واٹس ایپ کی مصنوعی ذہانت سے بنے اسٹیکر فیچر کی آزمائش
اس فیچر کو استعمال کرتے ہوئے صارفین تحریری متن سے اسٹیکر بنا سکیں گے
ٹیکنالوجی کمپنی میٹا کی ذیلی ایپلی کیشن واٹس ایپ نے مصنوعی ذہانت سے بنے اسٹیکر کے فیچر کی آزمائش شروع کر دی۔
واٹس ایپ بِیٹا انفو کی رپورٹ میں اینڈرائیڈ واٹس ایپ بِیٹا ورژن میں مصنوعی ذہانت سے بنے اِن اسٹیکرز کی نشان دہی کی، جس کو استعمال کرتے ہوئے تحریری متن سے اسٹیکر بنائے جاسکتے ہیں۔
تاہم، یہ بات واضح نہیں ہے کہ اس فیچر کے لیے واٹس ایپ نے کونسے مصنوعی ذہانت کے ماڈل کا انتخاب کیا ہے۔ واٹس ایپ بِیٹا انفو کے مطابق یہ اسٹیکر 'میٹا کی ایک خفیہ ٹیکنالوجی' کا استعمال کرتے ہوئے بنائے جاتے ہیں۔
فیچر سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بالکل ویسے ہی کام کرتا ہے جس طرح مِڈ جرنی یا اوپن آے آئی کے DALL-E ماڈل صرف تحریر کی مدد سے تصویر بنا کر پیش کرتے ہیں۔
فیچر سے ممکنہ طور پر صارفین مخصوص تصویر بنا کر بطور اسٹیکر واٹس ایپ پر دوستوں یا گروپ میں شیئر کر سکیں گے۔
واٹس ایپ بِیٹا انفو کے مطابق مصنوعی ذہانت پر مبنی فیچر سے بنے ان اسٹیکرز کو باآسانی پہچانا جا سکے گا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ممکنہ طور پر اسٹیکرز پر کسی قسم کا واٹر مارک یا کوئی اشارہ ہوگا جو واضح کرے گا کہ ان کو جینیریٹِیو اے آئی کا استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا ہے۔ ایسا کرنے سے گمراہ کن تصاویر اور افواہیں پھیلانے کے عمل کو روکا جاسکے گا۔
واٹس ایپ بِیٹا انفو کی رپورٹ میں اینڈرائیڈ واٹس ایپ بِیٹا ورژن میں مصنوعی ذہانت سے بنے اِن اسٹیکرز کی نشان دہی کی، جس کو استعمال کرتے ہوئے تحریری متن سے اسٹیکر بنائے جاسکتے ہیں۔
تاہم، یہ بات واضح نہیں ہے کہ اس فیچر کے لیے واٹس ایپ نے کونسے مصنوعی ذہانت کے ماڈل کا انتخاب کیا ہے۔ واٹس ایپ بِیٹا انفو کے مطابق یہ اسٹیکر 'میٹا کی ایک خفیہ ٹیکنالوجی' کا استعمال کرتے ہوئے بنائے جاتے ہیں۔
فیچر سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بالکل ویسے ہی کام کرتا ہے جس طرح مِڈ جرنی یا اوپن آے آئی کے DALL-E ماڈل صرف تحریر کی مدد سے تصویر بنا کر پیش کرتے ہیں۔
فیچر سے ممکنہ طور پر صارفین مخصوص تصویر بنا کر بطور اسٹیکر واٹس ایپ پر دوستوں یا گروپ میں شیئر کر سکیں گے۔
واٹس ایپ بِیٹا انفو کے مطابق مصنوعی ذہانت پر مبنی فیچر سے بنے ان اسٹیکرز کو باآسانی پہچانا جا سکے گا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ممکنہ طور پر اسٹیکرز پر کسی قسم کا واٹر مارک یا کوئی اشارہ ہوگا جو واضح کرے گا کہ ان کو جینیریٹِیو اے آئی کا استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا ہے۔ ایسا کرنے سے گمراہ کن تصاویر اور افواہیں پھیلانے کے عمل کو روکا جاسکے گا۔