ہم لوگ آزاد ہیں یا غلام

ہمیں آج قائد ، اقبال، سرسید احمد خاں، محمد علی جوہر، لیاقت علی خاں جیسی دیگر شخصیتوں کی طرح بننے کی ضرورت ہیں


صدام ساگر August 13, 2023

لہو وطن کے شہیدوں کا رنگ لایا ہے

اُچھل رہا ہے زمانے میں نام آزادی

(فراق گور کھپوری)

پاکستان کو آزاد ہوئے، 76 برس ہوگئے ہیں، اس طویل عرصے میں ہم اپنی تاریخ کے کتنے پہلوئوں سے نا واقف رہے۔ ہم اپنی یومِ آزادی کی تقریبات ہر سال 14 اگست کو اور ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا پڑوسی ملک انڈیا اپنی یہی تقریبات 15 اگست کو مناتا ہے، یوں ہم اپنے ساتھ آزاد ہونے والے ملک سے '' ایک دن بڑے '' ہیں، کیونکہ پاکستان رمضان کی 27 ویں شب کو آزاد ہُوا اور یہ کہ جس دن پاکستان آزاد ہُوا، اُس دن جمعتہ الوداع کا مبارک دن تھا۔

یہ وہ دن ہے جب پاکستان 1947کو انگلستان سے آزاد ہوکر معرضِ وجود میں آیا، جہاں اس دن کو ہم بڑے جوش و جذبے اور دھوم دھام سے مناتے، قومی پرچم کو فضا میں بلند کرتے ہوئے اپنے قومی محسنوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں، کیا کبھی ہم نے انھی محسنوں کے نقشِ قدم پر چلنے کا کوئی پختہ عزم کیا۔14 اگست کا دن جہاں ہمیں آزادی کی خوشی دیتا ہے، وہاں ہمیں ان پہلوئوں پر بھی سوچنے پر آمادہ کرتا ہے کہ اس دن جب ہمارے بزرگوں نے ہجرت کے وقت اپنی گردنوں سے غلامی کا طوق اُتار پھینکنے کے بعد آزاد ریاست پاکستان حاصل کیا۔

یہی وہ دن ہے جب ہم آزادی اور آزادانہ فیصلوں کے لیے خون کی ندیاں عبورکر کے، اپنے لاکھوں بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کی شہادتوں کے بعد، اپنی مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کی بلوائیوں کے ہاتھوں عصمتیں لُٹانے کے بعد، اپنے پیاروں کو قید و بند کی صعوبتوں، ظلم و جبر کا ہر وار سہتے ہوئے ایک طویل اور تھکا دینے والے سفر کے بعد پاکستان نام کے ایک آزاد وطن تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔

اسی آزادی کے بارے میں انور مقصود پاکستان ٹیلی وژن کے ایک پروگرام میں معین اختر مرحوم کو بتاتے ہیں کہ '' پاکستان ایک آزاد ملک ہے، جہاں ہم کسی کے غلام نہیں، جہاں کا ہر حاکم ہماری مرضی سے آئے گا، جہاں اعلیٰ عہدوں پر پوسٹنگ باہر سے نہیں اسی ملک کے اندر سے عوام کی مرضی سے ہُوا کرے گی، حکمرانوں کو بٹھانے کے لیے کرسیاں کہیں اور سے نہیں بلکہ اسی ملک میں تیار کی جائیں گی، جن کا کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں ہوگا، جن کی کوئی بیرونی جائیداد نہیں ہوگی، جن کی دنیا کے کسی بھی خطے میں آف شور کمپنیاں یا کاروبار نہیں ہوگا، جو اسی ملک میں سب کے سامنے کمائیں گے اور سب کے سامنے ہی خرچ کریں گے۔

جن کی اولادوں کی دولت پاک دھرتی کے لیے خرچ ہوگی، وہ خوشگوار دن عید کے دن سے بڑھ کر خوشیاں لے کر آئے گا، آزادی کا چمکتا دمکتا سورج ہر جانب کی تاریکیاں سمیٹنے کے بعد اس طرح روشنی سے ہر چیز کو منور کردے گا کہ ہر امیر غریب کے لیے انصاف کا معیار خدا کے بنائے ہوئے اصولوں کے مطابق طے کیا جائے گا۔'' خالد بزمی کی منظر کشی:

روحِ قائد پوچھتی ہے اہلِ پاکستان سے آج

کس کے ذمے ہے ہمارے ملک اور ملت کی لاج

آج ہم اس اتحاد قوم سے غافل ہیں کیوں

جس کی برکت سے کیا ہے ہم نے اس دنیا پہ راج

یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ہماری قوم مختلف گروہوں میں بٹی ہوئی ہے، آج ہماری معیشت کا بُرا حال ہے، دو وقت کی روٹی کے لیے غریب عوام در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور حکمران اپنی عیاشیوں میں مگن نظر آتے ہیں۔ ایسے میں وطنِ عزیز کو بیرونی سے زیادہ اندرونی خطرات کا سامنا ہے۔ پچھلے 76 برسوں میں ہم نے کافی ترقی کی لیکن آج تک ایک قوم نہ بن سکے۔

ہمارے ملک کی ہر سیاسی پارٹی کا اپنا اپنا الگ منشور ہیں، ہر پارٹی کے اپنے سپورٹرز ہیں، ہر پارٹی اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے کا خواب دیکھ رہی ہے، وہی جھوٹے وعدے، خدمت کے کھوکھلے دعوے، ترقی اور خوشحال کے نام پر جہالت کے اندھیرے کہاں ہیں روشن پاکستان؟ ہماری عوام نیا پاکستان کے خوابِ غفلت میں سوئی رہی اور پرانے پاکستان کا بھی ستیاناس کردیا گیا۔ رمضان کے با برکت مہینے میں ملنے والی ریاست پر کچھ مخلص چہروں کے بعد بے برکت حکمرانوں کو بیٹھا دیا گیا۔ جو ہمیں آج بھی مسندوں پر بیٹھے طرزِ حکومت کا درس دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

انھیں کیا پتہ ہو کہ طرزِ حکومت کیا ہے اور کسے کہتے ہیں۔ اس حوالے سے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کہتے ہیں '' مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرزِ حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کے طرزِ حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مسلمانوں کا طرزِ حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمد للہ، قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا۔''

کلمہ طیبہ کی بنیاد پر ملنے والے پاکستان کو ریاستِ مدینہ بنانے والے حکمرانوں کی جھوٹی تقریروں اور دکھائوے کے ترقی منصوبوں نے قومی خزانے کو خالی کر دیا ہے، آئی ایم ایف اور دیگر ممالک کے قرضوں کھائے جا رہے ہیں۔ ہماری سیاست بلی چوہے کا کھیل بن کر رہ گئی ہے، ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے یعنی انتقام کی آگ میں غریب عوام کو راکھ بناتے ہوئے کہتے ہیں ہم آزاد ہے، جس ملک میں کرپٹ حکمران ہو، دو وقت کی روٹی کے لیے عوام خود کشی کر رہی ہو، سرکاری افسر اور ملازمین کو فری بجلی میسر ہو اور غریب عوام سے ٹیکسوں سمیت بجلی کے بل بھاری رقم سے وصول کیے جا رہے ہو، ہر سرکاری محکمے میں رشوت عام ہو، حلال اور حرام میں فرق نہ ہو، جہاں انصاف اندھا ہو وہاں کس طرح کہا جائے کہ ہم لوگ آزاد ہے یا غلام ...؟

پاک سر زمین کی محافظ ہماری پاک آرمی ہے جس کی وجہ سے ہمارے ملک کی طرف کوئی بھی دشمن میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ اس دھرتی کے تحفظ کے لیے بہت سے جوانوں نے اپنے لہو کی قربانیاں دی ہے اور آج بھی اس کی خاطر سرحدوں پر ہماری آرمی کے جوان اس وطنِ عزیز کی خاطر اپنی جان ہتھیلی پر رکھے اس کی نگہبانی کر رہے ہیں، کیونکہ

خونِ دل دے کے نکھاریں گے رخِ برگِ گلاب

ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے

آخر میں یہی کہوں گا کہ ہمارے حکمرانوں نے اپنے مفادات کی خاطر اس سر زمین میں امن اور وفا کے بیج بونے کے بجائے کانٹے بوئے آج انھی کانٹوں کے بستر پر مظلوم عوام سو رہے ہیں۔ ہمیں آزادی کے اس دن پر 76 برس پہلے والے جوش اور جذبے کی ضرورت ہے۔ ہمیں آج قائد ، اقبال، سرسید احمد خاں، محمد علی جوہر، لیاقت علی خاں جیسی دیگر شخصیتوں کی طرح بننے کی ضرورت ہیں۔

ہمیں ع، م ، ن ، ش ، ز سے آزاد ہونا اور یہی ہماری حقیقی آزادی کا دن ہو گا جب ہم کسی کے غلام نہیں ہو نگے۔ سڑکوں پر ون ویلنگ کرنے، ناچ ناچ کے رستے بلاک کرنے، گلیوں میں باجے بجا کر صوتی آلودگی پھیلانے کا نام آزادی نہیں ہے۔ خدارا آزادی کی نعمت اور آزادی کے مفہوم کو سمجھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اسی آزادی نے ہمیں آن دی ، شان، پاکستان جیسی پاک سر زمین دی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں