مولانا اشرف علی تھانویؒ بنام ڈھلمل یقین پاکستانی
موجودہ سیاسی بحران میں یہ فتنہ ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے۔ اس کی سرکوبی کے لیے پوری قوم کا یک سو ہو جانا ضروری ہے
برادرم خورشید ندیم ، ڈاکٹر نجیبہ عارف اور ڈاکٹر محمد سلیم مظہر کے تقرر پر ہمیں خوشی کا اظہار کرنا ہے اور انھیں مبارک باد دینی ہے لیکن پہلے ایک ضروری یاد کا تذکرہ۔
مجھے جمعے کا ایک خطبہ یاد آتا ہے اور خطبہ دینے والے شخص کا چہرہ۔جوان مضبوط جسم ، اٹھی ہوئی ٹھوڑی جس کے سبب سیاہ داڑھی کچھ مزید نمایاں ہو کر چھاتی پر سایہ فگن ہو جاتی۔ جہاں میں جمعے کی نماز پڑھا کرتا تھا، اس مسجد کے منبر پر میں نے انھیں پہلی بار دیکھا پھر یہ میری یادداشت میں مجسم ہو گئے۔
ایسے حلیے کے لوگ میں نے بہت سے دیکھے ہوں گے لیکن ان کی بات مختلف تھی۔ انھوں نے اپنے خطبے میں اِس ملک کا نام جس میں وہ بستے تھے، کھاتے کماتے تھے، ایک مختلف طریقے سے لیا۔ پاکستان کا لفظ ہم ایک ہی طریقے سے لیتے ہیں لیکن انھوں نے ہمارے اس جانے پہچانے جان سے پیارے لفظ کو ایک مختلف بلکہ مضحکہ خیز لفظ میں تبدیل کر دیا۔ اس کے بعد چل سو چل۔
قیام پاکستان کے بعد جامع مسجد دہلی میں ابوالکلام آزاد کی طویل تقریر کے حوالے، بار بار دہرائی گئی وہ دلیل جس میں کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کا نیا ملک بننے سے ہندوستان میں مسلمانوں کی طاقت تقسیم ہو گئی۔ یہ نہ ہوتا تو افزائش نسل کی برکت سے آج ہم دنیا کے اس بہت بڑے ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن چکے ہوتے۔
پاکستان کے اس خوب صورت نام کو بگاڑ کر بولنے والا کوئی اور شخص اس کے بعد تو میرے مشاہدے میں نہیں آیا لیکن اس انداز میں سوچنے اور جناب موہن داس کرم چند گاندھی کی عظمت کے قصیدے پڑھنے والے اب بھی مل جاتے ہیں اور ان کی پراگندہ خیالی سے چاہے نہ چاہے مستفید ہونا پڑتا ہے۔
سوشل میڈیا کے ظہور سے پہلے شہری سندھ کی قیادت کے دعوے دار الطاف حسین نے کہا تھا کہ ہم 14 اگست کا دن کیوں منائیں؟ پھر اس شہر میں ہم نے وہ دن اداسی سے گزار دیا بیچ میں وقتا فوقتا قومی پرچم بھی اٹھایا گیا اور یہ دن بھی منایا گیا لیکن پھر ہندوستان جا کر انھوں نے اپنا یہی موقف با انداز دگر دہرایا۔
اب چیئرمین پی ٹی آئی گرفتار ہوئے ہیں تو ایک بار پھر اسی قسم کی باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔ قومی پرچم اور پاسپورٹ کی بے حرمتی کے واقعات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ اس قسم کے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ جو لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں، وہ پاکستان کے مقصد اور ضرورت سے نا بلد ہیں یا پھر ان کا تعلق اس قبیلے سے ہے جنھوں نے اس ملک میں رہتے ہوئے بھی پاکستان کو آج تک تسلیم نہیں کیا۔
یوم آزادی کے روز ضرورت محسوس ہوتی ہے یہ بات دہرائی جائے کہ یہ ملک کیا ہے اور اس کے قیام کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی؟ میں نے اس سوال کا جواب قائد اعظم علیہ رحمہ اور خلد آشیانی علامہ محمد اقبالؒ کے اقوال و فرمودات کے بجائے ایک ایسے بزرگ کے افکار میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے جن کا تعلق دارالعلوم دیوبند جیسی اُس تاریخی درس گاہ سے ہے جس کے بڑوں نے سینہ تان کر پاکستان کی مخالفت کی تھی۔
مولانا اشرف علی تھانویؒ کے ملفوظات بعنوان ' لافاضات الیومیہ من الافادات القومیہ' کا ذکر گزشتہ کالم میں ہو چکا ہے۔ حضرت تھانوی کے یہ ملفوظات شاہ کلید کی حیثیت رکھتے ہیں جن میں انسان کے دینی، روحانی، سماجی اور اقتصادی مسائل کے ساتھ ساتھ سیاسی مسائل پر ایسی راہ نمائی ملتی ہے جس کا شعور بعض مسلم زعما کو کہیں برسوں بلکہ دہائیوں بعد جا کر ہوا۔
گاندھی جی جس زمانے میں تحریک عدم تعاون کے گن گاتے تھے، مقامی مصنوعات کا ڈنکا بجاتے تھے یا نمک بنا کر آزادی کا چورن بیچتے تھے، مولانا اشرف علی تھانوی علیہ رحمہ ان تحریکوں سے بے نیاز اور لا تعلق تھے۔ کسی نے ان پر پھبتی کسی کہ حضرت بے حس ہیں جو قومی تحریکوں سے لا تعلق ہیں۔
عقیدت مندوں میں سے کسی نے یہ سوال ان کی روزانہ کی نشست میں بھی پیش کر دیا تو حضرت نے فرمایا کہ جو وہ( الزام لگانے والے)جانتے ہیں ، ہم بھی جانتے ہیں لیکن ایک بات ان سے بھی بڑھ کر جانتے ہیں کہ اس طرح کی تحریکوں کا واضح نتیجہ ہندو کی کامیابی ہے اور یہ بات دماغ کی کھڑکیاں کھول کر سمجھ لینی چاہیے کہ ہندو مسلمان کا انگریز سے بڑا دشمن ہے۔ یہ بات سمجھنے کے لیے دائیں بائیں نگاہ دوڑائیے، آپ کو اس کے ہزاروں لاکھوں ثبوت میسر آ جائیں گے۔
ایک سوال ہوا کہ کیا مسلمان اور ہندو آزادی کی تحریک میں شانہ بہ شانہ حصہ لے سکتے ہیں؟ فرمایا کہ ایسی تحریک کے نتیجے میں انگریز کو ہندوستان سے نکالنا ممکن تو ہو سکتا ہے لیکن آخری کامیابی صرف ہندو کے حصے میں آئے گی۔ اس کے بعد ہندو مسلمانوں کو مٹانے پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کر دیں گے۔ یہی ان کا اصل مزاج اور ہدف ہے۔ یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔کسی اور موقع پر آزادی کے لیے مسلمانوں اور ہندوؤں کے مل کر کام کرنے پر فرمایا کہ اس طرح کی بیل عموما منڈھے نہیں چڑھتی۔
اگر کامیابی ہو بھی گئی اور اس میں جو مسلمان شریک ہوں گے، وہ مسلمانوں سے مخلص نہیں ہوں گے۔ وہ مسلمانوں کے خلاف ہندو کی چاپلوسی میں حد سے گزر جائیں گے۔ انھوں نے ایسے لوگوں کے لیے فرعون وغیرہ جیسے الفاظ استعمال فرمائے۔ بعد کے حالات نے مولانا کی یہ پیشین گوئی درست ثابت کی۔ یہی سبب تھا کہ قائد اعظمؒ ایسے لوگوں کے لیے کانگریس کے شو بوائے جیسے الفاظ استعمال کرنے پر مجبور ہوئے۔
ایک مرتبہ کسی نے سوال کیا کہ اگر کسی غیر مسلم میں قیادت اہلیت پائی جاتی ہو تو کیا اس کی قیادت کو قبول نہیں کر لینا چاہیے؟ آپ نے فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ دین میں سیاست نہیں اور جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں ، وہ دین کی توہین کرتے ہیں۔
مولانا اشرف علی تھانویؒ کے یہ نظریات تھے جن کی وجہ سے انھوں نے مسلمانوں کی کانگریس میں شمولیت کی مخالفت کی اور قائد اعظمؒ سے رابطہ استوار کیا۔ مولانا اور قائد اعظمؒ کے درمیان خط و کتابت ریکارڈ پر ہے۔ ان ہی خطوط میں انھوں نے قائد اعظمؒ کو مشورہ دیا کہ وہ قرآن حکیم کا مطالعہ کریں۔ مرزا جواد بیگ مرحوم، دہلی میں جن کے نانا نواب موسی خان مرحوم کے گھر کی دیوار اور لان کی باڑھ قائد اعظمؒ کے گھر سے ملی ہوئی تھی، بتاتے تھے کہ قرآن حکیم کے مطالعے کے لیے بابائے قوم نے ایک عالم دین کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں اور ایسا مولانا اشرف علی تھانوی ؒکے مشورے پر ہوا تھا۔
مولانا اشرف علی تھانوی ؒکی یہ فکری اور عملی خدمات ہی تھیں جن کی وجہ سے علمائے کرام کا ایک بڑا طبقہ تحریک آزادی کے دوران مسلمانوں کے ساتھ آ کھڑا ہوا اور نام نہاد مسلم مفکرین کی ساری کد و کاوش بے کار چلی گئی۔
ہمارے یہاں ایک اور بڑا مسئلہ گاندھی جی کے سامنے ریشہ خطمی ہو جانے والے دانش وروں اور بعض نا پختہ سیاسی ذہنوں کا ہے جن کے نزدیک دھوکے اور فریب کو حکمت عملی کے طور پر استعمال کرنے والے شخص کو پیغمبرانہ درجہ عطا کر دیا جاتا ہے اور مہا تما مہاتما کہتے ہوئے ان کی زبان نہیں تھکتی۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کا سراغ بھی حضرت تھانویؒ کے ملفوظات سے ملتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایک مسلمان عالم نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب لکھی۔
انھوں نے لکھا کہ انبیا کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ ان کے مزاج کا استقلال تھا۔ یہی خوبی گاندھی میں بھی پائی جاتی ہے۔ اس لیے وہ قابل تقلید ہے۔ حضرت تھانوی ؒنے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے استغفراللہ اور نعوذ باللہ کے الفاظ استعمال کیے اور فرمایا کہ سیرت پر کتاب اور ایک مکذب توحید و رسالت سے تشبیہ، ایسی کتاب میں اپنے پاس رکھنا بھی نہیں چاہتا۔
حضرت تھانویؒ نے تو یہ گمراہ کن کتاب اپنے پاس نہ رکھی لیکن حرف مطبوعہ کا اپنا ایک اثر ہوتا ہے جس کے اثرات ہم آج تک نہ صرف دیکھ رہے ہیں بلکہ بھگت بھی رہے ہیں۔
موجودہ سیاسی بحران میں یہ فتنہ ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے۔ اس کی سرکوبی کے لیے پوری قوم کا یک سو ہو جانا ضروری ہے لیکن علمی اور فکری ادارے ایسی تحریکوں کی قیادت کرتے ہیں۔ رحمۃ اللعالمین اتھارٹی ہو، اکادمی ادبیات ہو یا ادارہ فروغ قومی زبان، ان کی نئی قیادت اس چیلنج سے نمٹنے کی اہلیت رکھتی ہے اور اسے یہ چیلنج قبول بھی کرنا چاہیے۔ میری طرف سے اپنے تینوں دوستوں کو یعنی خورشید ندیم، ڈاکٹر نجیبہ عارف اور ڈاکٹر محمد سلیم مظہر کو نئی ذمے داریاں سنبھالنے پر دلی مبارک باد اور کامیابی کے لیے دعائیں۔