نگران حکومت کے چیلنجز
ایک طویل عرصہ گذرا ہے، غیر آئینی ادوارکا، معاشی پسماندگی کا وہ جمود اب تک طاری ہے
موجودہ اسمبلی کی پانچ سالہ مدت اختتام کو پہنچی، اب نئے انتخابات کی تیاری ہو رہی ہے۔ اس عرصے میں بہت سے ایسے سوالات ہیں جو ادھورے رہ گئے۔
آئین کے آرٹیکل (i) 58 کے تحت اسمبلی تو تحلیل ہوگئی لیکن کیا اسی آرٹیکل کے تحت نوے دن کے اندر نئے انتخابات بھی ہوسکیں گے؟ سی سی آئی نے نئی مردم شماری کی منظوری دے دی ہے، اس لیے مردم شماری کے مطابق نئے انتخابات کرانا لازمی ہوں گے۔ یہ دونوں پہلو آئینی ہیں اور دونوں ہی اس وقت ایک دوسرے کی سمت میں نہیں، اب اس بات کا فیصلہ بھی عدالتیں کریں گی۔
اس وقت سب سے اہم سوال ہے انتخابات کا ہونا، تین ماہ میں نہ سہی، چھ ماہ میں ہی سہی، مگر انتخابات کا ہونا لازمی ہے۔ نگراں حکومت چیف الیکشن کمشنرکے اثر میں زیادہ رہے گی، ہمارے سیاستدانوں کا عمل دخل کم ہوگا۔ قوی امکان اس بات ہے کہ وہ ہی نگراں وزیراعظم بنیں گے، جوآئی ایم ایف سے ہوئے معاہدے کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہو سکے۔
پاکستان قرضوں میں جکڑا ہوا ہے، قرضے لیے جاتے ہیں اور ملک بھی چلتا رہتاہے ۔ عوام کو ایسے مخصوص بیانیے میں محصورکردیا ہے کہ وہ ترقی اور خوشحالی کی افادیت جانتے ہی نہیں، بس ایک انتہاپسندی کا جنون ہے جو بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔
سرکاری اسکول نہ ہونے کے برابر ہیں، نجی تعلیمی اداروں کی بہتات ہے لیکن فیسیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں، جس کی وجہ سے غریب کے بچے دینی مدرسوں کا رخ کرتے ہیں۔ سرکاری اسپتال بھی تقریباً بند ہیں، غریب بیمار ہوجائے تو سوائے موت کے کوئی علاج نہیں ہے۔ افراطِ زر تیس فیصد ہے، گیس کا شدید بحران اور بجلی کے کمر توڑ بل آرہے ہیں۔
پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ خوشحال ملک تھا مگر اب سب سے غریب بھی ہے اور انتظامی اور نظام انصاف کے لحاظ سے بھی پسماندہ ترین ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی قیادت کے مبہم نظریات، سیاسی کارکنوں کی سیاسی تربیت کا نہ ہونا، غیرحقیقی اور غیرسائنسی نصاب تعلیم، سرکاری تعلیمی اداروں کا زوال، بیورکریسی کی تربیت میں خامیوں کو دور نہ کرنا، ان وجوہات نے پورے نظام کو مفلوج اور ظالمانہ بنادیاہے ، حکمران اشرافیہ کی داخلی جنگ تیز ہوچکی ہے یعنی حق حکومت کس کا ہے؟
اسٹیبلشمنٹ، بیورکریسی، پارلیمنٹ اور عدلیہ میں کشمکش جاری ہے، عوام کا تو کہیں کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ موجودہ اسمبلی جو رخصت ہوئی، اس کی حقیقت یہی ہے کہ وہ ایک غیر جمہوری اسمبلی تھی۔ بدترین دھاندلی کے ذریعے لائی گئی۔ عمران نیازی کو اس طاقتور طبقے نے بزور قوت منتخب کرایا جو اپنی من مانی چاہتا ہے جو جمہوریت میں ایک حد زیادہ ممکن نہیں ہے۔
پاکستان کی سیاست اور معیشت کے تعلق کا پہلو اتنا سلیس نہیں کہ صرف دوجملوں میں اس کی تفسیر یہاں بیان کی جائے۔ ہمارے شرفاء دوگروہوں میں بٹے ہوئے ہیں، ایک ایسا گروہ ہے جس کی سوچ اقتدار تک محدود ہے ، ان کو اقتدار تک رسائی چاہیے، پھر چاہے کچھ بھی ہوجائے اور ایک گروہ ایسا ہے جو آئین پر یقین تو رکھتا ہے مگر سیاست میںغیرآئینی طریقے سے آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دور اقتدار میں بھی آئین بھر پور طریقے سے نافذالعمل نہ ہو سکا۔
یہ ملک اب بھی ایک نیم آئینی طریقے سے چل رہا ہے لیکن ہم پھر بھی پر امید ہیں کہ ہم اس ڈگر سے بخوبی آگے بڑھ سکتے ہیں۔اگر ہم اپنی سیاست کے سفرکا تاریخی جائزہ لیں تو ہمارے اس سفر میں جو بھی سیاستدان اقتدارکی کرسی پر بیٹھے، ان کا ٹکرائو اسٹبلشمنٹ سے ہوا ضرور۔ ایک منتخب وزیرِ اعظم پھانسی پر چڑھا، ایک جلاوطن ہوا اور ایک وہ تھیں جو راولپنڈی کی تاریک گلیوں میں خودکش حملہ آوروں کے ہاتھوں شہید ہوئیں، مگر ان میں سے کسی نے بھی ریاست یا فوج کے خلاف سرِ عام بغاوت کا اعلان نہیں کیا،کبھی نو مئی جیسا واقعہ ترتیب نہ دیا۔
نیازی کو چور دروازے سے وزیراعظم بنایا گیا۔ ان کو لانے والوں کے پیچھے ایک منظم سوچ یہ تھی کہ اس طرح ملک دیوالیہ ہوجائے گا، ان پالیسیزکی وجہ سے جو اسٹبلشمنٹ ان کے پیچھے کھڑی تھی، ان کو اقتدار میں لائی تھی، ان سے منحرف ہوگئی۔ اسٹبلشمنٹ کے اندر بھی اس حوالے سے دو رائے تھی، وہ فوجی جو دوردیس تھے یا پھر اپنی وردی اتارچکے تھے وہ اسٹبلشمنٹ کے اس فیصلے کے ساتھ کھڑے نہ ہوئے کہ کپتان کو واپس بھیج دیا جائے اور یوں نوبت نو مئی جیسے المیے تک پہنچی۔
خان صاحب اپنی اور اپنے پشت پناہ طبقے کی بقاء کے لیے ضیاء الحق اور حمیدگل کی دی ہوئی افغان پالیسی کو پروان چڑھانے کے درپے تھے، لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ ضیاء الحق کی دی ہوئی اس پالیسی سے ہمیشہ کے لیے جان چھوٹ جائے گی جو پاکستان اور اس کے عوام کے لیے ایک خوش آیند بات ہے۔ کوئی بھی معاشی، داخلی اور خارجہ پالیسی جو عوام کے اجتماعی مفادات کے برعکس ہو، مخصوص سوچ اورکسی عصبیت میں مبتلا ایک مختصر سا طاقتور گروہ ریاست اور اس کے تمام وسائل پر قبضہ کرنے کی پالیسی پر گامزن ہوجائے تو وہ ملک یا تواپنے سے کمزور ملک سے جنگ ہار جائے گا یا پھر ملک خانہ جنگی کا شکار ہو جائے۔
سانحہ نو مئی ایسا ہی ہے۔پاکستان اس وقت معاشی مسائل میں گھرا ہوا ہے ، پاکستان میں نہ صرف معاشی استحکام لانا ضروری ہے بلکہ پارلیمنٹ اور سول حکومت کا مضبوط ہونا بھی ناگزیر ہے۔ اپنے اداروں کی اب اس طرح سے ٹریننگ کی جائے کہ مستقبل میں کوئی غلام محمد ،سکندر مرزا، جنرل ایوب خان، جنرل یحیٰ خان، جنرل ضیاالحق، غلام اسحاق خان ،جنرل مشرف، جنرل باجوہ، جنرل پاشا، جنرل فیض حمید یا حمید گل کوئی مہم جوئی نہ کرسکے۔
ایک طویل عرصہ گذرا ہے، غیر آئینی ادوارکا، معاشی پسماندگی کا وہ جمود اب تک طاری ہے، سماجی کمزوری کا۔ یہ ایک غیر فطری عمل ہوگا، اگر یہ کہہ دیا جائے کہ اسٹیبلشمنٹ فورا سیاست سے چلی جائے تو ایسا ممکن نہیں ہے ،اس کے پیچھے کچھ زمینی حقائق بھی ہیں۔ سیاست میں مذہب کا استعمال اتنا گہرا ہوچکا ہے کہ اسے زائل کرنے میں وقت لگے۔ یہ سب کچھ آپ کے سامنے ہے کہ کس طرح طاقتور گروہ نے اقتدارکو مضبوط کرنے کے لیے جمہوری قوتوں کو کمزور بنایا اور آج اس کے نتائج کیا ہیں؟
بڑی مشکل سے ہم FATF کی گرے لسٹ سے نکلے ہیں وگرنہ کس طرح سے ہم نے ڈان لیکس کا ڈرامہ ترتیب دیا، نواز شریف کی جمہوری حکومت کو سیکیورٹی رسک قرار دیا اور محب وطن ٹھہرے ڈیم بنانے والے چیف جسٹس ثاقب نثار!اس وقت حالات اتنے مایوس کن بھی نہیں کہ نگراں حکومت کے بہانے کچھ اور ہونے جا رہا ہو۔ اس وقت پاکستان کے ارتقائی عمل میں کچھ مثبت ہونے جا رہا ہے۔
ہاں، اگر یہاں معیشت بہتر نہ ہوئی تو بغاوتوں کے سلسلے پھر سے شروع ہوسکتے ہیں۔ اس کا کریڈٹ اسحاق ڈار کو بھی دیا جاسکتا ہے۔ ان کو یہ بات ورثے میں ملی ہے کہ وہ بے لگام بگڑتی معیشت کے سینگوں کو ہاتھوں سے پکڑکر قابو میں لا سکتے ہیں اور اس بات میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ یہ کامیابی نہ صرف برقرار ہے بلکہ بہتری کی طرف گامزن ہے۔
آئین کے آرٹیکل (i) 58 کے تحت اسمبلی تو تحلیل ہوگئی لیکن کیا اسی آرٹیکل کے تحت نوے دن کے اندر نئے انتخابات بھی ہوسکیں گے؟ سی سی آئی نے نئی مردم شماری کی منظوری دے دی ہے، اس لیے مردم شماری کے مطابق نئے انتخابات کرانا لازمی ہوں گے۔ یہ دونوں پہلو آئینی ہیں اور دونوں ہی اس وقت ایک دوسرے کی سمت میں نہیں، اب اس بات کا فیصلہ بھی عدالتیں کریں گی۔
اس وقت سب سے اہم سوال ہے انتخابات کا ہونا، تین ماہ میں نہ سہی، چھ ماہ میں ہی سہی، مگر انتخابات کا ہونا لازمی ہے۔ نگراں حکومت چیف الیکشن کمشنرکے اثر میں زیادہ رہے گی، ہمارے سیاستدانوں کا عمل دخل کم ہوگا۔ قوی امکان اس بات ہے کہ وہ ہی نگراں وزیراعظم بنیں گے، جوآئی ایم ایف سے ہوئے معاہدے کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہو سکے۔
پاکستان قرضوں میں جکڑا ہوا ہے، قرضے لیے جاتے ہیں اور ملک بھی چلتا رہتاہے ۔ عوام کو ایسے مخصوص بیانیے میں محصورکردیا ہے کہ وہ ترقی اور خوشحالی کی افادیت جانتے ہی نہیں، بس ایک انتہاپسندی کا جنون ہے جو بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔
سرکاری اسکول نہ ہونے کے برابر ہیں، نجی تعلیمی اداروں کی بہتات ہے لیکن فیسیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں، جس کی وجہ سے غریب کے بچے دینی مدرسوں کا رخ کرتے ہیں۔ سرکاری اسپتال بھی تقریباً بند ہیں، غریب بیمار ہوجائے تو سوائے موت کے کوئی علاج نہیں ہے۔ افراطِ زر تیس فیصد ہے، گیس کا شدید بحران اور بجلی کے کمر توڑ بل آرہے ہیں۔
پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ خوشحال ملک تھا مگر اب سب سے غریب بھی ہے اور انتظامی اور نظام انصاف کے لحاظ سے بھی پسماندہ ترین ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی قیادت کے مبہم نظریات، سیاسی کارکنوں کی سیاسی تربیت کا نہ ہونا، غیرحقیقی اور غیرسائنسی نصاب تعلیم، سرکاری تعلیمی اداروں کا زوال، بیورکریسی کی تربیت میں خامیوں کو دور نہ کرنا، ان وجوہات نے پورے نظام کو مفلوج اور ظالمانہ بنادیاہے ، حکمران اشرافیہ کی داخلی جنگ تیز ہوچکی ہے یعنی حق حکومت کس کا ہے؟
اسٹیبلشمنٹ، بیورکریسی، پارلیمنٹ اور عدلیہ میں کشمکش جاری ہے، عوام کا تو کہیں کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ موجودہ اسمبلی جو رخصت ہوئی، اس کی حقیقت یہی ہے کہ وہ ایک غیر جمہوری اسمبلی تھی۔ بدترین دھاندلی کے ذریعے لائی گئی۔ عمران نیازی کو اس طاقتور طبقے نے بزور قوت منتخب کرایا جو اپنی من مانی چاہتا ہے جو جمہوریت میں ایک حد زیادہ ممکن نہیں ہے۔
پاکستان کی سیاست اور معیشت کے تعلق کا پہلو اتنا سلیس نہیں کہ صرف دوجملوں میں اس کی تفسیر یہاں بیان کی جائے۔ ہمارے شرفاء دوگروہوں میں بٹے ہوئے ہیں، ایک ایسا گروہ ہے جس کی سوچ اقتدار تک محدود ہے ، ان کو اقتدار تک رسائی چاہیے، پھر چاہے کچھ بھی ہوجائے اور ایک گروہ ایسا ہے جو آئین پر یقین تو رکھتا ہے مگر سیاست میںغیرآئینی طریقے سے آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دور اقتدار میں بھی آئین بھر پور طریقے سے نافذالعمل نہ ہو سکا۔
یہ ملک اب بھی ایک نیم آئینی طریقے سے چل رہا ہے لیکن ہم پھر بھی پر امید ہیں کہ ہم اس ڈگر سے بخوبی آگے بڑھ سکتے ہیں۔اگر ہم اپنی سیاست کے سفرکا تاریخی جائزہ لیں تو ہمارے اس سفر میں جو بھی سیاستدان اقتدارکی کرسی پر بیٹھے، ان کا ٹکرائو اسٹبلشمنٹ سے ہوا ضرور۔ ایک منتخب وزیرِ اعظم پھانسی پر چڑھا، ایک جلاوطن ہوا اور ایک وہ تھیں جو راولپنڈی کی تاریک گلیوں میں خودکش حملہ آوروں کے ہاتھوں شہید ہوئیں، مگر ان میں سے کسی نے بھی ریاست یا فوج کے خلاف سرِ عام بغاوت کا اعلان نہیں کیا،کبھی نو مئی جیسا واقعہ ترتیب نہ دیا۔
نیازی کو چور دروازے سے وزیراعظم بنایا گیا۔ ان کو لانے والوں کے پیچھے ایک منظم سوچ یہ تھی کہ اس طرح ملک دیوالیہ ہوجائے گا، ان پالیسیزکی وجہ سے جو اسٹبلشمنٹ ان کے پیچھے کھڑی تھی، ان کو اقتدار میں لائی تھی، ان سے منحرف ہوگئی۔ اسٹبلشمنٹ کے اندر بھی اس حوالے سے دو رائے تھی، وہ فوجی جو دوردیس تھے یا پھر اپنی وردی اتارچکے تھے وہ اسٹبلشمنٹ کے اس فیصلے کے ساتھ کھڑے نہ ہوئے کہ کپتان کو واپس بھیج دیا جائے اور یوں نوبت نو مئی جیسے المیے تک پہنچی۔
خان صاحب اپنی اور اپنے پشت پناہ طبقے کی بقاء کے لیے ضیاء الحق اور حمیدگل کی دی ہوئی افغان پالیسی کو پروان چڑھانے کے درپے تھے، لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ ضیاء الحق کی دی ہوئی اس پالیسی سے ہمیشہ کے لیے جان چھوٹ جائے گی جو پاکستان اور اس کے عوام کے لیے ایک خوش آیند بات ہے۔ کوئی بھی معاشی، داخلی اور خارجہ پالیسی جو عوام کے اجتماعی مفادات کے برعکس ہو، مخصوص سوچ اورکسی عصبیت میں مبتلا ایک مختصر سا طاقتور گروہ ریاست اور اس کے تمام وسائل پر قبضہ کرنے کی پالیسی پر گامزن ہوجائے تو وہ ملک یا تواپنے سے کمزور ملک سے جنگ ہار جائے گا یا پھر ملک خانہ جنگی کا شکار ہو جائے۔
سانحہ نو مئی ایسا ہی ہے۔پاکستان اس وقت معاشی مسائل میں گھرا ہوا ہے ، پاکستان میں نہ صرف معاشی استحکام لانا ضروری ہے بلکہ پارلیمنٹ اور سول حکومت کا مضبوط ہونا بھی ناگزیر ہے۔ اپنے اداروں کی اب اس طرح سے ٹریننگ کی جائے کہ مستقبل میں کوئی غلام محمد ،سکندر مرزا، جنرل ایوب خان، جنرل یحیٰ خان، جنرل ضیاالحق، غلام اسحاق خان ،جنرل مشرف، جنرل باجوہ، جنرل پاشا، جنرل فیض حمید یا حمید گل کوئی مہم جوئی نہ کرسکے۔
ایک طویل عرصہ گذرا ہے، غیر آئینی ادوارکا، معاشی پسماندگی کا وہ جمود اب تک طاری ہے، سماجی کمزوری کا۔ یہ ایک غیر فطری عمل ہوگا، اگر یہ کہہ دیا جائے کہ اسٹیبلشمنٹ فورا سیاست سے چلی جائے تو ایسا ممکن نہیں ہے ،اس کے پیچھے کچھ زمینی حقائق بھی ہیں۔ سیاست میں مذہب کا استعمال اتنا گہرا ہوچکا ہے کہ اسے زائل کرنے میں وقت لگے۔ یہ سب کچھ آپ کے سامنے ہے کہ کس طرح طاقتور گروہ نے اقتدارکو مضبوط کرنے کے لیے جمہوری قوتوں کو کمزور بنایا اور آج اس کے نتائج کیا ہیں؟
بڑی مشکل سے ہم FATF کی گرے لسٹ سے نکلے ہیں وگرنہ کس طرح سے ہم نے ڈان لیکس کا ڈرامہ ترتیب دیا، نواز شریف کی جمہوری حکومت کو سیکیورٹی رسک قرار دیا اور محب وطن ٹھہرے ڈیم بنانے والے چیف جسٹس ثاقب نثار!اس وقت حالات اتنے مایوس کن بھی نہیں کہ نگراں حکومت کے بہانے کچھ اور ہونے جا رہا ہو۔ اس وقت پاکستان کے ارتقائی عمل میں کچھ مثبت ہونے جا رہا ہے۔
ہاں، اگر یہاں معیشت بہتر نہ ہوئی تو بغاوتوں کے سلسلے پھر سے شروع ہوسکتے ہیں۔ اس کا کریڈٹ اسحاق ڈار کو بھی دیا جاسکتا ہے۔ ان کو یہ بات ورثے میں ملی ہے کہ وہ بے لگام بگڑتی معیشت کے سینگوں کو ہاتھوں سے پکڑکر قابو میں لا سکتے ہیں اور اس بات میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ یہ کامیابی نہ صرف برقرار ہے بلکہ بہتری کی طرف گامزن ہے۔