سمر قند کی ایک ندی
اسلامی سپر پاور کے زوال کی آخری دو صدیوں میں سب کچھ ہوا مگر اسلام کی تبلیغ نہیں ہوئی
سمر قند شہر سے باہر ایک گائوں جاتے ہوئے جب میں نے ڈرائیور سے اس ندی کا نام پوچھا جس کا پانی بہت صاف تھا جیسے کسی چشمے کا تو اس نے بتایا کہ اس چھوٹی سی ندی کو ہمارے ایک شاعر نے ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا ہے۔
اس ندی کا نام ہے 'مُولیاں'۔ ایک شعر ہے بوئے جوئے مُولیاں آئیدہمے۔ یاد یار مہرباں آئد ہمے کہ مولیاں ندی کے پانی کی خوشبو آ رہی ہے کہ یار مہرباں کی یاد تازہ ہو رہی ہے۔ شاعر غالباً عراقی تھا جس کی عمر وسط ایشیا کی ریاستوں کے رئوسا کے درباروں میں گزر گئی۔ اسی شاعر کو کسی نے ناکردہ گناہ میں ملوث کردیا تو اس نے فریاد کی ،گناہ کوئی اور کرتا ہے لیکن بدنام عراقی کو کیا جاتا ہے۔
عراق راچرا بدنام کردند یہ مصرع ضرب المثل بن گیا۔ اس ڈرائیور نے اسکول میں فارسی پڑھی تھی اور عراقی کا وہ شعر اسے یاد تھا جو مولیاں ندی کی یاد دلاتا تھا۔ اتفاق سے میں نے بھی یہ شعر پڑھا سنا تھا۔ آٹھ نو مسلمان ریاستوں پر مشتمل وسطی ایشیاء کا یہ خطہ مسلمانوں کے علوم و فنون کا مرکز تھا۔ ہمارے ہاں دینی علوم کا بنیادی ذخیرہ اس خطے کے علماء نے ترتیب دیا تھا۔
فقہ حنفی کی بنیادی کتاب ہدایہ اسی خطے کے ایک عالم کی تالیف ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب شاعروں اور علماء کا کوئی ذریعہ روز گار نہیں ہوا کرتا تھا اور علم دوست اور ادب پسند رئوسا کے درباروں سے وابستہ ہو کر زندگی بسر کرتے تھے۔ تاریخ میں شعراء اور علماء کے ان تلاش روز گار کے سفروں کے ریکارڈ موجود ہیں۔ مغل دور میں ہندوستان میں کئی ایسے دربار اور مرکز تھے جہاں ان لوگوں کی بڑی قدر کی جاتی تھی۔
شاعر توجس امیر کے ہاں حاضر ہوتے تھے اس کی مدح میں کچھ کہہ کر ساتھ لاتے تھے اور اس کی پذیرائی اور مقبولیت پر شاعر بھی مقبول ہوتا تھا۔ یوں سنتے ہیں کہ فردوسی نے بھی ہندوستان کا قصد کیا تھا اور اس کے لیے 'طوطیان ہند' کا لفظ استعمال کیا تھا لیکن بعد میں وہ اس طرف نہ آ سکا ورنہ عجیب زمانہ تھا کہ ہندوستان کی سرکاری اور علمی زبان بھی فارسی تھی اور ایران تو فارسی کا مرکز تھا ہی اس لیے ان دونوں ملکوں کے درمیان آمدورفت کا علمی سلسلہ جاری رہتا تھا۔
وسطی ایشیا کی اکثریت کی زبان بھی فارسی تھی اس طرح یہ وسیع و عریض خطہ ایک تہذیب اور ثقافت اور زبان میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ تھا۔ مجھے یاد ہے کہ آزادی کے بعد لاہور میں ایک تقریب میں پاکستان میں مقیم ایرانی سفیر نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ آزاد پاکستان کی زبان انگریزی نہیں فارسی ہونی چاہیے۔ شاید آپ کو معلوم ہو کہ سکھ حکومت کی سرکاری زبان بھی فارسی تھی اور غلامی سے پہلے یہی سرکاری زبان تھی۔
ہندوستان میں انگریز حکومت نے یہاں کی زبان بدل دی اور انگریزی کو ذریعہ تعلیم اور روز گار بنا دیا۔ نوکری ان کو ملتی تھی جن کی زبان انگریزی ہوتی تھی۔ ہندوئوں نے خوشی خوشی انگریزی اپنا لی لیکن مسلمانوں نے اس میں خاصا تامل کیا اور وہ دنیا داری میں پیچھے رہنے لگے چنانچہ علی گڑھ تحریک اسی کو پورا کرنے کے لیے تھی۔
سرسید نے بھانپ لیا تھا کہ سکہ رائج الوقت سے انکار میں نقصان ہو گا اس طرح حالات کی مجبوری نے مسلمانوں کو انگریزی زبان کی طرف مائل کیا ورنہ مسلمان عربی و فارسی کو ترک کرنے پر تیار نہیں تھے۔ عربی و فارسی کی ثقافت سے برطانوی ثقافت کی طرف علمی رجحان مفید ہی ثابت ہوا۔ ایک زمانہ تھا جب مسلمان اس دنیا کی سپر پاور تھے تب تو حالت یہ تھی کہ یورپ کے شہزادے عربی لباس پہنا کرتے تھے۔
مسلمانوں نے جب صرف حکومت کو ہی مقصد بنا لیا اور اسلام کی تبلیغ اور اس کی علمی دوایات کو پس پشت ڈال دیا تو عرب محض حکمران بن کر رہ گئے۔ مثلاً ہندوستان پر حکومت تو کی لیکن اسلام کی ترویج کی کوئی کوشش نہ کی جس کا نتیجہ یہی نکلا کہ جب کوئی مسلمانوں سے بڑی طاقت آ گئی تو اس نے مسلمانوں کی حکومت کو ختم کر دیا اور اس کے ساتھ ہی اسلامی رجحانات بھی ختم ہو گئے۔
ہندوستان اس کی بہترین مثال ہے ویسے بھی دنیا بھر میں اسلامی سپر پاور کے زوال کی آخری دو صدیوں میں سب کچھ ہوا مگر اسلام کی تبلیغ نہیں ہوئی ورنہ اس سے قبل اسلام جہاں بھی گیا وہاں کی آبادی رفتہ رفتہ عدل و انصاف اور اسلامی مساوات کی وجہ سے اسلام کے قریب آ گئی۔ آج عرب دنیا کی عربی زبان اسی دور کی یاد گار ہے ورنہ یہاں کی اصل زبان عربی نہیں تھی اور نہ ہی مذہب اسلام تھا۔
اسلام عربی زبان اور اسلامی علوم و فنون کسی اسلامی حکومت کے بعد رائج ہوئے، وجہ صاف ہے کہ انھوں نے بہتر حکومت دی۔ ہمارے بزرگ آج بھی برطانوی دور کو یاد کرتے ہیں اس لیے کہ اس دور میں کرپشن نہ ہونے کے برابر تھی اور انصاف تھا۔ ہر ضلع کا انگریز ڈپٹی کمشنر' ایس پی اور سیشن جج انگریز ہوتا تھا جس کا ہندوستان میں کوئی رشتے دار نہیں ہوتا تھا اور وہ تاج برطانیہ کی خاطر انصاف کرتا تھا۔ انصاف انسان کو کبھی نہیں بھولتا۔ مسلمانوں نے جب تک انصاف کیا عدل کی حکومت قائم کی تو کسی بھی قوم نے ان کی تائید ہی کی لیکن جب وہ اس سے پھر گئے تو لوگوں کے دل بھی پھر گئے۔
بات وسطی ایشیا کے ایک شاعر اور پانی کی ندی سے شروع ہوئی تھی ان دنوں ذہن آسودہ نہیں ہے ایک اضطراب ہے اور بے چینی جو دل و دماغ کو ایک جگہ ٹکنے نہیں دیتی۔ کہاں سمر قند کا ذکر اور کہاں لاہور۔ اس شہر میں کون ہیں، امریکی ہیں، انگریز ہیں یا کوئی اور ہے۔ ہماری تہذیب اور زبان کا یہ حال ہے کہ پنجاب کے اسکولوں میں انگریزی سے تعلیم شروع کی جا رہی ہے اس سے بڑی بے دماغی کیا ہو گی۔
بہر حال فی الحال آپ سمر قند کی ندی مولیاں کو یاد کیجیے۔ سمر قند کے دریائوں کے نام عجیب ہیں مثلاً دریائے سیاہ جس سے گزر کر امام بخاری کے مرقد تک جاتے ہیں۔ اب اس پراگندہ ذہن کو اجازت دیں اور عراقی شاعر کی بوئے جوئے مولیاں کو یاد کریں مگر اسے ہی کیوں اسے میری پریشان فکری سمجھ لیں۔