لاہور کی سڑکوں پر نصب کچرے کے رنگ برنگے ڈبے لمحہ بھر کےلیے آپ کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں اور آپ ٹھہر کر انہیں ضرور دیکھتے ہیں، کیونکہ ان ڈبوں پر آپ کو آرٹ کے بہترین نمونے نظر آتے ہیں۔ یہ آرٹ کبھی سنیما گھروں کے پوسٹرز پر نظر آتا تھا لیکن اب قصۂ پارینہ بنتا جارہا ہے۔
60 سالہ نواز ملتانی 12 سال کی عمر میں اپنے شوق کے ہاتھوں گھر سے بھاگ کر لاہور آگئے اور سنیما آرٹ سے وابستہ ہوگئے تھے۔ انہوں نے اپنی عمر کے چالیس سال اس فن کو سیکھنے اور اس کی ترویج میں لگادیے، لیکن بدلتے ہوئے وقت نے سب کچھ بدل دیا۔ دھیرے دھیرے پاکستان کی فلم انڈسٹری زوال پذیر ہوئی اور پھر کمپیوٹرز نے نواز ملتانی جیسے سیکڑوں (اور شاید ہزاروں) فنکاروں کو بے روزگار کردیا۔
نواز خوش نصیب ٹھہرے کہ انہیں اپنے فن کے اظہار کےلیے ایک نیا اور منفرد پلیٹ فارم مل گیا۔ اب وہ لاہور میں سڑکوں اور پارکوں میں لگائے گئے کچروں کے ڈبوں پر نقش و نگار اور تصاویر بنا کر اپنے گھر کا چولہا جلا رہے ہیں۔
یہ اگست کا پہلا ہفتہ تھا جب ہمیں کچرے کے انتظام اور اس کی ری سائیکلنگ کے حوالے سے لاہور کے کئی اداروں میں جانے اور ان کا کام قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی نے مختلف سڑکوں اور پارکوں میں کچرے کے ڈبے نصب کیے ہیں جنہیں دیدہ زیب بنانے کےلیے نواز ہی کی طرح سنیما آرٹ سے وابستہ ان جیسے مزید سات افراد یہ کام کررہے ہیں۔
پاکستانی فلم انڈسٹری کے زوال اور ڈیجیٹل دور نے دیگر کئی شعبوں کی طری سنیما گھروں پر لگائے جانے والے پوسٹرز اور بل بورڈ کے کام کو بھی زوال سے دوچار کردیا ہے۔ یہ پوسٹرز اور بل بورڈز فنکار ہاتھ سے پینٹ کرتے تھے۔ ان پر فلم میں کام کرنے والے معروف اداکاروں کی تصاویر اور دیگر تفصیلات درج ہوتی تھیں۔
یہ 70 اور 80 کی دہائی کی بات ہے جب پاکستان میں فلم سازی اور سنیما آرٹ کا یہ فن اپنے عروج پر تھا۔ سال میں تقریباً 100 کے قریب فلمیں بنا کرتی تھیں اور اس دور میں پاکستان بھر میں 13 سو سنیما گھر تھے جہاں لوگ جوق در جوق فلمیں دیکھنے جایا کرتے۔ ان سنیما گھروں کو بڑے سائز کے ہورڈنگ اور بل بورڈ سے سجایا جاتا۔ عموماً ان کا سائز 200 فٹ طویل اور 40 فٹ تک چوڑائی ہوتی۔ یہ طویل و عریض پوسٹرز عموماً کئی حصوں میں پینٹ ہوتے جنہیں بعد میں جوڑ دیا جاتا۔
نواز ملتانی ماضی کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ان کا تعلق ملتان شہر سے ہے لیکن کام سیکھنے کے شوق میں وہ 12 سال کی عمر میں لاہور آگئے اور لکشمی چوک پر رہائش اختیار کرلی، جو اس کام کا گڑھ ہے۔ نواز کے گھر والے ان سے خفا تھے کہ وہ یہ کام کیوں کررہے ہیں لیکن نواز نے پروا نہیں کی۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے یہ فن کئی استادوں سے سیکھا جن میں حمید سرور، حاجی اجمل اور آغا مختار سرفہرست ہیں۔
سرگزشت کے بانی ایڈیٹر اور مصنف سید انور فراز اس دور کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ وہ پاکستانی فلم انڈسٹری کا سنہری دور تھا۔ فلمی اداکار بے حد مقبول اور لوگوں کے آئیڈیل ہوا کرتے تھے، نوجوان، ان اداکاروں کے بالوں کے انداز اور پہناووں کی کاپی کرتے۔ صرف سنیما ہال میں ہی نہیں فلموں کے پوسٹرز اور بل بورڈز مختلف دکانوں پر بھی لگے ہوتے۔ اکثر جگہ ٹاٹ کا پردہ سا دیوار پر لٹکا ہوتا جس پر مختلف فلمی پوسٹرز چپکا دیے جاتے۔ یہ دراصل پبلسٹی کا سستا اور آسان طریقہ تھا۔ جو فنکار یہ پوسٹرز پینٹ کرتے انہیں فلموں کے ٹکٹ کی رقم میں بھی رعایت ملتی تھی۔
ایک اور سنیما آرٹ سے وابستہ فنکار احمد معین کا کہنا ہے کہ جب وہ اپنے کیریئر کے عروج پر پہنچ چکے تھے، ڈیجیٹل امیجز نے ہاتھ سے بنے ہورڈنگز کی جگہ لینا شروع کردی تھی۔ یہی وہ وقت تھا جب پاکستانی فلموں کی تیاری میں ڈرامائی کمی واقع ہوئی تھی۔ احمد نے تقریباً 18 سال قبل یہ پیشہ چھوڑ دیا تھا لیکن پھر بھی وہ دن یاد کرتے ہیں جب ان کے پاس کام کی زیادتی کے باعث ایک دن کی چھٹی کا وقت بھی نہیں ہوتا تھا۔
احمد نے یہ بھی بتایا کہ لاہور کا رائل پارک، جو اب بھی فلمی کاروبار کےلیے جانا جاتا ہے، میں بہت سی ورکشاپس ہوا کرتی تھیں جہاں تجربہ کار کمرشل فنکار کام کرتے تھے اور طلبا کو سکھاتے تھے۔ رائل پارک کے اردگرد بہت سے سنیما گھر تھے۔ ان میں سے اب کچھ کمرشل تھیٹر اور کچھ پارکنگ لاٹس یا ریسٹورنٹ میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ 12 سال پہلے تک، تقریباً 100 کے قریب فنکار فلم ہورڈنگز پر کام کررہے تھے اور ان کے بہت سے طالب علم بھی تھے لیکن اب آپ کو شاید ہی کوئی ایسا فنکار ملے گا۔
یاد رہے کہ فلم بل بورڈ آرٹسٹ کا کام ایک عام پینٹر سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ فلم ہورڈنگ کےلیے عموماً 200 فٹ چوڑائی اور 40 فٹ لمبائی کے کینوس پر کام کیا جاتا ہے۔ پینٹر اپنے کینوس کو ٹکڑوں میں تقسیم کرتا ہے، مثلاً اگر اسے بندوق پینٹ کرنا ہے تو وہ اسے تین یا چار حصوں میں پینٹ کرتا ہے اور پھر ان حصوں کو بورڈ پر جوڑ دیتا ہے۔ درست اندازہ لگانے کےلیے گراف کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ پہلے پینسل سے کھردرے خاکے بنائے جاتے ہیں پھر رنگوں کو چمک دار اور پائیدار بنانے کےلیے روغن اور مکس وارنش آئل سے رنگ بنایا جاتا تھا۔
سنیما آرٹ کے زوال کے اسباب پر بات کرتے ہوئے احمد معین کا کہنا تھا کہ کمپیوٹرز سے فرق ضرور پڑا تھا مگر اصل مسئلہ یہ تھا کہ جب فلمیں کم بننے لگیں تو پروڈیوسرز نے پبلسٹی کا کام کم کردیا اور پیسے بچانے لگے۔ وہ پینٹر کو پیسے دینے کے بجائے کمپیوٹرز سے ڈیجیٹل پرنٹس حاصل کرلیتے۔ لیکن کسی پینٹنگ کی خوبصورتی کو ڈیجیٹل تصویر میں کبھی بھی نقل نہیں کیا جاسکتا۔
نواز ملتانی کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس کام میں بہت کامیابی حاصل کی۔ ان کے ہاتھ سے بنے علامہ اقبال اور قائداعظم وغیرہ کے پورٹریٹ چیف منسٹر ہاﺅس پنجاب میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ مینار پاکستان پر بے نظیر بھٹو کی پورٹریٹ بھی بنائی تھی جس کا معاوضہ ایک لاکھ تیس ہزار ملا تھا۔
''لیکن اب حالات بدل چکے ہیں''۔ نواز نے آہ بھر کر کہا۔ کچرے کے ڈبوں پر پینٹ کرنے میں پیسے بہت زیادہ نہیں مگر کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے اس لیے کام کررہے ہیں مگر حکومت کو ہمارے لیے بھی سوچنا چاہیے۔ حکومت ہمارے لیے نئے مواقع پیدا کرے تاکہ سنیما آرٹ سے وابستہ فنکاروں کی بڑی تعداد کو روزگار مل سکے جو جانے کہاں دربدر ہوچکے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔