نگران وزیراعظم اور توقعات

نگرانوں کا کام غیرجانبدارانہ اور شفاف انتخابات کرانے کے ساتھ ساتھ معیشت کو بھی درست رکھنا ہے

نگرانوں کا کام غیرجانبدارانہ اور شفاف انتخابات کرانے کے ساتھ ساتھ معیشت کو بھی درست رکھنا ہے۔ فوٹو: فائل

صدر مملکت عارف علوی قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کر چکے ہیں۔ ہفتے کو وزیراعظم شہباز شریف اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض نے نگران وزیراعظم کے نام پر بھی اتفاق کرلیا۔

میڈیا کی بتائی گئی اطلاعات کے مطابق ہفتے کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض وزیراعظم ہاؤس پہنچے اور وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ نگراں وزیراعظم کے نام پر مشاورت کی۔ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان حتمی مشاورتی عمل خوش اسلوبی سے مکمل ہوگیا اور نگران وزیراعظم کے لیے سنیٹر انوار الحق کاکڑ پر اتفاق کیا گیا۔

وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر نے مشترکہ طور پر دستخط کر کے ایڈوائس صدر پاکستان کو ارسال کردی، صدر مملکت نے وزیراعظم شہباز شریف اور اپوزیشن کی جانب سے بھیجی گئی سمری پر بغیر کی تاخیر کے فوری دستخط کرکے نگراں وزیراعظم کے تقرر کی منظوری دے دی۔ صدر مملکت نے تعیناتی کی منظوری آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت کی۔

میڈیا کی خبروں کے مطابق نگران وزیراعظم چودہ اگست کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے، اس کے بعد نگران کابینہ تشکیل پائے گی ، یوں وفاق میں نگران سیٹ اپ مکمل ہوجائے گا۔سندھ اور بلوچستان اسمبلیاں بھی تحلیل ہوچکی ہیں۔ اب آئین کی رو سے 90 دن میں نئے انتخابات کرانے ہوںگے۔ وفاق اور صوبوں میں نگران حکومتیں اور الیکشن کمیشن عام انتخابات کرائیں گے۔

ملک میں سیاسی جماعتیں الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ پاکستان میں یہ تیسرا موقع ہے جب ایک منتخب جمہوری حکومت نے اپنی آئینی مدت مکمل کی ہے تاہم کوئی منتخب وزیراعظم اپنی آئینی مدت مکمل نہیں کرسکا۔ایک طرح سے یہ بھی ایک جمہوری عمل ہی ہے۔ گو، وزیراعظم آئینی مدت مکمل نہیں کر سکا تاہم اصل چیز اسمبلیاں ہیں، اسمبلیوں اور منتخب حکومتوں نے اپنی مدت پوری کی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہو گا کہ نگران وزیر اعظم اپنی کابینہ میں کون سے چہرے شامل کرتے ہیں۔ کیونکہ موجودہ حالات میں وزارت خارجہ اور وزارت خزانہ کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ملک کا نگران وزیر خارجہ کون ہو گا اور نگران وزیر خزانہ کون ہو گا، اس کے بعد ہی نگران حکومت کے بارے میں کوئی رائے قائم کی جا سکتی ہے۔

بہرحال نگران حکومت کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اس کی غیر جانبداری سارے اسٹیک ہولڈرز تسلیم کریں تاکہ الیکشن بھی متنازعہ نہ ہوں اور ملک کی خارجہ پالیسی اور معاشی پالیسی میں بھی تبدیلی نہ ہو۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، قرضوں کا بوجھ، گرتے ہوئے زرِ مبادلہ کے ذخائر اور سر اٹھاتا ہوا توانائی کا بحران ان چند چیلنجوں میں سے ہیں، جن کا سامنا نگراں حکومت کو کرنا پڑے گا۔

ملک کا کاروباری طبقہ اور عالمی مالیاتی ادارے اس پہلو سے نگراں حکومت کو دیکھیں گے کہ وہ ملک کے معاشی پہیے کو کس طرح چلائے گی اور خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی کرے گی یا نہیں؟ سیاست دانوں کے نزدیک نگران حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج آزادانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد کرانا ہے، اگر انتخابات شفاف نہ ہوئے، تو ہم اس کا ذمے دار نگراں حکومت کو گردانیں گے لہٰذا نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کو یقینی بنائے تاکہ الیکشن کے نتائج کو متنازعہ نہ بنایا جا سکے۔

اتحادی حکومت نے جاتے جاتے الیکشن ایکٹ 2023 منظورکیا ہے، جس کی شق 230 کی ذیلی شق 2 اے میں ترمیم شامل ہے جس کے تحت نگران حکومت کو اضافی اختیارات حاصل ہوگئے ہیں۔ ترمیم کے تحت نگران حکومت معیشت کے لیے ضروری فیصلے کر سکے گی، اسے عالمی مالیاتی اداروں اور غیرملکی معاہدوں کا اختیار بھی ہو گا۔ ادھر نئی مردم شماری کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری ہو چکا ہے۔

قانونی حلقے کہہ رہے ہیں کہ اب آئین کے آرٹیکل 15 (1) کے سب سیکشن 5 کے تحت الیکشن کمیشن از سر نو حلقہ بندیاں کرانے کا پابند ہے اور حلقہ بندیوں کا کام 120دن میں ہونا ہے۔ اس حوالے سے بھی آئینی الجھن پیدا ہونے کا احتمال ظاہر کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ الیکشن نوے روز میں کرانے لازم ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن نوے روز سے پہلے نئی مردم شماری کے مطابق ازسرنو حلقہ بندیاں کرنے میں کامیاب ہو جائے گا، اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر کیا ہو گا؟

ادھر نئی حلقہ بندیاں بھی لازم ہو چکی ہیں۔ اگر ان میں تاخیر ہوتی ہے تو پھر آئینی پوزیشن کیا ہو گی؟ یہ سوال قانونی حلقوں میں زیربحث ہے۔ بہرحال معاملات کچھ بھی ہوں، یہ حقیقت ہے کہ عام انتخابات سر پر آ پہنچے ہیں۔


اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان میں مردم شماری ہمیشہ سے متنازعہ رہی ہے، ہر مردم شماری کے نتائج سیاست کی نذر ہوجاتے ہیں، 2017 کی مردم شماری کے نتائج بھی تنازعات کا شکار ہوگئے تھے لہٰذا دوبارہ مردم شماری کرانے کا فیصلہ کیا گیا، اس فیصلے پر رواں برس عمل درآمد ہوا۔

حالیہ مردم شماری کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ پاکستان کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری ہے، اس کا مقصد 2017 کی مردم شماری سے جڑے تنازعات کا خاتمہ اور شفاف طریقے سے آبادی کو شمارکرنا تھا جس کے نتائج پر تمام اسٹیک ہولڈرزکو اتفاق ہو۔ دوسری جانب آئینی و قانونی ضرورت اور اس کے تقاضوں سے بھی صرف نظر ممکن نہیں، بنابریں کوئی ایسا موزوں راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ آئین و دستور کے تقاضے بھی پورے ہوں اور نئی مردم شماری کے حوالے سے تحفظات کا بھی خاتمہ ہو۔

نئی مردم شماری کے نتائج کے مطابق حلقہ بندیاں کرنے اور عام انتخابات کے انعقاد میں تین سے نو ماہ تک لگ سکتے ہیں۔ یہ ایسے سوالات ہیں جو پاکستان کے باشعور طبقے کے ذہنوں میں ابھر رہے ہیں۔ ریاست کے اسٹیک ہولڈرز بھی یقینا اس صورت حال سے باخبر ہیں۔

اس وقت سب سے زیادہ ضرورت یہ ہے کہ ملکی معیشت ٹریک پر چلتی رہے، عالمی مالیاتی اداروں کا اعتماد برقرار رہے اور کسی قسم کا ایڈونچر نہ ہو، انتخابات خوش اسلوبی سے ہو جائیں اور نئی حکومت اقتدار میں آ جائے تاکہ ملک کا نظام کسی قسم کی آئینی مشکل میں نہ پڑے اور دوست ممالک اور عالمی اداروں کے ساتھ معاملات درست سمت میں آگے بڑھتے رہیں۔ ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈرزکو ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانے کی ضرورت ہے۔

بیرونی سرمایہ کاری، سی پیک و دیگر بڑے منصوبوں میں پیش رفت خوش آیند مگر جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آتا، معاشی استحکام نہیں آئے گا۔

پاکستان میں دہشت گرد گروہ بھی سرگرم ہیں۔ ان گروہوں کا ایجنڈا کیا ہے، یہ بھی سب کو پتہ ہے۔ خیبر پختو نخوا کے علاوہ بلوچستان میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک خاصا فعال ہے، پاکستان کو بدامنی کا شکار کرنے کے لیے یہ دہشت گرد گروہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ ملک کے اندر ان کے سہولت کار ابھی تک موجود ہیں اور اپنے ایجنڈے سے پیچھے نہیں ہٹ رہے۔

خیبر پختو نخوا اور بلوچستان ان کا خاص نشانہ ہیں جب کہ وہ پنجاب اور سندھ میں بھی واردات کر سکتے ہیں۔ نگران حکومت کو اس حوالے سے انتہائی سخت پالیسی اختیار کرنی پڑے گی۔ نگران وزیراعظم ایک غیرجانبدار سیاست دان سمجھے جا رہے ہیں تاہم انھوں نے اب تک بڑا انتظامی عہدہ حاصل نہیں کیا اور نہ ہی انھیں اس کا پورا تجربہ ہے۔ ان کی صلاحیتوں کا پتہ تو اس وقت ہی چلے گا جب وہ کاروبار حکومت چلائیں گے۔

مہنگائی، سیاسی عدم استحکام اور معیشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے، جب تک سیاسی استحکام نہیں آتا تب تک معاشی صورتحال بہتر نہیں ہوگی، ملک کو مشکل حالات سے نکالنے کے لیے نگران حکومت کو بھی اپنا کام کرنا ہو گا، موجودہ حالات میں بننے والی نگران حکومت کو ماضی کی طرح کام نہیں کرنا ہے، نگران حکومت کے وزیراعظم اور اس کی کابینہ کو یہ حقیقت مدنظر رکھنی چاہیے کہ یہ ذمے داریاں اپنے اندر یہ احساس بھی رکھتی ہیں کہ نگرانوں کو تنخواہیں اور مراعات عوام کے ٹیکسوں کی مد میں سے دیے جا رہے ہیں۔

نگرانوں کا کام غیرجانبدارانہ اور شفاف انتخابات کرانے کے ساتھ ساتھ معیشت کو بھی درست رکھنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔ اگر انتخابی عمل اور نتائج پر سوال اٹھے تو اس کی افادیت ختم ہو جائے گی۔ فیئر پلے ہونا چاہیے۔

سیاستدانوں کے لیے بھی یہ سبق ہے کہ وہ ماضی کی پالیسی کو ترک کر دیں، سیاست کا مقصد سازش اور جوڑ توڑ نہیں ہونا چاہیے بلکہ سیاست آئین کے مطابق حکومت چلانے سے مشروط ہے۔

سیاست قیادت اگر پرانے طور طریقے پر چلے گی، الیکشن خریدنے کی کوشش کی جائے گی تو حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، اگر سیاسی قیادت نظام کی باریکیوں کو پوری طرح سمجھتی اور آئین کی ہر شق سے آگاہ ہوتی، تو کوئی بھی منتخب حکومت اسٹیبلشمنٹ کے سامنے جھکتی اور نہ عدلیہ کے سامنے بے بسی ہوتی اور نہ ہی بیوروکریسی کے ہاتھوں بے وقوف بنتی۔
Load Next Story