چودہ اگست اور پاکستان کی حالت زار
حکمرانوں کو احساس تک نہیں ہے خودکشیاں کی جا رہی ہیں، ڈکیتی، قتل و غارت جاری ہے
جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے محب وطن حضرات نے حق کی خاطر قربانیاں دی ہیں، خود قائد اعظم محمد علی جناح نے بیماری کے عالم میں سفرکیا۔
طیارے سے اترنے کے بعد قائد اعظم کو اسٹریچر پر ڈال کر ایمبولینس میں ڈالا گیا تھوڑی ہی دور پہنچ کر ایمبولینس میں خرابی پیدا ہوئی، محترمہ فاطمہ جناح نے ملٹری سیکریٹری کو دوسری ایمبولینس لانے کے لیے بھیجا، ایمبولینس کے اندر حبس تھا جو قائد اعظم کی صحت کے لیے بے حد خطرناک تھا ان کے کپڑے پسینے سے تر ہو گئے انھیں دستی پنکھوں سے ہوا دی جانے لگی۔
لیفٹیننٹ کرنل ڈاکٹر الٰہی بخش قائد اعظم کے معالج تھے، انھوں نے ان کی نبض دیکھی تو نبض بے قاعدہ اور کمزور ہو رہی تھی ان حالات میں دوسری ایمبولینس کے آنے میں تاخیر ہوگئی ایک جان بلب مریض جو قوم کا باپ تھا بانی پاکستان تھا اس کے لیے ایمبولینس نہیں پہنچی تھی۔ کتنا عظیم سانحہ اور قومی المیہ تھا جس شخص نے اپنی پوری زندگی اس ملک کی آزادی کے لیے قربان کردی وہ اور ان کی ہمشیرہ جو ان کی دست راست تھیں ان کے معالج ڈاکٹر الٰہی بخش انتظارکی سولی پر لٹکے ہوئے تھے۔
نواب زادہ لیاقت علی خان کو اس وقت شہید کر دیا گیا جب پاکستان کی عمر صرف چار سال تھی۔ ظلم کی تاریخ ادھر ہی انجام کو نہیں پہنچتی ہے بلکہ مقتولین اور مظلومین میں قوم کی ماں محترمہ فاطمہ کا نام بھی شامل ہو جاتا ہے۔ حقائق یہ بتاتے ہیں کہ انھیں قتل کیا گیا تھا، غسال نے ان کے جسم پر تشدد اور زخموں کی نشان دہی کی تھی۔
یہ سلسلہ آج تک جاری ہے، پاکستان کے دشمن اس کی ترقی و خوشحالی کے دشمن، اس کے استحکام کے دشمن ہر وقت موقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ کب وہ ان لوگوں کے سینوں میں چھرا گھونپیں جو محب وطن ہیں، سچ بولنا، حقیقت کو بیان کرنا ان کا ایمان ہے جو اللہ کی خوشنودی اور رسول پاکؐ کی سیرت پاک پر عمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اس کی وجہ ان کی تعلیم و تربیت اور گھر کا ماحول انھیں اپنے وطن سے غداری کرنا تو دور کی بات ہے وہ جھوٹ بولنا، باطل کے راستے پر چلنا اپنے ضمیر کا سودا کرنا اپنی موت تصور کرتے ہیں۔
ایک واقعہ یاد آ گیا جس کا تعلق قائد اعظم اور اسلامیہ کالج لاہور کے طالب علم ضیا الحق سے ہے، وہ لکھتے ہیں۔
''میں ان دنوں اسلامیہ کالج لاہور کا طالب علم تھا، جب پنڈت نہرو لاہور آئے اور انھوں نے پریڈ ہال میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ''ہندوستان میں صرف دو طاقتیں ہیں ایک انگریز اور دوسری کانگریس، پنڈت نہرو کی تقریر کے فوراً بعد یہ تاریخی الفاظ سنے گئے کہ '' ہندوستان میں ایک تیسری طاقت بھی ہے وہ طاقت دس کروڑ مسلمان ہیں، مسلم لیگ ہندوستان کے مسلمانوں کی واحد سیاسی نمایندہ جماعت ہے اور اس جماعت کی منزل پاکستان ہے۔''
جس وقت انتخابات کا مرحلہ قریب آیا تو بڑے بڑے ہندو سیٹھوں اور کارخانوں کے مالکان نے تجوریوں کے منہ کھول دیے تاکہ مسلمانوں کو خرید سکیں۔ ان حالات میں قائد اعظم نے کالج کے طلبا اور سیاسی کارکنوں سے اپیل کی کہ وہ امتحان کی اس گھڑی میں آگے بڑھیں اور ثابت کریں کہ مسلم لیگ ہی ہندوستان کے دس کروڑ مسلمانوں کی نمایندہ جماعت ہے۔
قائد اعظم کی اپیل پر اسلامیہ کالج لاہور کے طلبا کلاسوں سے نکل کر سیاست کے میدان میں آ پہنچے، میں نے اس اپیل پر لبیک کہا اور میں گھر سے نکلا اور دیہات کا رخ کیا، دیہاتی باشندوں تک مسلم لیگ کا پیغام نہیں پہنچا تھا گاؤں کے لوگوں نے زندہ باد کے نعرے لگائے اور کسی گاؤں میں یہ بھی ہوا کہ کتوں نے بھونکنا اورگاؤں کے بزرگوں نے ہمارا مذاق اڑانا شروع کردیا، لیکن اس کے باوجود نوجوانوں نے اپنے مہمانوں کے دلوں کی دھڑکنیں سنیں اور آزادی کا مقصد جانا اور بغیر کسی دباؤ کے پنجاب کے دیہات کی فضائیں پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونجنے لگیں۔
انتخابات میں چند دن باقی تھے کہ ایک رات میں بمبئی روانہ ہوا، تو ریلوے اسٹیشن پر قدم رکھتے ہی اس خیال نے جنم لیا کہ میں قائد کے شہر آیا ہوں اس لیے انھیں دیکھے اور ملے بغیر نہیں جاؤں گا، اس کا ذکر اپنے دوست سے کیا جو بمبئی میں رہتا تھا، دوسرے دن اپنے دوست کے ساتھ قائد اعظم کی کوٹھی پر پہنچا اور ان کے سیکریٹری کو بتایا، میں پنجاب سے قائد اعظم سے ملنے آیا ہوں، ان کے سیکریٹری نے قائد اعظم کی مصروفیات کو مدنظر رکھتے ہوئے معذوری کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ لوگ پانچ دن بعد آئیں میں آپ کی ان سے ملاقات کرا دوں گا میں نے تو خورشید صاحب کی بات مان لی لیکن میرے جذباتی دوست نے فیصلہ کن انداز میں کہا کہ ہم آج ہی قائد اعظم سے ملاقات کریں گے لہٰذا اس ضد، بحث میں گفتگو تلخی کا رخ اختیار کر گئی ابھی وہ دونوں اونچی آواز میں بول ہی رہے تھے کہ اسی دوران قائد اعظم کو ایک دروازے سے باہر نکلتے دیکھا انھیں دیکھ کر میری رگوں میں دوڑتے ہوئے خون کی گردش تیز ہو گئی اور دل یوں دھڑکنے لگا جیسے ابھی اچھل کر باہر آجائے گا۔
قائد اعظم برآمدے میں کھڑے خورشید صاحب اور میرے دوست کی گفتگو سن رہے تھے چند لمحوں میں قائد اعظم ہماری طرف آئے اور غصے سے بولے'' یہ کیا ہو رہا ہے'' میں نے جرأت کا سہارا لے کر کہا'' ہم پنجاب سے آئے ہیں آپ سے ملنا چاہتے ہیں'' قائد اعظم نے پوچھا '' کیا تم طالب علم ہو؟'' میں نے کہا ''ہاں! میں اسلامیہ کالج لاہور میں پڑھتا ہوں۔'' یہ سن کر وہ بولے '' تمہیں تو اس وقت پنجاب میں ہونا چاہیے تھا،کیونکہ وہاں پاکستان کی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ تم اپنا مورچہ چھوڑ کر یہاں پہنچے ہو'' پھر قائد اعظم نے کہا'' پنجاب واپس جاؤ اور جا کر مسلم لیگ کا پیغام گھر گھر پہنچاؤ، میرے اور تمہارے لیے وقت کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے، جب ہم پاکستان کی جنگ جیت لیں گے میں تمہیں خود ملاقات کی دعوت دوں گا۔'' قائد اعظم بولتے چلے گئے، میں تو ان سے ملنے کے لیے جذبات اور ارمانوں کا بوجھ اپنے ذہن پر لاد کر لایا تھا، قائد کی باتوں سے خشک پتوں کی طرح بکھرتا ہوا محسوس ہوا، اسی وقت میں نے فیصلہ کرلیا کہ بمبئی سے سیدھا لاہور جاؤں گا۔ میرے قائد نے مجھے احساس دلا دیا کہ ہمارے لیے ایک ایک لمحہ بڑا قیمتی ہے اور میرے کانوں میں مسلسل قائد اعظم کے یہ الفاظ گونج رہے تھے کہ '' جب ہم پاکستان جیت لیں گے تو میں تمہیں خود ملاقات کی دعوت دوں گا۔''
اس قسم کے واقعات سے تاریخ بھری ہوئی ہے، ایثار و قربانی کی داستانیں شہادت اور قربانی کے واقعات سنا رہی ہیں۔ عزت و آبرو کچھ محفوظ نہیں تھا۔ ان حالات میں قائد اعظم اور ان کے رفقا کار کی جہد مسلسل اور اپنی جانوں کا نذرانہ 14 اگست کا یہ پیغام دے رہا ہے کہ ہمارے لیے صرف اور صرف پاکستان کی بقا، اس کی خوشی اور خوشحالی لازم ہے، آج مہنگائی کے ہاتھوں چند کے علاوہ پورا پاکستان بھوک اور پیاس سے تڑپ رہا ہے اشیا ضروریہ سے محروم کردیا گیا ہے۔
حکمرانوں کو احساس تک نہیں ہے خودکشیاں کی جا رہی ہیں، ڈکیتی، قتل و غارت جاری ہے، لیکن انھیں اپنی اور اپنے خاندان کی بقا کے لیے صرف اور صرف اقتدار چاہیے وہ بھی ہمیشہ کے لیے۔
طیارے سے اترنے کے بعد قائد اعظم کو اسٹریچر پر ڈال کر ایمبولینس میں ڈالا گیا تھوڑی ہی دور پہنچ کر ایمبولینس میں خرابی پیدا ہوئی، محترمہ فاطمہ جناح نے ملٹری سیکریٹری کو دوسری ایمبولینس لانے کے لیے بھیجا، ایمبولینس کے اندر حبس تھا جو قائد اعظم کی صحت کے لیے بے حد خطرناک تھا ان کے کپڑے پسینے سے تر ہو گئے انھیں دستی پنکھوں سے ہوا دی جانے لگی۔
لیفٹیننٹ کرنل ڈاکٹر الٰہی بخش قائد اعظم کے معالج تھے، انھوں نے ان کی نبض دیکھی تو نبض بے قاعدہ اور کمزور ہو رہی تھی ان حالات میں دوسری ایمبولینس کے آنے میں تاخیر ہوگئی ایک جان بلب مریض جو قوم کا باپ تھا بانی پاکستان تھا اس کے لیے ایمبولینس نہیں پہنچی تھی۔ کتنا عظیم سانحہ اور قومی المیہ تھا جس شخص نے اپنی پوری زندگی اس ملک کی آزادی کے لیے قربان کردی وہ اور ان کی ہمشیرہ جو ان کی دست راست تھیں ان کے معالج ڈاکٹر الٰہی بخش انتظارکی سولی پر لٹکے ہوئے تھے۔
نواب زادہ لیاقت علی خان کو اس وقت شہید کر دیا گیا جب پاکستان کی عمر صرف چار سال تھی۔ ظلم کی تاریخ ادھر ہی انجام کو نہیں پہنچتی ہے بلکہ مقتولین اور مظلومین میں قوم کی ماں محترمہ فاطمہ کا نام بھی شامل ہو جاتا ہے۔ حقائق یہ بتاتے ہیں کہ انھیں قتل کیا گیا تھا، غسال نے ان کے جسم پر تشدد اور زخموں کی نشان دہی کی تھی۔
یہ سلسلہ آج تک جاری ہے، پاکستان کے دشمن اس کی ترقی و خوشحالی کے دشمن، اس کے استحکام کے دشمن ہر وقت موقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ کب وہ ان لوگوں کے سینوں میں چھرا گھونپیں جو محب وطن ہیں، سچ بولنا، حقیقت کو بیان کرنا ان کا ایمان ہے جو اللہ کی خوشنودی اور رسول پاکؐ کی سیرت پاک پر عمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اس کی وجہ ان کی تعلیم و تربیت اور گھر کا ماحول انھیں اپنے وطن سے غداری کرنا تو دور کی بات ہے وہ جھوٹ بولنا، باطل کے راستے پر چلنا اپنے ضمیر کا سودا کرنا اپنی موت تصور کرتے ہیں۔
ایک واقعہ یاد آ گیا جس کا تعلق قائد اعظم اور اسلامیہ کالج لاہور کے طالب علم ضیا الحق سے ہے، وہ لکھتے ہیں۔
''میں ان دنوں اسلامیہ کالج لاہور کا طالب علم تھا، جب پنڈت نہرو لاہور آئے اور انھوں نے پریڈ ہال میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ''ہندوستان میں صرف دو طاقتیں ہیں ایک انگریز اور دوسری کانگریس، پنڈت نہرو کی تقریر کے فوراً بعد یہ تاریخی الفاظ سنے گئے کہ '' ہندوستان میں ایک تیسری طاقت بھی ہے وہ طاقت دس کروڑ مسلمان ہیں، مسلم لیگ ہندوستان کے مسلمانوں کی واحد سیاسی نمایندہ جماعت ہے اور اس جماعت کی منزل پاکستان ہے۔''
جس وقت انتخابات کا مرحلہ قریب آیا تو بڑے بڑے ہندو سیٹھوں اور کارخانوں کے مالکان نے تجوریوں کے منہ کھول دیے تاکہ مسلمانوں کو خرید سکیں۔ ان حالات میں قائد اعظم نے کالج کے طلبا اور سیاسی کارکنوں سے اپیل کی کہ وہ امتحان کی اس گھڑی میں آگے بڑھیں اور ثابت کریں کہ مسلم لیگ ہی ہندوستان کے دس کروڑ مسلمانوں کی نمایندہ جماعت ہے۔
قائد اعظم کی اپیل پر اسلامیہ کالج لاہور کے طلبا کلاسوں سے نکل کر سیاست کے میدان میں آ پہنچے، میں نے اس اپیل پر لبیک کہا اور میں گھر سے نکلا اور دیہات کا رخ کیا، دیہاتی باشندوں تک مسلم لیگ کا پیغام نہیں پہنچا تھا گاؤں کے لوگوں نے زندہ باد کے نعرے لگائے اور کسی گاؤں میں یہ بھی ہوا کہ کتوں نے بھونکنا اورگاؤں کے بزرگوں نے ہمارا مذاق اڑانا شروع کردیا، لیکن اس کے باوجود نوجوانوں نے اپنے مہمانوں کے دلوں کی دھڑکنیں سنیں اور آزادی کا مقصد جانا اور بغیر کسی دباؤ کے پنجاب کے دیہات کی فضائیں پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونجنے لگیں۔
انتخابات میں چند دن باقی تھے کہ ایک رات میں بمبئی روانہ ہوا، تو ریلوے اسٹیشن پر قدم رکھتے ہی اس خیال نے جنم لیا کہ میں قائد کے شہر آیا ہوں اس لیے انھیں دیکھے اور ملے بغیر نہیں جاؤں گا، اس کا ذکر اپنے دوست سے کیا جو بمبئی میں رہتا تھا، دوسرے دن اپنے دوست کے ساتھ قائد اعظم کی کوٹھی پر پہنچا اور ان کے سیکریٹری کو بتایا، میں پنجاب سے قائد اعظم سے ملنے آیا ہوں، ان کے سیکریٹری نے قائد اعظم کی مصروفیات کو مدنظر رکھتے ہوئے معذوری کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ لوگ پانچ دن بعد آئیں میں آپ کی ان سے ملاقات کرا دوں گا میں نے تو خورشید صاحب کی بات مان لی لیکن میرے جذباتی دوست نے فیصلہ کن انداز میں کہا کہ ہم آج ہی قائد اعظم سے ملاقات کریں گے لہٰذا اس ضد، بحث میں گفتگو تلخی کا رخ اختیار کر گئی ابھی وہ دونوں اونچی آواز میں بول ہی رہے تھے کہ اسی دوران قائد اعظم کو ایک دروازے سے باہر نکلتے دیکھا انھیں دیکھ کر میری رگوں میں دوڑتے ہوئے خون کی گردش تیز ہو گئی اور دل یوں دھڑکنے لگا جیسے ابھی اچھل کر باہر آجائے گا۔
قائد اعظم برآمدے میں کھڑے خورشید صاحب اور میرے دوست کی گفتگو سن رہے تھے چند لمحوں میں قائد اعظم ہماری طرف آئے اور غصے سے بولے'' یہ کیا ہو رہا ہے'' میں نے جرأت کا سہارا لے کر کہا'' ہم پنجاب سے آئے ہیں آپ سے ملنا چاہتے ہیں'' قائد اعظم نے پوچھا '' کیا تم طالب علم ہو؟'' میں نے کہا ''ہاں! میں اسلامیہ کالج لاہور میں پڑھتا ہوں۔'' یہ سن کر وہ بولے '' تمہیں تو اس وقت پنجاب میں ہونا چاہیے تھا،کیونکہ وہاں پاکستان کی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ تم اپنا مورچہ چھوڑ کر یہاں پہنچے ہو'' پھر قائد اعظم نے کہا'' پنجاب واپس جاؤ اور جا کر مسلم لیگ کا پیغام گھر گھر پہنچاؤ، میرے اور تمہارے لیے وقت کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے، جب ہم پاکستان کی جنگ جیت لیں گے میں تمہیں خود ملاقات کی دعوت دوں گا۔'' قائد اعظم بولتے چلے گئے، میں تو ان سے ملنے کے لیے جذبات اور ارمانوں کا بوجھ اپنے ذہن پر لاد کر لایا تھا، قائد کی باتوں سے خشک پتوں کی طرح بکھرتا ہوا محسوس ہوا، اسی وقت میں نے فیصلہ کرلیا کہ بمبئی سے سیدھا لاہور جاؤں گا۔ میرے قائد نے مجھے احساس دلا دیا کہ ہمارے لیے ایک ایک لمحہ بڑا قیمتی ہے اور میرے کانوں میں مسلسل قائد اعظم کے یہ الفاظ گونج رہے تھے کہ '' جب ہم پاکستان جیت لیں گے تو میں تمہیں خود ملاقات کی دعوت دوں گا۔''
اس قسم کے واقعات سے تاریخ بھری ہوئی ہے، ایثار و قربانی کی داستانیں شہادت اور قربانی کے واقعات سنا رہی ہیں۔ عزت و آبرو کچھ محفوظ نہیں تھا۔ ان حالات میں قائد اعظم اور ان کے رفقا کار کی جہد مسلسل اور اپنی جانوں کا نذرانہ 14 اگست کا یہ پیغام دے رہا ہے کہ ہمارے لیے صرف اور صرف پاکستان کی بقا، اس کی خوشی اور خوشحالی لازم ہے، آج مہنگائی کے ہاتھوں چند کے علاوہ پورا پاکستان بھوک اور پیاس سے تڑپ رہا ہے اشیا ضروریہ سے محروم کردیا گیا ہے۔
حکمرانوں کو احساس تک نہیں ہے خودکشیاں کی جا رہی ہیں، ڈکیتی، قتل و غارت جاری ہے، لیکن انھیں اپنی اور اپنے خاندان کی بقا کے لیے صرف اور صرف اقتدار چاہیے وہ بھی ہمیشہ کے لیے۔