کیا اب میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے نہیں ہیں

خواتین کے لیے ’آسان طلاق‘ کا پرچار سماج پر مہلک اثرات مرتب کر رہا ہے

طلاق کو اب کوئی بری چیز نہیں سمجھا جاتا، فوٹو: فائل

"میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے ہیں اور بچے اس گاڑی کے مسافر ہیں۔ اگر دونوں میں سے ایک بھی پہیا بھی نکل جائے گا، تو گاڑی رک جائے گی اور بچے اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکیں گے، اس لیے ہمیں گاڑی کو روکنا نہیں ہے، اسے چلتا رکھنا ہے، تاکہ وہ اپنے مقام پر پہنچیں!"

ہم نے اپنے بچپن میں یہ خوب صورت روایتی پیغام ممتاز اداکار عمر شریف (مرحوم) کے ایک مزاحیہ پروگرام میں سنا تھا، جس میں وہ اپنے ایک کردار کو مخاطب کرتے ہوئے نہایت سنجیدگی سے یہ کہتے ہیں، جو نہایت تنگ آکر اپنی بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ ظاہر کر رہا ہوتا ہے۔ اب کہنے کو عمر شریف ہنسنے کھیلنے اور تفریحی اداکاری کے حوالے سے ہی جانے جاتے تھے، لیکن ان میں یہ بھی خصوصیت تھی کہ وہ اپنے پروگرام میں گاہے گاہے ایسے اہم اور سنجیدہ اصلاحی پیغامات بھی شامل کرتے رہتے تھے، جو سیدھا شائقین کے دل پر جا کر لگتے تھے۔ وقت آگے بڑھا، عمر شریف اور معین اختر جیسے بلند پایہ مزاحیہ فن کار اب ہم میں نہیں رہے، جو لطیفے سنانے میں بھی یہ ضرور سوچتے تھے کہ اس سے کسی طرح سماج کو کوئی اچھا پیغام بھی پہنچ جائے۔

میاں بیوی کے رشتے کو یوں تو پہلے بھی بہت زیادہ طنز ومزاح کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، جو کہ ہماری رائے میں اتنا نہیں ہونا چاہیے، لیکن ایسا تو کبھی سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ آپ مشہور ومعروف اداکار جوڑے کو ایک ملک گیر چینل کے منچ پر بٹھا کر ان سے شادی ہونے کا سوال کریں اور اس کے فوراً بعد یہ بھی پوچھ لیں کہ شادی کی کوئی 'میعاد' نہیں ہوتی؟ اور وہ جوڑا بھی اس بھونڈے اور نہایت غیر مناسب سوال کو ہنسی میں اڑا دے!

اب آپ خود بتائیے کہ کیا آپ کبھی اپنے ہاں آئے ہوئے مہمان میاں، بیوی سے اشاروں کنایوں میں بھی ایسے سوال پوچھنے کی جرأت کر سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں، لیکن اب آپ ملاحظہ کیجیے کہ یہ چیزیں عام کی جا رہی ہیں، یعنی طلاق کا لفظ جسے زبان پر لانا بھی ایک 'بدشگونی' سمجھا جاتا تھا، اسے آج کل اتنی سہولت اور آسانی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ گویا یہ کوئی مسئلہ ہی نہ ہو۔

کیا آپ نے یہ بات محسوس نہیں کی کہ ہمارے اردگرد اور پڑوسی ملک سے بہت زیادہ ایسی خبریں آنے لگی ہیں کہ فلاں مشہور جوڑا 'ہنسی خوشی الگ ہوگیا' یا پھر 'دل بھرنے' کے بعد یا 'باہمی رضا مندی' سے جوڑے نے اتنے سال بعد علاحدگی اختیار کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ پھر ایسی ناگوار خبروں اور واقعات کو اب برا بھی قرار نہیں دیا جاتا، بلکہ بعضے وقت تو سراہا بھی جاتا ہے اور ساتھ میں مغربی ممالک میں طلاق کے واقعات کو 'مثال' بنا کر پیش کیا جاتا ہے کہ دیکھیے کیسے ہنستے ہنستے طلاق ہوگئی، ایک ہمارے ہاں ہے کہ علاحدگی کے بعد ایک دوسرے کی عزتیں نیلام کرتے ہیں۔ یعنی آپ دیکھیے کہ یہاں نہایت سفاکی سے دو الگ الگ چیزیں خلط ملط کر دی جاتی ہیں۔

بلاشبہ یہ بات درست ہے کہ کسی کی ازدواجی زندگی اس کا ذاتی اور نہایت نجی معاملہ ہے۔ چاہے وہ کوئی مشہور شخصیت نہ بھی ہو، تب بھی بُردباری کا تقاضا یہی ہے کہ اس حوالے سے بہت زیادہ خیال رکھا جائے، اور علاحدگی کے بعد اچھے برے معاملات کو اپنے تک ہی رکھا جائے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ 'طلاق' کو "کوئی حرج نہیں!" اور "کوئی ایسا مسئلہ تھوڑی ہے" یا "اچھی بات ہے!" جیسی سطح جتنا آسان بنا کر دکھانا اب سماج پر بہت زیادہ مہلک اثرات مرتب کرنے لگا ہے۔

آج کل طلاق کے حوالے سے سب سے زیادہ جس چیز کو فروغ دیا جاتا ہے، وہ یہ ہوتا ہے کہ 'زندگی بھر لڑنے مرنے' یا تاعمر 'ظلم' برداشت کرنے سے بہتر ہے کہ ایک بار علاحدگی ہی اختیار کر لی جائے۔ اب یہاں ہمیں تھوڑی دیر رک کر یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ کیا ہم کوئی نئے انسان ہیں یا پھر یہ شادی بیاہ کا سلسلہ کوئی آج کے زمانے کی بات ہے؟ یقیناً نہیں، یہ شادی ہمارے سماج کی اکائی اور ایک نئے خاندان کی بنیاد چلی آرہی ہے، جس پر نسل انسانی کی بقا کا انحصار ہے۔ کیا ہم اپنے سماج کے اس اہم ترین شعبے کو صرف اسی تناظر میں دیکھیں کہ زندگی بھر کے روگ پالنے سے بہتر ہے کہ دونوں اپنے اپنے راستے الگ کرلیں۔

کہاں تو پہلے ہماری کہانیوں میں 'سات جنموں تک ساتھ دینے' اور 'سات جینے اور ساتھ مرنے' کی قسمیں ہوا کرتی تھیں، لیکن کیسے آج ان کی جگہ نام نہاد 'میری مرضی، میری مرضی' کی چکا چوند نے گویا ہماری عقل ہی چندھیا کر رکھ دی ہے۔ ظاہر ہے پہلے بھی کوئی کسی فرد پر جبر کرنے کے خلاف ہی تھا، لیکن کہیں نہ کہیں عورت اور مرد کو ایک دوسرے کی مرضی پر چلنا ضروری ہوتا ہے، یہی تو اس رشتے کا حُسن ہوتا ہے، دنیا اسی ساجھے داری ہی سے آگے بڑھتی ہے۔


اب ایک بات یہ بھی کہی جانے لگی ہے کہ عورت جب کماتی ہے تو اپنے جیون ساتھی کے لیے اس کا رویہ کچھ اور ہی ہو جاتا ہے، جب کہ مرد اگر کفیل ہو تو ایسا نہیں ہوتا اور یہ کہ کماﺅ پوت عورت کا گھر نہیں بستا وغیرہ۔ اب یہاں ضروری نہیں ہے کہ ہر جگہ صرف عورت ہی اس کی ذمہ دار ہو، لیکن ہمیں بہ حیثیت تجزیہ کار اس چیز پر بات تو کرنی چاہیے اور خواتین کی معاشی خودمختاری کو ان کے مستحکم خاندان سے متصادم کیوں سمجھا جانے لگا ہے، نہ کہ ہمارا رویہ یہ ہو کہ علاحدہ ہونے والی خواتین کی حوصلہ افزائی کریں کہ اچھا کیا علاحدگی اختیار کرلی۔

بھئی، اگر واقعی مسائل حل نہ ہوں، تو بلاشبہ ازدواج میں جدا ہو جانا ہی بہتر امر ہے، لیکن بڑھتی ہوئی شرح طلاق تو یہ بتا رہی ہے کہ یہ "نبھاﺅ نہ ہونا" یا "مزاج نہ ملنا" درحقیقت ازدواج کے درمیان بڑھتی ہوئی عدم برداشت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ یعنی گھر کے چھوٹے موٹے اور زندگی کے ہلکے پھلکے اختلاف بڑھا کر انا کا مسئلہ اور بات کا بتنگڑ بن گیا اور لیجیے، دیکھتے ہی دیکھتے بات انتہا کو جا پہنچی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سماج میں 'آسان طلاق' کا خوب پروپیگنڈا اور اس کی حوصلہ افزائی بہت زو شور سے کی جا رہی ہے۔

ہمیں تو کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ یہ جو بڑی نام وَر شخصیات برسوں کی شادی شدہ زندگی کے بعد یکایک اپنے شریک حیات سے علاحدہ ہونے کا اعلان کر دیتے ہیں اور اسے بہت عام سی بات بھی باور کراتے ہیں۔ یہ سب کچھ طے شدہ منصوبے کے تحت ہی ہو رہا ہے، تاکہ آزادی اور 'سکون' کے نام پر اس نظریے اور اس فکر کو فروغ دیا جائے کہ 'طلاق' ہونا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ یہاں ہم پھر وہی بات کہیں گے کہ جہاں کوئی چارہ نہ ہو تو وہاں بے شک 'طلاق' کو حلال رکھا گیا ہے، لیکن یہ بھی یاد رکھا جائے کہ حلال چیزوں میں اسے ناپسندیدہ ترین شے قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا اگر اپنی بیٹی کو یہ نصیحت کرنا کہ "بیٹی لال میں جا رہی ہو سفید میں آنا" یا "ڈولی میں جا رہی ہو، ڈولے میں آنا" جیسی فکر کو یک سر 'دقیانوسی' کہا جائے، تو ساتھ میں اس بات کی فکر بھی کر لی جائے کہ آخر اب ہمارے گھر اتنے زیادہ کیوں ٹوٹ رہے ہیں؟ کوئی 'انسانی حقوق' یا 'حقوق نسواں' کا عَلم بردار کبھی شرح طلاق میں اضافے کی وجوہات پر بھی کوئی سروے کوئی اعداد وشمار جاری کیا کرے، تاکہ ہمیں پتا تو چل سکے کہ اس حوالے سے کہاں 'بنت حوا' ظلم کا نشانہ بن رہی ہے اور کہاں کہاں درحقیقت اس کے رویوں میں بھی اب اصلاح کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں بچوں کے حقوق کی بھی بہت سی تنظیمیں موجود ہیں، لیکن کبھی کوئی تنظیم اس طرح ٹوٹ جانے والے گھروں کے بچوں کے حوالے سے کہیں ہاہاکار نہیں مچاتی، کوئی مظاہرے، ریلی اور سیمینار نہیں کراتی کہ ذرا دیکھیے! والدین کی طلاق کے بعد سماج کا یہ مستقبل کتنی دشواریوں کا شکار ہو رہا ہے؟ والدین کی انا کس طرح ننھی کلیوں کے عہدِ طفیلی کا بیڑا غرق کر رہی ہے؟ اور وہ ننھے بچے جب ماں باپ کو ایسے لڑتا جھگڑتا ہوا دیکھتے ہیں، یا ان کے درمیان علاحدگی جیسی نوبت کو سہتے ہیں، تو ان کی شخصیت میں کتنا بڑا خلا پیدا ہو جاتا ہے؟ وہ کیسے اتنی معصوم عمر میں امی یا ابو میں سے کسی ایک کا انتخاب کر سکتے ہیں؟ کہیں تو کچھ گڑ بڑ ہے ناں، کیا ان تنظیموں کا ایجنڈا 'حقوق نسواں' یا 'انسانی حقوق' ہی ہے یا یہ اس کی آڑ میں اپنے کچھ اور ہی مخصوص مقاصد کی تکمیل چاہتی ہیں؟

یہاں ہمیں کوئی خواتین کے حقوق کا مخالف یا دقیانوسی سوچ کا حامل قرار نہ دے دے، اس لیے عرض کیے دیتے ہیں کہ جب ہم سماج میں کسی بھی روپ میں موجود ظالم مرد کو کسی رعایت کا مستحق قرار نہیں دیتے اور اپنی بہن اور بیٹی کو کم تر سمجھنے والوں کی خوب اچھی طرح 'خبر' لیتے ہیں، وہیں ہم بہت احترام کے ساتھ کبھی دوسری جانب اصلاح یا توجہ کی گنجائش کی آواز بلند کرنے کا بھی تھوڑا سا حق رکھتے ہیں۔ کیوں کہ توازن تو سب جگہ قائم ہونا بہت ضروری ہے۔ پھر کبھی کبھی تصویر کے دوسرے رخ یا ایسے زمینی حقائق کا اظہار کر لینا چاہیے کہ جو کوئی اور نہ کر رہا ہو۔

باہمی سمجھوتے کے لیے لچک دکھانا کمزوری نہیں!

ہمارے سماجی راہ نماﺅں اور مفکرین کو کچھ تعین تو کرنا چاہیے کہ یہ آج کل میاں بیوی کے 'نبھاﺅ' نہ ہونے کی وجوہات دراصل ہیں کیا؟ یہ بات تو اٹل ہے کہ جہاں بھی کوئی دو افراد ملتے ہیں، وہ چاہے کتنے ہی ہم خیال اور اتفاق رائے رکھتے ہوں، لیکن کہیں نہ کہیں ان میں بھی اختلاف پیدا ہو ہی جاتا ہے، پھر یہ میاں بیوی تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ساتھ ہوتے ہیں، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ دونوں اپنی اپنی انا کے قیدی بن کر رہیں اور یہ بھی چاہیں کہ 'نبھاﺅ' ہو جائے، نبھاﺅ کرنے کے لیے تو دونوں کو ایک دوسرے کے لیے صلہ رحمی اور گنجائش پیدا کرنی پڑتی ہے۔ اگر ازدواج ایک دوسرے کے لیے یہ ایثار اور جھکاﺅ نہ لائیں، تو پھر تو شاید دنیا کی کوئی ایک شادی بھی کام یاب نہ ہو سکے! یہ بندھن دائمی اور ہمیشہ اچھی طرح اور سلیقے سے نبھائے جانے کے لیے ہی قائم ہوتا ہے، اس میں ساجھے داری کا دو طرفہ احساس ہونا لازمی ہے، اب بہترین صورت تو یہی ہے کہ پلڑا برابر برابر ہو اور ایک دوسرے کے احساسات کو خوب سمجھا جائے، دل کھول کر قدر دانی کی جائے، کبھی تلخ و ترش معاملہ ہو تو اِسے باہم فاصلہ بننے کی نوبت سے پہلے پہلے سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ سنبھال لیا جائے، لیکن بقول 'حقوق نسواں' کے کچھ نام لیواﺅں کے کہ "مالی طور پر خودمختار خاتون کو دبایا نہیں جا سکتا!" پھر 'حقوق نسواں' کے نام پر اکثر دانستہ یا غیر دانستہ طور پر خواتین کو مرد ہی سے اتنا متنفر کر دیا جاتا ہے، کہ عام سوچ یہی پیدا ہونے لگتی ہے کہ سارے مرد ہی اپنی سرشت میں کوئی بہت ظالم مخلوق ہوتے ہیں یا ہر مرد عورت کو کم تر ہی سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ازدواج کے درمیان 'نبھاﺅ' کے امکان محدود تر ہو جاتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی سمجھانے کی ضرورت ہے کہ آخر جب عورت کو کم تر سمجھنے کی سوچ غلط ہے، تو پھر مرد کو کم تر سمجھنے کی سوچ بھلا کیسے درست ہو سکتی ہے۔ اس سوچ کی بھی تو اصلاح ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ صبح وشام مختلف ذرایع سے یہ باور کرانا کہ ہر فرد سب سے الگ اور تنہا زندگی گزار سکتا ہے اور وہ صرف اپنی زندگی اور اپنی دنیا کا مالک کُل ہے۔ نہایت غیر مناسب اور مہلک سوچ ہے۔ ہر فرد کی اپنی ذاتی زندگی بھی ہے، لیکن اس کے باوجود بھی وہ کسی نہ کسی طور دوسروں پر انحصار کرتا ہے اور اسی طرح دوسرے بھی اس پر انحصار کرتے ہیں۔ اس میں قطعی کوئی برائی، غلامی یا ہتک کی بات ہی نہیں ہے، یہ عین فطری امر ہے اور اس احساس میں توڑ پھوڑ پیدا کرنا براہ راست انسانی جذبات ونفسیات کو غیر متوازن کرنے کا باعث ہوتا ہے، جس سے پھر دیگر سماجی مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔

"طلاق لینے کے لیے اپنے بچوں کے بڑے ہونے کا انتظار کیا!"

ہمیں ایک جاننے والوں کی ایما پر 'میڈیا' کے حوالے سے ایسی ہی ایک "بیٹھک" میں شرکت کرنے کا موقع ملا، جہاں مندرجہ بالا "حقوق" پر بات کرنے کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ آپ لوگ فلاں فلاں موضوعات پر مضامین لکھیے، سروے کیجیے، فیچر بنائیے، انٹرویو کیجیے، ویڈیو بنائیے یا کہیں خبری پیکیج نشر کیجیے اور ہمارے اتنے اتنے ہزاروں روپے کے انعامات کے "مقابلے" میں شامل ہو جائیے! تب ہمیں سمجھ میں آیا کہ ذرایع اِبلاغ کو مخصوص تبدیلی کے لیے کیسے براہ راست ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور کس طرح طے شدہ منصوبہ بندی کے ذریعے سے مختلف 'ایوارڈز' اور نام نہاد 'انعامات' کے نام پر صرف ایسے موضوعات ہی کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ یعنی لکھنے اور بولنے والوں کو ایوارڈ وغیرہ کے لالچ دے کر باقاعدہ سماج کے انھی موضوعات کو اجاگر کیا جا رہا ہے، جسے بہ ظاہر 'حقوق' اور 'آزادی' کا نام دیا جا رہا ہے، لیکن اس کے اثرات اور مقاصد بڑے دور رَس اور خطرناک ہیں۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ عصمت دری کے واقعات میں بہت آسانی سے یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ یہ عمل صرف اسی صورت میں غلط ہے، جب فریقین رضا مند نہ ہوں، ورنہ کوئی بات نہیں! اب آپ خود بتائیے کہ بہ ظاہر ایک سادہ سی لگنے والی یہ بات کیا اتنی سیدھی ہے؟ ایسے ہی خواتین کے حقوق کے نام پر اکثر موضوعات کے پیچھے 'غیر سرکاری تنظیموں' کے وہی مقاصد کار فرما ہوتے ہیں، جس میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ کیا ہوا، یہ تو ہمارے سماج کی سچائی تو ہے! کوئی حرج نہیں، اس پر بھی بات ہونی چاہیے، اور بہت کھل کر ہونی چاہیے! کوئی مسئلہ نہیں، سب کے سامنے ہونی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ کوئی یہ بات نہیں کرتا کہ کیا یہ 'سچائی' آج ہی پیدا ہوئی ہے؟ کیا پہلے یہ سب مسائل اور ان کے حل نہیں کیے جاتے رہے ہیں؟ کیا عام ذرایع اِبلاغ اور شہروں کے بیچ چوراہے پر 'دیو قامت' برقی بورڈ پر اس موضوع کا ڈھنڈورا پیٹنا ضروری ہے؟ اس کی وجہ یہی محسوس ہوتی ہے کہ ان موضوعات پر دراصل جھجھک اور شرم کو پَرے دھکیلنا مقصود ہے، تاکہ سماج کو ویسا بنانے کی راہیں ہموار ہو سکیں، جیسے اب 'عالمی ثقافت' کا تقاضا ہے۔
بعینہ اب اسی پیغام کی بابت ہمیں ایسا لگتا ہے کہ اب ہم اس خوب صورت روایتی نصیحت "میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے اور بچے اس گاڑی کے مسافر ہیں!" سے دست بردار ہو چکے ہیں! یا پھر یہ نصیحت 'زائد المیعاد' بنا دی گئی ہے ذرا غور کیجیے کہ کیا شادی ایک حتی الامکان بسائے جانے والے گھر کی بنیاد نہیں ہونی چاہیے؟ طلاق جیسے تلخ اور ناپسندیدہ ترین لفظ اور اس پر عمل کو بڑھاوا دینے کی کوششوں پر بند نہیں باندھنا چاہیے؟ یا پھر ہمارے ملک کی ایک مشہور شخصیت کے بقول کہ انھوں نے اپنے میاں سے طلاق لینے کے لیے اپنے بچوں کے بڑے ہونے کا انتظار کیا، یعنی وہ اپنے جیون ساتھی کی ایک تلخی اورغلطی کو دسیوں برس تک اپنے دل میں لیے بیٹھی رہیں اور اپنے بچوں کی شادی کے بعد اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کر دیا اور پھر الگ بھی ہوگئیں! ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا یہ رویے ہمارے سماج اور ہمارے خاندانی نظام کے لیے سود مند ہیں یا اسے کسی دیمک کی طرح کھانے لگے ہیں۔ جب فطرت نے نباتات تک میں مذکر اور مونث کے سلسلے کو روا رکھا ہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اشرف المخلوقات میں اِس ساجھے داری کی ایک منظم روایت شادی کو ناپسندیدہ کہہ کر ہدف بنا لیا جائے۔
Load Next Story