے رہے۔ نئی آبادیاں بسنے لگیں، کہیں کہیں عمارتیں تعمیر ہونے لگیں، مگر انداز رہائش وہی، جوائنٹ فیملی کا۔
لیاری، لی مارکیٹ، رنچھوڑ لائن، کھارادر، برنس روڈ اور صدر سمیت کراچی کے قدیم علاقوں میں اٹھارہ سو ستر اور اسی کے دوران اور اس کے بعد تعمیر ہونے والی عمارتوں میں وہی چال سسٹم چالوں کے ساتھ بنا ہر فلیٹ دو کمروں کا، وہ بھی روم ٹو روم یعنی ایک کمرے سے گزر کر دوسرے کمرے میں جانا۔
آٹھ دس افراد کی فیملی کے لیے دو کمروں پر مشتمل یہی ایک سائباں تھا۔ یہیں بغیر دیواروں کے اوپن باورچی خانہ، جہاں گنتی کے کچھ برتن اور کوئلے سے جلنے والی ایک دو انگیٹھیاں دھری ہیں، سادہ سا کھانا یہیں چوکی پر بیٹھ کر پکانا اور یہیں چٹائی کے پتوں سے بنے گول دسترخوان کو زمین پر بچھا کر ایک بڑے سے تھال میں ڈال کر مل کر کھانا ہے۔
ان قدیم عمارتوں کے ہر فلیٹ میں اپنے الگ بیت الخلا کا تصور نہیں کہ اسے گھر میں معیوب خیال کیا جاتا تھا۔ عمارت کے ہر فلور پر رہائشیوں کے لیے ایک کونے میں دو تین بیت الخلا موجود ہوتے۔ فلیٹوں میں پانی کی سپلائی کا کنکشن نہیں، گراؤنڈ فلور پر عمارت کے مرکزی گھاٹ پر ہی برتن ہر روز لا کر دھونے ہیں، چاہے وہ دوسری منزل سے ہی کیوں نہ لانے پڑیں۔ کپڑے بھی اسی گھاٹ پر ہفتے میں ایک دو بار دھوئے جاتے۔
مشترکہ طرز رہائش کے اس سسٹم میں والدین اپنے شادی شدہ بچوں کو اپنے سے الگ کرنے کو تیار نہیں۔ اسے اسی دو روم کے گھر میں لکڑی کی دو چھتی (Mezzanine) بنا کر دے دی جاتی، جہاں سخت گرمی میں بھی پنکھے کا تصور نہیں۔
ہوا کے لیے ان عمارتوں کی چھت میں 3 بائی 3 فٹ کا ایک چوکور سوراخ کر کے اس کے اوپر لکڑی کے بڑے تختے اس طرح کھڑے کردیے جاتے کہ گرمی کے موسم میں مغرب سے چلنے والی ہوا ان تختوں سے ٹکرا کر نیچے گھر میں داخل ہو۔ برسات کے موسم میں اسے ان ہی تختوں سے بند کردیا جاتا۔ اسے ہوادان، بازیگر یا منگھ کہا جاتا تھا۔
سادہ سی عمارتوں کے سادہ سے مکیں ہر حال میں جینے کا ہنر جان چکے تھے کہ ان کے پُرکھے بھی اسی شہر میں اسی طرز رہائش میں عمریں گزار کر راہیٔ عدم ہوئے تھے۔ انیس سو تیس، چالیس تک تو کراچی کی کلچرل زندگی میں یہ عام سی بات تھی کہ لڑکی جس مکان میں بیاہ کر آتی، ساٹھ ستر سال کی عمر میں وہ دادی، نانی کی حیثیت سے اسی چاردیواری سے سفر آخرت کو روانہ ہوتی۔
ایک مدت سے اپنی فطری رفتار میں بہنے والے وقت کے دھارے کو جانے کیا ہوا کہ اس کی رفتار میں تیزی آگئی۔
کراچی میں ڈیڑھ دو صدیوں کے دوران تشکیل پانے والا تمدن کچھ لرزنے لگا۔ صدیاں دہائیوں میں سکڑنے لگیں۔ رفتہ رفتہ کے بجائے جست در جست کا عالم در آیا۔ نوجوانوں کو یہ زقند بھانے لگی، مگر عمررسیدہ افراد ہونقوں کی طرح ایک دوسرے کا چہرہ تکتے رہے۔ وہ ایک انوکھی کو بہ دقت قبول کرتے کہ دوسری انہونی ان کے دروازے پر دستک دے رہی ہوتی۔
انیس سو ساٹھ اور ستر سے چلنے والا تبدیلی کا یہ طوفان کراچی میں دہائیوں سے تشکیل پاچکے طرز رہائش، طرزحیات اور کھانے پینے و پہناووں سمیت سماجی رویوں تک میں دراڑیں ڈالنے لگا۔ وہ بدلاؤ جو فطری طور پر سو سوا سو سالوں میں وقوع پذیر ہوتا، وہ چالیس پچاس برسوں میں جدت کے نام پر کم زور سہاروں پر کھڑا ہوگیا۔
دو کمروں کا وہ ایک سائباں، جہاں باپ دادا نے اپنے بچوں پوتوں سمیت پوری حیات گزاردی، وہاں جدت کی طرف مائل نئی نسل کو یکا یک یہ آشیانے تنگ محسوس ہونے لگے۔ مکان تنگ لگے یا دل تنگ ہونے لگے تھے۔
بہرحال بڑوں کے لیے اب سمجھوتوں کا رجسٹر کھل چکا تھا۔ سماجی رویوں میں بدلاؤ نظر آنے لگا۔ نئی نسل میں ہٹ دھرمی کی بوباس محسوس کی جا سکتی تھی۔ ناتجربے کار ہوتے ہوئے بھی یہ نسل تجربوں کی بھٹی میں پکی جہاندیدہ نسل کے فیصلوں میں شک کی گنجائش نکال رہی تھی۔
نئے شادی شدہ جوڑے کی علیحدہ گھر میں رہنے کی خواہش سے جوائنٹ فیملی سسٹم کی طنابیں ٹوٹ رہی تھیں۔ ناچار بڑوں نے ان کی اس خواہش کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔
ان علیحدہ ہونے والوں کے لیے عمارت کاروں نے کراچی کے قدیم اور چند نئے علاقوں میں چھوٹے ڈربوں پر مشتمل عمارتیں کھڑی کردیں، جہاں ہر مکیں ہر پڑوسی کے دروازے چوبیس گھنٹے بند ہیں۔ ہر مکیں ایک دوسرے سے لاتعلق یہ بیگانگی جدت پسندی کا تحفہ تھی۔ بیگانگی کا یہ سلسلہ اتنا دراز ہوتا گیا کہ
قدیم عمارتوں کے اُن چھوٹے گھروں میں جہاں ان کے اپنے مکیں آٹھ دس افراد پر مشتمل ہوں، وہاں ہر ایک دو مہینے میں قریب کے عزیز رشتے دار دو چار دن تک ٹھہرنے آجاتے، تو وہ لمحے پر مسرت بن جاتے۔
اور اب لاتعلقی کا یہ عالم ہے کہ تین چار افراد کی فیملی کے لیے دو تین کمروں پر مشتمل کشادہ گھروں میں ان قریبی عزیزوں کے لیے کشادہ دلی مفقود ہوگئی۔
پورا طرز حیات ایک نئے سانچے میں ڈھل رہا تھا۔ نئے فلیٹوں میں صرف پانی کے کنکشن ہی سے پرانی عمارتوں کے مرکزی گھاٹ تک پہنچ کر برتن اور کپڑے دھونے کا تصور ختم ہوگیا۔
پنکھوں نے چھت میں بنے ہوادان یا بازیگر کو قصہ پارینہ بنا دیا۔ تو دو چھتی پر بنا بیڈ روم گئے وقتوں کا عجوبہ محسوس ہونے لگا۔
غیرفطری طور پر آئی اس تبدیلی کے پس پردہ کئی ایک عناصر خاموشی سے اپنا کردار ادا کر رہے تھے۔ ان میں سرفہرست عنصر سائنس و ٹیکنالوجی کی نت نئی ایجادات اور ابلاغ کے ذرائع میں وسعت تھی۔
دوسرا اہم عنصر مشرق وسطیٰ کے تیل کی کرامات تھیں۔ خلیجی ممالک میں محنت کی اجرت مقامی کرنسی سے کئی گنا زیادہ تھی۔ اچانک آئی اس اضافی آمدنی نے بھی اپنا رنگ جمایا۔ نئی ٹیکنالوجی اور اضافی آمدنی نے شہر کے لگے بندھے کاروبار کو نہ صرف وسعت دی بلکہ کاروبار کی نئی جہتیں بھی متعارف ہونے لگیں۔ گئے وقتوں میں اِس اضافی آمدنی سے اپنی شان و شوکت بڑھانا مقصود ہوتا تھا۔
مگر اب! اب تو گویا ہر شخص ہاتھوں میں تیشہ اٹھائے ایک ڈیڑھ صدی کے دوران تشکیل پائی تمدن کی خوب صورت عمارت کو ڈھانے کے درپے ہو۔
والدین سے پہلی فرمائش اب گھر تبدیل کرنے کی ہوتی ہے۔ پوری عمر جس گھر میں گزری، اُس گھر کو چھوڑ کر کہیں اور جانے کا خیال ہی دل گرفتگی کا باعث بن جاتا کہ صرف گھر نہیں چھوڑنا بلکہ درودیوار سے وہ انسیت، عمارت کے بیچوں بیچ اگا وہ قدیم چھتناور درخت، وہ ماحول وہ محلہ اور ہمسائے، وہ دوست سکھی سہیلیاں، سب کو چھوڑ کر نئے آشیاں کی طرف کوچ کی ضد بہرحال جانا تو ہے ہی۔
اور خوب سے خوب تر کی یہ تلاش بارہ پندرہ سالوں بعد ایک اور کوچ کا سبب بنے گی۔
باپ دادا کے وقتوں سے مانوس ان علاقوں سے کوچ کے اسباب میں فراہمی و نکاسی آب، بجلی، سڑکیں اور دیگر بنیادی ضرورتوں کی عدم دستیابی کا بھی اہم کردار نظر آتا ہے۔
دیکھا جائے تو کراچی کی انتظامیہ ان بنیادی ضرورتوں کی فراہمی میں ناکامی کی ذمے دار ہے۔ مگر دوسری جانب نگاہ دوڑائیں تو شہر کی انتظامیہ بھی بے دست و پا نظر آتی ہے کہ وہ عمارتیں جہاں پندرہ بیس گھرانے آباد تھے، ان عمارتوں کی جگہ کئی منزلہ عمارتیں تعمیر کر کے وہاں پچاس ساٹھ گھرانے بسا دیے گئے۔
صدر اور اس کے قرب و جوار میں قیام پاکستان سے قبل تعمیر کیے بنگلوں میں جہاں تین چار گھرانوں کی رہائش تھی، انہیں ڈھا کر وہاں بارہ پندرہ منزلیں اونچی عمارتیں تعمیر کر کے اسی نوی خاندانوں کو بسا دیا گیا۔
ستر اسی سالہ قدیم انفرااسٹکچر پر اس اضافی بوجھ کا یہی نتیجہ نکلنا تھا۔
مانا کہ معاشرہ جمود کا شکار نہیں رہ سکتا۔ تغیر معاشرے کی ضرورت بھی ہے اور اس کا حسن بھی، مگر یہ بدلاؤ اگر فطری سہاروں پر استوار ہو تو ایک خوب صورت تمدن، ایک دلکش سماج تشکیل پاتا ہے۔ وگرنہ یہ اندھا دھند دوڑ ایک غیرفطری معاشرے پر منتج ہوکر پچھتاوے کا باعث بن جائے گی۔