کہتے ہیں کہ انسان اور جانور میں 'جبلی' طور پر تمام عادات ایک جیسی ہیں، جیسے: بھوک لگنا، پانی پینا اور جنسی جبلت وغیرہ۔ لیکن جس چیز کی وجہ سے انسان کو تمام مخلوقات پر فضیلت ملی وہ ' عقل' تھی۔ یہی وہ عقل تھی جس کی بنیاد پر انسان کو 'ارادہ وہ اختیار' دیا گیا ہے۔ اسی اختیار کی بنیاد پر انسان نے کائنات کو 'مسخر' کرلیا۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے دماغ دیا ہے، اس کا صحیح استعمال کرکے ہی اس نے اپنے اور ایک جانور میں 'فرق' کیا۔
مسلمانوں کی تاریخ دیکھی جائے تو 'عہدِ زوال' سے قبل مسلمان اپنی عقل و خرد کی بنا پر تمام علوم میں دنیا کی ہر قوم پر حاوی تھے۔ مسلمانوں کی علمی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 'جارج سارٹن (George Sarton)، ایک مشہور کیمیا دان اور تاریخ دان تھا، جس نے پانچ جلدوں پر مشتمل سائنس کی تاریخ (history of science) لکھی، اس نے سائنس کی تاریخ کو چند ادوار میں تقسیم کیا ہے۔
اس کی تقسیم کے مطابق، ہر دور 'نصف' صدی پر محیط ہوتا ہے۔ ہر نصف صدی کے دور کو وہ 'مرکزی شخصیت' کے ساتھ جوڑتا ہے، یعنی اس کے خیال میں ہر پچاس سال میں کوئی نہ کوئی ایسی شخصیت پیدا ہوتی ہے جو انسانیت پر اپنا ایسا 'تاثر' چھوڑتی ہے کہ آنے والے برسوں میں لوگ اسی کو یاد کرتے ہیں۔ وہ ''450 تا 500 قبلِ مسیح افلاطون کا دور قرار دیتا ہے۔ اس کے بعد کے ادوار کو ارسطور، اقلیدس اور ارشمیدس کا دور کہتا ہے۔ پھر 600 سے 700 تک کے زمانے کو اس نے چینی علما کا دور قرار دیا ہے۔ اس کے بعد 750 سے لے کر 1100 عیسوی تک اس کی تقسیم میں مسلسل جابر، خوارزمی، رازی، مسعودی، بیرونی، ابن سینا، ابن الہیثم اور عمر خیام کا دور ہے۔
سارٹن کے نزدیک ساڑھے تین سو سال تک بلا انقطاع صرف مسلم سائنس دانوں کا دور رہا ہے۔ جارج کی تقسیم کے مطابق 1100 عیسوی کے بعد پہلی بار مغربی اشخاص کا نام سائنس کی دنیا میں شروع ہوتا ہے، مثلاً: گیرارڈ، راجر بیکن، تاہم! اس کے بعد 250 سال تک ابنِ رشد، نصیر الدین طوسی اور ابن النفیس کا ذہنی غلبہ یورپ پر قائم رہا۔ ابن النفیس وہ پہلا شخص ہے جس نے پہلی بار جسم کے اندر دورانِ خون کا امکان ظاہر کیا تھا۔'' یعنی تقریباً چھ سو سال تک سائنس پر مسلمانوں کا غلبہ تھا۔
کون سی دریافت ایسی تھی، جس کی ایجاد مسلمانوں نے نہ کی ہو۔ وجہ کیا تھی؟ ان لوگوں نے اپنا قیمی 'دماغ' انسانیت کےلیے استعمال کیا۔ بعد میں مسلمانوں کی دیکھا دیکھی مغرب نے بھی یہی کیا۔ انھوں نے جنگ اور طاقت کے بجائے ایک دوسری تلوار یعنی 'اپنی دانش' کی طرف توجہ دی۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلمان اپنی 'طاقت' کے نشے میں دھت تھے اور یہی ان کے 'زوال' کی ابتدا تھی۔ جب کہ اہلِ مغرب نے جب تلوار 'میان' میں رکھ کر 'علم کی تلوار' بلند کی تو یہی وہ وقت تھا جب ان کے عروج کی ابتدا ہوئی۔ اس کے بعد انھوں نے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا اور مسلسل ترقی کی منازل طے کرتے چلے جارہے ہیں۔ اور آج حال یہ ہے کہ انھوں نے 'آرٹیفیشل انٹلیجنس Ai' جیسی ایک ایسی چیز ایجاد کرلی کہ اب وہ ہمیں یعنی انسانوں کو سکھاتا ہے کہ کام کس طرح کیا جانا چاہیے۔ ہم اس سے تاریخ پوچھتے ہیں تو وہ بتادیتا ہے۔ ہم اس سے کوئی پلاننگ پوچھتے ہیں تو وہ بتادیتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم جتنی دیر میں سوچتے ہیں، وہ اس سے پہلے کام کرکے بھی دے دیتا ہے۔ آگے مزید کیا کیا ہونے والا ہے، اس کا ہمیں کچھ نہیں پتہ، لیکن یہ ضرور ہے کہ اب یہ کام رکے گا نہیں بلکہ مزید آگے چلتا رہے گا۔
اس کے برعکس ہم نے بالکل الٹ معاملہ اختیار کرلیا۔ ہم نے تحقیق کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ 'علم و دانش ' کیا ہوتی ہے، یہ صرف الفاظ کی حد تک ہے، عملی طور پر بہت دور ہیں۔ صرف پاکستان کے مسلمانوں کے کارنامے دیکھیں گے تو انگشتِ بدنداں ہوجائیں گے۔ جیسے کہ کبھی 'ہم اپنی مونچھوں سے بس کھینچتے ہوئے نظر آئیں گے'، کبھی 'ہم طویل طویل جھنڈے بناتے ہوئے عالمی ریکارڈ قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں' اور کبھی 'ہم اپنے ماتھے سے زیادہ اخروٹ توڑتے ہوئے عالمی ریکارڈ بناتے نظر آئیں گے'۔ جس دماغ کو استعمال کرنے کا ہنر غیروں نے ہم ہی سے سیکھا، ہم اس کے بالکل برعکس کھڑے ہیں۔ یہ ہیں ہمارے کارنامے۔
دنیا چاند پر پہنچ رہی ہے اور ہم اب یہ کوشش کررہے ہیں کہ 'بابا کے دربار کا نذرانہ وصول کرنے کےلیے آن لائن سسٹم کس طرح متعارف کروایا جائے '۔ جب یہ حال ہوگا تو کس منہ سے یہ کہیں گے کہ 'ہم افضل قوم' ہیں۔ وہ ہر روز ایک نئی چیز ایجاد کر رہے ہیں، ہر روز خبروں کے ذریعے پتہ چلتا ہے کہ آج کوئی نئی ایجاد ہوئی ہے۔ ہم میں اور اُن میں جو فرق ہے اگر اسے سمجھ لیا جائے تو شاید ہم بھی 'سائنس' کے میدان میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔ وہ فرق یہ ہے کہ ماضی اور حال میں مغرب نے مسلمانوں کو دبانے یا شکست دینے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اس ضمن میں مؤرخین نے عجیب بات لکھی وہ یہ کہ جن زمانوں میں وہ مسلمانوں سے ایک ایک علاقہ چھین رہے تھے اور اپنا جھنڈا گاڑ رہے تھے''عین اسی زمانے میں انھوں نے مسلم کتب خانوں میں پڑی بے شمار کتابوں کو اہتمام کے ساتھ چھاپا اور ان کے ترجمے کیے۔ انھوں نے سیاست کے معاملے کو الگ رکھا اور علم کے معاملے کو الگ... ابن بطوطہ کے سفرنامے کا ترجمہ روسی زبان میں اور یورپ کی اکثر زبانوں میں شائع ہوتا رہا''۔
اس کے برعکس ہماری طرف سے ایک عرصے تک زبان سیکھنے کی پابندی میں باقاعدہ فتاویٰ دیے گئے۔ ہماری خوش قسمی اور بدقسمتی دونوں ہے۔ خوش قسمتی یہ ہے کہ ہمارے پاس 'قرآن' جیسی الہامی کتاب موجود ہے، جس میں لوء لوء و مرجان ہیں۔ اور بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے اس سے کچھ بھی حاصل نہیں کیا۔ اس کے برعکس مغرب مذہب سے دور ہوگیا، لیکن دوسرے معاملات میں ہر وہ کام کرگیا جو 'دینِ اسلام' نے دیا ہے۔ مثال کے طور پر قرآن کہتا ہے کائنات 'مسخر کرو' (لقمان: 20) انھوں نے کرکے دکھادیا۔ قرآن کہتا ہے 'غور و فکر کرو' (آل عمران: 191) انھوں نے کیا۔ قرآن نے جو سائنسی حقائق بیان کیے مغرب نے اس پر عمل کرکے دکھایا۔ اس کے برعکس ہم نے جو کام کیے وہ یہ کہ اہلِ مغرب نے جو بھی 'سائنسی ایجادات کیں'، ہم نے فوراً کہا کہ یہ تو 'قرآنِ مجید' میں موجود ہے۔ اس سے بڑھ کر آگے آئیے تو یہاں تک کہا کہ 'دیکھا! چودہ سو سال قبل ہمارے قرآن میں یہ بات موجود تھی اور کافر اب نکال رہے ہیں۔' کیا اس پر فخر کیا جائے یا افسوس اور شرمندگی؟ لیکن ہم فخر ہی کر رہے ہیں۔
آج بھی فخر جس بات پر ہے وہ یہ کہ 'قرآن ایسا یاد کرنا کہ ایک غلطی بھی نہ آئے لیکن 'سمجھنے سے گریز'۔ ایک ہی باری میں زیادہ اخروٹ ماتھے سے توڑنا، لیکن جس کام کےلیے دماغ استعمال کرنے کو کہا گیا ہے، وہ نہیں کرنا'۔ 'آزادی اظہار پر لیکچر دینا، تاریخی اسلامی واقعات بیان کرنا، لیکن سوال کرنے پر پابندی عائد کرنا'۔ ماضی کے واقعات پر 'فخر تو کرنا'، لیکن 'غلطیوں سے سبق نہیں سیکھنا' وغیرہ وغیرہ۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم مغرب سے پیچھے نہیں بلکہ بہت پیچھے ہیں۔ ہم نے اپنی 'دانش' کہیں کھو دی ہے۔ اب اسے جگانے کےلیے کسی 'مسیحا' کے انتظار کے بجائے خود ہی جاگنا ہے۔ ورنہ ہم اپنے ماضی پر فخر کرتے رہیں گے اور غیر پتہ نہیں کہاں کہاں پہنچ چکے ہوں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔