14 اگست تجدید عہد کا دن
پاکستان 14 اگست 1947 کو دنیا کے نقشے پر ابھرا، یوں خطہ ارض پر پاکستانی قوم کی پہچان کی ابتداء ہوئی
پاکستان 14 اگست 1947 کو دنیا کے نقشے پر ابھرا، یوں خطہ ارض پر پاکستانی قوم کی پہچان کی ابتداء ہوئی۔ اہم ترین بات یہ تھی کہ نئی مملکت ووٹ کی طاقت سے معرض وجود میں آئی، جس کے لیے ایک طویل سیاسی جدوجہد کی گئی تھی، حالانکہ اس دوران دنیا دو عالمی جنگوں کا سامنا کرچکی تھی۔
قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں مسلمانان ہند نے علیحدہ وطن کے لیے پرامن سیاسی جدوجہد کرکے ثابت کیا کہ مسلمان فطری طور پر جمہوریت اور امن پسند ہیں۔ اعلان آزادی کے بعد مسلمانوں کو آگ اور خون کا ایک دریا عبور کرنا پڑا۔ تاریخ انسانی کی ایک بڑی خونی ہجرت ہوئی، پاکستانی قوم اپنی اس نسل کا احسان کبھی نہیں بھول سکتی۔
آزادی کبھی پلیٹ میں رکھی ہوئی نہیں ملتی اور اس کو حاصل کرنے کے لیے خون کا دریا پار کرنا پڑتا ہے۔ آزادی کی قدر کوئی فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں سے کوئی پوچھے کہ وہ کس عذاب سے گزرتے ہوئے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
وادی جموں وکشمیر کی پچھلی سات دہائیاں اور 5 اگست 2019کے بعد کے سارے حالات و واقعات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خدانخواستہ اگر وطنِ عزیز بھی آزاد نہ ہوا ہوتا تو ہم سب لوگوں کا کیا انجام ہوتا، لہٰذا اس بات کا ادراک ہونا لازم ہے کہ اس خداداد مملکت کے قیام سے قبل کیا حالات تھے جس کی بناء پر بیسویں صدی کی عظیم الشان تحریک آزادی برپا ہوئی جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
پاکستان اپنے قیام کی آج 76 ویں سالگرہ منا رہا ہے، قوموں اور ملکوں کی تاریخ میں یہ کوئی اتنا لمبا عرصہ نہیں ہے مگر پھر بھی جب ہم گزشتہ سالوں کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں۔ کسی بھی شعبے کو لیجیے۔ تعلیم، ثقافت، عدالت، معیشت ، معاشرت، سیاست غرضیکہ ہر شعبہ زندگی میں ہم غیر اقوام کی غلامی اور تقلید میں مبتلا ہیں۔ اس وقت عام پاکستانی غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے پریشان ہے۔
عدلیہ سمیت ریاست کے مختلف اداروں کا اپنی حدود میں نہ رہنا اور آئین کا احترام نہ کرنا بہت سے مسائل کا سبب بنا۔ اس وجہ سے ہم آج کے دن تک، دنیا میں کوئی بہتر مقام نہ بنا سکے، آدھا ملک بھی گنوا بیٹھے اور زرعی خودکفالت، صنعتی ترقی اور اقتصادی بہتری بھی حاصل نہیں کرسکے۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہونے والا پاکستان اگر آج تک خود کو دستیاب جملہ امکانات بروئے کار لا ہی نہیں سکا تو اس کی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب اس ملک کو عشروں سے درپیش سیاسی اور معاشی عدم استحکام میں پوشیدہ ہے۔
آج کا پاکستان سیاسی طور پر منقسم ہے اور اسے شدید نوعیت کے مالیاتی اور اقتصادی بحران کا سامنا بھی ہے۔ قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے پاکستان میں اس وقت مہنگائی اتنی زیادہ ہے کہ عوام کی زندگی مشکل تر ہو چکی ہے۔ وطن عزیز میں رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ اقرباء پروری اور سفارش کی وجہ سے اہل اور باصلاحیت افراد کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ نظام حکومت اور سیاست کا حال بھی، بس کچھ نہ پوچھیے۔ جمہوریت کے نام کی مالا جپنے والے تو بہت سے مل جائیں گے مگر جمہوریت کو پھلنے پھولنے کے مواقع فراہم کرنے والے شاید ہی کوئی مل سکیں۔
ہماری بد قسمتی کی انتہا دیکھیے کہ عوام کو بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔ شہری آزادیوں پر قدغن لگائی جاتی ہے۔ تحریر اور تقریر کی آزادی بار بار چھین لی جاتی رہی ہے۔ پریس پر بھی طرح طرح کی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ رہی ہے کہ یہاں بار بار فوج مداخلت کر کے مارشل لاء لگاتی رہی اور ہر بار دستور کو اُٹھا کر باہر پھینک دیا گیا۔
وطن عزیز پاکستان کو اس وقت بہت سارے اندرونی اور بیرونی خطرات درپیش ہیں۔ دہشت گردی اور بدامنی سب سے بڑے چیلنجز ہیں۔ عام آدمی مہنگائی، بیروزگاری اور انرجی بحران کی وجہ سے سخت پریشانی کا شکار ہے۔ حکمران ماضی کے ہوں یا موجودہ، سب بڑے بڑے دعوے اور وعدے تو کرتے ہیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کارکردگی کے لحاظ سے ان کا گراف انیس اور بیس کے درمیان ہی رہتا ہے۔
اس یوم آزادی پر عہد کرنا چاہیے کہ بانیان پاکستان کے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کریں گے بلکہ سماجی انصاف، صحت، روزگار، امن ، بھائی چارہ پر مشتمل جمہوری معاشرے کے قیام کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے اور الزام تراشی کے بجائے جمہوری روایات کو فروغ دیں گے۔ ماضی کی رنجشوں کو بھلانا سب سے زیادہ ضروری ہے۔ آزادی کے لیے وسعت قلبی سب سے اہم اور ضروری ہے۔ تمام تر اختلافات بھلا کر صرف اور صرف پاکستانی بن کر ہم آزادی کے بنیادی تقاضوں کو پورا کر سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایسا کر پائیں گے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہم سب کو دینا ہے اور ہمیں اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہمارے بزرگوں نے جو قربانیاں دی تھیں، جو صعوبتیں برداشت کی تھیں ہم انھیں رائیگاں نہیں جانے دیا اور خیال رکھیں گے کہ ہر آنیوالی حکومت عوام کی فلاح کے لیے منصوبے بنائے، حکمران بدعنوانی نہ کریں، سرمایہ کار ملک کی صنعتوں میں سرمایہ کاری کریں اور اپنا منافع ملک سے باہر لے جانے کے بجائے ملک میں نئی صنعتیں قائم کرنے میں لگائیں، حکومت تعلیم کے شعبے میں انقلابی اصلاحات متعارف کرائے، عوام کی اکثریت کو طبی سہولتیں فراہم کی جائیں، توانائی کا طویل بحران ملک کی معیشت کو نقصان پہنچا رہا ہے اس پر قابو پانے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں، یہ وہ اہداف ہیں جنھیں حاصل کرنے کے بعد ہی ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیا۔
ہمیں چاہیے کہ ہم ان سب شہیدوں کو سلام پیش کریں جن کی وجہ سے آج یہ ملک درخشاں و تاباں ہے۔ آج کے دن ان شہیدوں کو خراجِ عقیدت پیش کریں جو شہاب ثاقب کی طرح اپنی روشنی ہر سو بکھیر کر خود تو گم ہوگئے لیکن ہماری زندگیوں کو روشن کر گئے۔ اپنے ان شہیدوں کی عظمتوں کو سلام پیش کریں جنھوں نے کبھی ہمیں مشکل وقت میں اکیلا نہ چھوڑا اور کبھی مایوس نہ کیا۔ یومِ آزادی کے تناظر میں یہ عظیم دن پاکستانی قوم سے کیا تقاضے رکھتا ہے اور ان تقاضوں کی تکمیل کے ضمن میں ہماری من حیث القوم کیا ترجیحات اور ذمے داریاں ہیں، ان عوامل کو پورے سیاق و سباق کے ساتھ اجاگر کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے، شاید اتنی کبھی پہلے نہ تھی۔
بابائے قوم حضرت قائدِ اعظم محمد علی جناح نے قوم کے لیے رہنما خطوط فراہم کرتے ہوئے فرمایا تھا '' اتحاد، ایمان، تنظیم'' یعنی کسی بھی قوم کے لیے ترقی و کامرانی حاصل کرنے کے لیے سنہری اصول یہی تین ہیں کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھے۔ اپنی دیانت داری اور ایمان کو ہمیشہ اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کررکھے اور ساتھ ہی ساتھ پوری قوم نظم و ضبط پر چابکدستی سے کاربند ہو۔
ہم میں سے ہر فرد کو خود سے اور اس مملکت سے عہد کرنا ہوگا کہ ہم اپنے اپنے دائرہ ِ عمل میں اتحاد، ایمان اور تنظیم کے اصولوں پر پوری طرح عمل کریں گے اور اس تسلسل میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھیں گے۔ 14اگست کے عظیم دن کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے لیے ہر معاملے میں خود انحصاری کا راستہ اختیار کریں کیونکہ یہ افراد اور اقوام کو اپنے اپنے وسائل پر بھروسہ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس راستے پر چلنے سے عارضی مشکلات تو پیش آئیں گی اور دشواریاں بھی حائل رہیں گی لیکن پیٹ پر پتھر باندھ کر فتوحات حاصل کرنے والی قوم اپنے ماضی کو یقینا کبھی فراموش نہیں کرے گی۔
آج ہمیں دیگر اقوام کی ترقی خیرہ کرتی ہے لیکن سوال یہ ہونا چاہیے کہ آخر وہ اقوام کس طرح ترقی کے بامِ عروج تک جا پہنچیں۔ گراں خواب چینی سنبھل گئے۔ چین و جاپان ترقی کی جن منازل سے ہمکنار ہوئے اس کے پسِ پردہ ان کی بے مثل محنت و مشقت ہے جس نے ان قوموں کی تقدیر اندھیروں سے نکال کر چکا چوند روشنیوں سے منور کر دی۔
ہمیں بھی لازم ہے کہ ہم اپنی صلاحیتوں کا کامل ادراک کرتے ہوئے تساہل و سستی کو ہرگز اپنے پاس نہ پھٹکنے دیں بلکہ ہمہ وقت اور ہمہ جہت ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا اپنا حصہ بقدرِ جثہ ڈالیں۔ اس ضمن میں بنیادی بات جو یاد رکھنے کی ہے وہ ایمان داری، دیانت داری اور سچائی کی ہے۔ صر ف اس کو اپنا کر ہم زمانے میں سرخرو ہوسکتے ہیں۔
بہرحال اب یہ بات خوش آیند ہے کہ اس وقت ساری قوم کا فوکس معاشی بحالی کی طرف ہوگیا ہے اور ہر کسی کو سمجھ آ گئی ہے کہ ملک کے معاشی مسائل کو حل کیے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ پاکستان کو دنیا میں باوقار ملک بنانے کی جدوجہد صرف حکومت اور ملکی اداروں ہی کی ذمے داری نہیں بلکہ ہر پاکستانی کا فریضہ ہے کہ وہ اپنی ذمے داریوں اور فرائض کی ادائیگی پر توجہ دے اور ملک کی ترقی و استحکام میں اپنا کردار ادا کرے، جب تک ہم من الحیث القوم اپنے اجتماعی کردار سے وطن عزیز کو ان حالات سے نکالنے کی سعی نہیں کریں گے ہم اسی طرح مسائل میں گھرے رہیں گے۔
ہمیں ان مسائل کا خود ہی حل تلاش کرنا اور اس سے نکلنا ہوگا ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس کے لیے باہر سے کوئی ہماری دست گیری کے لیے نہیں آئے گا، بلکہ ہم نے خود ہی کرنا ہوگا۔
قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں مسلمانان ہند نے علیحدہ وطن کے لیے پرامن سیاسی جدوجہد کرکے ثابت کیا کہ مسلمان فطری طور پر جمہوریت اور امن پسند ہیں۔ اعلان آزادی کے بعد مسلمانوں کو آگ اور خون کا ایک دریا عبور کرنا پڑا۔ تاریخ انسانی کی ایک بڑی خونی ہجرت ہوئی، پاکستانی قوم اپنی اس نسل کا احسان کبھی نہیں بھول سکتی۔
آزادی کبھی پلیٹ میں رکھی ہوئی نہیں ملتی اور اس کو حاصل کرنے کے لیے خون کا دریا پار کرنا پڑتا ہے۔ آزادی کی قدر کوئی فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں سے کوئی پوچھے کہ وہ کس عذاب سے گزرتے ہوئے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
وادی جموں وکشمیر کی پچھلی سات دہائیاں اور 5 اگست 2019کے بعد کے سارے حالات و واقعات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خدانخواستہ اگر وطنِ عزیز بھی آزاد نہ ہوا ہوتا تو ہم سب لوگوں کا کیا انجام ہوتا، لہٰذا اس بات کا ادراک ہونا لازم ہے کہ اس خداداد مملکت کے قیام سے قبل کیا حالات تھے جس کی بناء پر بیسویں صدی کی عظیم الشان تحریک آزادی برپا ہوئی جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
پاکستان اپنے قیام کی آج 76 ویں سالگرہ منا رہا ہے، قوموں اور ملکوں کی تاریخ میں یہ کوئی اتنا لمبا عرصہ نہیں ہے مگر پھر بھی جب ہم گزشتہ سالوں کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں۔ کسی بھی شعبے کو لیجیے۔ تعلیم، ثقافت، عدالت، معیشت ، معاشرت، سیاست غرضیکہ ہر شعبہ زندگی میں ہم غیر اقوام کی غلامی اور تقلید میں مبتلا ہیں۔ اس وقت عام پاکستانی غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے پریشان ہے۔
عدلیہ سمیت ریاست کے مختلف اداروں کا اپنی حدود میں نہ رہنا اور آئین کا احترام نہ کرنا بہت سے مسائل کا سبب بنا۔ اس وجہ سے ہم آج کے دن تک، دنیا میں کوئی بہتر مقام نہ بنا سکے، آدھا ملک بھی گنوا بیٹھے اور زرعی خودکفالت، صنعتی ترقی اور اقتصادی بہتری بھی حاصل نہیں کرسکے۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہونے والا پاکستان اگر آج تک خود کو دستیاب جملہ امکانات بروئے کار لا ہی نہیں سکا تو اس کی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب اس ملک کو عشروں سے درپیش سیاسی اور معاشی عدم استحکام میں پوشیدہ ہے۔
آج کا پاکستان سیاسی طور پر منقسم ہے اور اسے شدید نوعیت کے مالیاتی اور اقتصادی بحران کا سامنا بھی ہے۔ قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے پاکستان میں اس وقت مہنگائی اتنی زیادہ ہے کہ عوام کی زندگی مشکل تر ہو چکی ہے۔ وطن عزیز میں رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ اقرباء پروری اور سفارش کی وجہ سے اہل اور باصلاحیت افراد کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ نظام حکومت اور سیاست کا حال بھی، بس کچھ نہ پوچھیے۔ جمہوریت کے نام کی مالا جپنے والے تو بہت سے مل جائیں گے مگر جمہوریت کو پھلنے پھولنے کے مواقع فراہم کرنے والے شاید ہی کوئی مل سکیں۔
ہماری بد قسمتی کی انتہا دیکھیے کہ عوام کو بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔ شہری آزادیوں پر قدغن لگائی جاتی ہے۔ تحریر اور تقریر کی آزادی بار بار چھین لی جاتی رہی ہے۔ پریس پر بھی طرح طرح کی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ رہی ہے کہ یہاں بار بار فوج مداخلت کر کے مارشل لاء لگاتی رہی اور ہر بار دستور کو اُٹھا کر باہر پھینک دیا گیا۔
وطن عزیز پاکستان کو اس وقت بہت سارے اندرونی اور بیرونی خطرات درپیش ہیں۔ دہشت گردی اور بدامنی سب سے بڑے چیلنجز ہیں۔ عام آدمی مہنگائی، بیروزگاری اور انرجی بحران کی وجہ سے سخت پریشانی کا شکار ہے۔ حکمران ماضی کے ہوں یا موجودہ، سب بڑے بڑے دعوے اور وعدے تو کرتے ہیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کارکردگی کے لحاظ سے ان کا گراف انیس اور بیس کے درمیان ہی رہتا ہے۔
اس یوم آزادی پر عہد کرنا چاہیے کہ بانیان پاکستان کے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کریں گے بلکہ سماجی انصاف، صحت، روزگار، امن ، بھائی چارہ پر مشتمل جمہوری معاشرے کے قیام کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے اور الزام تراشی کے بجائے جمہوری روایات کو فروغ دیں گے۔ ماضی کی رنجشوں کو بھلانا سب سے زیادہ ضروری ہے۔ آزادی کے لیے وسعت قلبی سب سے اہم اور ضروری ہے۔ تمام تر اختلافات بھلا کر صرف اور صرف پاکستانی بن کر ہم آزادی کے بنیادی تقاضوں کو پورا کر سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایسا کر پائیں گے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہم سب کو دینا ہے اور ہمیں اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہمارے بزرگوں نے جو قربانیاں دی تھیں، جو صعوبتیں برداشت کی تھیں ہم انھیں رائیگاں نہیں جانے دیا اور خیال رکھیں گے کہ ہر آنیوالی حکومت عوام کی فلاح کے لیے منصوبے بنائے، حکمران بدعنوانی نہ کریں، سرمایہ کار ملک کی صنعتوں میں سرمایہ کاری کریں اور اپنا منافع ملک سے باہر لے جانے کے بجائے ملک میں نئی صنعتیں قائم کرنے میں لگائیں، حکومت تعلیم کے شعبے میں انقلابی اصلاحات متعارف کرائے، عوام کی اکثریت کو طبی سہولتیں فراہم کی جائیں، توانائی کا طویل بحران ملک کی معیشت کو نقصان پہنچا رہا ہے اس پر قابو پانے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں، یہ وہ اہداف ہیں جنھیں حاصل کرنے کے بعد ہی ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیا۔
ہمیں چاہیے کہ ہم ان سب شہیدوں کو سلام پیش کریں جن کی وجہ سے آج یہ ملک درخشاں و تاباں ہے۔ آج کے دن ان شہیدوں کو خراجِ عقیدت پیش کریں جو شہاب ثاقب کی طرح اپنی روشنی ہر سو بکھیر کر خود تو گم ہوگئے لیکن ہماری زندگیوں کو روشن کر گئے۔ اپنے ان شہیدوں کی عظمتوں کو سلام پیش کریں جنھوں نے کبھی ہمیں مشکل وقت میں اکیلا نہ چھوڑا اور کبھی مایوس نہ کیا۔ یومِ آزادی کے تناظر میں یہ عظیم دن پاکستانی قوم سے کیا تقاضے رکھتا ہے اور ان تقاضوں کی تکمیل کے ضمن میں ہماری من حیث القوم کیا ترجیحات اور ذمے داریاں ہیں، ان عوامل کو پورے سیاق و سباق کے ساتھ اجاگر کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے، شاید اتنی کبھی پہلے نہ تھی۔
بابائے قوم حضرت قائدِ اعظم محمد علی جناح نے قوم کے لیے رہنما خطوط فراہم کرتے ہوئے فرمایا تھا '' اتحاد، ایمان، تنظیم'' یعنی کسی بھی قوم کے لیے ترقی و کامرانی حاصل کرنے کے لیے سنہری اصول یہی تین ہیں کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھے۔ اپنی دیانت داری اور ایمان کو ہمیشہ اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کررکھے اور ساتھ ہی ساتھ پوری قوم نظم و ضبط پر چابکدستی سے کاربند ہو۔
ہم میں سے ہر فرد کو خود سے اور اس مملکت سے عہد کرنا ہوگا کہ ہم اپنے اپنے دائرہ ِ عمل میں اتحاد، ایمان اور تنظیم کے اصولوں پر پوری طرح عمل کریں گے اور اس تسلسل میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھیں گے۔ 14اگست کے عظیم دن کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے لیے ہر معاملے میں خود انحصاری کا راستہ اختیار کریں کیونکہ یہ افراد اور اقوام کو اپنے اپنے وسائل پر بھروسہ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس راستے پر چلنے سے عارضی مشکلات تو پیش آئیں گی اور دشواریاں بھی حائل رہیں گی لیکن پیٹ پر پتھر باندھ کر فتوحات حاصل کرنے والی قوم اپنے ماضی کو یقینا کبھی فراموش نہیں کرے گی۔
آج ہمیں دیگر اقوام کی ترقی خیرہ کرتی ہے لیکن سوال یہ ہونا چاہیے کہ آخر وہ اقوام کس طرح ترقی کے بامِ عروج تک جا پہنچیں۔ گراں خواب چینی سنبھل گئے۔ چین و جاپان ترقی کی جن منازل سے ہمکنار ہوئے اس کے پسِ پردہ ان کی بے مثل محنت و مشقت ہے جس نے ان قوموں کی تقدیر اندھیروں سے نکال کر چکا چوند روشنیوں سے منور کر دی۔
ہمیں بھی لازم ہے کہ ہم اپنی صلاحیتوں کا کامل ادراک کرتے ہوئے تساہل و سستی کو ہرگز اپنے پاس نہ پھٹکنے دیں بلکہ ہمہ وقت اور ہمہ جہت ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا اپنا حصہ بقدرِ جثہ ڈالیں۔ اس ضمن میں بنیادی بات جو یاد رکھنے کی ہے وہ ایمان داری، دیانت داری اور سچائی کی ہے۔ صر ف اس کو اپنا کر ہم زمانے میں سرخرو ہوسکتے ہیں۔
بہرحال اب یہ بات خوش آیند ہے کہ اس وقت ساری قوم کا فوکس معاشی بحالی کی طرف ہوگیا ہے اور ہر کسی کو سمجھ آ گئی ہے کہ ملک کے معاشی مسائل کو حل کیے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ پاکستان کو دنیا میں باوقار ملک بنانے کی جدوجہد صرف حکومت اور ملکی اداروں ہی کی ذمے داری نہیں بلکہ ہر پاکستانی کا فریضہ ہے کہ وہ اپنی ذمے داریوں اور فرائض کی ادائیگی پر توجہ دے اور ملک کی ترقی و استحکام میں اپنا کردار ادا کرے، جب تک ہم من الحیث القوم اپنے اجتماعی کردار سے وطن عزیز کو ان حالات سے نکالنے کی سعی نہیں کریں گے ہم اسی طرح مسائل میں گھرے رہیں گے۔
ہمیں ان مسائل کا خود ہی حل تلاش کرنا اور اس سے نکلنا ہوگا ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس کے لیے باہر سے کوئی ہماری دست گیری کے لیے نہیں آئے گا، بلکہ ہم نے خود ہی کرنا ہوگا۔