نئی ’’پسوڑی‘‘ اَگ لادی مجبوری نوں

گزشتہ کچھ عرصے سے ہم جنس پرستی جیسے حساس موضوع کو قابل قبول بنا کر میڈیا پر پیش کیا جارہا ہے

معاشرے کی ذہن سازی کا یہ طوفان عوام کو کہاں لے جائے گا؟ (فوٹو: فائل)

سوشل میڈیا پر اس وقت ایک ''افواہ'' جنگل کی آگ کی طرح پھیلی ہوئی ہے کہ پسوڑی گانے کے گلوکار علی سیٹھی نے اپنے دوست سلمان طور سے نیویارک میں شادی کرلی ہے۔


علی سیٹھی نے اس خبر کی تردید کرتے ہوئے اس افواہ کے ''وائرل'' ہونے کو اپنے نئے گانے کی تشہیر کےلیے بھی استعمال کیا ہے۔ شاید علی سیٹھی کے نزدیک یہ بات اتنی اہمیت ہی نہیں رکھتی کہ افواہوں میں ہی سہی ان کا نام ایک ہم جنس پرست کے طور پر لیا جارہا ہے، اس لیے وہ اس موقع کو بھی ''مشہوری'' کےلیے استعمال کررہے ہیں۔ لیکن سوشل میڈیا صارفین اس خبر پر نہایت برہم ہیں۔


علی سیٹھی کے ساتھ جس سلمان طور کا نام لیا جارہا ہے وہ ایک پینٹر ہے اور میڈیا میں علی الاعلان اپنے ''ہم جنس پرست'' ہونے کا اعلان کرچکا ہے۔ علی سیٹھی کی سلمان کے ساتھ پرانی اور گہری دوستی بھی ہے جس کی وجہ سے لوگ اس افواہ کو حقیقت مان رہے ہیں۔


حقیقت کبھی نہ کبھی تو سامنے آہی جائے گی لیکن اس وقت سابقہ ٹویٹر اور موجودہ ''ایکس'' پر علی سیٹھی کا ہیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈنگ میں ہے، جہاں کچھ صارفین کی جانب سے اس اقدام پر لعن طعن کی جارہی ہے تو بعض صارفین مبارک باد دینے میں مصروف ہیں۔


کیا وجہ ہے کہ اتنی بڑی خبر کو بھی لوگ ہنسی مذاق میں اڑا رہے ہیں؟ ہم یہاں مذہب کی بات تو چھیڑ ہی نہیں رہے لیکن پاکستان کے آئین و قانون میں بھی ہم جنس پرستی اور ہم جنسوں کی شادی ''جرم'' ہے۔ کیا یہ موضوع ہمارے معاشرے میں اس حد تک قابل قبول ہوگیا ہے کہ لوگ اس خبر کو بھی ایک مزاحیہ میم کے طور پر لے رہے ہیں؟


لوگوں کے اس رویے کے پیچھے وہ ''ذہن سازی'' کارفرما ہے جو ایک عرصے سے میڈیا کے مختلف میڈیم کے ذریعے روا رکھی جارہی ہے۔ ٹی وی اور سوشل میڈیا کے ذریعے ان متنازع موضوعات کو عوام کے سامنے اس انداز سے پیش کیا جارہا ہے کہ ان کی حساسیت ختم ہوتی جارہی ہے اور یہ سب ہمارے معاشرے کا ''قابل قبول'' حصہ بنتا جارہا ہے۔ خاص طور پر ایل جی بی ٹی سے متعلقہ موضوعات کو اتنی خوبصورت پیکنگ میں بیچا جاتا ہے کہ صارفین ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔


معاشرے کی ذہن سازی کے لیے میڈیا اور ابلاغ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اخبارات، ریڈیو، ٹی وی اور انٹرنیٹ اس وقت ابلاغ کے سب سے موثر ذرائع ہیں، خاص طور پر انٹرنیٹ نے اس دنیا کو ایک گلوبل ولیج میں تبدیل کردیا ہے جس کے ذریعے ذہن سازی کا یہ عمل باآسانی تکمیل پارہا ہے۔


گزشتہ چند دہائیوں سے خاص طور پر ایل جی بی ٹی تحریک اور ہم جنس پرستی جیسے موضوعات کو نہ صرف فلمایا جارہا ہے بلکہ عوام میں ان کی قبولیت کےلیے راہ بھی ہموار کی جارہی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان، جہاں کا آئین و قانون ہی اسلامی روایات کا پاسدار ہے، ایسے ملک میں آئین سے متنازع موضوعات کو اس دلیل کے ساتھ میڈیا پر پیش کیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ معاشرے میں ہورہا ہے اور ہم معاشرے کی ہی عکاسی کرتے ہیں۔



انٹرنیٹ کی دستیابی اور مختلف آن لائن چینلز سامنے آنے کے بعد ذہن سازی کا یہ عمل اور بھی آسان ہوگیا۔ نوجوان نسل انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے سحر میں تو گرفتار ہوئی ہی تھی، اب اپنے موبائل پر آن لائن چینلز سے بھی لطف اندوز ہورہی ہے۔ نیٹ فلیکس جیسے مشہور میڈیم کی سبسکرپشن صرف ڈھائی سو روپے میں حاصل کی جاسکتی ہے۔ لیکن اگر ان چینلز پر پیش کردہ مواد کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ یہاں بھی بہت منظم طریقے سے لوگوں کی ذہن سازی کی جارہی ہے اور ان ڈراموں میں بھی ہم جنس پرستی کو شامل کیا جارہا ہے جہاں یہ موضوع سراسر غیر متعلقہ ہے، یہاں تک کہ سائنس فکشن اور ہارر موویز میں بھی یہ موضوع زبردستی شامل کیا جارہا ہے۔ نیز ہم جنس پرستی پر مبنی ویب سیریز کو اس انداز سے پیش کیا جاتا ہے جیسے یہ معاشرے کا ایک عام سا حصہ ہو۔


اسی ماہ کی ابتدا میں نیٹ فلیکس پر ایک ویب سیریز ''ہارٹ اسٹاپر'' کا دوسرا سیزن پیش کیا گیا، جس میں ہم جنس پرستی کو یوں فلمایا گیا ہے جیسے ہم جنس پرست ہونا اور اس کا اظہار اپنے والدین اور دوستوں کے سامنے کرنا کوئی بڑی بات ہی نہ ہو، اور والدین دوست وغیرہ بھی اس طرح برتاؤ کرتے ہیں جیسے اس بات کا اظہار کرنا اپنے پسندیدہ کھانے یا گھومنے کی جگہ کے بارے میں بتانا ہو۔ جب کسی مسئلے کی شدت کو اتنا ''ہلکا'' کرکے پیش کیا جائے گا تو دوسرے لوگوں کو بھی ایسا کرنے کی مہمیز ملے گی، نتیجتاً معاشرے کا جو حال ہوگا اس کا اندازہ کوئی بھی باشعور کرسکتا ہے۔


نیٹ فلیکس پر ہی بھارتی اداکاروں پر فلمائی گئی ویب سیریز ''کلاس'' پیش کی گئی، جہاں ہم جنس پرستی اور جنسی مناظر کو بہت زیادہ وضاحت کے ساتھ پیش کیا گیا۔ اس سے قبل بھی اسی قبیل کی ویب سیریز آن ایئر ہوچکی ہیں۔ ذرا سوچئے کہ نوجوان نسل جو موبائل پر ان ویب سیریز کو دیکھنے میں مشغول ہے وہ کیا سبق لے رہی ہوگی۔


گزشتہ سال پاکستان میں ٹرانس جینڈرز ایکٹ کے حوالے سے بھی کئی باتیں کی گئیں اور یہ اعتراضات بھی اٹھائے گئے کہ خواجہ سراؤں کے حقوق کی آڑ میں پاکستان میں ہم جنس پرستی کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستانی نجی چینلوں پر بھی ہم جنس پرستی کے موضوعات پر ڈرامے پیش کیے گئے، جو کہ کم از کم پاکستانی صارفین کےلیے انوکھی بات تھی۔ کچھ عجب نہیں کہ اس سارے شور شرابے میں علی سیٹھی کی بھی ایک مرد کے ساتھ شادی کی خبریں زیر گردش ہیں۔ معاشرے کی ذہن سازی اس نہج پر کی گئی ہے کہ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ بھی ویب سیریز میں پیش کردہ واقعات کی طرح قابل قبول ہے۔


معاشرے کی ذہن سازی کا یہ طوفان عوام کو کہاں لے جائے گا اس کے مضمرات بہت جلد سامنے آجائیں گے۔ لیکن کیا ریاست اس موقع پر بھی ہوش کے ناخن لے گی؟


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔


Load Next Story