ملکی سلامتی کو درپیش چیلنجز
پاکستان کو دہشت گردی کے عفریت سے جس طرح ہماری افواج نے نکالا، اس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ ہم سب سے پہلے پاکستانی ہیں، پاکستانی قوم اور افواج ایک تھے، ایک ہیں اور ایک رہیں گے۔ ہمارے پڑوسی ملک نے پاکستان کوآج تک دل سے تسلیم نہیں کیا، بھارت ہمیشہ علاقائی امن اور سلامتی کے لیے خطرہ رہا ہے۔
آرمی چیف نے مزید کہا ہے کہ افغان بھائیوں کو ادراک ہونا چاہیے کہ ہم ایک مہمان نواز قوم ہیں، ہماری خواہش ہے کہ ہماری مخلصانہ کوششوں کا اسی پیرائے میں جواب دیا جائے اور افغان سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں آزادی پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
مادر وطن کے دفاع کے لیے سمندر، فضاء یا زمینی چیلنج ہو مسلح افواج نے ہمہ وقت چوکس رہتے ہوئے دشمن کے عزائم ناکام بنانے کا سلسلہ جاری رکھا۔
مشرقی اور مغربی سرحدوں پر روایتی دشمن بھارت کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے نئے خطرات کا مقابلہ ہمارے جوانوں نے اپنی جانوں کی عظیم قربانی کے ساتھ کیا ہے اور سرحدوں پر چوکس رہنے کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کو درپیش قدرتی آفات میں بھی مسلح افواج نے جانفشانی سے متحرک کردار ادا کیا۔
مسلح افواج نے اپنے تمام وسائل قوم کی خدمت میں صرف کیے، ملکی تاریخ کے بد ترین سیلاب کے دوران ریسکیو اور ریلیف کے کاموں کے بعد مسلح افواج اب بحالی کے طویل عمل میں بھی پیش پیش ہیں۔
پاکستان کو دہشت گردی کے عفریت سے جس طرح ہماری افواج نے نکالا، اس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ پاک افواج نے نہ صرف دہشت گردوں کا خاتمہ کیا بلکہ دہشت گردی کے عوامل کو بھی جڑ سے اُکھاڑنے کی جدوجہد کی جس میں یہ کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔
بلوچستان، وزیرستان اور کراچی میں امن و امان کی بحالی اور استحکام افواجِ پاکستان، عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیوں کے ذریعے ہی ممکن ہو پایا ہے، دہشت گردی کی اس جنگ میں افواجِ پاکستان نے ہراول دستے کے طور پرکام کیا۔ دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن کے ذریعے دہشت گردوں، ان کے ٹھکانوں اور سہولت کاروں کو ختم کیا جا رہا ہے۔
حراست میں لیے گئے بہت سے دہشت گردوںکو افواجِ پاکستان کے قائم کردہ ری ہیبلیٹیشن سینٹرز میں رکھ کر انھیں فعال شہری بنانے کی کاوشیں بھی جاری ہیں، تاکہ ایسے لوگ ملک کے مہذب اور ذمے دار شہری بن کر جلد از جلد قومی دھارے میں شامل ہوں۔
بلاشبہ پاک فوج ملک کی داخلی اور خارجی سلامتی کی ضامن ہے۔ اس وقت فوج اور عوام کے درمیان جو خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، اس کی ذمے داری ایک سیاسی جماعت کے سربراہ پر عائد ہوتی ہے، اور یہ ہمارے دشمنوں کا ناپاک اور مذموم ایجنڈا ہے کہ ایٹمی قوت سے لیس پاک فوج کو اندر سے کمزور کرنے کے لیے عوام کو اس کے سامنے کھڑا کردیا جائے اور ملک میں انتشار اور خانہ جنگی کی صورت حال پیدا کر دی جائے۔
1971 میں یہی باریک کام بھارت نے مشرقی پاکستان میں انجام دیا اور مکتی باہنی کی شکل میں مشرقی پاکستان کے عوام کے ایک طبقے کو فوج کے سامنے لڑنے بھڑنے کے لیے تیار کیا تھا۔ پاک فوج ہماری محسن ہے، یہ محسن اپنا آج ہمارے کل کے لیے قربان کرتے ہیں۔
سمندرکی لہروں پر ، سیاچن کی چوٹیوں پر،کنٹرول لائن پر، مغربی اور مشرقی سرحدوں پر دن رات چوکس ہو کر ڈیوٹی ادا کرتے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ انھیں بیرونی دشمن گولیوں کا نشانہ نہ بنائیں، مگر قوم کے محسن شہادت کو گلے لگاتے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف بائیس سالہ جنگ نے پوری دنیا پر ثابت کردیا کہ پاک فوج اس مرحلے میں سرخرو نکلی جب کہ نیٹو اور امریکا کی لاکھوں کی تعداد میں فوج کو دنیا کے کسی خطے میں ایسی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ ساری دنیا پاک فوج کی اس پیشہ ورانہ مہارت کی قدر کرتی ہے ۔
بعض عاقبت نااندیش افراد کی جانب سے ایک منصوبے کے تحت سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف مذموم مہم چلائی گئی ۔ مگر قوم نے اس مخصوص طبقے کے اس منفی رویے کو رد کر دیا اور وطن کی سلامتی اور حفاظت پر مامور پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گئی۔
اس حقیقت سے قطعی طور پر صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ اس وقت داخلی اور خارجی طور پر وطن عزیز کو مشکلات سے بچانے کے لیے پاک افواج اپنا کردار پوری جاں فشانی سے ادا کر رہی ہے۔
ہمیں اپنی داخلی اور خارجی سرحدوں کی حفاظت کے لیے فوج کی ضرورت ہے لہٰذا ہمیں ہر صورت اپنی فوج پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے دشمن کے ایجنڈے پر عمل پیرا کسی بھی قوت کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔
بھارتی فوج کئی دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کا حصہ چلی آرہی ہے، اپنی اس مہم کو چھپانے کے لیے بھارت نے بڑے پاپڑ بیلے، لیکن بھارت کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارت میں انتہا پسندی کا عروج ہے جس کا سورج پچھلی دو دہائیوں سے پوری آب وتاب سے چمک رہا ہے بلکہ اس کی حدت اور تمازت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔
دوسری جانب اقوام عالم کی جانب سے کابل انتظامیہ کے بائیکاٹ اور اس کے غیر ملکی اکاؤنٹس منجمد ہونے کے باعث افغانستان کو جن سنگین اقتصادی مسائل کا سامنا کرنا پڑا، ان سے نکلنے کے لیے بھی پاکستان نے افغانستان کی بھرپور معاونت کی اورکابل انتظامیہ کے لیے عالمی قیادتوں کو اپنے رویے میں نرمی لانے پر قائل کیا۔
توقع یہی تھی کہ کابل میں حکومت کی تبدیلی کے بعد افغانستان کی بے لوث وکالت کرنے پر طالبان حکومت کی جانب سے پاکستان کو ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آنا شروع ہو جائیں گے مگر طالبان کی عبوری حکومت کے وزراء اور اہم حکام کے علاوہ طالبان لیڈران کی جانب سے بھی پاکستان کے ساتھ مخاصمت والا رویہ اختیار کر لیا گیا اور تضحیک آمیز لہجے میں اسے باور کرایا جانے لگا کہ وہ اپنے اندرونی خلفشار پر توجہ دے، ہمیں اس کی معاونت کی قطعاً ضرورت نہیں۔
طالبان انتہاء پسندوں نے کابل حکومت کی تبدیلی کے بعد طورخم اور چمن سرحدوں پر پاکستان کے خلاف ہنگامہ آرائی اور سخت نعرے بازی کا سلسلہ بھی شروع کر دیا اور پھر پاکستان کے جھنڈوں کی بے حرمتی کرتے ہوئے پاک افغان سرحد پر لگائی گئی باڑ اکھاڑنا شروع کردی جس سے اس امر کا ہی ٹھوس عندیہ ملا کہ طالبان حکومت پاکستان کی جانب دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھانا چاہتی۔
اسی تناظر میں افغانستان میں پاکستانی باشندوں اور سفارتخانہ پر حملوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا جب کہ افغان سرحد کی جانب سے دہشت گردوں کے پاکستان میں داخل ہونے کا سلسلہ بھی تیز ہوگیا جنھوں نے ملک کے مختلف علاقوں بالخصوص خیبر پی کے اور بلوچستان میں تخریب کاری، خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا ارتکاب شروع کر دیا۔
اس سے پاکستان میں انتشار اور عدم استحکام کی فضا پیدا ہوئی جو درحقیقت پاکستان کے ازلی مکار دشمن بھارت کا ایجنڈا ہے۔ اس تناظر میں یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ کابل کی طالبان حکومت بھی سابق افغان حکمرانوں کی طرح پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کے ایجنڈے پر ہی کام کر رہی ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی ہوتی تو افغانستان کی حکومت اور افغان طالبان بھی بیان داغ دیتے کہ پاکستان میں دہشت گردی سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے جب کہ افغان طالبان کے پاکستان میں موجود نظریاتی گروپس ان کی کھلے عام حمایت کرتے رہے، غیر قانونی تجارت، اسلحہ اورگاڑیوں کی اسمگلنگ، ڈرگز اور منشیات کی اسمگلنگ نے پاکستان کی معیشت کو دیوالیہ کردیا۔
بھارت نے بھی ان حالات سے خوب فائدہ اٹھایا، ماضی میں بھی بھارت اور افغانستان کا گٹھ جوڑ رہا اور اب طالبان حکومت بھی بھارت سے گندم کا عطیہ وصول کرنے میں ندامت محسوس نہیں کررہی ہے۔
افغان بارڈر فورسز کی جانب سے پاکستان کی چیک پوسٹوں اور شہری آبادیوں پر فائرنگ اور مارٹر گولے پھینکنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے جو پاکستان کے سخت احتجاج اور وارننگ کے باوجود رکنے کا نام نہیں لے رہا تو اس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ کابل انتظامیہ دانستہ طور پر دہشت گردوں اور بارڈر فورسز کو شہ دیکر انھیں پاکستان کے اندر حملہ آور ہونے کے مواقعے فراہم کر رہی ہے جس کا مقصد پاکستان اور پورے خطے میں امن و امان کی صورتحال خراب کیے رکھنا ہی ہے تاکہ پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) آپریشنل نہ ہو سکے۔ اسے سبوتاژ کرنا درحقیقت بھارت کا ہدف ہے جو پورے کرنے کے لیے طالبان ان کے معاون بنے نظر آتے ہیں۔
یہ صورتحال یقیناً ہمارے لیے لمحہ فکریہ اور ہماری سلامتی و خود مختاری کے لیے بڑا چیلنج ہے کیونکہ بھارت تو ایسے مواقعے کی تلاش میں ہے کہ پاکستان اندرونی طور پر غیر مستحکم ہو اور اسے پاکستان پر ماضی جیسا شب خون مارنے کا موقع میسر آئے جس کے لیے بھارت کی ہندو انتہاء پسند مودی سرکار مکمل تیاری کیے بیٹھی ہے۔
افغانستان سے آنے والے دہشت گرد اور افغان بارڈر فورسز پاکستان کی سر زمین پر پے در پے حملوں سے درحقیقت اس کی ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کر رہی ہیں۔
اس لیے اب ان کارروائیوں پر کابل انتظامیہ سے محض رسمی احتجاج سے آگے بڑھ کر افغانستان کو موثر انداز میں شٹ اپ کال دینا اور اس کے ساتھ تعلقات کے معاملہ پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ بے شک علاقائی امن و امان ہماری ضرورت ہے مگر ملک کی بقاء و سلامتی پر تو کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔
آرمی چیف نے مزید کہا ہے کہ افغان بھائیوں کو ادراک ہونا چاہیے کہ ہم ایک مہمان نواز قوم ہیں، ہماری خواہش ہے کہ ہماری مخلصانہ کوششوں کا اسی پیرائے میں جواب دیا جائے اور افغان سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں آزادی پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
مادر وطن کے دفاع کے لیے سمندر، فضاء یا زمینی چیلنج ہو مسلح افواج نے ہمہ وقت چوکس رہتے ہوئے دشمن کے عزائم ناکام بنانے کا سلسلہ جاری رکھا۔
مشرقی اور مغربی سرحدوں پر روایتی دشمن بھارت کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے نئے خطرات کا مقابلہ ہمارے جوانوں نے اپنی جانوں کی عظیم قربانی کے ساتھ کیا ہے اور سرحدوں پر چوکس رہنے کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کو درپیش قدرتی آفات میں بھی مسلح افواج نے جانفشانی سے متحرک کردار ادا کیا۔
مسلح افواج نے اپنے تمام وسائل قوم کی خدمت میں صرف کیے، ملکی تاریخ کے بد ترین سیلاب کے دوران ریسکیو اور ریلیف کے کاموں کے بعد مسلح افواج اب بحالی کے طویل عمل میں بھی پیش پیش ہیں۔
پاکستان کو دہشت گردی کے عفریت سے جس طرح ہماری افواج نے نکالا، اس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ پاک افواج نے نہ صرف دہشت گردوں کا خاتمہ کیا بلکہ دہشت گردی کے عوامل کو بھی جڑ سے اُکھاڑنے کی جدوجہد کی جس میں یہ کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔
بلوچستان، وزیرستان اور کراچی میں امن و امان کی بحالی اور استحکام افواجِ پاکستان، عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیوں کے ذریعے ہی ممکن ہو پایا ہے، دہشت گردی کی اس جنگ میں افواجِ پاکستان نے ہراول دستے کے طور پرکام کیا۔ دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن کے ذریعے دہشت گردوں، ان کے ٹھکانوں اور سہولت کاروں کو ختم کیا جا رہا ہے۔
حراست میں لیے گئے بہت سے دہشت گردوںکو افواجِ پاکستان کے قائم کردہ ری ہیبلیٹیشن سینٹرز میں رکھ کر انھیں فعال شہری بنانے کی کاوشیں بھی جاری ہیں، تاکہ ایسے لوگ ملک کے مہذب اور ذمے دار شہری بن کر جلد از جلد قومی دھارے میں شامل ہوں۔
بلاشبہ پاک فوج ملک کی داخلی اور خارجی سلامتی کی ضامن ہے۔ اس وقت فوج اور عوام کے درمیان جو خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، اس کی ذمے داری ایک سیاسی جماعت کے سربراہ پر عائد ہوتی ہے، اور یہ ہمارے دشمنوں کا ناپاک اور مذموم ایجنڈا ہے کہ ایٹمی قوت سے لیس پاک فوج کو اندر سے کمزور کرنے کے لیے عوام کو اس کے سامنے کھڑا کردیا جائے اور ملک میں انتشار اور خانہ جنگی کی صورت حال پیدا کر دی جائے۔
1971 میں یہی باریک کام بھارت نے مشرقی پاکستان میں انجام دیا اور مکتی باہنی کی شکل میں مشرقی پاکستان کے عوام کے ایک طبقے کو فوج کے سامنے لڑنے بھڑنے کے لیے تیار کیا تھا۔ پاک فوج ہماری محسن ہے، یہ محسن اپنا آج ہمارے کل کے لیے قربان کرتے ہیں۔
سمندرکی لہروں پر ، سیاچن کی چوٹیوں پر،کنٹرول لائن پر، مغربی اور مشرقی سرحدوں پر دن رات چوکس ہو کر ڈیوٹی ادا کرتے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ انھیں بیرونی دشمن گولیوں کا نشانہ نہ بنائیں، مگر قوم کے محسن شہادت کو گلے لگاتے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف بائیس سالہ جنگ نے پوری دنیا پر ثابت کردیا کہ پاک فوج اس مرحلے میں سرخرو نکلی جب کہ نیٹو اور امریکا کی لاکھوں کی تعداد میں فوج کو دنیا کے کسی خطے میں ایسی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ ساری دنیا پاک فوج کی اس پیشہ ورانہ مہارت کی قدر کرتی ہے ۔
بعض عاقبت نااندیش افراد کی جانب سے ایک منصوبے کے تحت سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف مذموم مہم چلائی گئی ۔ مگر قوم نے اس مخصوص طبقے کے اس منفی رویے کو رد کر دیا اور وطن کی سلامتی اور حفاظت پر مامور پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گئی۔
اس حقیقت سے قطعی طور پر صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ اس وقت داخلی اور خارجی طور پر وطن عزیز کو مشکلات سے بچانے کے لیے پاک افواج اپنا کردار پوری جاں فشانی سے ادا کر رہی ہے۔
ہمیں اپنی داخلی اور خارجی سرحدوں کی حفاظت کے لیے فوج کی ضرورت ہے لہٰذا ہمیں ہر صورت اپنی فوج پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے دشمن کے ایجنڈے پر عمل پیرا کسی بھی قوت کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔
بھارتی فوج کئی دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کا حصہ چلی آرہی ہے، اپنی اس مہم کو چھپانے کے لیے بھارت نے بڑے پاپڑ بیلے، لیکن بھارت کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارت میں انتہا پسندی کا عروج ہے جس کا سورج پچھلی دو دہائیوں سے پوری آب وتاب سے چمک رہا ہے بلکہ اس کی حدت اور تمازت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔
دوسری جانب اقوام عالم کی جانب سے کابل انتظامیہ کے بائیکاٹ اور اس کے غیر ملکی اکاؤنٹس منجمد ہونے کے باعث افغانستان کو جن سنگین اقتصادی مسائل کا سامنا کرنا پڑا، ان سے نکلنے کے لیے بھی پاکستان نے افغانستان کی بھرپور معاونت کی اورکابل انتظامیہ کے لیے عالمی قیادتوں کو اپنے رویے میں نرمی لانے پر قائل کیا۔
توقع یہی تھی کہ کابل میں حکومت کی تبدیلی کے بعد افغانستان کی بے لوث وکالت کرنے پر طالبان حکومت کی جانب سے پاکستان کو ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آنا شروع ہو جائیں گے مگر طالبان کی عبوری حکومت کے وزراء اور اہم حکام کے علاوہ طالبان لیڈران کی جانب سے بھی پاکستان کے ساتھ مخاصمت والا رویہ اختیار کر لیا گیا اور تضحیک آمیز لہجے میں اسے باور کرایا جانے لگا کہ وہ اپنے اندرونی خلفشار پر توجہ دے، ہمیں اس کی معاونت کی قطعاً ضرورت نہیں۔
طالبان انتہاء پسندوں نے کابل حکومت کی تبدیلی کے بعد طورخم اور چمن سرحدوں پر پاکستان کے خلاف ہنگامہ آرائی اور سخت نعرے بازی کا سلسلہ بھی شروع کر دیا اور پھر پاکستان کے جھنڈوں کی بے حرمتی کرتے ہوئے پاک افغان سرحد پر لگائی گئی باڑ اکھاڑنا شروع کردی جس سے اس امر کا ہی ٹھوس عندیہ ملا کہ طالبان حکومت پاکستان کی جانب دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھانا چاہتی۔
اسی تناظر میں افغانستان میں پاکستانی باشندوں اور سفارتخانہ پر حملوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا جب کہ افغان سرحد کی جانب سے دہشت گردوں کے پاکستان میں داخل ہونے کا سلسلہ بھی تیز ہوگیا جنھوں نے ملک کے مختلف علاقوں بالخصوص خیبر پی کے اور بلوچستان میں تخریب کاری، خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا ارتکاب شروع کر دیا۔
اس سے پاکستان میں انتشار اور عدم استحکام کی فضا پیدا ہوئی جو درحقیقت پاکستان کے ازلی مکار دشمن بھارت کا ایجنڈا ہے۔ اس تناظر میں یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ کابل کی طالبان حکومت بھی سابق افغان حکمرانوں کی طرح پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کے ایجنڈے پر ہی کام کر رہی ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی ہوتی تو افغانستان کی حکومت اور افغان طالبان بھی بیان داغ دیتے کہ پاکستان میں دہشت گردی سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے جب کہ افغان طالبان کے پاکستان میں موجود نظریاتی گروپس ان کی کھلے عام حمایت کرتے رہے، غیر قانونی تجارت، اسلحہ اورگاڑیوں کی اسمگلنگ، ڈرگز اور منشیات کی اسمگلنگ نے پاکستان کی معیشت کو دیوالیہ کردیا۔
بھارت نے بھی ان حالات سے خوب فائدہ اٹھایا، ماضی میں بھی بھارت اور افغانستان کا گٹھ جوڑ رہا اور اب طالبان حکومت بھی بھارت سے گندم کا عطیہ وصول کرنے میں ندامت محسوس نہیں کررہی ہے۔
افغان بارڈر فورسز کی جانب سے پاکستان کی چیک پوسٹوں اور شہری آبادیوں پر فائرنگ اور مارٹر گولے پھینکنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے جو پاکستان کے سخت احتجاج اور وارننگ کے باوجود رکنے کا نام نہیں لے رہا تو اس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ کابل انتظامیہ دانستہ طور پر دہشت گردوں اور بارڈر فورسز کو شہ دیکر انھیں پاکستان کے اندر حملہ آور ہونے کے مواقعے فراہم کر رہی ہے جس کا مقصد پاکستان اور پورے خطے میں امن و امان کی صورتحال خراب کیے رکھنا ہی ہے تاکہ پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) آپریشنل نہ ہو سکے۔ اسے سبوتاژ کرنا درحقیقت بھارت کا ہدف ہے جو پورے کرنے کے لیے طالبان ان کے معاون بنے نظر آتے ہیں۔
یہ صورتحال یقیناً ہمارے لیے لمحہ فکریہ اور ہماری سلامتی و خود مختاری کے لیے بڑا چیلنج ہے کیونکہ بھارت تو ایسے مواقعے کی تلاش میں ہے کہ پاکستان اندرونی طور پر غیر مستحکم ہو اور اسے پاکستان پر ماضی جیسا شب خون مارنے کا موقع میسر آئے جس کے لیے بھارت کی ہندو انتہاء پسند مودی سرکار مکمل تیاری کیے بیٹھی ہے۔
افغانستان سے آنے والے دہشت گرد اور افغان بارڈر فورسز پاکستان کی سر زمین پر پے در پے حملوں سے درحقیقت اس کی ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کر رہی ہیں۔
اس لیے اب ان کارروائیوں پر کابل انتظامیہ سے محض رسمی احتجاج سے آگے بڑھ کر افغانستان کو موثر انداز میں شٹ اپ کال دینا اور اس کے ساتھ تعلقات کے معاملہ پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ بے شک علاقائی امن و امان ہماری ضرورت ہے مگر ملک کی بقاء و سلامتی پر تو کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔