بھوٹان

وہ ملک جہاں خوشیوں کی منسٹری ہے

فوٹو : فائل

یوں تو قدرت کی بنائی ہر چیز ہی خوبصورت اور منفرد ہے مگر کچھ مقامات اپنے سحر خیز حسن اور دلفریب نظاروں کی وجہ سے الگ شہرت رکھتے ہیں۔ ایسے ہی ایک ملک کانام بھوٹان ہے جسے اپنے اچھوتے حسن اور خاص امور پہ پذیرائی حاصل ہے۔

یہ ہمالیہ میں واقع ایک چھوٹا سا خوشحال ملک ہے جو انڈیا اور چین کے درمیان واقع ہے۔یہاں کی آبادی آٹھ لاکھ کے قریب ہے اور اس کا رقبہ 38,394 مربع کلومیٹر ہے ۔ یہ آبادی کے لحاظ سے دنیا میں 160جبکہ رقبہ کے لحاظ سے 133ویں نمبر پہ آتا ہے۔یہ وسطی ایشیائی ریاستوں کی مانند لینڈ لاکڈ ملک ہے یعنی یہ زمینی سرحدوں سے گھرا ہوا ہے۔

اسے لینڈ آف تھنڈر ڈریگن بھی کہا جاتا ہے جس کی جڑیں اس کے ثقافتی ورثے سے منسلک ہیں۔یہاں کے باسیوںکی غالب اکثریت کا مذہب بدھ مت ہے۔یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں جمہوریت اور بادشاہت کا دلچسپ امتزاج پایا جاتا ہے۔

کوہ ہمالیہ پاکستان سے شروع ہوکر بھوٹان میں داخل ہوتا ہے جہاں بلند ترین چوٹیاں ہیں ۔اس کا موسم اونچائی پہ واقع ہونے کی وجہ سے عموماً سرد اور طوفانوں کی زد میں رہتا ہے۔بھوٹانی ہمالیہ میں سطح سمندر سے 7000میٹر سے بلند چوٹیاں ہیں اور اس کی بلند ترین چوٹی Gangkhar Puensum ہے جس کا شمار دنیا کی بلند ترین چوٹیوں میں ہوتا ہے۔

یہاں پہ جنگلی حیاتیات میں بھی تنوع ہے جس میں سنہری لنگور اور ہمالیاتی تاکن کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی۔یہاں کے نشیبی علاقوں میں بنگال ٹائیگر، چیتے، ہیپیڈ خرگوش اور کاہلی ریچھ پائے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ کالے ریچھ، سرخ پانڈا، گلہری، جنگلی سور، نیلی بھیڑ، اور ہرن کی متعدد قسمیں پائی جاتی ہیں۔یہاں پرندوں کی 770سے زائد متنوع اقسام پائی گئی۔جس میں معدومیت کے خطرے سے دوچار وائیٹ ونگڈ ڈک بھی شامل ہے۔

یہاں کی معیشت کی بات کی جائے تو اس کا انحصار بنیادی طور پہ کاشت کاری، جنگلات ،ٹورازم اور ہائیڈرو الیکٹرک پاور پہ ہے۔یہ ان چیدہ چیدہ ممالک میں شمار ہوتا ہے جو ماحول دوستی کے منصوبوں پہ سختی سے عمل پیرا ہیں۔ یہاں کا ساٹھ فیصد حصہ جنگلات پہ مشتمل ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہاں پہ تمباکو سختی سے بین ہے اور اس کا لین دین کے حوالے سے واضح پالیسی ہے۔ یہاں ہر برس لاکھوں سیاح آتے ہیں جس سے ملکی جی ڈی پی میں مثبت اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔

یہاں کی ایک اور دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اس ملک میں ہوائی اور زمینی ذرائع آمدورفت تو موجود ہیں مگر یہاںکوئی ریلوے ٹریک نہیں ہے۔ شرح خواندگی کی بات کی جائے تو قریباً ساٹھ فی صد آبادی خواندہ ہے۔ بھوٹان میں ایک تہائی آبادی کی مجموعی عمر بائیس سے تئیس برس کے درمیان ہے یعنی یہاں نوجوان طبقہ اکثریت رکھتا ہے۔

بھوٹان کا اپنا منفرد لباس ہے جہاں مرد گھٹنوں سے اوپر تک کا یک روایتی لباس جبکہ خواتین ٹخنوں تک ساڑھی نما ایک پوشاک زیب تن کرتی ہیں۔یہ ڈریس کورڈ نوے کی دہائی تک کافی مقبول تھا اور اس پہ سختی سے عمل بھی کروایا جاتا تھا اور خلاف ورزی کی صورت میں جرمانہ بھی عائد کیا جاتا تھا ۔ اب لباس کے حوالے سے پالیسی میں سختی کم ہوگئی ہے صرف سرکاری دفاتر، سکولوں، درگاہوں اور درسگاہوں میں خاص مواقع پہ لازم ہے۔

یہاں پہ بھی مغربی لباس مقبول ہے اور اکثر لوگ جینز ٹی شرٹ میں ملبوس دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں کے باسی اتنی خوشگوار زندگی گزارتے ہیں کہ یہاں پہ باقاعدہ خوشیوں کی منسٹری قائم کی گئی ہے۔ مختلف رنگ و نسل کے لوگ یہاں باہمی مساوات اور بھائی چارے کو مدنظر رکھتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں۔



یوں تو ملکوں میں GDPکو ناپا جاتا ہے لیکن بھوٹان میں GDHیعنی گروس نیشنل ہیپینس کا بھی حساب لگایا جاتا ہے۔ یہ تصور 1972میں بھوٹان کے چوتھے بادشاہ جیگمی سنگے وانگ چک نے دیا تھا۔ وہ اپنی قوم کو معاشرتی اقدار اور ہم آہنگی سے روشناس کروانا چاہتے تھے۔بھوٹان کی دیکھا دیکھی اقوام متحدہ نے قوموں کے لئے خوشی اور ذہنی سکون کی ترویج کے لئے سن 2011میں Fundamental Human Goalsکو مروج کیا۔

یہاں تعلیم اور صحت کی تمام تر سہولیات مفت ہیں۔حکومت گاؤں میں رہنے والے بچوں کی ٹیوشن فیس سے لے کر سٹیشنری تک کے اخراجات خود اٹھاتی ہے اور تعلیم تک رسائی ہر بچے کا حق ہے۔

یہاں گزشتہ چند برسوں میں شرح خواندگی میں اضافہ ہوا ہے جس کی بنیادی وجہ یہاں پر متعارف کراوئی گئی تعلیمی پالیسیاں ہیں ۔ یہاں پہ مروج صحت کے اعلی نظام کی بدولت نومولود بچوں میں شرح اموات میں خاطر خواہ کمی ہوئی ۔ یہاں پہ اپنے ہمسایہ ملک انڈیا کی نسبت متوقع عمر میں واضح اضافہ دیکھاگیا۔

کیا بھوٹان دیوالیہ ہوگیا ہے؟

ہر ملک میںجہاں کچھ مثبت پہلو نمایاں ہوتے ہیں ونہیں کچھ منفی پہلو بھی ہوتے ہیں جنھیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔بھوٹان میں جہاں بہت سی خاص باتیں ہیں جن کی بنا پہ اسے سراہا جاتا ہے اس کے ساتھ ساتھ اس ملک کو کچھ مسائل کا بھی سامنا ہے۔

ملکوں کی تاریخ میں مشکل وقت آتے ہیں، کورونا وباء کے دوران اس ملک کی معیشت کو سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑا ۔ یوںتو کورونا لاک ڈاؤن کے دوران دنیا بھر کو مشکل حالات سے نبردآزما ہونا پڑا لیکن ایسے ممالک جن کا انحصار زیادہ تر سیاحت جیسے شعبہ جات سے تھا وہ اس کی سنگین زد میں آگئے۔پھر سرحدوں کا کردار اس حوالے سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔


بھوٹان کو ایک جانب انڈیا اور دوسری جانب چین اور دونوں کے درمیان سفارتی و دفاعی معاملات کو لے کر سردمہری کی فضا قائم ہے اور اس علاقائی قربت کے اثرات سے بھوٹان چاہ کر بھی خود کو محفوظ نہیں رکھ سکتا۔ دونوں ممالک کے درمیان کسی بھی قسم کے معاملات اس پہ براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔

بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی بھی بھوٹان کی معیشت کو زک پہنچانے والے اسباب میںسے ایک رہی ہے۔پھر بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ اور درآمدات کی بڑھتی ہوئی قیمتیں بھی بھوٹان کی معاشی حالت کو کمزور کرنے میں پیش پیش رہیں۔

کچھ ماہرین کا خیا ل ہے کہ بھوٹا ن کا بحران سری لنکا جیسا نہیں۔ سری لنکا کی قرض میں ڈوبی معیشت اس وقت تباہ وبرباد ہوئی جب ان کے پاس کھانا، تیل اور ادویات کی سپلائی افراط زر نہ ہونے کی وجہ سے معطل ہوگئی۔

گوکہ عالمی سطح پہ ہونے والی وسیع تبدیلیوں نے بھوٹان کی معیشت کو متاثر کیا ہے جیسا کہ روس اور یوکرین کی جنگ سے عالمی منڈی میں تیل اور پیٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا۔ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ،بیرونی درآمدات پہ انحصار، مہنگائی، انڈیا کی جانب سے گندم برآمدات پہ کڑی پابندیاں اور بے روزگاری کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ وہ بنیادی وجوہات ہیں جو کہ بھوٹان کو بحران کی جانب دھکیلنے کا موجب بنی۔

بھوٹان کی معیشت کا انحصار کس پہ ہے؟

بھوٹان کی معیشت کا انحصار بنیادی طور پہ دو چیزوں پہ ہے ایک تو ہائیڈرو پاور اور دوسرا ٹورازم۔ہائیڈرو پاورکو عرصہ دراز سے توانائی کے ایک قابل تجدید ذریعہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔اس طریقہ کار سے رواں پانی کی توانائی کو استعمال کرتے ہوئے برقی رو پیدا کی جاتی ہے جسے لوگ عام طور پر پانی کی مدد سے پیدا ہونے والی بجلی کے نام سے جانتے ہیں۔

لیکن اس کا تاریک پہلو یہ ہے کہ خشک سالی اور شدید بارشوں کے دوران ہائیڈرو پاور پلانٹس رک جاتے ہیںاور کسی بھی قسم کی کارگردگی دکھانے کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں۔ہائیڈرو پاور کی کارکردگی کے متعلق ماہرین سوال اٹھاتے ہیں کہ آب و ہوا کی تبدیلی اس کے مستقبل کو کیسے خطرات سے دو چار کر سکتی ہے۔

یہ دونوں ہی بھوٹان کو بیرون ممالک سے آمدن کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔دریں اثنا گزشتہ ایک دہائی سے جی ڈی پی کے لحاظ سے بھوٹان کا مینوفیکچرنگ سیکٹر جمود کا شکار ہے ۔ جبکہ صنعتی شعبہ بنیادی طور پر تعمیرات ، کان کنی اور بجلی سے چلتا ہے۔

بلاشبہ ملکوں کی انفرادیت کی اپنی خوبصورتی ہے مگر باشعور قومیں ہمیشہ ارتقاء کے مراحل طے کرنے پہ گامزن رہتی ہیں۔ بھوٹان سے ہمارے پاس سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے جیسا کہ اچھی معاشرتی، تعلیمی، معاشی اور ماحول دوست پالیساں بنا کر ہم بھی خود کو مزید بہتری سے ہمکنار کر سکتے ہیں!

دلچسپ معلومات

اگر کوئی گھر کھو دیتا ہے تو اسے بادشاہ کی جانب سے گھر اور زمین دی جاتی ہے جس میں وہ کاشت کاری کر سکتا ہے۔
دنیا کا واحد دارلحکومت ہے جہاں ٹریفک لائٹس نہیں ہیں۔ بلکہ ٹریفک ڈائریکٹر ہیں۔
دنیا کا واحد ملک ہے جس میں سگریٹ کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔
یہاں کیٹرے مار ادویات کے استعمال کو کم سے کم کر کے خالص خوراک کے حصول کی کوشش کی جارہی ہے۔
یہاں صحت کی سہولیات مفت ہیں ، یہاں تک کہ سیاحوں کے لئے بھی۔
تمباکو نوشی پر پابندی ہے۔
دنیا کا آخری ملک ہے جہاں ٹی وی آیا۔ حکومت نے یہاں ایک دہائی قبل ٹی وی اور انٹرنیٹ سے پابندی اٹھائی۔
یہاں کی بلند ترین چوٹی Gangkhar Puensum واحد چوٹی ہے جسے تاحال سر نہیں کیا جاسکا۔

دنیا کا مشکل ترین ائیر پورٹ !

ائیر پورٹس کا مقصد آمد ورفت میں آسانی اور سہولت بہم پہنچانا ہوتا ہے۔ بھوٹان میں5,500میٹر پہاڑوں سے گھیرے پارو ائیر پورٹ کو دیکھا جائے تو یہ دنیا کے مشکل ترین ائیر پورٹس میں سے ایک ہے۔ کیونکہ یہاں لینڈ کرنا کوئی آسان کام نہیں۔یہاں پر دن نکلنے کے بعد اور سورج ڈھلنے سے قبل ہی جہازوں کی آمدو رفت متواقع ہوتی ہے۔

یہاں پالٹس کو بلند و بالا چوٹیوں پہ پرواز کرنے اور لینڈیگ سے قبل وادی کی تیز ہوائوں کا سامنا کرنے میں دقت اٹھانی پڑتی ہے۔ اور حیران کن بات یہ ہے کہ یہاں پر پراوز کرنے کی سند صرف آٹھ پائلٹوں کو ہی دی گئی ہے۔ یہاں پر لینڈنگ کے مناظر مسافروںکے لئے حیرت انگیز ہوتے ہیں۔
Load Next Story