بہادر آباد میں جشن

ایک زمانے تک وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک پیج پر ہونے کا دعویٰ کرتے رہے تھے


عثمان دموہی August 13, 2023
[email protected]

ہم پاکستانی اپنے قومی آئین کی پاسداری کا دعویٰ ضرورکرتے ہیں، مگر افسوس جتنی ناقدری ہم نے اپنے آئین کی ہے، اس کی دنیا میں مثال ڈھونڈنا مشکل ہی ہے۔ اب ہم ایک نئی آئین شکنی کرنے جا رہے ہیں۔

آئین کے تحت قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے کے ٹھیک تین مہینے بعد عام انتخابات منعقد ہونا لازمی امر ہے مگر اب عام انتخابات نئی مردم شماری کی وجہ سے غیر یقینی صورت حال کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اب کب ان کا انعقاد ہوگا کچھ یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔ الیکشن میں تاخیر کا سبب حالیہ ڈیجیٹل مردم شماری کے اعداد وشمارکو اتحادی حکومت کی جانب سے ہری جھنڈی دکھانا ہے۔ اب اس کے تحت نئی حلقہ بندیاں ہونے کے بعد انتخابات کا عمل شروع کیا جائے گا۔

موجودہ دور یقیناً جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو اکثر ممالک میں نہ صرف مردم شماری کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے بلکہ عام انتخابات میں جلد اور معتبر نتائج حاصل کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔

یہ بات بڑی عجیب ہے کہ جب سابقہ حکومت نے انتخابات کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تو حزب اختلاف یعنی موجودہ اتحادی حکومتی ارکان کی جانب سے نہ صرف شدید احتجاج کا اعلان کیا گیا بلکہ سخت مزاحمت کا عندیہ دیا گیا۔ انھیں ڈر تھا کہ سابق حکومت ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے انتخابی نتائج میں ہیر پھیر کرنا چاہتی ہے کیوں کہ ان کے نزدیک ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا چنانچہ وہ پرانے طرز کی ووٹنگ کرانے اور ووٹوں کی گنتی کرانے پر مصر تھے۔

اب جب کہ اتحادی حکومت نے پورے ملک میں ڈیجیٹل مردم شماری کرا کے آبادی کا تعین کردیا ہے تو اسے اگر جماعت اسلامی اور دیگر جماعتیں تسلیم نہیں کر رہی ہیں تو ان کے خدشات کو کیسے دورکیا جاسکتا ہے۔ بہرحال اب ملک کی 95 فی صد سیاسی پارٹیاں ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کو تسلیم کرچکی ہیں تو اس مردم شماری کے نتائج کو ماننا ہی ہوگا۔

پاکستان میں یہ پہلی دفعہ ڈیجیٹل مردم شماری کرائی گئی ہے اور اس کے بڑے انقلابی نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ اس ڈیجیٹل مردم شماری نے ثابت کردیا ہے کہ گزشتہ سالوں میں کراچی میں جو مردم شماری کرائی جاتی تھیاسے مفاد پرستی پر مبنی قرار دیا جاتا تھا۔ گزشتہ مردم شماریوں کے نتائج نے ہمیشہ کراچی کے عوام کو مایوس کیا۔ انھوں نے کبھی انھیں تسلیم نہیں کیا اور پھر سے درست مردم شماری کرانے پر اصرارکیا۔ اس سلسلے میں کراچی کے عوام کا یہ استدلال رہا ہے کہ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔

یہ ایک صنعتی اور تجارتی شہر ہے جس کی آبادی میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے اس طرح کراچی کی آبادی میں اضافے سے انحراف کرکے اس کی آبادی کو کیوں کم دکھایا جا رہا ہے۔ حالیہ ڈیجیٹل مردم شماری سے قبل جتنی بھی مردم شماریاں کرائی گئیں ان میں کراچی کی حقیقی آبادی کو ظاہر نہیں کیا گیا۔ 2017 میں منعقد ہونے والی مردم شماری میں کراچی کی کل آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ دکھائی گئی تھی۔ کراچی کی تمام ہی سیاسی جماعتوں نے ان اعداد و شمارکو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ احتجاج متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور جماعت اسلامی کی جانب سے کیا گیا تھا۔

جماعت اسلامی کا احتجاج شدید ضرور تھا مگر چونکہ وہ نہ پی ٹی آئی حکومت میں شامل تھی اور نہ اتحادی حکومت کا حصہ تھی چنانچہ اس کا شدید احتجاج بھی صدا بہ صحرا بن کر رہ گیا تھا جب کہ اس کے مقابلے میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے نہ صرف عوامی سطح پر احتجاج ریکارڈ کرایا بلکہ حکومتی اتحاد میں شامل ہونے کی وجہ سے اپنی شکایت براہ راست وزیر اعظم تک پہنچائی پھر ایم کیو ایم کی اوپری سطح پر بھاگ دوڑکا ہی نتیجہ تھا کہ نئی مردم شماری پر کام کا آغاز ہوا۔

اس مردم شماری کو ایم کیو ایم کا ایک سیل باقاعدہ مانیٹرنگ کرتا رہا تھا۔ جب کراچی کے تمام علاقوں کی مردم شماری کرلی گئی تو ایم کیو ایم نے سکھ کا سانس لیا تھا اب نئی ڈیجیٹل مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی کو دو کروڑ پانچ لاکھ نفوس پر مشتمل بتایا گیا ہے۔ یہ کراچی کے عوام کی گنتی کافی درست لگتی ہے۔

کراچی کی آبادی میں 45 لاکھ افراد کا اضافہ یقینا ایم کیو ایم پاکستان کی کاوشوں کا شاہکار ہے۔ آبادی میں اضافے کے لحاظ سے کراچی کی قومی اسمبلی کی نشستوں میں یقینا اضافہ ہونا چاہیے مگر اتحادی حکومت کے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اعلان کیا ہے کہ قومی اسمبلی کے انتخابات نئی حلقہ بندیوں کے تحت ضرور ہوں گے مگر قومی اسمبلی کی نشستوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ پچھلے عام انتخابات میں ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی۔

اس وقت چونکہ ایک قوت ہر قیمت پر چیئرمین پی ٹی آئی کو ملک کا وزیر اعظم بنانا چاہتی تھی چنانچہ کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان کی جیت کو بھی ہار میں بدل دیا گیا اور ایم کیو ایم پاکستان کے ووٹ بھی کپتان کے پلڑے میں ڈال دیے گئے۔ تاہم اب ہونے والے عام انتخابات میں لگتا ہے ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ پرانی زیادتی کو دہرایا نہیں جائے گا۔ اس لیے بھی کہ اب کپتان کے ساتھ پہلے والی قوتیں نہیں ہیں اب تو کپتان کی تحریک انصاف بھی خطرے میں ہے کیونکہ کپتان دانستہ یا غیر دانستہ ایسی غیر سیاسی غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں کہ انھیں ایک کونے میں لگا دیا گیا ہے۔

ایک زمانے تک وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک پیج پر ہونے کا دعویٰ کرتے رہے تھے ادھر ان کے ساتھ اپنائیت کا رویہ بھی جاری تھا جب کپتان نے ملک کو آگے بڑھانے کے بجائے معیشت کو دیوار سے لگا دیا اور ملک میں بہتری لانے کے بجائے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے کوششیں شروع کردیں تو حزب اختلاف سے یہ بات برداشت نہ ہوئی اور اس نے ان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا کر انھیں وزیر اعظم کے عہدے سے فارغ کرا دیا۔

اسے کپتان نے ساز باز قرار دیا اور اس کے خلاف بیانات دینا شروع کر دیے اور پھر ان کی مخاصمت یہاں تک پہنچ گئی کہ نو مئی کا سانحہ پیش آگیا۔ اس وقت کپتان توشہ خانہ کیس میں مجرم قرار دے کر تین سال کی سزا پا چکے ہیں لگتا ہے وہ جلد ہی ضمانت پر رہا ہو کر زمان پارک پہنچ جائیں گے مگر ابھی تو دو مزید سنگین مقدمات ان کا پیچھا کر رہے ہیں۔ 90 ملین پاؤنڈ کا مقدمہ اور پھر سائفر والا معاملہ بھی ابھی زیر تفتیش ہے تو کیا تاب ناک مستقبل کا کپتان کا خواب ادھورا ہی رہ جائے گا؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں