مصنوعی ذہانت کی حکمرانی
مشینیں اگر انسان سے زیادہ ذہین وطاقتور بن گئیں تو کیا وہ کرہ ارض کی حاکم بن جائیں گی؟…سنسنی خیز داستان
امریکا و یورپ کے سائنس دانوں کا دعوی ہے کہ بنی نوع انسان کے لیے ایک اور بڑا خطرہ نمودار ہو چکا یعنی سوچنے سمجھنے والے کمپیوٹر سسٹم کا ارتقا! ان کے نزدیک یہ خطرہ انسانیت کو مٹا دینے کے دیگر خطرات مثلاً عالمی گرماؤ (گلوبل وارمنگ)اور ایٹمی اسلحے سے بھی بڑا ہے۔
کیونکہ اس خطرے نے عملی جامہ پہن لیا تو انسان مشینوں کا غلام وماتحت بن جائے گا۔تب وہ کرہ ارض کی حکمرانی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔کمپیوٹر سسٹم سے مراد سافٹ وئیر اور سپر کمپیوٹر پہ مشتمل نظام ہے جس کی ایک حالیہ اور تہلکہ خیز مثال جی پی ٹی۔4 چیٹ بوٹ کی صورت ہمارے سامنے آ چکی۔
مشین کا ارتقا
اس معاملے کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ سوچنے سمجھنے کی قدرت رکھنے والے کمپیوٹر سسٹم خود انسان کی ایجاد ہیں۔تاہم سائنس دانوں کا دعوی ہے کہ مستقبل میں یہ مشینیں عقلی و جسمانی طور پہ انسانوں سے زیاد طاقتور ہو کر انھیں غلام بنا سکتی ہیں۔
یوں خالق ہی اپنی تخلیق کا ماتحت بن جائے گا۔امر واقعہ یہ ہے کہ صورت حال دیکھی جائے تو سائنس دانوں کے خدشات بجا نظر آتے ہیں۔ہزاروں سال پہلے قصّے کہانیوں میں انسان نے مشینوں کا تذکرہ کیا جو مختلف کام انجام دے سکتی تھیں۔
انھیں اس لیے تخلیق کیا گیا کہ وہ روزمرہ کاموں میں انسان کا ہاتھ بٹائیں اور یوں اس کی زندگی آسان بنا دیں۔رفتہ رفتہ ریاضی اور میکانیات کے علوم معرض وجود میں آئے تو مشینیں دیومالا سے نکل کر حقیقت کا روپ دھار گئیں۔پہلے پہل چین ، بھارت اور یونان کے موجدوں نے مختلف مشینیں بنائیں۔عرب مسلم موجدوں نے اس فن کو مذید ترقی دی۔اس ضمن میںاسماعیل الجزری (متوفی 1206 ء )کا نام قابل ذکر ہے جو ہمہ قسام کی مشینیں اور روبوٹ بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔
الخوارزمی کا بنایا ریاضیاتی عمل
مسلم سائنس دانوں کے علم کو یورپی ماہرین نے ترقی دی۔کم پاکستانی جانتے ہیں کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت والے کمپیوٹر سسٹم جن علوم سے وجود میں آئے ہیں یعنی کمپیوٹر سائنس ، مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence)اور مشین لرننگ (Machine learning)،انھیں ترقی دینے میں ایک مسلمان ریاضی داں، محمد بن موسی الخوارزمی (متوفی 850 ئ) کے تخلیق کردہ سائنسی عمل نے بنیادی کردار ادا کیا۔
انھوں نے اپنی کتب میں تحریر کیا کہ ریاضی کی ترتیب وار اور منظم ہدایات و احکامات کے ذریعے کوئی بھی مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔یہ عمل آج ''الگورتھم ''(Algorithm) کہلاتا ہے اور جسے عربی، فارسی و اردو میں ''خوارزمیہ ''کہا جاتا ہے۔انگریزی کی اصطلاح الخوارزمی کے نام سے نکلی ہے۔آج الگورتھم کا مطالعہ کمپیوٹر سائنس میں ایک باقاعدہ شاخ کی حیثیت رکھتا ہے۔
قدرت الہی میں الگورتھم کی بہترین مثال جاندار کا دماغ ہے۔اس دماغ میں ہمہ اقسام کے اربوں خلیے آپس میں تال میل کر کے، نہایت ترتیب وار، قدم بہ قدم طریقے سے ایسے عمل انجام دیتے ہیں جن کے ذریعے انسان سمیت تمام جاندار سوچتے، سمجھتے اور سبھی افعال اپناتے ہیں۔
سوچ یا خیال جنم لینے ہی سے جاندار میں تمام افعال انجام پاتے ہیں۔یہی وجہ ہے اگر انسان یا حیوان میں سوچ کا یہ منظم الگورتھم نظام کسی وجہ سے خراب ہو جائے تو وہ پاگل ہو جاتا ہے۔وہ پھر کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کر پاتا۔
خیال حقیقت بننے لگا
بیسویں صدی میں سائنس دانوں کو خیال آیا کہ اگر انسانی دماغ سے ملتا جلتا مصنوعی یا مشینی دماغ بنا لیا جائے تو انسان کے ہاتھ ایک مفید شے لگ جائے گی۔وہ پھر اپنے کاموں میں اس مصنوعی دماغ سے مدد لے سکے گا۔
اس سوچ نے پہلے ریاضیاتی نظریات کا روپ اختیار کیا۔پھر ننھے منے ٹرانسسٹروں، ننھی منی چپوں (Chip) اورچھوٹے سرکٹ بورڈوں پہ مشتمل کمپیوٹر اور نت نئے سافٹ وئیر بننے لگے تو یہ خیال حقیقت کا روپ دھارنے لگا۔شروع میں ایسے مصنوعی دماغ یا کمپیوٹر سسٹم وجود میں آئے جو کوئی معین کام کر سکتے تھے۔
سافٹ وئیر جو کام کمپیوٹری مشین کرنے کو کہتا، وہ اسے انجام دے ڈالتی۔فیکٹریوں میں کام کرتے روبوٹ اسی قسم کا مصنوعی دماغ رکھتے ہیں۔یہ ازخود کوئی کام نہیں کر سکتے۔انسان ساختہ سافٹ وئیر میں جو ہدایات لکھی ہوتی ہیں،روبوٹ یا مشین صرف انہی کے مطابق کام کرتی ہے ۔
''مشین لرننگ ''
کمپیوٹر سائنس، ریاضی، عضویات، میکانیات، حیاتیات اور طبعیات کے علوم میں مسلسل ترقی نے مصنوعی ذہانت کے بطن سے ایک نئی شاخ ''مشین لرننگ '' کو جنم دیا۔آج مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اول الذکر سے وابستہ کمپیوٹر سسٹم میں بالعموم سافٹ وئیر ان سے کام کراتے ہیں۔یہ سسٹم اپنے اپنے سافٹ وئیر کے مطابق مخصوص کام ہی کر سکتے ہیں۔
مثال کے طور پہ ایک روبوٹ کو یہ سکھایا گیا کہ وہ ہوٹل میں گاہک کو کھانا پیش کرے گا۔مصنوعی ذہانت پہ مبنی یہ مشین صرف یہی کام کرے گی۔وہ برتن نہیں دھو سکتی یا فرش صاف نہیں کر سکتی۔یہ کام کرنے کے لیے الگ روبوٹ درکار ہوں گے جن کے اپنے مخصوص سافٹ وئیر ہوں گے۔گویا مصنوعی ذہانت کے شعبے میں سافٹ وئیر اہمیت رکھتے ہیں۔
مصنوعی نیورل نیٹ ورک
مشین لرننگ پہ مبنی کمپیوٹر سسٹم ڈٰیٹا یا معلومات کی مدد سے نئے کام کرنا بھی سیکھ سکتے ہیں۔یہ عمل الگورتھم نظام کے ذریعے انجام پاتا ہے۔گویا مشین لرننگ کی شاخ میں الگورتھم زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔اس شاخ میں بنے سارے کمپیوٹر سسٹم یا مشینیں انسانی دماغ سے ملتا جلتا مشینی دماغ رکھتی ہیں جسے اصطلاح میں ''مصنوعی نیورل نیٹ ورک'' (Artificial neural network) کہا جاتا ہے۔یہ دماغ کئی ٹرانسسٹروں، چپوں اور سرکٹ بورڈوں پہ مشتمل ہوتا ہے۔
اس مشینی دماغ میں مصنوعی خلیے(Artificial neuron) ایک دوسرے سے تال میل کر کے اور حاصل شدہ نئے ڈیٹا کی مدد سے نئی باتیں اور افعال سیکھنے کی قدرت رکھتے ہیں۔کمپیوٹر سسٹم کے الگورتھموں کو جتنا زیادہ ڈیٹا ملے، وہ خودبخود، خودکار طریقے سے اپنے آپ کو زیادہ ترقی یافتہ، جدید اور باخبر بنا لیتے ہیں۔
مثال کے طور پر گوگل کا ٹرانسلیٹ پروگرام مشین لرننگ پہ مبنی ہے۔اس کے الگورتھم لوگوں کے استعمال کرنے سے جتنا زیادہ ڈیٹا پاتے ہیں، وہ اتنے ہی زیادہ درست، عمدہ اور بہتر ہو رہے ہیں۔
مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ، دونوں کی منزل یہ ہے کہ ایسے کمپیوٹر سسٹم تخلیق ہو جائیں جو انسان کی طرح سوچ سکیں اور اسی کی طرح عمل کریں۔اس منزل کی طرف بڑھتے ہوئے آغاز میں مصنوعی ذہانت کا پلّہ بھاری تھا، اب پچھلے کچھ عرصے سے مشین لرننگ کو سبقت حاصل ہو چکی۔
مشین لرننگ زیادہ کامیاب اس لیے ہوئی کہ ایک تو سپر کپمیوٹر ایجاد ہو گئے جو فی سیکنڈ اربوں پیمائشیں کرنے پہ قادر ہیں۔دوسرے بے حساب ڈیٹا وجود میں آ چکا۔چناں چہ سپر کپمیوٹر اور بے اندازہ ڈیٹا کے ملاپ نے مشین لرننگ پہ مبنی ایسے کمپیوٹر سسٹم تخلیق کر دئیے جن کے مشینی دماغ کارکردگی میں تقریباً انسانی دماغ کے برابر پہنچ چکے۔
ڈیپ بلو
مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ پہ مبنی پہلی قابل ذکر تخلیق ''ڈیپ بلو ''(Deep Blue)خصوصی کمپیوٹر سسٹم ہے جو امریکی کمپنی، آئی بی ایم سے وابستہ ماہرین نے 1997ء میں تیار کیا۔اس سسٹم کا سافٹ وئیر ایک سپر کپمیوٹر چلاتا تھا۔
سافٹ وئیر کو شطرنج کھیلنے کے لیے تیار کیا گیا۔یہ شطرنج کھیلتے ہوئے سیکھنے اور یوں اپنا کھیل بہتر بنانے پہ قادر تھا۔گویا یہ کمپیوٹر سسٹم مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ، دونوں کا اولیّں امتزاج تھا۔اسے شہرت تب ملی جب اس نے شطرنج کے ممتاز کھلاڑی اور عالمی چیپمئن، گیری کاسپروف کو ہرا دیا۔سسٹم کا سافٹ وئیر سپر کپمیوٹر کی مدد سے فی سیکنڈ 20 کروڑ چالیں سوچ سکتا تھا۔
آئی بی ایم واٹسن
کمپیوٹر سائنس کی تاریخ میں اہم سنگ میل پھر 2011ء میں آیا جب آئی بی ایم ہی نے ''واٹسن سسٹم ''(IBM Watson)تیار کیا۔یہ سسٹم بھی سافٹ وئیر اور سپر کمپیوٹر پر مشتمل ہے۔اسے امریکی کوئز پروگرام، جیوپرڈی(Jeopardy) میں سوال جواب کرنے کی خاطر بنایا گیا۔
اسی سال واٹسن نے جیوپرڈی کے چیمپئن کو شکست دے کر دس لاکھ ڈالر کا پہلا انعام جیت لیا۔وقت کے ساتھ ساتھ واٹسن سسٹم کو مشین لرننگ کی جدید ٹکنالوجی سے لیس کیا گیا۔
اُسے انسائیکلوپیڈیا، لغات، مضامین اور لاکھوں کتابوں کا ڈیٹا فراہم ہوا۔ نتیجہ یہ کہ اب واٹسن سسٹم ''دیکھنے''، ''سننے''، ''پڑھنے''، ''بولنے''، ''چکھنے''، ''سمجھنے''، ''سیکھنے'' اور ''مشورہ دینے'' کی صلاحیتوں کا حامل ہے۔ یہ سسٹم فی سکینڈ 500گیگابائٹ ڈیٹا پروسیس کر سکتا ہے۔یہ ڈیٹا دس لاکھ صخیم کتابوں کے برابر ہے۔
ڈیپ لرننگ
وقت کے ساتھ ساتھ مشین لرننگ کی ذیلی شاخ''ڈیپ لرننگ'' (Deeplearning) نے جنم لیا۔ڈیپ لرننگ پہ مبنی کمپیوٹر سسٹم میں مصنوعی نیورل نیٹ ورکس کی کئی تہیں موجود ہوتی ہیں۔لہذا وہ عام کمپیوٹر سسٹم سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔
ان نیورل نیٹ ورکس کے الگورتھم انسان کی کم سے کم مدد سے اپنا کام انجام دینے اور نئی باتیں سیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ڈیپ لرننگ کی اپنی دو نمایاں ذیلی اقسام ہیں: جنریٹو مصنوعی ذہانت (Generative AI) اور لارج لینگویج ماڈل ( large language model)۔
جنریٹو مصنوعی ذہانت کے حامل کمپیوٹر سسٹم(یعنی سافٹ وئیر و سپر کمپیوٹر) کو ایک کام سونپا جاتا ہے اور وہ اسے سیکھ کر بخوبی انجام دیتا ہے۔ مثلاً ایک جنریٹو مصنوعی ذہانت سسٹم میں مشہور ولندیزی مصور، ریمبراں(Rembrandt) کی تمام تصاویر فیڈ کی گئیں۔
پھر سسٹم کو ریمبراں کی مصوری سے متعلق تمام معلومات (ڈیٹا)دی گئیں۔ اس سسٹم کے الگورتھم نے پہلے ریمبراں کی طرح تصویر بنانا سیکھا اور پھر وہ تصاویر بنانے لگا۔یہ تصاویر حقیقی ریمبراں کی تصویروں سے ملتی جلتی ہیں۔ جنریٹو مصنوعی ذہانت والے کئی کپمیوٹر سسٹم ایجاد ہو چکے جو تہذیب وثقافت اور فنون لطیفہ میں نیا انقلاب لا رہے ہیں۔
لارج لینگویج ماڈل کی بنیاد زبان ہے جسے سبھی انسان بولتے ہیں۔ زبانوں نے انسانی تہذیب وتمدن اور سائنس وٹکنالوجی کے ارتقا میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ان کے ذریعے ہی نظریات اور خیالات دنیا بھر میں پھیلے۔کمپیوٹر سائنس کی دنیا میں بھی ''لینگویج ماڈل ''(Language model)کا عمل نئی زبانیں تخلیق کرنے اور نظریات پھیلانے میں مدد دیتا ہے۔
لارج لینگویج ماڈل اسی عمل کی ترقی یافتہ شکل ہیں۔ان ماڈلز کی خاصیت یہ ہے کہ ان کے ذریعے ڈیٹا کی بہت بڑی تعداد یا مقدار کو پروسیس کرنا ممکن ہے۔جدید ترین چیٹ بوٹ انہی لارج لینگویج ماڈلوں پر مبنی ہیں۔ان میں سب سے طاقتور جی پی ٹی۔4 ہے۔
چیٹ بوٹ ایسا کمپیوٹرسسٹم ہے جو انسانوں کے ساتھ بذریعہ تحریر یا گفتگو بات چیت کر سکتا ہے۔وہ مختلف سوالات کے جوابات دیتا ہے۔اس کی جدید ترین صورت جی پی ٹی۔4 ہے جو مارچ 2023ء میں سامنے آیا۔اسی کمپیوٹر سسٹم میں ماہرین نے ''مصنوعی عام ذہانت'' کی رمق پائی تو وہ گھبراہٹ کا شکار ہو گئے۔
مصنوعی ذہانت کی دو اقسام
یہ واضح رہے کہ مصنوعی ذہانت کی دو اقسام ہیں:کمزور (Weak AI)اور قوی (Strong AI )۔کمزور مصنوعی ذہانت سے مراد وہ سافٹ وئیر یا کمپیوٹر سسٹم ہیں جو معین کام انجام دیں۔ جیسے ایپل کمپیوٹر کا سافٹ وئیر ''سری''(Siri) جو صارفین کو معلومات فراہم کرتا ہے۔
یہ گویا صارف کا ڈیجٹل اسسٹنٹ ہے۔ایمزن کمپنی کا سافٹ وئیر''ایلکسا''بھی کمزور مصنوعی ذہانت پر مبنی ہے۔اسی قسم کے سافٹ وئیر بے ڈرائیور والی کاریں چلاتے ہیں۔اِس قسم کے کمپیوٹر سسٹم میں جو ڈٰیٹا فیڈ کیا جائے، اُس میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔
قوی مصنوعی ذہانت کی دو اقسام ہیں: مصنوعی عام ذہانت (Artificial General Intelligence)اور مصنوعی سپر ذہانت(Artificial Super Intelligence)۔کمپیوٹر سائنس کی دنیا میں مصنوعی عام ذہانت انسانی ذہانت کے ہم پلہ ہے۔
جبکہ مصنوعی سپر ذہانت سے مراد ایسی ذہانت ہے جو کارکردگی میں انسانی ذہانت کو بھی شکست دے ڈالے۔اب تک مصنوعی سپر ذہانت والا کوئی کمپیوٹر سسٹم یا مشین ایجاد نہیں ہو سکی۔تاہم ماہرین نے جی پی ٹی۔4 میںمصنوعی عام ذہانت کے آثار دریافت کیے ہیں۔ یہ کمپیوٹری سسٹم ایک قسم کا شعور رکھتا ہے۔
غلطیوں سے سیکھ کر اپنے آپ کو درست کر سکتا ہے۔نیز وافر ڈیٹا کی مدد سے اپنی ذہانت کا معیار مسلسل بلند کرتا رہتا ہے۔اسی لیے ہر سوال کاجواب دینے پر قادر ہے۔یہی نہیں، مستقبل کی پیشن گوئیاں بھی کر سکتا ہے۔
مشین قابو سے باہر
جی پی ٹی۔4 کی بہترین کارکردگی سے خوفزدہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس سے بہتر کمپیوٹر سسٹم ایجاد ہوا تو وہ لازما مصنوعی عام ذہانت کا حامل ہو گا۔گویا تب وہ ازخود بھی نت نئی باتیں سیکھنے اور کام کرنے کے قابل ہو جائے گا، جیسے پلتا بڑھتا انسان اسی قسم کے عمل کا مظاہرہ پیش کرتا ہے۔
اسی صورت حال میں وہ وقت بھی آ سکتا ہے جب یہ مشین انسان کے قابو سے نکل کر آزاد وخودمختار ہو جائے،معنی یہ کہ وہ انسان کے کنٹرول میں نہیں رہے گی۔گویا تب وہ مسلسل سیکھنے اور ڈیٹا پانے کے عمل سے گذر کر مصنوعی سپر ذہانت کی سطح تک پہنچ جائے گی۔
کمپیوٹر سسٹم آزاد وخودمختار ہونے کے بعد کس قسم کا رویّہ اپنائے گا، اس بابت ابھی کوئی نہیں جانتا۔ممکن ہے کہ وہ بدستور انسانوں کے کام آتا رہے۔لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ یہ شعور پا جائے،تب اسے احساس ہو جائے کہ وہ ذہنی وجسمانی لحاظ سے انسان سے برتر وبہتر ہے۔
یہی احساس پھر اسے اُکسا سکتا ہے کہ وہ انسان کو اپنا غلام بنا لے اور دنیا پہ حکمرانی کرنے لگے۔بہت سے ماہرین یہی صورت حال جنم لینے کے خیال سے خوفزدہ ہیں۔وہ اسی منظرنامے کو دیکھتے ہوئے مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ کی مذید ترقی کو انسانیت کے لیے سنگین خطرہ سمجھتے ہیں۔
آذورے اے آئی
جی پی ٹی۔4 کا سافٹ وئیر امریکا کی کمپنی، اوپن اے آئی (OpenAI) کا تخلیق کردہ ہے۔ کمپنی اس سے پہلے بھی مختلف چیٹ بوٹ بنا چکی۔یہ ایک سپر کمپیوٹر، آذورے اے آئی (Microsoft Azure) کی مدد سے اپنا کام انجام دیتا ہے۔
یہ سپر کمپیوٹر اوپن اے آئی کی شراکت دار، مائیکروسافٹ کارپوریشن نے تین سال کے عرصے میں تقریباً چار ارب ڈالر کی لاگت سے تیار کیا۔اس حقیقت سے واضح ہے کہ مصنوعی ذہانت کو انسانی ذہانت کے درجے تک پہنچانے کے لیے کثیر سرمایہ خرچ ہو رہا ہے۔
آذورے اے آئی سپرکمپیوٹر میں دو لاکھ پانچ ہزار جدید ترین اور طاقتور ترین پروسسیر نصب ہیں۔نیز اس میں دس ہزار جدید ترین اور طاقتور ترین گرافک کارڈ بھی لگے ہیں۔
یہ پروسیسینگ آلات مل کر جی پی ٹی۔4 کو کام کرنے کے قابل بناتے ہیں۔اوپن اے آئی کے اولیّں چیٹ بوٹ میں ''پانچ سو ارب الفاظ ''کا ڈیٹا موجود تھا۔خیال ہے کہ جی پی ٹی۔4 میں لاکھوں کتب کے اربوں الفاظ محفوظ ہیں اور کروڑوں تصاویر بھی فیڈ کی گئیں۔
جی پی ٹی۔4 کام کرتے ہوئے کئی ہزار یونٹ بجلی استعمال کرتا ہے۔اسی لیے اوپن اے آئی اسے استعمال کرنے والے صارفین سے فیس لے رہی ہے۔تاہم مائیکروسافٹ کارپوریشن کا براؤزر، بنگ(Bing)بھی اب اسی جی پی ٹی۔4 پر مبنی ہے۔اسے صارفین مفت استعمال کر سکتے ہیں۔ مگر مائیکروسافٹ کا اکاؤنٹ ہونا ضروری ہے۔
امتحان میں کامیابی
اربوں ڈالر کی لاگت سے بننے والا جی پی ٹی۔4 ابھی انسانی ذہانت کے معیار تک نہیں پہنچ پایا، مگر اس نے یہ ضرور ثابت کر دیا کہ اس کے الگورتھم تجربات و غلطیوں سے گذر اور مزید ڈیٹا پا کر انسانی ذہانت کے معیار کے قریب ضرور پہنچ رہے ہیں۔
مثلاً امریکا کی کئی ریاستوں میں وکلا کو اپنی پریکٹس شروع کرنے سے قبل ایک امتحان ''یونی فورم بار ایگزیم''(Uniform Bar Examination)پاس کرنا پڑتا ہے۔ اس امتحان میں انسانی عقل ودانش کا امتحان لیا جاتا ہے۔
جی پی ٹی۔4 نے یہ امتحان دیتے ہوئے ''90 فیصد''انسانی امیدواروں سے بہتر کارکردگی دکھائی اور اسے بہترین نمبر لے کر پاس کر لیا۔اوپن اے آئی کے سابقہ چیٹ بوٹ، جی پی ٹی۔ 3.5 نے یہی امتحان دیتے ہوئے ''35 فیصد'' امیدواروں سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔
جی پی ٹی۔4 نے انسانی عقل ودانش جانچنے کے دیگر امتحانات میں بھی حصہ لیا اور ٹاپ پر آیا۔ اس کی انہی کامیابیوں نے سائنس دانوں کو پریشان ومتفکر کر دیا۔ انھیں محسوس ہونے لگا کہ اس چیٹ بوٹ کا مصنوعی دماغ کارکردگی میں انسانی دماغ کے قریب پہنچ چکا۔ اور ممکن ہے کہ اس سے زیادہ طاقتور چیٹ بوٹ کارکردگی میں انسانی ذہانت کو شکست دے ڈالے۔یہی سوچ پریشان کن تھی۔
خطرے کی گھنٹی بج گئی
ماہ اپریل 23ء میں گوگل کمپنی سے وابستہ مصنوعی ذہانت کے مشہور ماہر، جیفرے ہنٹن نے اپنے عہدے سے استعفی دے ڈالا۔ان کا کہنا تھا:''مشین لرننگ انسانیت کے لیے خطرہ بن چکی۔اب اس کی ترقی و پھیلاؤ کو روکنا ہو گا۔''
امریکا کی ایک سماجی تنظیم، فیوچر آف لائف انسٹی ٹیوٹ نے عوام وخواص کے نام ایک کھلا خط تحریر کیا۔اس میں مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ کے سافٹ وئیر بنانے والی کمپنیوں سے استدعا کی گئی کہ وہ چھ ماہ تک جی پی ٹی۔4 سے زیادہ طاقتور چیٹ بوٹ بنانے کا کام روک دیں۔
اس دوران کمپنیاں اور حکومتیں مل بیٹھیں اور ایسے اصول و قوانین وضع کریں جن کے ذریعے انسانی ذہانت سے برتر کپمیوٹری سسٹم کبھی آزاد وخودمختار نہ ہو سکیں۔گویا وہ قوانین انھیں انسان کے کنٹرول ہی میں رکھیں۔اس کھلے خط پر ممتاز امریکی موجد، ایلن مسلک اور ایپل کمپنی کے شریک بانی، سٹیو ووزیک بھی دستخط کر چکے۔
مئی 23ء میں مشین لرننگ اور مصنوعی ذہانت کے سیکڑوں ماہرین کے مابین ایک سروے کیا گیا۔اس میں'' 40 فیصد''ماہرین نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ اگر مصنوعی ذہانت انسان کی ذہانت سے زیادہ طاقتور ہو گئی تو کرہ ارض پہ ایٹمی ہتھیاروں سے ہونے والی تباہی سے مماثل بربادی جنم لے سکتی ہے۔
غوروفکر کی ضرورت
امریکا و یورپ کے کئی ماہرین مشین لرننگ کا دعوی ہے کہ جی پی ٹی۔4 سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔مشین لرننگ کی ترقی سے انسانیت کو بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔لہذا اس ترقی کی راہ روکنا غلط ہو گا۔ان کا استدلال درست ہے مگر مخالف سائنس دانوں کے خدشات بھی ٹھوس دکھائی دیتے ہیں۔
ذرا سوچیے، مستقبل قریب میں مشین لرننگ کا ایسا کمپیوٹر سسٹم بن جائے جسے چلانے والا سپر کمپیوٹر مائکروسافٹ کارپوریشن کے'' آذورے''سے بھی زیادہ طاقت ور ہو۔چونکہ چپ چھوٹی سے چھوٹی ہو رہی ہے۔
لہذا انتہائی طاقتور سپر کپموٹر اگلے پانچ دس سال میں ایجاد ہو سکتا ہے۔اور ممکن ہے کہ وہ اتنا چھوٹا ہو کہ روبوٹ کے دماغ میں سما جائے۔ تب وہ روبوٹ یقیناً مصنوعی عام ذہانت پا لے گا۔اسی بات سے سائنس داں خوف کھاتے ہیں۔
اگر کوئی روبوٹ یا کمپیوٹر سسٹم انسان کے کنٹرول سے باہر ہو کر ازخود سوچنے سمجھنے اور کام کرنے کے قابل ہو گیا تو سوچنے کی بات ہے کہ تب کس قسم کی صورت حال جنم لے گی؟تب خدانخواستہ اسے وسائل میّسر آئے تو وہ سوچ سکتا ہے کہ اپنے جیسے روبوٹ یا کمپیوٹر سسٹم بنا کر اپنی تعداد میں اضافہ کر لے۔یوں ایک سے دو ، دو سے چار ، چار سے آٹھ، آٹھ سے سولہ اور سولہ سے چوبیس روبوٹ بنیں گے۔اور دیکھتے ہی دیکھتے روبوٹوں کی فوج تیار ہو جائے گی۔
یہ فوج پھر کرہ ارض پہ قبضہ کر کے انسان کو غلام بنا لے گی۔آخر انسان بھی ہزارہا سال سے کئی جانوروںکو اپنا غلام بناتا چلا آ رہا ہے۔لہذا اس کی تخلیق بھی اسی کے نقش قدم پر چل پڑی تو اس میں حیرت کی کیا بات؟
سائنس فکشن فلموں میں یہ منظرنامہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ انسان اور مشینیں ایک دوسرے سے نبردآزما ہیں۔زمین تاریکی کی گرفت میں ہے۔
ہر طرف آگ ودھواں نظرآتا ہے۔انسان تباہی وبربادی کی لپیٹ میں ہے۔اگر کمپیوٹر سسٹم نے خصوصاً مصنوعی سپر ذہانت پا لی تو فلموں میں دکھائے جانے والے مناظر حقیقت کا روپ بھی دھار سکتے ہیں۔یہی امکان اکثر سائنس دانوں کو جدید ترین کمپیوٹر سسٹم سے خوفزدہ کر دیتا ہے۔
1900ء میں زمین پر تقریباً دو ارب انسان آباد تھے۔صرف ایک سو تئیس سال میں انسانی آبادی بڑھ کر آٹھ ارب سے زیادہ ہو گئی۔انسانی آبادی کی تیز رفتار پھیلاؤ اور قدرتی وسائل کے بے پناہ استعمال کی وجہ سے کرہ ارض کا فطری ماحول رفتہ رفتہ تباہ ہو رہا ہے۔تصّور کیجیے کہ مصنوعی سپر ذہانت کے حامل کمپیوٹر سسٹم دنیا میں پھیل گئے تو تب کیا ہو گا؟
یہ کمپیوٹر سسٹم تو رہا سہا قدرتی ماحول بھی تباہ کر سکتے ہیں۔انسان میں تو پھر جذبات و احساسات موجود ہیں۔
وہ کبھی نہ کبھی دیگر جانداروں کی ضروریات کا خیال کر لیتا ہے۔کمپیوٹر سسٹم یا مشینیں تو جذبات سے عاری ہوں گی۔ان کی بنیادی سوچ یہ ہو گی کہ اپنی اور اپنی نسل کی بقا قائم رکھی جائے۔لہذا انسان ، حیوان، چرند پرند، درخت و پھول انھیں بے فائدہ لگے تو وہ ان کو نیست ونابود بھی کر دیں گے۔یوں درخت نہ ہونے سے زمین پہ زندگی ناپید ہو جائے گی کہ آکسیجن جو نہیں رہے گی۔
غرض کمپیوٹر سسٹم کا مصنوعی سپر ذہانت بلکہ مصنوعی عام ذہانت پا لینا کوئی معمولی بات نہیں ...بلکہ عین ممکن ہے کہ جب بھی ایسا ہوا، واقعات کا خوفناک سلسلہ جنم لے گا۔وہ آخر بنی نوع انسان کی تباہی پر منتج ہو سکتا ہے۔اسی بھیانک منظرنامے کو دیکھ کر سائنس داں اصول وقوانین کا ایسا مجموعہ چاہتے ہیں جو کمپیوٹر سسٹم کو اپنی حدود میں رکھے اور کبھی اسے انسان کے کنٹرول سے باہر نہ ہو نے دے۔
یہ درست ہے کہ کمپیوٹر سسٹم جنھیں روبوٹ یا مشین کہہ لیجیے، کئی اعتبار سے انسانوں کی مدد کرسکتے ہیں۔مثلاً گھروں میں کام کاج کرنا، بوڑھوں کی دیکھ بھال، خواتین کی حفاظت۔پھر یہ نت نئی ایجادات پانے میں ہماری مدد کریں گے۔
بڑی ٹیک کمپنیاں بھاری منافع پانے کی خاطر اربوں ڈالر خرچ کر کے زیادہ جدید کمپیوٹر سسٹم بنائیں گی مگر ان کے منفی اثرات بھی ہیں۔مثلاً لاکھوں ملازمتوں کا خاتمہ۔اور یہ بڑا خطرہ کہ کہیں کمپیوٹر سسٹم خودمختار نہ ہو جائیں۔غرض بنی نوع انسان کو چاہیے کہ وہ نئی ٹکنالوجی کو الل ٹپ نہیں اپنائے بلکہ اس کے مثبت ومنفی عوامل پہ خوب غوروفکر کر لیے۔ایک غلط فیصلہ انسانیت کو مشینوں کا غلام بنا دے گا۔
کیونکہ اس خطرے نے عملی جامہ پہن لیا تو انسان مشینوں کا غلام وماتحت بن جائے گا۔تب وہ کرہ ارض کی حکمرانی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔کمپیوٹر سسٹم سے مراد سافٹ وئیر اور سپر کمپیوٹر پہ مشتمل نظام ہے جس کی ایک حالیہ اور تہلکہ خیز مثال جی پی ٹی۔4 چیٹ بوٹ کی صورت ہمارے سامنے آ چکی۔
مشین کا ارتقا
اس معاملے کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ سوچنے سمجھنے کی قدرت رکھنے والے کمپیوٹر سسٹم خود انسان کی ایجاد ہیں۔تاہم سائنس دانوں کا دعوی ہے کہ مستقبل میں یہ مشینیں عقلی و جسمانی طور پہ انسانوں سے زیاد طاقتور ہو کر انھیں غلام بنا سکتی ہیں۔
یوں خالق ہی اپنی تخلیق کا ماتحت بن جائے گا۔امر واقعہ یہ ہے کہ صورت حال دیکھی جائے تو سائنس دانوں کے خدشات بجا نظر آتے ہیں۔ہزاروں سال پہلے قصّے کہانیوں میں انسان نے مشینوں کا تذکرہ کیا جو مختلف کام انجام دے سکتی تھیں۔
انھیں اس لیے تخلیق کیا گیا کہ وہ روزمرہ کاموں میں انسان کا ہاتھ بٹائیں اور یوں اس کی زندگی آسان بنا دیں۔رفتہ رفتہ ریاضی اور میکانیات کے علوم معرض وجود میں آئے تو مشینیں دیومالا سے نکل کر حقیقت کا روپ دھار گئیں۔پہلے پہل چین ، بھارت اور یونان کے موجدوں نے مختلف مشینیں بنائیں۔عرب مسلم موجدوں نے اس فن کو مذید ترقی دی۔اس ضمن میںاسماعیل الجزری (متوفی 1206 ء )کا نام قابل ذکر ہے جو ہمہ قسام کی مشینیں اور روبوٹ بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔
الخوارزمی کا بنایا ریاضیاتی عمل
مسلم سائنس دانوں کے علم کو یورپی ماہرین نے ترقی دی۔کم پاکستانی جانتے ہیں کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت والے کمپیوٹر سسٹم جن علوم سے وجود میں آئے ہیں یعنی کمپیوٹر سائنس ، مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence)اور مشین لرننگ (Machine learning)،انھیں ترقی دینے میں ایک مسلمان ریاضی داں، محمد بن موسی الخوارزمی (متوفی 850 ئ) کے تخلیق کردہ سائنسی عمل نے بنیادی کردار ادا کیا۔
انھوں نے اپنی کتب میں تحریر کیا کہ ریاضی کی ترتیب وار اور منظم ہدایات و احکامات کے ذریعے کوئی بھی مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔یہ عمل آج ''الگورتھم ''(Algorithm) کہلاتا ہے اور جسے عربی، فارسی و اردو میں ''خوارزمیہ ''کہا جاتا ہے۔انگریزی کی اصطلاح الخوارزمی کے نام سے نکلی ہے۔آج الگورتھم کا مطالعہ کمپیوٹر سائنس میں ایک باقاعدہ شاخ کی حیثیت رکھتا ہے۔
قدرت الہی میں الگورتھم کی بہترین مثال جاندار کا دماغ ہے۔اس دماغ میں ہمہ اقسام کے اربوں خلیے آپس میں تال میل کر کے، نہایت ترتیب وار، قدم بہ قدم طریقے سے ایسے عمل انجام دیتے ہیں جن کے ذریعے انسان سمیت تمام جاندار سوچتے، سمجھتے اور سبھی افعال اپناتے ہیں۔
سوچ یا خیال جنم لینے ہی سے جاندار میں تمام افعال انجام پاتے ہیں۔یہی وجہ ہے اگر انسان یا حیوان میں سوچ کا یہ منظم الگورتھم نظام کسی وجہ سے خراب ہو جائے تو وہ پاگل ہو جاتا ہے۔وہ پھر کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کر پاتا۔
خیال حقیقت بننے لگا
بیسویں صدی میں سائنس دانوں کو خیال آیا کہ اگر انسانی دماغ سے ملتا جلتا مصنوعی یا مشینی دماغ بنا لیا جائے تو انسان کے ہاتھ ایک مفید شے لگ جائے گی۔وہ پھر اپنے کاموں میں اس مصنوعی دماغ سے مدد لے سکے گا۔
اس سوچ نے پہلے ریاضیاتی نظریات کا روپ اختیار کیا۔پھر ننھے منے ٹرانسسٹروں، ننھی منی چپوں (Chip) اورچھوٹے سرکٹ بورڈوں پہ مشتمل کمپیوٹر اور نت نئے سافٹ وئیر بننے لگے تو یہ خیال حقیقت کا روپ دھارنے لگا۔شروع میں ایسے مصنوعی دماغ یا کمپیوٹر سسٹم وجود میں آئے جو کوئی معین کام کر سکتے تھے۔
سافٹ وئیر جو کام کمپیوٹری مشین کرنے کو کہتا، وہ اسے انجام دے ڈالتی۔فیکٹریوں میں کام کرتے روبوٹ اسی قسم کا مصنوعی دماغ رکھتے ہیں۔یہ ازخود کوئی کام نہیں کر سکتے۔انسان ساختہ سافٹ وئیر میں جو ہدایات لکھی ہوتی ہیں،روبوٹ یا مشین صرف انہی کے مطابق کام کرتی ہے ۔
''مشین لرننگ ''
کمپیوٹر سائنس، ریاضی، عضویات، میکانیات، حیاتیات اور طبعیات کے علوم میں مسلسل ترقی نے مصنوعی ذہانت کے بطن سے ایک نئی شاخ ''مشین لرننگ '' کو جنم دیا۔آج مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اول الذکر سے وابستہ کمپیوٹر سسٹم میں بالعموم سافٹ وئیر ان سے کام کراتے ہیں۔یہ سسٹم اپنے اپنے سافٹ وئیر کے مطابق مخصوص کام ہی کر سکتے ہیں۔
مثال کے طور پہ ایک روبوٹ کو یہ سکھایا گیا کہ وہ ہوٹل میں گاہک کو کھانا پیش کرے گا۔مصنوعی ذہانت پہ مبنی یہ مشین صرف یہی کام کرے گی۔وہ برتن نہیں دھو سکتی یا فرش صاف نہیں کر سکتی۔یہ کام کرنے کے لیے الگ روبوٹ درکار ہوں گے جن کے اپنے مخصوص سافٹ وئیر ہوں گے۔گویا مصنوعی ذہانت کے شعبے میں سافٹ وئیر اہمیت رکھتے ہیں۔
مصنوعی نیورل نیٹ ورک
مشین لرننگ پہ مبنی کمپیوٹر سسٹم ڈٰیٹا یا معلومات کی مدد سے نئے کام کرنا بھی سیکھ سکتے ہیں۔یہ عمل الگورتھم نظام کے ذریعے انجام پاتا ہے۔گویا مشین لرننگ کی شاخ میں الگورتھم زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔اس شاخ میں بنے سارے کمپیوٹر سسٹم یا مشینیں انسانی دماغ سے ملتا جلتا مشینی دماغ رکھتی ہیں جسے اصطلاح میں ''مصنوعی نیورل نیٹ ورک'' (Artificial neural network) کہا جاتا ہے۔یہ دماغ کئی ٹرانسسٹروں، چپوں اور سرکٹ بورڈوں پہ مشتمل ہوتا ہے۔
اس مشینی دماغ میں مصنوعی خلیے(Artificial neuron) ایک دوسرے سے تال میل کر کے اور حاصل شدہ نئے ڈیٹا کی مدد سے نئی باتیں اور افعال سیکھنے کی قدرت رکھتے ہیں۔کمپیوٹر سسٹم کے الگورتھموں کو جتنا زیادہ ڈیٹا ملے، وہ خودبخود، خودکار طریقے سے اپنے آپ کو زیادہ ترقی یافتہ، جدید اور باخبر بنا لیتے ہیں۔
مثال کے طور پر گوگل کا ٹرانسلیٹ پروگرام مشین لرننگ پہ مبنی ہے۔اس کے الگورتھم لوگوں کے استعمال کرنے سے جتنا زیادہ ڈیٹا پاتے ہیں، وہ اتنے ہی زیادہ درست، عمدہ اور بہتر ہو رہے ہیں۔
مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ، دونوں کی منزل یہ ہے کہ ایسے کمپیوٹر سسٹم تخلیق ہو جائیں جو انسان کی طرح سوچ سکیں اور اسی کی طرح عمل کریں۔اس منزل کی طرف بڑھتے ہوئے آغاز میں مصنوعی ذہانت کا پلّہ بھاری تھا، اب پچھلے کچھ عرصے سے مشین لرننگ کو سبقت حاصل ہو چکی۔
مشین لرننگ زیادہ کامیاب اس لیے ہوئی کہ ایک تو سپر کپمیوٹر ایجاد ہو گئے جو فی سیکنڈ اربوں پیمائشیں کرنے پہ قادر ہیں۔دوسرے بے حساب ڈیٹا وجود میں آ چکا۔چناں چہ سپر کپمیوٹر اور بے اندازہ ڈیٹا کے ملاپ نے مشین لرننگ پہ مبنی ایسے کمپیوٹر سسٹم تخلیق کر دئیے جن کے مشینی دماغ کارکردگی میں تقریباً انسانی دماغ کے برابر پہنچ چکے۔
ڈیپ بلو
مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ پہ مبنی پہلی قابل ذکر تخلیق ''ڈیپ بلو ''(Deep Blue)خصوصی کمپیوٹر سسٹم ہے جو امریکی کمپنی، آئی بی ایم سے وابستہ ماہرین نے 1997ء میں تیار کیا۔اس سسٹم کا سافٹ وئیر ایک سپر کپمیوٹر چلاتا تھا۔
سافٹ وئیر کو شطرنج کھیلنے کے لیے تیار کیا گیا۔یہ شطرنج کھیلتے ہوئے سیکھنے اور یوں اپنا کھیل بہتر بنانے پہ قادر تھا۔گویا یہ کمپیوٹر سسٹم مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ، دونوں کا اولیّں امتزاج تھا۔اسے شہرت تب ملی جب اس نے شطرنج کے ممتاز کھلاڑی اور عالمی چیپمئن، گیری کاسپروف کو ہرا دیا۔سسٹم کا سافٹ وئیر سپر کپمیوٹر کی مدد سے فی سیکنڈ 20 کروڑ چالیں سوچ سکتا تھا۔
آئی بی ایم واٹسن
کمپیوٹر سائنس کی تاریخ میں اہم سنگ میل پھر 2011ء میں آیا جب آئی بی ایم ہی نے ''واٹسن سسٹم ''(IBM Watson)تیار کیا۔یہ سسٹم بھی سافٹ وئیر اور سپر کمپیوٹر پر مشتمل ہے۔اسے امریکی کوئز پروگرام، جیوپرڈی(Jeopardy) میں سوال جواب کرنے کی خاطر بنایا گیا۔
اسی سال واٹسن نے جیوپرڈی کے چیمپئن کو شکست دے کر دس لاکھ ڈالر کا پہلا انعام جیت لیا۔وقت کے ساتھ ساتھ واٹسن سسٹم کو مشین لرننگ کی جدید ٹکنالوجی سے لیس کیا گیا۔
اُسے انسائیکلوپیڈیا، لغات، مضامین اور لاکھوں کتابوں کا ڈیٹا فراہم ہوا۔ نتیجہ یہ کہ اب واٹسن سسٹم ''دیکھنے''، ''سننے''، ''پڑھنے''، ''بولنے''، ''چکھنے''، ''سمجھنے''، ''سیکھنے'' اور ''مشورہ دینے'' کی صلاحیتوں کا حامل ہے۔ یہ سسٹم فی سکینڈ 500گیگابائٹ ڈیٹا پروسیس کر سکتا ہے۔یہ ڈیٹا دس لاکھ صخیم کتابوں کے برابر ہے۔
ڈیپ لرننگ
وقت کے ساتھ ساتھ مشین لرننگ کی ذیلی شاخ''ڈیپ لرننگ'' (Deeplearning) نے جنم لیا۔ڈیپ لرننگ پہ مبنی کمپیوٹر سسٹم میں مصنوعی نیورل نیٹ ورکس کی کئی تہیں موجود ہوتی ہیں۔لہذا وہ عام کمپیوٹر سسٹم سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔
ان نیورل نیٹ ورکس کے الگورتھم انسان کی کم سے کم مدد سے اپنا کام انجام دینے اور نئی باتیں سیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ڈیپ لرننگ کی اپنی دو نمایاں ذیلی اقسام ہیں: جنریٹو مصنوعی ذہانت (Generative AI) اور لارج لینگویج ماڈل ( large language model)۔
جنریٹو مصنوعی ذہانت کے حامل کمپیوٹر سسٹم(یعنی سافٹ وئیر و سپر کمپیوٹر) کو ایک کام سونپا جاتا ہے اور وہ اسے سیکھ کر بخوبی انجام دیتا ہے۔ مثلاً ایک جنریٹو مصنوعی ذہانت سسٹم میں مشہور ولندیزی مصور، ریمبراں(Rembrandt) کی تمام تصاویر فیڈ کی گئیں۔
پھر سسٹم کو ریمبراں کی مصوری سے متعلق تمام معلومات (ڈیٹا)دی گئیں۔ اس سسٹم کے الگورتھم نے پہلے ریمبراں کی طرح تصویر بنانا سیکھا اور پھر وہ تصاویر بنانے لگا۔یہ تصاویر حقیقی ریمبراں کی تصویروں سے ملتی جلتی ہیں۔ جنریٹو مصنوعی ذہانت والے کئی کپمیوٹر سسٹم ایجاد ہو چکے جو تہذیب وثقافت اور فنون لطیفہ میں نیا انقلاب لا رہے ہیں۔
لارج لینگویج ماڈل کی بنیاد زبان ہے جسے سبھی انسان بولتے ہیں۔ زبانوں نے انسانی تہذیب وتمدن اور سائنس وٹکنالوجی کے ارتقا میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ان کے ذریعے ہی نظریات اور خیالات دنیا بھر میں پھیلے۔کمپیوٹر سائنس کی دنیا میں بھی ''لینگویج ماڈل ''(Language model)کا عمل نئی زبانیں تخلیق کرنے اور نظریات پھیلانے میں مدد دیتا ہے۔
لارج لینگویج ماڈل اسی عمل کی ترقی یافتہ شکل ہیں۔ان ماڈلز کی خاصیت یہ ہے کہ ان کے ذریعے ڈیٹا کی بہت بڑی تعداد یا مقدار کو پروسیس کرنا ممکن ہے۔جدید ترین چیٹ بوٹ انہی لارج لینگویج ماڈلوں پر مبنی ہیں۔ان میں سب سے طاقتور جی پی ٹی۔4 ہے۔
چیٹ بوٹ ایسا کمپیوٹرسسٹم ہے جو انسانوں کے ساتھ بذریعہ تحریر یا گفتگو بات چیت کر سکتا ہے۔وہ مختلف سوالات کے جوابات دیتا ہے۔اس کی جدید ترین صورت جی پی ٹی۔4 ہے جو مارچ 2023ء میں سامنے آیا۔اسی کمپیوٹر سسٹم میں ماہرین نے ''مصنوعی عام ذہانت'' کی رمق پائی تو وہ گھبراہٹ کا شکار ہو گئے۔
مصنوعی ذہانت کی دو اقسام
یہ واضح رہے کہ مصنوعی ذہانت کی دو اقسام ہیں:کمزور (Weak AI)اور قوی (Strong AI )۔کمزور مصنوعی ذہانت سے مراد وہ سافٹ وئیر یا کمپیوٹر سسٹم ہیں جو معین کام انجام دیں۔ جیسے ایپل کمپیوٹر کا سافٹ وئیر ''سری''(Siri) جو صارفین کو معلومات فراہم کرتا ہے۔
یہ گویا صارف کا ڈیجٹل اسسٹنٹ ہے۔ایمزن کمپنی کا سافٹ وئیر''ایلکسا''بھی کمزور مصنوعی ذہانت پر مبنی ہے۔اسی قسم کے سافٹ وئیر بے ڈرائیور والی کاریں چلاتے ہیں۔اِس قسم کے کمپیوٹر سسٹم میں جو ڈٰیٹا فیڈ کیا جائے، اُس میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔
قوی مصنوعی ذہانت کی دو اقسام ہیں: مصنوعی عام ذہانت (Artificial General Intelligence)اور مصنوعی سپر ذہانت(Artificial Super Intelligence)۔کمپیوٹر سائنس کی دنیا میں مصنوعی عام ذہانت انسانی ذہانت کے ہم پلہ ہے۔
جبکہ مصنوعی سپر ذہانت سے مراد ایسی ذہانت ہے جو کارکردگی میں انسانی ذہانت کو بھی شکست دے ڈالے۔اب تک مصنوعی سپر ذہانت والا کوئی کمپیوٹر سسٹم یا مشین ایجاد نہیں ہو سکی۔تاہم ماہرین نے جی پی ٹی۔4 میںمصنوعی عام ذہانت کے آثار دریافت کیے ہیں۔ یہ کمپیوٹری سسٹم ایک قسم کا شعور رکھتا ہے۔
غلطیوں سے سیکھ کر اپنے آپ کو درست کر سکتا ہے۔نیز وافر ڈیٹا کی مدد سے اپنی ذہانت کا معیار مسلسل بلند کرتا رہتا ہے۔اسی لیے ہر سوال کاجواب دینے پر قادر ہے۔یہی نہیں، مستقبل کی پیشن گوئیاں بھی کر سکتا ہے۔
مشین قابو سے باہر
جی پی ٹی۔4 کی بہترین کارکردگی سے خوفزدہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس سے بہتر کمپیوٹر سسٹم ایجاد ہوا تو وہ لازما مصنوعی عام ذہانت کا حامل ہو گا۔گویا تب وہ ازخود بھی نت نئی باتیں سیکھنے اور کام کرنے کے قابل ہو جائے گا، جیسے پلتا بڑھتا انسان اسی قسم کے عمل کا مظاہرہ پیش کرتا ہے۔
اسی صورت حال میں وہ وقت بھی آ سکتا ہے جب یہ مشین انسان کے قابو سے نکل کر آزاد وخودمختار ہو جائے،معنی یہ کہ وہ انسان کے کنٹرول میں نہیں رہے گی۔گویا تب وہ مسلسل سیکھنے اور ڈیٹا پانے کے عمل سے گذر کر مصنوعی سپر ذہانت کی سطح تک پہنچ جائے گی۔
کمپیوٹر سسٹم آزاد وخودمختار ہونے کے بعد کس قسم کا رویّہ اپنائے گا، اس بابت ابھی کوئی نہیں جانتا۔ممکن ہے کہ وہ بدستور انسانوں کے کام آتا رہے۔لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ یہ شعور پا جائے،تب اسے احساس ہو جائے کہ وہ ذہنی وجسمانی لحاظ سے انسان سے برتر وبہتر ہے۔
یہی احساس پھر اسے اُکسا سکتا ہے کہ وہ انسان کو اپنا غلام بنا لے اور دنیا پہ حکمرانی کرنے لگے۔بہت سے ماہرین یہی صورت حال جنم لینے کے خیال سے خوفزدہ ہیں۔وہ اسی منظرنامے کو دیکھتے ہوئے مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ کی مذید ترقی کو انسانیت کے لیے سنگین خطرہ سمجھتے ہیں۔
آذورے اے آئی
جی پی ٹی۔4 کا سافٹ وئیر امریکا کی کمپنی، اوپن اے آئی (OpenAI) کا تخلیق کردہ ہے۔ کمپنی اس سے پہلے بھی مختلف چیٹ بوٹ بنا چکی۔یہ ایک سپر کمپیوٹر، آذورے اے آئی (Microsoft Azure) کی مدد سے اپنا کام انجام دیتا ہے۔
یہ سپر کمپیوٹر اوپن اے آئی کی شراکت دار، مائیکروسافٹ کارپوریشن نے تین سال کے عرصے میں تقریباً چار ارب ڈالر کی لاگت سے تیار کیا۔اس حقیقت سے واضح ہے کہ مصنوعی ذہانت کو انسانی ذہانت کے درجے تک پہنچانے کے لیے کثیر سرمایہ خرچ ہو رہا ہے۔
آذورے اے آئی سپرکمپیوٹر میں دو لاکھ پانچ ہزار جدید ترین اور طاقتور ترین پروسسیر نصب ہیں۔نیز اس میں دس ہزار جدید ترین اور طاقتور ترین گرافک کارڈ بھی لگے ہیں۔
یہ پروسیسینگ آلات مل کر جی پی ٹی۔4 کو کام کرنے کے قابل بناتے ہیں۔اوپن اے آئی کے اولیّں چیٹ بوٹ میں ''پانچ سو ارب الفاظ ''کا ڈیٹا موجود تھا۔خیال ہے کہ جی پی ٹی۔4 میں لاکھوں کتب کے اربوں الفاظ محفوظ ہیں اور کروڑوں تصاویر بھی فیڈ کی گئیں۔
جی پی ٹی۔4 کام کرتے ہوئے کئی ہزار یونٹ بجلی استعمال کرتا ہے۔اسی لیے اوپن اے آئی اسے استعمال کرنے والے صارفین سے فیس لے رہی ہے۔تاہم مائیکروسافٹ کارپوریشن کا براؤزر، بنگ(Bing)بھی اب اسی جی پی ٹی۔4 پر مبنی ہے۔اسے صارفین مفت استعمال کر سکتے ہیں۔ مگر مائیکروسافٹ کا اکاؤنٹ ہونا ضروری ہے۔
امتحان میں کامیابی
اربوں ڈالر کی لاگت سے بننے والا جی پی ٹی۔4 ابھی انسانی ذہانت کے معیار تک نہیں پہنچ پایا، مگر اس نے یہ ضرور ثابت کر دیا کہ اس کے الگورتھم تجربات و غلطیوں سے گذر اور مزید ڈیٹا پا کر انسانی ذہانت کے معیار کے قریب ضرور پہنچ رہے ہیں۔
مثلاً امریکا کی کئی ریاستوں میں وکلا کو اپنی پریکٹس شروع کرنے سے قبل ایک امتحان ''یونی فورم بار ایگزیم''(Uniform Bar Examination)پاس کرنا پڑتا ہے۔ اس امتحان میں انسانی عقل ودانش کا امتحان لیا جاتا ہے۔
جی پی ٹی۔4 نے یہ امتحان دیتے ہوئے ''90 فیصد''انسانی امیدواروں سے بہتر کارکردگی دکھائی اور اسے بہترین نمبر لے کر پاس کر لیا۔اوپن اے آئی کے سابقہ چیٹ بوٹ، جی پی ٹی۔ 3.5 نے یہی امتحان دیتے ہوئے ''35 فیصد'' امیدواروں سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔
جی پی ٹی۔4 نے انسانی عقل ودانش جانچنے کے دیگر امتحانات میں بھی حصہ لیا اور ٹاپ پر آیا۔ اس کی انہی کامیابیوں نے سائنس دانوں کو پریشان ومتفکر کر دیا۔ انھیں محسوس ہونے لگا کہ اس چیٹ بوٹ کا مصنوعی دماغ کارکردگی میں انسانی دماغ کے قریب پہنچ چکا۔ اور ممکن ہے کہ اس سے زیادہ طاقتور چیٹ بوٹ کارکردگی میں انسانی ذہانت کو شکست دے ڈالے۔یہی سوچ پریشان کن تھی۔
خطرے کی گھنٹی بج گئی
ماہ اپریل 23ء میں گوگل کمپنی سے وابستہ مصنوعی ذہانت کے مشہور ماہر، جیفرے ہنٹن نے اپنے عہدے سے استعفی دے ڈالا۔ان کا کہنا تھا:''مشین لرننگ انسانیت کے لیے خطرہ بن چکی۔اب اس کی ترقی و پھیلاؤ کو روکنا ہو گا۔''
امریکا کی ایک سماجی تنظیم، فیوچر آف لائف انسٹی ٹیوٹ نے عوام وخواص کے نام ایک کھلا خط تحریر کیا۔اس میں مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ کے سافٹ وئیر بنانے والی کمپنیوں سے استدعا کی گئی کہ وہ چھ ماہ تک جی پی ٹی۔4 سے زیادہ طاقتور چیٹ بوٹ بنانے کا کام روک دیں۔
اس دوران کمپنیاں اور حکومتیں مل بیٹھیں اور ایسے اصول و قوانین وضع کریں جن کے ذریعے انسانی ذہانت سے برتر کپمیوٹری سسٹم کبھی آزاد وخودمختار نہ ہو سکیں۔گویا وہ قوانین انھیں انسان کے کنٹرول ہی میں رکھیں۔اس کھلے خط پر ممتاز امریکی موجد، ایلن مسلک اور ایپل کمپنی کے شریک بانی، سٹیو ووزیک بھی دستخط کر چکے۔
مئی 23ء میں مشین لرننگ اور مصنوعی ذہانت کے سیکڑوں ماہرین کے مابین ایک سروے کیا گیا۔اس میں'' 40 فیصد''ماہرین نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ اگر مصنوعی ذہانت انسان کی ذہانت سے زیادہ طاقتور ہو گئی تو کرہ ارض پہ ایٹمی ہتھیاروں سے ہونے والی تباہی سے مماثل بربادی جنم لے سکتی ہے۔
غوروفکر کی ضرورت
امریکا و یورپ کے کئی ماہرین مشین لرننگ کا دعوی ہے کہ جی پی ٹی۔4 سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔مشین لرننگ کی ترقی سے انسانیت کو بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔لہذا اس ترقی کی راہ روکنا غلط ہو گا۔ان کا استدلال درست ہے مگر مخالف سائنس دانوں کے خدشات بھی ٹھوس دکھائی دیتے ہیں۔
ذرا سوچیے، مستقبل قریب میں مشین لرننگ کا ایسا کمپیوٹر سسٹم بن جائے جسے چلانے والا سپر کمپیوٹر مائکروسافٹ کارپوریشن کے'' آذورے''سے بھی زیادہ طاقت ور ہو۔چونکہ چپ چھوٹی سے چھوٹی ہو رہی ہے۔
لہذا انتہائی طاقتور سپر کپموٹر اگلے پانچ دس سال میں ایجاد ہو سکتا ہے۔اور ممکن ہے کہ وہ اتنا چھوٹا ہو کہ روبوٹ کے دماغ میں سما جائے۔ تب وہ روبوٹ یقیناً مصنوعی عام ذہانت پا لے گا۔اسی بات سے سائنس داں خوف کھاتے ہیں۔
اگر کوئی روبوٹ یا کمپیوٹر سسٹم انسان کے کنٹرول سے باہر ہو کر ازخود سوچنے سمجھنے اور کام کرنے کے قابل ہو گیا تو سوچنے کی بات ہے کہ تب کس قسم کی صورت حال جنم لے گی؟تب خدانخواستہ اسے وسائل میّسر آئے تو وہ سوچ سکتا ہے کہ اپنے جیسے روبوٹ یا کمپیوٹر سسٹم بنا کر اپنی تعداد میں اضافہ کر لے۔یوں ایک سے دو ، دو سے چار ، چار سے آٹھ، آٹھ سے سولہ اور سولہ سے چوبیس روبوٹ بنیں گے۔اور دیکھتے ہی دیکھتے روبوٹوں کی فوج تیار ہو جائے گی۔
یہ فوج پھر کرہ ارض پہ قبضہ کر کے انسان کو غلام بنا لے گی۔آخر انسان بھی ہزارہا سال سے کئی جانوروںکو اپنا غلام بناتا چلا آ رہا ہے۔لہذا اس کی تخلیق بھی اسی کے نقش قدم پر چل پڑی تو اس میں حیرت کی کیا بات؟
سائنس فکشن فلموں میں یہ منظرنامہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ انسان اور مشینیں ایک دوسرے سے نبردآزما ہیں۔زمین تاریکی کی گرفت میں ہے۔
ہر طرف آگ ودھواں نظرآتا ہے۔انسان تباہی وبربادی کی لپیٹ میں ہے۔اگر کمپیوٹر سسٹم نے خصوصاً مصنوعی سپر ذہانت پا لی تو فلموں میں دکھائے جانے والے مناظر حقیقت کا روپ بھی دھار سکتے ہیں۔یہی امکان اکثر سائنس دانوں کو جدید ترین کمپیوٹر سسٹم سے خوفزدہ کر دیتا ہے۔
1900ء میں زمین پر تقریباً دو ارب انسان آباد تھے۔صرف ایک سو تئیس سال میں انسانی آبادی بڑھ کر آٹھ ارب سے زیادہ ہو گئی۔انسانی آبادی کی تیز رفتار پھیلاؤ اور قدرتی وسائل کے بے پناہ استعمال کی وجہ سے کرہ ارض کا فطری ماحول رفتہ رفتہ تباہ ہو رہا ہے۔تصّور کیجیے کہ مصنوعی سپر ذہانت کے حامل کمپیوٹر سسٹم دنیا میں پھیل گئے تو تب کیا ہو گا؟
یہ کمپیوٹر سسٹم تو رہا سہا قدرتی ماحول بھی تباہ کر سکتے ہیں۔انسان میں تو پھر جذبات و احساسات موجود ہیں۔
وہ کبھی نہ کبھی دیگر جانداروں کی ضروریات کا خیال کر لیتا ہے۔کمپیوٹر سسٹم یا مشینیں تو جذبات سے عاری ہوں گی۔ان کی بنیادی سوچ یہ ہو گی کہ اپنی اور اپنی نسل کی بقا قائم رکھی جائے۔لہذا انسان ، حیوان، چرند پرند، درخت و پھول انھیں بے فائدہ لگے تو وہ ان کو نیست ونابود بھی کر دیں گے۔یوں درخت نہ ہونے سے زمین پہ زندگی ناپید ہو جائے گی کہ آکسیجن جو نہیں رہے گی۔
غرض کمپیوٹر سسٹم کا مصنوعی سپر ذہانت بلکہ مصنوعی عام ذہانت پا لینا کوئی معمولی بات نہیں ...بلکہ عین ممکن ہے کہ جب بھی ایسا ہوا، واقعات کا خوفناک سلسلہ جنم لے گا۔وہ آخر بنی نوع انسان کی تباہی پر منتج ہو سکتا ہے۔اسی بھیانک منظرنامے کو دیکھ کر سائنس داں اصول وقوانین کا ایسا مجموعہ چاہتے ہیں جو کمپیوٹر سسٹم کو اپنی حدود میں رکھے اور کبھی اسے انسان کے کنٹرول سے باہر نہ ہو نے دے۔
یہ درست ہے کہ کمپیوٹر سسٹم جنھیں روبوٹ یا مشین کہہ لیجیے، کئی اعتبار سے انسانوں کی مدد کرسکتے ہیں۔مثلاً گھروں میں کام کاج کرنا، بوڑھوں کی دیکھ بھال، خواتین کی حفاظت۔پھر یہ نت نئی ایجادات پانے میں ہماری مدد کریں گے۔
بڑی ٹیک کمپنیاں بھاری منافع پانے کی خاطر اربوں ڈالر خرچ کر کے زیادہ جدید کمپیوٹر سسٹم بنائیں گی مگر ان کے منفی اثرات بھی ہیں۔مثلاً لاکھوں ملازمتوں کا خاتمہ۔اور یہ بڑا خطرہ کہ کہیں کمپیوٹر سسٹم خودمختار نہ ہو جائیں۔غرض بنی نوع انسان کو چاہیے کہ وہ نئی ٹکنالوجی کو الل ٹپ نہیں اپنائے بلکہ اس کے مثبت ومنفی عوامل پہ خوب غوروفکر کر لیے۔ایک غلط فیصلہ انسانیت کو مشینوں کا غلام بنا دے گا۔