ایران کی ڈھائی ہزار سالہ شہنشاہیت اور محمد رضا شاہ پہلوی
شہنشاہ نے تکبرکرتے ہوئے ایرانی سلطنت اورحکمرانی کو خلافت راشدہ سے توڑکرسائرس اعظم کی ڈھائی ہزارسالہ قدیم تاریخ سے جوڑا
میں 1968 ء میں مڈل اسکول میں زیر تعلیم تھا اُس زمانے میں ہم سنیما گھر وں میں جا کر فلم دیکھنے لگے تھے عمر کوئی چودہ، پندرہ برس تھی فلم شروع ہو نے سے پہلے پاکستان میں حکومت کی کارکردگی کی پر وپیگنڈ ا مختصر دورانیے کی دستا ویزی اردو فلم پاکستان کا تصویری خبرنامہ دکھائی جاتی تھی ۔
کوئٹہ کے سنیما گھروں میں اس کے علاوہ ایران کی پروپیگنڈہ فارسی فلم بھی چلتی تھی، ہماری فلم میں صدر ایوب خان کی کارکردگی اور ایرانی فارسی فلم میں شہنشاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی کی کار کردگی دکھائی جاتی تھی۔
1971 ء میں جب ہم نوجوانی میں قدم رکھ چکے تھے اور ہمارے ملک میں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں 1970 ء کے انتخابات کے بعد اقتدار کی منتقلی میں تاخیر ہو رہی تھی اور سیاسی بحران بڑھ گیا تھا اسی دور یعنی1971 ء کے آغاز پر شہنشاہ رضاشاہ نے ایران میں ڈھائی ہزار سالہ بادشاہت کا جشن منانا شروع کیا جو سال بھر جاری رہا۔
کوئٹہ شہر جو انگریزوں نے 1878 ء میں تعمیر کیا تھا اور اس کی سب سے خوبصورت اور اہم سٹرک جو جنوب سے شمال کی جانب جاتی ہے، آج اس سٹرک پر گورنر ہاؤس، وزیراعلیٰ ہاؤس، سیکریٹ، بلوچستان صوبائی اسمبلی ، بلوچستان ہائی کورٹ کی عمارات کے علاوہ اعلیٰ ترین عہدیداروں کے بڑے بڑے سرکاری بنگلے ہیں، اس سٹر ک کا نام 1878 ء کے ہندوستان کے وائسرائے لارڈ لٹن کے نام سے لٹن روڈ رکھا تھا۔
شنہشاہ ایران کی جانب سے ڈھائی ہزار سالہ جشن منائے جانے پر اس سٹرک کا نام شارع رضا شاہ پہلوی رکھ دیا گیا، بعد میں اس سڑک کا نام کوہ زرغون کی مناسبت سے شارع زرغون رکھ دیا گیا، یہ جشن نہ صرف ایران میں منایا جا رہا تھا بلکہ اُس زمانے میں پاکستان میں بھی شہنشاہ ایران کا ڈھائی ہزار سالہ جشن بھرپور طور پر منایا جا رہا تھا کیو نکہ ایران، ترکیہ اور پاکستان تینوں RCD علاقائی تعاون برائے ترقی نامی تنظیم میں شریک تھے اور پاکستان، ایران اور ترکیہ کو ملانے والی شاہراہ کو آج بھی آر سی ڈی شاہراہ کہا جاتا ہے۔
زمانہ طالب علمی میں جب کوئی بات ہمیں سمجھ نہیں آتی تو ہم اپنے والد سے دریافت کر لیا کرتے تھے اُن کا مطالعہ بہت وسیع تھا اور صاحب بصیرت بھی تھے، ہم نے اُس وقت والد مرحوم سے ایرانی بادشاہت کے حوالے سے دریافت کیا اور اُنہوں نے بہت وضاحت سے صورتحال سے آگاہ کیا، اُنہوں نے بتایا کہ ڈھائی ہزار سالہ بادشاہی کے جشن سے قبل ایران کی حکمرانی کا تعلق تاریخی اعتبار سے خلافت راشدہ سے جوڑا جاتا تھا۔
ایران کی تاریخ میں یوں تو اور بھی شہنشاہ گزرے ہیں لیکن King Cyrus the Greatسائرس اعظم جس کا دور اقتدار 590 قبل مسیح سے 529 قبل مسیح تھا بہت اہم ہے اُس کے بعد سائرس سلطنت کے 12 مزید شہنشاہ 330 قبل مسیح تک رہے لیکن سائرس اعظم دنیا کی تاریخ کا سب سے عظیم شہنشاہ کہلوایا جس کی سلطنت کی حدود اُس وقت کی معلوم دنیا کے چاروں اطراف پھیلی ہوئی تھیں اور اُس کی سلطنت کا رقبہ 55 لاکھ مربع کلومیٹر تھا اور بلاشبہ اُس نے اپنا نظامِ سلطنت اُس زمانے کے اعتبار سے بہت معیاری رکھا تھا۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ عراق دریا ئے فرات دریائے دجلہ کی سرزمین بابل اور نینوا بھی ایرانی تہذیب کی طرح ایک ترقی یافتہ معاشرہ تھا جس میں ہیمورابی جیسے بادشاہ نے دنیا میں پہلی بار مملکت اور حکومت کے اعتبار سے ایک باقاعدہ آئین دیا تھا اور اِن قوانین کو اُس نے بابل کے شہر کے سب سے اہم چوراہے پر پتھر کی ایک بڑی لوح پر کندہ کر وا دیا تھا جس میں عوام سے لے کر بادشاہ وزیراعظم اعلیٰ عہدیداران سب کے حوالے سے حقوق و فرائض کا تعین کر دیا تھا اسی نینوا وبابل کی تہذیب میں، بخت نصر جیسا عظیم مگر متکبر بادشاہ گزرا تھا جس نے اُس زمانے میں بڑی بلند و بالا عمارات تعمیر کر وائیں اور معلق باغات بنوا کر دنیا کو حیران کر دیا۔
اُس نے بڑی فتوحات بھی کیں، فسلطین کی فتح پر اُس نے چالیس ہزار سے زیادہ یہودیوں کا قتل عام کیا اور باقی یہویوں کو فلسطین سے پکڑ کر عراق لے آیا اور اِن کو جلا وطنی میں یہاں نہایت ذلت آمیز زندگی گزارنے پر مجبور کیا۔ بخت نصر جو دہریہ تھا اس کے بار ے میں روایت ہے کہ جب وہ اپنی طاقت اور اقتدار کے نشے میں بدمست تھا تو اُس نے غرور میں کہا کہ ہے کوئی جو اُس کا مقابلہ کرے،عین اُسی وقت ایک غیبی ہاتھ سامنے آیا اور اُس نے دیوار پر لکھ دیا کہ تیری سلطنت کا زوال لکھ دیا گیا ہے۔
آج دنیا کی ہر زبان میں یہ ضرب المثل (نوشتہء دیوار) استعمال ہوتی ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ ہر حاکم وقت بخت نصر کی طرح اس کو نظرانداز بھی کر دیتا ہے، شائد اللہ تعالیٰ کو یہی منظور ہو ، بہرحال بخت نصر کے مقابلے میں سائرس اعظم، عظیم انسان تھا اور تہذیبی اعتبار سے اُسے غالباً ہیمو رابی کا ہم پلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح ایران میں سائرس سے قبل زرتشت ایرانی زرتشت مذہب کا بانی جسے پارسی یعنی آتش پرست اپنا پیغمبر مانتے ہیں، 628 قبل مسیح سے 551 قبل مسیح رہا، شروع میں اس کے مذہب کی بہت مخالفت ہوئی، 628 قبل مسیح میں شمالی ایران میں پیدا ہونے والے زرتشت نے چالیس برس کی عمر میں شمالی ایران کے بادشاہ ''دشتاپسا'' کو اپنا ہم خیال بنا لیا، زرتشت77 برس کی عمر میں انتقال کر گیا، پارسی مذہب کی کتاب Avasta) ) 'اوستا' ہے۔
اس مذ ہب میں نیکی اور بدی کے خداؤں کا ذکر ہے مگر وہ واحد خدا کو نیکی کا خدا مانتے ہیں ، یہودیوں کی طرح اِن کے مذہب میں بھی یہ ہے کہ جو شخص آتش پرست ماں اور باپ کی اولاد نہیں ہو گا وہ پارسی یا آتش پر ست نہیں ہو سکتا، سائرس کے زمانے تک زرتشت کا یہ آتش پرست مذہب جو ایران کے سرد خطے سے ابھرا تھا، ایک بڑا مذہب بن گیا تھا۔
دنیا کی تاریخ میں غالباً یہودیت اور زرتشت ہی ایسے مذاہب ہیں جو مذہب کی بنیادکے ساتھ تنگ نظر نیشنلزم ، قوم پرستی سے جڑے ہوئے ہیں اور اسی لیے آج دنیا بھر میں صرف ایک لاکھ آتش پرست رہ گئے ہیں اور پوری دنیا کی تقریباً آٹھ ارب انسانوں کی آبادی میں یہودیوں کی کل تعداد ڈیڑھ کروڑ سے کچھ زیادہ ہے۔
بہر حال سائرس اعظم کی وسیع حکومت تھی جو سنٹرل ایشیا مشرق وسطیٰ، ترکیہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ اسی سائرس اعظم نے جب بابل کو فتح کیا تو مدتوں بعد اِن جلا وطن یہودیوں کو یہاں سے عزت وتکریم کے ساتھ واپس فلسطین میں آباد کیا۔
آج تک یہودی اگر اپنے پیغمبروں کے بعد اگرکسی کو مقدس و محترم مانتے ہیں تو وہ سائرس اعظم ہے، یوںجب شہنشاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی نے اپنی ایرانی سلطنت کے اعتبار سے اس کی بنیاد کو سائرس اعظم سے جوڑا تو اُس نے وہی متکبرانہ انداز کی قوم پرستی کو اپنایا جس کی بنیاد پر مذہبی قوم پرست دوسری قوموں اور انسانو ں کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں ۔
واضح رہے کہ جب اسلام دنیا میں آیا تو اُس وقت روم اور ایران 'فارس' دنیا کی دوبڑی طاقتیں تھیں۔ نبی کریم ؐ کی پیدائش کے حوالے سے روایت ہے کہ جب آپؐ کی مکہ میں ولادت ہوئی تو ایران کے مرکزی آتش کدے میں جو آگ مسلسل صدیوں سے روشن تھی وہ اچانک ایک بار بجھ گئی تھی اور اُن کے مذہبی پیشوا یہ سمجھ گئے تھے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کا نبی ؐ آچکا ہے پھر ایران سے روحانی رشتہ یا تعلق اُس وقت پیدا ہوا جب ایران سے ایک آتش پرست پیشوا کے ہاں عاشقِ رسولؐ حضرت سلمان فارسیؓ پیداہو ئے۔
جوان ہونے پر اِ ن کے دل میں اللہ تعالیٰ نے تلاشِ حق کا نور جگا دیا اُنہوں نے تلاش حق کے اعتبار سے ایران چھوڑ کر شام کا سفر کیا جو اُس زمانے میں عیسائیت کا بڑا مرکز تھا، جہاں وہ عیسائی مرکز میں گئے اور عیسائی مذہب کو قبول کر لیا مگر یہاں کا سب سے بڑا مذہبی پیشوا بد دیانت اور برا انسان تھا جب کہ اُس کا نائب نیک،ایماندار پیشوا تھا، اُس نے حضرت سلمانؓ سے کہا کہ تمیں اللہ تعالیٰ کے سچے نبیؐ کی تلاش ہے تو میرے علم کے مطابق وہ سچے نبیؐ دنیا میں آچکے ہیں اور پہچان کے لیے تین نشانیاں بتائیں
نمبر1 ۔ وہ ؐجہاں رہتے ہیں وہاں کھجوروں کے گھنے باغات ہیں
نمبر2 ۔ وہ ؐصدقہ نہیں لیتے البتہ 'تحفہ' قبول کر لیتے ہیں
نمبر3 ۔ ان ؐکی پشت پر دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہے
اس کے بعد حضرت سلمان فارسیؓ ایک قافلے میں شامل ہو کر حضورؐ کی تلاش میں نکلے قافلہ سالار بد دیانت آدمی تھا جس نے دھوکہ بازی کرتے ہوئے سلمان فارسی کو غلام کے طور ایک شخص کو فروخت کر دیا جو مدینہ کا رہنے والا تھا۔
جہاں پہنچ کر سلمان ؓ فارسی نے آخر حضور ؐ کو پہچان لیا یہی حضرت سلمان فارسیؓ تھے جنہوں نے غزوہِ خندق کے موقع پر حضورؐ کو بتایا تھا کہ ایران میں ایسے مواقع پر خندق کھود کر دفاعی جنگ لڑی جاتی ہے اور پھر اُنؓ کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے خندق کھود کر جنگ لڑی گئی ، دشمن کفارِ مکہ پسپا ہو گئے۔
ایرانی نیشنلزم کا غرور تکبر ہی تھا جب بنی کریمؐ نے ایران سمیت دنیا کے مختلف ملکوں کے بادشاہوں کو دعوتِ اسلام دیتے ہوئے خطوط بھیجے تھے تو ایران کے مغرور بادشاہ Ghosroes ، نے نبی کریمؐ کا خط پھاڑ دیا تھا جس پر آپﷺ نے اس کے لئے بددعا فرمائی تھی کہ تیری سلطنت بھی اسی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی اور پھر ایساہی ہوا، حضرت عمر فاورقؓ کے زمانے میں ایران فتح ہو گیا۔
ایران کے آخری بادشاہ شہنشاہ محمد رضا شاہ پہلوی نے بھی ایران کی وہ تاریخ جو حکمرانی کے اعتبارسے خلافتِ راشدہ سے منسلک تھی اُسے ترک کر کے دینِ اسلام کی بجائے خود کو سائرس اعظم کی تاریخ سے منسلک کرتے ہوئے ایران میں شہنشاہت کا ڈھائی ہزار سالہ جشن منایا تو اُس وقت وہ بابل کے بخت نصر کے غرور پر 'نوشتہ دیوار' پڑھنے کی صلاحیت سے عاری ہو چکا تھا۔ بادشاہ کو احساس ہی نہیں تھا کہ ایک عالم دین امام خمینی جسے وہ اپنے تئیں ملک بدر کرکے مطمین ہو چکا تھا، ٹھیک نو برس بعد ڈھائی ہزار سالہ بادشاہت کے غرور کو پاش پاش کر دے گا۔
ایران کی قدیم تاریخ میں اِ ن ڈھائی ہزار برسوں میں 35 بادشاہتیں یعنی بادشاہی خاندان یا سلطنتیں رہیں اور اِس دوران حکمرانوں بادشادہوں، شہنشاہوں کی کل تعداد 416 رہی اور11 فروری1979 ء کو یہ ڈھائی ہزار سالہ دورِ شنہشاہی ایران سے رخصت ہو گیا ، مگر یہ اچانک یا ایک دم نہیں ہوا اور بقول شاعر قابل اجمیری( وقت کرتا ہے پرورش برسوں ۔۔ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا) ۔
سلطنت ِ ایران یہاں اسلام کی آمد سے پہلے اور بعد میں بھی وسیع رقبے کے علاقوں پر پھیلی رہی، اس سلطنت کا مقابلہ، روم ، ترکیہ ، روس سے ہوتا رہا ، نادر شاہ افشار وہ آخری ایرانی شہنشاہ تھا جس کی سلطنت رقبے کے اعتبار سے سنٹرل ایشیا، افغانستان، مشرق وسطیٰ، سلطنت عمان تک پھیلی ہوئی تھی اورآج کے پاکستان کے بھی بہت سے علاقے ایران کے زیر تسلط تھے ۔ نادر شاہ نے مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلا کے دور میں ہندوستان کو تاراج کیا تھا اور وہاں سے تختِ طاوس اور کوہ نور ہیرا سمیت بہت بڑا خزانہ لوٹ کر ایران واپس ہوا تھا۔ نادر شاہ افشار کادور 8 مارچ 1736 ء سے 20 جون1747 ء تک رہا اس کے بعد افشاری سلطنت یا بادشاہت ایران سمیت ایک بڑے علاقے پر 1796 ء تک قائم رہی اوراس دوران اس خاندان کے 7 بادشاہ رہے۔
اس دورانZand Kingdom زاند سلطنت کا دورِ حکومت بھی ایک علاقے پر 1751 ء سے 1794 ء تک رہا اور اس خاندان کے 9 بادشاہ برسراقتدار رہے، پھر ایران پر قاچار بادشاہت کا اقتدار آیا، قاچار بادشاہوں کی حکمرانی 1799 ء سے 1925 تک رہی ۔ یہ دور برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے اعتبار سے اور سلطنت ِبرطانیہ کی بنیاد پر مشرق وسطیٰ اور بعد میں یورپ میں نپولین کے ساتھ جنگوں کے لحاظ سے اہم بھی رہا اور ایسٹ انڈیا کمپنی اور سلطنت برطانیہ نے اس دوران بڑی اہم فتوحات بھی حاصل کیں۔
1799ء میں برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی کو میسور میں سلطان فتح علی ٹیپو کے مقابلے میں ہندوستان کی عظیم فتح حاصل ہوئی، ساتھ ہی برطانیہ کو ہندوستان میںاپنی زیادہ مضبوط بنیاد رکھنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی کے تعاون سے ایران میں بھی اپنا اثرورسوخ قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی، اسی دور میں برطانیہ نے مشرق وسطیٰ خصوصا خلیج فارس کے علاقے خصوصاً سلطنت عمان میں بھی قدم جمانے کی منصوبہ بندی پر عملدآمد شروع کر دیا تھا۔
تاریخ کا گہر امطالعہ کریں تو اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انگریز کی منصوبہ بندی اور اسٹرٹیجی ہمیشہ لاجواب رہی ہے مگر ساتھ ہی بہت سے تاریخی مواقع ایسے تھے جہاں قسمت نے انگر یز کا ساتھ دیا۔ ایران، افغانستان اور سنٹرل ایشیا میں بنیادی طور پر روس اور برطانیہ کے درمیان گریٹ گیم کے حوالے سے سازشیں، لڑائیاں اور جنگیںاسی دور سے شروع ہو چکی تھیں، اسی زمانے میں یکم نومبر 1856 ء سے4 اپریل 1857 ء پانچ مہینے 3 دن اینگلو پرشین جنگ جاری رہی، یہ جنگ ایرانی قاچار بادشاہ اور ہرات پر دعوی کے امیر جن کو کابل کے حکمران اور انگریز کی سپورٹ حاصل تھی ان کے درمیان لڑی گئی اور اس میں فوج کے اعتبار سے ہندوستان میں بنیاد رکھنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجی امداد حاصل تھی ۔
ایرانی فوج کی کمانڈ قاچار خاندان کے ایرانی شہنشاہ تھاماسپ مرزا اور جنرل نصرالدین کی تھی جبکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج جس کو افغانستان کی مدد بھی حاصل تھی اس کی کمانڈ جنرل جیمس کوٹرم ۔ ایم جی فاسٹر اور افغانستان کی جانب سے دوست محمد نے کی، انگریز اور برطانوی فوج تقریباً ایک لاکھ تھی جب کہ ایرانی فوج اس کے مقابلے میں کم تھی ، ایران کو جنگ میں شکست ہوئی، نتیجے میں معاہدہ فارس ہوا اور ایران کو ہرات سے دستبردار ہونا پڑا یہ جنگ 4 اپریل 1857 ء میں یعنی ہندوستان کی جنگ آزادی کے ایک مہینہ 6 دن پہلے ختم ہو گئی اگر یہ جنگ کچھ دیر چلتی تو انگریز کو ہندوستان اور ایران دونوں مقامات پر شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا یہ بھی ممکن تھا کہ اِن دونوں مقامات پر انگریزوں کو شکست ہو جاتی۔
معاہدے کے مطابق ایران نے 1863ء میں ہرات کو افغانستان کے دوست محمد کے حوالے کر دیا مگر ساتھ ہی ایران اور روس کی جنگیں بھی 1804ء ۔1813ء اور پھر 1826ء اور1828 ء کے درمیان رہیں ، پہلی روس، فارس جنگ 1804ء تا 1813ء تک کی جنگوں میں روس اور ایران کے ہزاروں افراد جان بحق ہوئے، یہ جنگ روس کی جانب سے جارجیا اور دیگر علاقوں پر قبضے اور دعویٰ پر ہوئی اور آخر میں روس اور ایران کے درمیان معاہدہ' گلستان' ہوا، جارجیا کے علاقے روس کے حوالے کر دئیے گئے اور داغستان، آرمینیا اور آذربائیجان کے علاقوں پر ایران کے حق کو تسلیم کر لیا گیا، پھر 1826 ء سے1828 ء تک کی روس ایران، فارس،جنگ کے بعد معاہدہ کی صورت میں ایران کے ہاتھ سے جارجیا، آرمینیا ،آذربائیجان کے علاقے بھی نکل گئے۔
1881 ء میں ایران نے سرکاری طور پر ترکمانستان پر Treaty of Akhal معاہدہِ اکحال کے تحت روس کا قبضہ تسلیم کر لیا، یوں ایران اور روس کے درمیان160 سالہ جنگوں اور لڑائیوں کا دور ختم ہوا۔
بیسویں صدی کے آغاز پر ایران کی جو ماضی کی ایک بڑی سلطنت اور ترکیہ ، روس کے مقابلے میں ریجن کی ایک طاقت تھی اب اُس کی وہ حیثیت نہیں رہی تھی۔ دوسری جانب دنیا میں اب سلطنتوں میں بادشاہت کے نظام میں دستور متعارف ہو رہے تھے، خصوصاً یورپ میں تو یہ سلسلہ اٹھارویں صدی عیسوی صدی سے خاصا مضبوط ہو گیا اور بادشاہتوں کے نظام میں عوامی جمہوریت کا رنگ بھی شامل ہو چکا تھا، مگر ہمارے ہاں سلطنت عثمانیہ، افغانستان اورایران میں ابھی ایسی سیاسی اصلاحات متعارف نہیں ہوئی تھیں، بادشاہ مطلق العنان تھے۔
ایران میں انقلابی صورتحال کے بعد 1905 ء میں پہلا آئین نافذ العمل ہوا، قاچار شاہی خاندان1799 ء سے 1925 ء تک 126 سال اقتدار میں رہا لیکن اس دوران ہی ایران مسلسل زوال آمادہ رہا ، مگر ایرانی قوم اُس وقت تک شاہ پرست قوم تھی اس لیے وہ اب بھی قاچار سلطنت سے یہ امید لگائے بیٹھی تھی کہ یہ بادشاہ ایران کی عظمت رفتہ کو ایک بار پھر بحال کر دیں گے، مگر ایسا نہیں ہوا، 1905 ء کے آئین کے تحت 1906 میںایران میں پارلیمنٹ وجود میں آگئی مگر جمہوری مزاج نہیں آسکا 1909 ء میں قاچار بادشاہ کو ایکبار پھر روس کے مقابلے میں شکست ہوئی اور روس نے شمالی ایران کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا، 1911 ء میں قاچار بادشاہت کے خلاف کو چجک خان کی جنگل تحریک شروع ہوئی۔
پہلی جنگِ عظیم کے دوران برطانیہ نے ایران کے مغربی حصے پر قبضہ کر لیا ، پھر پہلی جنگ عظیم شروع ہو گئی تو ایران اگر چہ اس جنگ میں براہ راست شریک نہیں ہوا مگر 1914 ء سے 1920 ء کے دوران ترکوں نے آرمینینز کا قتل عام کیا، اس کے بعد 1921 ء میں ایران میں تاریخ کا بدترین قحط آیا اور یہاں اسی لاکھ سے ایک کروڑ کے درمیان افراد جان بحق ہو گئے۔
اب ایرانی واقعی قاچار سلطنت کے خلاف ہو گئے تھے او رکوئی تبدیلی چاہتے تھے، کیونکہ ایران کے ہمسائے میں ترکیہ میں خلافت ِ عثمانیہ کی شکست کے بعد مصطفی کمال پاشا نے ترکی کو آزاد اور محفوظ کر لیا تھا اور جدید، ماڈرن انداز کی معاشرت کو اپنایا تھا، اسی زمانے میںایران کے دوسرے ہمسایہ یعنی افغانستان میں غازی امان اللہ خان نے انڈیا کی انگریز سرکار کے خلاف تیسری اینگلو افغان جنگ کرکے افغانستان کو مکمل طور پر آزاد کر لیا تھا۔
اسی سال ایران میں قاچار بادشاہ کا تخت الٹ دیا گیا اور جنرل رضاشاہ وزیراعظم ہو گئے اور پھر 1925 ء میں رضا شاہ نے اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا، یوں ایران میں پہلوی سلطنت کا آغاز ہوا، جنگ عظیم اوّل کے دوران ہی روس میں لینن اور اسٹالن کیمونسٹ انقلاب لے آئے تھے۔
ایران کی جدید تاریخ میں معدنی تیل بہت اہمیت رکھتا ہے، برطانیہ کی آئل کمپنی نے 26 مئی 1908 ء کو یہاں تیل کے ذخائردریافت کر لیے، 1909 میں Anglo-persian OIL Company نے یہاںتیل کی پیداوار شروع کر دی تھی، اس کمپنی نے یہاں براہ راست اس پر کنٹرول کے حقوق حاصل کر لیے اور اس میں مستقبل میں 37 سال تک کوئی تبدیلی نہ کرنے کا معاہدہ ہوا، 1935 ء کے بعد اسی کمپنی نے 60 سال کے لیے معاہدہ کر لیا، مگر تیل کی پیداوار کے باوجود ایران میں قابل ذکر خوشحالی نہیں آئی اور ایران نے ترقی نہیں کی۔
1925 ء سے 1941 ء تک پہلوی خاندان کے پہلے بادشاہ رضا شاہ جو ایران کے آخری بادشاہ محمد رضا شاہ کے والد تھے اِ ن کا اقتدار رہا ، اس دوران برطانیہ سوویت یونین مفادات کی وجہ سے ایران میں اِ ن دونوں کے درمیان کھچاؤ شروع ہو گیا۔
قاچار شاہی خاندان کے بعد جب پہلوی جنرل رضا شاہ برسرا قتدار آئے تو عوام نے ان سے امیدیں باندھ لیں، رضاشاہ اس کا ادراک رکھتا تھا وہ یہ جانتے تھے کہ اگر اُنہوں نے جلد عوام کے لیے بڑے کام نہیں کئے تو عوام اِن کے خلاف ہو جائیں گے، اسی دوران شاہ نے ایران میں ریلوے کے ایک پروجیکٹ کو جرمن کمپنی کے حوالے کیا تھا ، جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو
سوویت یونین ، جرمنی کے درمیان اتحاد کا معاہدہ تھا جس کو جرمنی کے ہٹلر نے توڑ دیا اور پھر سوویت یونین جرمنی کے خلاف اتحادیوں کی صف میں شامل ہو گیا۔ اب برطانیہ اورسوویت یونین دونوں یہ چاہتے تھے کہ یہاں سے اسلحہ کی ترسیل ہو اور اس میں یہ ریلوے پروجیکٹ استعمال ہو جس پر جرمن ایران ریلوے پروجیکٹ کے جر من مینجر نے انکار کر دیا۔
یوں سوویت یونین کی فوجیں شمال سے ایران میں داخل ہو گئیںاور برطانوی فوجیں خوزستان اور سنٹرل ایران میں داخل ہوئیں اگرچہ اس موقع پر رضا شاہ کو اُن کے بیٹے نے مشورہ دیا تھا کہ وہ سوویت یونین اور برطانیہ کی بات مان لیں اور جرمن ریلوے پروجیکٹ کو اسلحہ کی ترسیل کے لیے استعمال کرنے دیں مگر رضا شاہ نے انکار کر دیا۔
اس کے بعد 26 اکتوبر 1919 ء میں پیدا ہونے والے رضاشاہ کے بیٹے محمد رضا شاہ کو 22 برس کی عمر میں ایران کا بادشاہ بنا دیا گیا، یہ پہلوی خاندان کے دوسرے اور ایران کے آخری بادشاہ تھے جو 16ستمبر1941 ء کو تحت نشین ہوئے اُن کی پہلی شادی مصری شہزادی فوزیہ سے ہوئی تھی جس کے بارے میں بیان کہا جاتا ہے کہ اُس وقت ایران ترکیہ عراق کے درمیان اتحاد تھا اور ترکیہ کے صدر اتاترک مصطفی کمال پاشا یہ چاہتے تھے کہ مصر بھی اس اتحاد میں شامل ہو جائے اس لیے اُنہوں نے ایران کے بادشاہ کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کی شادی مصر کے بادشاہ کی شہزادی سے کرا دیں یوں محمد رضا شاہ کی پہلی شادی 1939 ء میںمصر کی شہزادی فوزیہ سے ہوئی یہ ملکہ ایران کی ملکہ کے طور پر 1948 ء تک رہیں مگر دونوں میں تعلقات کبھی خوشگوار نہ ہو سکے۔
محمد رضا شاہ کی دوسری شادی ملکہ ثریا اسفندی بختاری سے 1951 ء میں ہوئی اور یہ شادی 1958 ء تک قائم رہی کہا جاتا ہے کہ ملکہ ثریا کے ساتھ اُن کے تعلقات بہت خوشگوار تھے آپس میں محبت بھی تھی مگر شہنشاہ کو ولی عہد کی ضرورت تھی اور ملکہ ثریا سے ولی عہد پیدا نہ ہو سکا۔ محمد رضا شاہ یہ چاہتے تھے کہ وہ ملکہ ثریا کے ہو تے ہو ئے دوسری شادی کر لیں مگر ثریا کو یہ برداشت نہیں تھا تو طلاق کے بعد شہنشاہ رضا شاہ نے تیسری شادی فرح دیبا سے کی جن سے 31 اکتوبر 1960 ء کو ولی عہد کی پیدائش ہوئی جس کے بعد شہنشاہ کی تاج پوشی بھی ہوئی۔
شہنشاہ محمد رضا شاہ کو پہلے شدید نوعت کے سیاسی بحران کا سامنا 21 جولائی 1952 ء میں کرنا پڑا جب ایران کے 35 ویں وزیر اعظم کے طور پر ڈاکٹر مصدق عوام کے بھاری ووٹوں سے منتخب ہوئے۔ یہ 19 اگست 1953 تک ایران کے ایسے وزیراعظم رہے جو ایران میں بر طانیہ امریکہ کے مفادات کے خلاف تھے۔ اُنہوں نے اقتدار میں آتے ہی برطانوی آئل کمپنی کو قومی ملکیت میں لے لیا اور حالات اتنے خراب ہوئے کہ شاہ کی بادشاہت اور جان کو خطرات لاحق ہو گئے اور پھر شاہ ایران ملک سے چلے گئے۔
ڈاکٹر مصدق بائیںباز سے تعلق رکھتے تھے اور اُن کو سوویت یونین کی حمایت حاصل تھی پھر کچھ دن بعد ہی امریکہ کی سی آئی اے اور بر طانوی خفیہ ایجنسی کی سازش سے ڈاکٹر مصدق حسین کی حکو مت کو ختم کر دیا گیا جس میں اہم کردار ایرانی فوج نے ادا کیا تھا، وزیراعظم ڈاکٹر مصدق حسین کو گر فتار کیا گیا اور شہنشاہ ایران واپس وطن آئے تو ڈاکٹر مصدق پر مقدمہ چلایا گیا، پہلے یہ کہا گیا کہ اُن کو سزائے موت دی جا ئے گی بعد میں اُن کو عمر قید کی سزا دی گئی اور اُ ن کے گھر کو ہی جیل قرار دیدیا گیا، جہاں وہ 1967 ء میں انتقال کر گئے تو اُن کو اُن کے گھر کے صحن میں ہی دفن کر دیا گیا۔ 1953 ء کے بعد شاہ ایران ایک جانب امریکہ کے ممنون اور احسان مند تھے تو دوسری جانب اُنہوںنے اب اپنے مخالفین کو دبانے اور مٹانے کے لیے سخت اقدات کئے۔
ایرانی خفیہ ایجنسی اب ملک بھر میں خوف وہراس کی علامت بن گئی تھی کوئی ذرا بھی زبان کو جنبش دیتا تو اُسے گرفتار کر کے مار دیا جاتا یا شدید تشدد کیا جاتا بعض کو ملک بدر کر دیا جاتا۔ ایران نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہوا تھا اور ایران کے علاقے اور خلیج فارس میں امریکہ کا سپاہی تصور کیا جاتا تھا۔
اسی طرح صدر ایوب خان اور پھر صدر جنرل یحٰی خان بھی امریکی حمایت یافتہ تصور کئے جاتے تھے اور ساتھ ہی سعودی عرب بھی امریکہ کا حمایتی تسلیم کیا جاتا تھا لیکن ستر کی دہائی کے آغاز پر جب 1971 میں شہنشاہ محمد رضا شاہ ایران میں بادشاہت کا ڈھائی سالہ جشن منا رہے تھے تو دنیا میں بڑی اہم تبدیلیاں شروع ہوگئی تھیں ، جولائی 1971 ہی میںپاکستان سے امریکی سیکرٹری ہنری کسنجر نے چین کا خفیہ دورہ کر کے چیرمین ماوزے تنگ ، وزیراعظم چواین لائی اورامریکی صدر نکسن کے درمیان مذاکرات کا راستہ ہموار کر دیا تھا ۔
16 دسمبر کو ایران کے مشرقی ہمسائے یعنی پاکستان میں بھارت سے جنگ کے بعد مشرقی حصہ الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا اسی سال شہنشا ہ محمد رضا شاہ نے بھارت کا سرکاری دورہ بھی کیا تھا اور بھارت سے قریبی تعلقات کو مزید مضبوط کر نے کا عہد کیا تھا ۔ 1972 میں امریکہ چین تعلقات استوار ہوئے، چین کو تائیوان کی جگہ اقوام متحدہ میں نہ صر ف جنرل اسمبلی کی رکنیت دیدی گئی بلکہ اس کو سکیورٹی کونسل میں ویٹو پاور اور مستقل رکنیت مل گئی۔ 1973 میں عرب اسرائیل جنگ میں شام ، اردن ، مصر اور اِن کی حمایت کر نے والے ممالک کو اسرائیل کے مقابلے میں جزوی فتح حاصل ہوئی۔
یہ امریکہ بر طانیہ کے لیے ایک بد شگون تو تھا ہی مگر جب 1973 کی جنگ میں سفارتی خارجی عالمی محاذوں پر عرب ممالک نے تیل کو بطور ہتھیار استعمال کیاتو اس اسٹرٹیجی کی وجہ سے صورتحال اور بحرانی ہو گئی۔ پھر 1974 ء میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں OIC کے تحت اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد کروائی جس میں عرب ملکوں کے سربراہان باوجود نظریاتی اختلافات کے ساتھ بیٹھے جیسے لیبیا کے صدر کرنل قدافی اور سعودی عرب کے شاہ فیصل ، تو یہ ایران کے لیے بھی سیاسی الجھن پیدا کر رہے تھے اور تیل کی قیمتوں میں دگنا سے زیادہ اضافہ بھی کر دیا تو ایران پر اس موقع پر امریکہ کو پورا اعتماد تھا کہ تیل پیدا کر نے والے تمام ممالک کے مقابلے میں ایران اپنی پوزیشن امریکہ کے حق میں استعمال کرے گا اور اپنے تیل کی ترسیل بھی جاری رکھے گا اور قیمت میں بھی اضافہ نہیں کرے گا۔
امریکہ کو ایران کے شہنشاہ محمد رضا شاہ پہلوی پر بڑا مان تھاکیونکہ امریکہ نے ہی سی آئی اے کے ذریعے 1953 ء میں شہنشاہ کو واپس تحت دلوایا تھامگر شہنشاہ ایران کے لیے یہ بہت مشکل تھا پھر یہ بھی تھا کہ اُن کے پاس یہ سنہری موقع تھا کہ وہ بھی عرب ممالک کے کی طرح اپنے تیل کی قیمتوں میں بڑا ضافہ کر کے ایران کی سالانہ آمدنی اور فی کس سالانہ آمدنی میں اضافہ کر لیں اُن کا اندازہ یہ تھا کہ اس موقع پر امریکہ پر عالمی طور دباؤ اتنا زیادہ ہے کہ امریکہ شہنشاہ ایران کے خلاف کو ئی کاروائی نہیں کرئے گا کیونکہ پاکستان کے وزیراعظم بھٹو امریکہ کے لیے کو ئی کرادر ادا کر نے کو تیار نہیں تھے پھر سعودی عرب کے بادشاہ شاہ فیصل بھی تیل کی قمیت اور اسرائیل کے خلاف جنگ کے اعتبار سے امریکی پالیسی سے انحراف کر چکے تھے جب کہ ایران وہ ملک تھا کہ جس نے ترکیہ کی طرح اسرائیل کو تسلیم بھی کیا ہوا تھا اور اُس ساتھ سفارتی تعلقا ت بھی تھے یوں شہنشاہ ایران نے بھی عرب ممالک کی طرح اپنے تیل کی قیمتوں میں اسی تناسب سے اضافہ کر دیا اور فوری طور پر امریکہ نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
اسی سال افغانستان میں صدیوں کی قائم بادشاہت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے سردار داؤد خان نے ظاہر شاہ کا تختہ الٹ دیا۔ اُس وقت بظاہر عالمی طاقت کے توازن کے حوالے صورتحال سوویت کے حق میں جاتی دکھائی دے رہی تھی۔ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کو جزوی کامیا بی کی ایک بنیادی وجہ روسی ساخت کے سام میزائل بھی تھے جن کو مرحوم جمال ناصر نے حاصل کیا تھا اور انور سادات نے کامیابی سے استعمال کیا تھا۔
واضح رہے کہ یہ دنیا میں ہو نے والی اُس زمانے کی ایسی اہم جنگ تھی جس میں پہلی بار میزائیل استعمال ہوئے تھے مگر پاکستان کے شہر لاہور میں ہونے والی اسلامی سر براہی کانفرنس نے سابق سوویت یونین کو بھی پر یشان کر دیا تھا کیونکہ اس کانفرنس میں سرمایہ دارنہ نظریات رکھنے والے اور امریکی بلاک سے تعلق رکھنے والے عرب ممالک کی باشاہتیں ،شیوخ بھی تھے اور دوسری جانب اشتراکی نظریات کے حا مل اور روسی بلاک سے سے تعلق رکھنے والے عرب ممالک کے سربراہان بھی تھے ، تمام اسلام کے نام پر جمع ہو ئے تھے اور بہت سے اہم فیصلے اس اسلامی سر براہ کانفرنس میں اسلامی اتحاد کے جذبے کے تحت ہوئے تھے۔
یہ صورتحال سوویت یونین کے لیے امریکہ سے اختلافی اور نظریاتی سیاست اور پالیسی کے باوجود نظریاتی طور پر خلاف تھی، اس موقع پر امریکہ اور سوویت اپنے اپنے طور پر اس صورتحال سے نبٹنے کے تین درجات کے پلان۔ (اے ،بی ،سی) مرتب کر چکے تھے ، شہنشاہ ایران کے خلاف امام خمینی کو اُس وقت وطن بدر کیا گیا تھا جب شہنشاہ نے 28 اکتوبر 1964 ء کو ایک قانون کی منظوری دی تھی جس کے تحت ایران میں امریکی فوجی مشن کے تمام افراد کو سفارت کاروں کے ہم پلہ قرار دے دیا گیا تھا یعنی امریکی فوجیوں کو ایران میں ویانا کنونشن کے تحت یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ جو چاہیں کر لیں اُن پر ایران کا کو ئی قانون لاگو نہیں ہو گا۔
دوسرے روز 29اکتوبر 1964 کو امام خمینی نے قم کے مدرسے میں وہ شہرہ آفاق تقریر کی جو ایران کے انقلاب کا سنگ میل ثابت ہو ئی اس تقریر کے جرم میں امام خمینی کو گرفتار کر کے ملک بدر کر دیا گیا 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد1974 ء میں لاہور میں ہو نے والی اسلامی سربراہ کانفرنس ،یہ ایسے واقعات تھے کہ ان کے بعد اس پورے خطے میں سرد جنگ اپنے انتہا ئی مر حلے میں داخل ہو گئی ۔
عالمی سطح کا مسلم اتحادسوویت یونین ، امریکہ دونوں کے لیے قابل قبول نہیں تھا اس لیے دونوں بلاک ہی اس مسلم اتحاد کو توڑنے کی اپنی اپنی اسٹرٹیجی بنا چکے تھے۔ یہ مسلم اتحاد جو لاہور کی اسلامی سربراہ کانفرنس میں ابھی اپنے ابتدائی مر احل میں تھاپھر امریکی اور سوویت مفادات کی بنیاد پر آپس کی شدید سرد جنگ بھی اپنی جگہ تھی اس کانفرنس سے دو برس پہلے فروری 1972 ء میں جب وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو نے عبوری آئین بنا کر ملک میں پارلیمانی جمہوری نظام کو بحال کیا اور صوبہ بلو چستان جس کوپہلی مرتبہ صوبے کادرجہ دے کر 1970 ء کے انتخابات منعقد ہو ئے تھے ان کے نتا ئج کی بنیا دپر بلوچستان میں پہلے وزیراعلیٰ سر دار عطا مینگل کی پارٹی نیپ اور جمعیت علما کے ساتھ مخلوط صوبائی حکو مت تشکیل دی تھی پھر 1973 ء کے آئین کے نفاذکے بعد بلوچستان کی پہلی صوبائی حکومت کو بھٹو نے صرف 9 ماہ بعد غیر جمہوری انداز میں ختم کر دیا تو صوبہ خیبر پختونحوا میں بھی نیپ اورجمعیت کی مخلوط صوبائی حکومت جس کے وزیراعلیٰ مولانا مفتی محمود تھے۔
اُنہوں نے بھی احتجاجاً استعفیٰ دے دیا بلوچستان میں اس کے فوراً بعد مسلح مزاحمت شروع ہو ئی بھٹو نے اس موقع اس کو بھی شہنشاہ پر دباؤ کے لیے استعمال کیا اور شہنشاہ کو یہ باور کر وایا کہ بلوچ نہ صرف پاکستان کے بلوچستان کی علیحدگی چاہتے ہیں بلکہ اس میں وہ آزاد عظیم بلو چستان کے نام پر ایرانی بلوچستان و سیستان کو بھی اس کے ساتھ شامل کر نا چاہتے ہیں بھٹو نے اپنے وزارت خارجہ کے دور ہی میں شہنشاہ محمد رضا شاہ پہلوی کے بھارت سے خصوصی تعلقات سے یہ اندازہ کر لیا تھاشہنشاہ بھارت ،کو اہمیت دے کر پاکستان کو یہ بتا نا چاہتا ہے پاکستان کے ہمسائے میں بھارت سے اور افغانستان سے پاکستان کے زیادہ بہتر تعلقات نہیں ہیں یوں پاکستان کی مجبوری ہے کہ وہ ایران سے بناکر رکھے اور اس اعتبار سے ایران پاکستان کودباؤ میں رکھ کر ہی تعلقات چاہتا تھا اور پھر پاکستان کے حوالے یہ تاثر ایران نے رکھا کہ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد پاکستان اب اور کمزور پوزیشن پر آگیا ہے۔
بھٹو نے ایک جانب ایران سے آگے شام ، مصر ،، لیبیا سے اچھے تعلقات قائم کئے تو دوسری جانب جب بلو چستان میں بلوچ مزاحمت شروع ہوئی تو یہ تاثر دیااب ایران میں بھی یہی کیفیت ہو جائے گی اس کے بعد بھٹو نے حکمت عملی اختیار کی اور شہنشاہ ایران سے پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے کچھ لاپرواہی کا انداز اختیار کیا تو شہنشاہ کو گھبراہٹ ہوئی اور ایران کی جانب سے خصوصاً بلوچستان کے لیے امداد شروع ہو ئی تمام کالجوں ہائی اسکولوں کے لیے مرسیڈیز بسوں کا تحفہ آیا کو ئٹہ اور لسبیلہ میں ٹیکسٹائل ملیں بنائی گئیں اِن ہی ملوں کی عمارتوںمیں آج بیوٹم اور میرین یو نیورسٹاں قائم ہیں اورپھر سیکورٹی کے اعتبار سے بھی امداد ی رقوم دی گئیں فوری طور پر شہنشاہ کی جڑواں بہن شہزادی اشرف پہلوی نے بلوچستا ن کا خصوصی دورہ کیا پھر شہنشاہ نے جب پاکستان کا دورہ کیا توبھٹو نے اُن کے لیے لاڑکانہ میں موہنجوداڑو کے تہذیبی آثار میں خصوصی آرائش کے بعد مثالی دعوت کا اہتمام کیا جولائی 1977 ء میں بھٹو کی حکومت کے چلے جانے کے بعد جنرل ضیا الحق کا مارشل لا نافذہوا اس حکومت کا بنیادی تاثر بھی اسلامی نظام کا تھا اس کے سال بعد ہی افغانستان میں سردار داؤد کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور یہاں براہ راست سوویت مداخلت شروع ہو گئی۔
اس کے ساتھ ہی ایران میں شہنشاہ کے خلاف تحریک شدت اختیار کرتی گئی 8 ستمبر1978 کو تہران میں فوج کی جانب سے احتجاج کر نے والے بڑے مجمع پر فائرنگ کر دی اور بہت بڑی تعداد میں لوگ جانبحق ہو گئے اس واقعہ کو سیاہ جمعہ یعنی بلیک فرائی ڈے قراردیا گیا اس کے بعد مفاہمت کی جو امیدیں تھیں وہ بھی ختم ہو گئیں اور 16 جنوری 1979 ء کو شاہ کا اقتدار ختم ہو گیا، 1974 ء میں پہلی مرتبہ شاہ ایران کو تشخیص کے بعد بتا یا گیا کہ اُن کو خون کا کینسر ہے اس کے بعد شاہ نے عوام میں آنا کم کر دیا 1978 ء میں شاہ نے اپنا ہنگری اور بلغاریہ کا طویل دورہ منسوخ کر دیا اُنہوں پورا موسم سرما بحیر ہ کیسپین کے ساحل کی شاہی تفریح گاہ میں گذارا اُن کا علاج فارنسیسی ڈاکڑ Jean Bernard نے کیا ، اور اس کا علم کچھ عرصے بعدفرانس کی حکومت کو ہوگیا اور ستمبر 1978 یہ خبر امریکی حکومت کو بھی معلوم ہو گئی اس کے بعد شہنشا ہ نے جلا وطنی میں بھا مانس میں جزیرہ خریدنے کی کوشش کی مگر وہاں کے عوام کے دباؤ کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو سکا قصّہ مختصر وہ امریکہ سمیت کسی بھی مغربی ملک میں سیاسی پناہ حاصل نہ کر سکے آخر مصر میں اُن کو پناہ ملی اور یہاں کینسر ہی کی وجہ سے27 جولائی 1980 ء کوقائرہ میں اُن کا نتقال ہوا وہ1970 ء سے 1977 ء دنیا کے سب سے امیر طاقتور شہنشاہ تھے۔
یوں اُس وقت کے طاقتور شہنشاہ کو آخر عوام قوت کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے ، پھرجلاوطنی میں دنیا سے یوں رخصت ہو ئے کہ جس سلطنت اور ملک کے وہ بادشاہ تھے وہاں دفن بھی نہ ہو سکے ، ایران کے انقلاب پر عالمی سطح کے غیر متعصب غیر جانبدار مورخین اور محققین ایران کے انقلاب کو انقلاب ِ فرانس اور سوویت یونین کے اشتراکی انقلاب کے برابر کا درجہ دیتے ہیں ۔ 18 اپریل 2023 ء میں جب میں یہ آرٹیکل مکمل ہو رہا تھا تو ایک ماہ قبل اس خبر نے امریکہ اور یورپ کو حیران کردیا تھا کہ چین کی کوششوں سے ایران اور سعودی عرب کے تنازعات ختم ہو رہے ہیں اور عنقریب اس حوالے سے دونوں ملکوں میں معاہدہ بھی ہو جائے گا ۔
اسی دوران چین نے اسرائیل اور فلسطین میں دو قومیں دو ریاستوں کی بنیاد پر حماس ، حزب اللہ ، فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیلی حکام کے درمیان مستقل بنیادیوں پر مستحکم اور پائیدار امن کے قیام کے لیے کو ششیں شروع کر دیں اور 18 اپریل 2023 ء کو اس حوالے سے ریاض میں اجلاس بھی ہوا تو اسی روز مرحوم محمد رضا شاہ کے صاحبزادے ولی عہد رضا پہلوی نے اسرائیلی وزیر دفاع کے بیٹے کی دعوت پر نہ صرف اسرائیل کا دورہ کیا بلکہ اُنہوں نے مسجد اقصٰی پر حاضری دینے کی بجائے یہودیوں کی مقدس دیوارِ گریہ پر اپنی بیگم شہزادی کے ہمراہ حاضری دی اور اس موقع پرانہوں نے سائرس اعظم کو خراجِ عقیدت پیش کر تے ہو ئے کہا کہ وہ عظیم ایرانی شہنشاہ جس نے یہاں دوسری مرتبہ ٹیمپل تعمیر کروایا جس نے یہودی قوم کو آزادی دی۔
انہو ں نے اِن نظریا ت کے تحت انقلاب کی بات بھی کی اب یہ معلوم نہیں کہ وہ اسرائیل کے دورے کے بعد قاہرہ میں اپنے والد کی قبر پر بھی جائیں گے یا نہیں اور کیا عراق میں جا کر بخت نصر کے لیے غیبی ہا تھ سے لکھا ہوا یہ جملہ پڑھ سکیں گے جو نوشتہ دیوار تھا اور اُ ن کے ولد شہنشاہ ِ ایران کے لیے بھی تھا ۔ بہرحال 11 فروری1979 ء کو ایران کے آخری شہنشاہ اور دنیا کے امیر ترین ، طاقتور اور مطلق العنان محمد رضا شاہ پہلوی کا اقتدار ختم ہو گیا۔ اور اس کے تقریباً ایک سال پانچ ماہ بعد ہ 27 جولائی 1980 ء مصر کے شہر قاہرہ میں انتقال کر گئے ۔
کوئٹہ کے سنیما گھروں میں اس کے علاوہ ایران کی پروپیگنڈہ فارسی فلم بھی چلتی تھی، ہماری فلم میں صدر ایوب خان کی کارکردگی اور ایرانی فارسی فلم میں شہنشاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی کی کار کردگی دکھائی جاتی تھی۔
1971 ء میں جب ہم نوجوانی میں قدم رکھ چکے تھے اور ہمارے ملک میں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں 1970 ء کے انتخابات کے بعد اقتدار کی منتقلی میں تاخیر ہو رہی تھی اور سیاسی بحران بڑھ گیا تھا اسی دور یعنی1971 ء کے آغاز پر شہنشاہ رضاشاہ نے ایران میں ڈھائی ہزار سالہ بادشاہت کا جشن منانا شروع کیا جو سال بھر جاری رہا۔
کوئٹہ شہر جو انگریزوں نے 1878 ء میں تعمیر کیا تھا اور اس کی سب سے خوبصورت اور اہم سٹرک جو جنوب سے شمال کی جانب جاتی ہے، آج اس سٹرک پر گورنر ہاؤس، وزیراعلیٰ ہاؤس، سیکریٹ، بلوچستان صوبائی اسمبلی ، بلوچستان ہائی کورٹ کی عمارات کے علاوہ اعلیٰ ترین عہدیداروں کے بڑے بڑے سرکاری بنگلے ہیں، اس سٹر ک کا نام 1878 ء کے ہندوستان کے وائسرائے لارڈ لٹن کے نام سے لٹن روڈ رکھا تھا۔
شنہشاہ ایران کی جانب سے ڈھائی ہزار سالہ جشن منائے جانے پر اس سٹرک کا نام شارع رضا شاہ پہلوی رکھ دیا گیا، بعد میں اس سڑک کا نام کوہ زرغون کی مناسبت سے شارع زرغون رکھ دیا گیا، یہ جشن نہ صرف ایران میں منایا جا رہا تھا بلکہ اُس زمانے میں پاکستان میں بھی شہنشاہ ایران کا ڈھائی ہزار سالہ جشن بھرپور طور پر منایا جا رہا تھا کیو نکہ ایران، ترکیہ اور پاکستان تینوں RCD علاقائی تعاون برائے ترقی نامی تنظیم میں شریک تھے اور پاکستان، ایران اور ترکیہ کو ملانے والی شاہراہ کو آج بھی آر سی ڈی شاہراہ کہا جاتا ہے۔
زمانہ طالب علمی میں جب کوئی بات ہمیں سمجھ نہیں آتی تو ہم اپنے والد سے دریافت کر لیا کرتے تھے اُن کا مطالعہ بہت وسیع تھا اور صاحب بصیرت بھی تھے، ہم نے اُس وقت والد مرحوم سے ایرانی بادشاہت کے حوالے سے دریافت کیا اور اُنہوں نے بہت وضاحت سے صورتحال سے آگاہ کیا، اُنہوں نے بتایا کہ ڈھائی ہزار سالہ بادشاہی کے جشن سے قبل ایران کی حکمرانی کا تعلق تاریخی اعتبار سے خلافت راشدہ سے جوڑا جاتا تھا۔
ایران کی تاریخ میں یوں تو اور بھی شہنشاہ گزرے ہیں لیکن King Cyrus the Greatسائرس اعظم جس کا دور اقتدار 590 قبل مسیح سے 529 قبل مسیح تھا بہت اہم ہے اُس کے بعد سائرس سلطنت کے 12 مزید شہنشاہ 330 قبل مسیح تک رہے لیکن سائرس اعظم دنیا کی تاریخ کا سب سے عظیم شہنشاہ کہلوایا جس کی سلطنت کی حدود اُس وقت کی معلوم دنیا کے چاروں اطراف پھیلی ہوئی تھیں اور اُس کی سلطنت کا رقبہ 55 لاکھ مربع کلومیٹر تھا اور بلاشبہ اُس نے اپنا نظامِ سلطنت اُس زمانے کے اعتبار سے بہت معیاری رکھا تھا۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ عراق دریا ئے فرات دریائے دجلہ کی سرزمین بابل اور نینوا بھی ایرانی تہذیب کی طرح ایک ترقی یافتہ معاشرہ تھا جس میں ہیمورابی جیسے بادشاہ نے دنیا میں پہلی بار مملکت اور حکومت کے اعتبار سے ایک باقاعدہ آئین دیا تھا اور اِن قوانین کو اُس نے بابل کے شہر کے سب سے اہم چوراہے پر پتھر کی ایک بڑی لوح پر کندہ کر وا دیا تھا جس میں عوام سے لے کر بادشاہ وزیراعظم اعلیٰ عہدیداران سب کے حوالے سے حقوق و فرائض کا تعین کر دیا تھا اسی نینوا وبابل کی تہذیب میں، بخت نصر جیسا عظیم مگر متکبر بادشاہ گزرا تھا جس نے اُس زمانے میں بڑی بلند و بالا عمارات تعمیر کر وائیں اور معلق باغات بنوا کر دنیا کو حیران کر دیا۔
اُس نے بڑی فتوحات بھی کیں، فسلطین کی فتح پر اُس نے چالیس ہزار سے زیادہ یہودیوں کا قتل عام کیا اور باقی یہویوں کو فلسطین سے پکڑ کر عراق لے آیا اور اِن کو جلا وطنی میں یہاں نہایت ذلت آمیز زندگی گزارنے پر مجبور کیا۔ بخت نصر جو دہریہ تھا اس کے بار ے میں روایت ہے کہ جب وہ اپنی طاقت اور اقتدار کے نشے میں بدمست تھا تو اُس نے غرور میں کہا کہ ہے کوئی جو اُس کا مقابلہ کرے،عین اُسی وقت ایک غیبی ہاتھ سامنے آیا اور اُس نے دیوار پر لکھ دیا کہ تیری سلطنت کا زوال لکھ دیا گیا ہے۔
آج دنیا کی ہر زبان میں یہ ضرب المثل (نوشتہء دیوار) استعمال ہوتی ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ ہر حاکم وقت بخت نصر کی طرح اس کو نظرانداز بھی کر دیتا ہے، شائد اللہ تعالیٰ کو یہی منظور ہو ، بہرحال بخت نصر کے مقابلے میں سائرس اعظم، عظیم انسان تھا اور تہذیبی اعتبار سے اُسے غالباً ہیمو رابی کا ہم پلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح ایران میں سائرس سے قبل زرتشت ایرانی زرتشت مذہب کا بانی جسے پارسی یعنی آتش پرست اپنا پیغمبر مانتے ہیں، 628 قبل مسیح سے 551 قبل مسیح رہا، شروع میں اس کے مذہب کی بہت مخالفت ہوئی، 628 قبل مسیح میں شمالی ایران میں پیدا ہونے والے زرتشت نے چالیس برس کی عمر میں شمالی ایران کے بادشاہ ''دشتاپسا'' کو اپنا ہم خیال بنا لیا، زرتشت77 برس کی عمر میں انتقال کر گیا، پارسی مذہب کی کتاب Avasta) ) 'اوستا' ہے۔
اس مذ ہب میں نیکی اور بدی کے خداؤں کا ذکر ہے مگر وہ واحد خدا کو نیکی کا خدا مانتے ہیں ، یہودیوں کی طرح اِن کے مذہب میں بھی یہ ہے کہ جو شخص آتش پرست ماں اور باپ کی اولاد نہیں ہو گا وہ پارسی یا آتش پر ست نہیں ہو سکتا، سائرس کے زمانے تک زرتشت کا یہ آتش پرست مذہب جو ایران کے سرد خطے سے ابھرا تھا، ایک بڑا مذہب بن گیا تھا۔
دنیا کی تاریخ میں غالباً یہودیت اور زرتشت ہی ایسے مذاہب ہیں جو مذہب کی بنیادکے ساتھ تنگ نظر نیشنلزم ، قوم پرستی سے جڑے ہوئے ہیں اور اسی لیے آج دنیا بھر میں صرف ایک لاکھ آتش پرست رہ گئے ہیں اور پوری دنیا کی تقریباً آٹھ ارب انسانوں کی آبادی میں یہودیوں کی کل تعداد ڈیڑھ کروڑ سے کچھ زیادہ ہے۔
بہر حال سائرس اعظم کی وسیع حکومت تھی جو سنٹرل ایشیا مشرق وسطیٰ، ترکیہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ اسی سائرس اعظم نے جب بابل کو فتح کیا تو مدتوں بعد اِن جلا وطن یہودیوں کو یہاں سے عزت وتکریم کے ساتھ واپس فلسطین میں آباد کیا۔
آج تک یہودی اگر اپنے پیغمبروں کے بعد اگرکسی کو مقدس و محترم مانتے ہیں تو وہ سائرس اعظم ہے، یوںجب شہنشاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی نے اپنی ایرانی سلطنت کے اعتبار سے اس کی بنیاد کو سائرس اعظم سے جوڑا تو اُس نے وہی متکبرانہ انداز کی قوم پرستی کو اپنایا جس کی بنیاد پر مذہبی قوم پرست دوسری قوموں اور انسانو ں کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں ۔
واضح رہے کہ جب اسلام دنیا میں آیا تو اُس وقت روم اور ایران 'فارس' دنیا کی دوبڑی طاقتیں تھیں۔ نبی کریم ؐ کی پیدائش کے حوالے سے روایت ہے کہ جب آپؐ کی مکہ میں ولادت ہوئی تو ایران کے مرکزی آتش کدے میں جو آگ مسلسل صدیوں سے روشن تھی وہ اچانک ایک بار بجھ گئی تھی اور اُن کے مذہبی پیشوا یہ سمجھ گئے تھے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کا نبی ؐ آچکا ہے پھر ایران سے روحانی رشتہ یا تعلق اُس وقت پیدا ہوا جب ایران سے ایک آتش پرست پیشوا کے ہاں عاشقِ رسولؐ حضرت سلمان فارسیؓ پیداہو ئے۔
جوان ہونے پر اِ ن کے دل میں اللہ تعالیٰ نے تلاشِ حق کا نور جگا دیا اُنہوں نے تلاش حق کے اعتبار سے ایران چھوڑ کر شام کا سفر کیا جو اُس زمانے میں عیسائیت کا بڑا مرکز تھا، جہاں وہ عیسائی مرکز میں گئے اور عیسائی مذہب کو قبول کر لیا مگر یہاں کا سب سے بڑا مذہبی پیشوا بد دیانت اور برا انسان تھا جب کہ اُس کا نائب نیک،ایماندار پیشوا تھا، اُس نے حضرت سلمانؓ سے کہا کہ تمیں اللہ تعالیٰ کے سچے نبیؐ کی تلاش ہے تو میرے علم کے مطابق وہ سچے نبیؐ دنیا میں آچکے ہیں اور پہچان کے لیے تین نشانیاں بتائیں
نمبر1 ۔ وہ ؐجہاں رہتے ہیں وہاں کھجوروں کے گھنے باغات ہیں
نمبر2 ۔ وہ ؐصدقہ نہیں لیتے البتہ 'تحفہ' قبول کر لیتے ہیں
نمبر3 ۔ ان ؐکی پشت پر دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہے
اس کے بعد حضرت سلمان فارسیؓ ایک قافلے میں شامل ہو کر حضورؐ کی تلاش میں نکلے قافلہ سالار بد دیانت آدمی تھا جس نے دھوکہ بازی کرتے ہوئے سلمان فارسی کو غلام کے طور ایک شخص کو فروخت کر دیا جو مدینہ کا رہنے والا تھا۔
جہاں پہنچ کر سلمان ؓ فارسی نے آخر حضور ؐ کو پہچان لیا یہی حضرت سلمان فارسیؓ تھے جنہوں نے غزوہِ خندق کے موقع پر حضورؐ کو بتایا تھا کہ ایران میں ایسے مواقع پر خندق کھود کر دفاعی جنگ لڑی جاتی ہے اور پھر اُنؓ کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے خندق کھود کر جنگ لڑی گئی ، دشمن کفارِ مکہ پسپا ہو گئے۔
ایرانی نیشنلزم کا غرور تکبر ہی تھا جب بنی کریمؐ نے ایران سمیت دنیا کے مختلف ملکوں کے بادشاہوں کو دعوتِ اسلام دیتے ہوئے خطوط بھیجے تھے تو ایران کے مغرور بادشاہ Ghosroes ، نے نبی کریمؐ کا خط پھاڑ دیا تھا جس پر آپﷺ نے اس کے لئے بددعا فرمائی تھی کہ تیری سلطنت بھی اسی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی اور پھر ایساہی ہوا، حضرت عمر فاورقؓ کے زمانے میں ایران فتح ہو گیا۔
ایران کے آخری بادشاہ شہنشاہ محمد رضا شاہ پہلوی نے بھی ایران کی وہ تاریخ جو حکمرانی کے اعتبارسے خلافتِ راشدہ سے منسلک تھی اُسے ترک کر کے دینِ اسلام کی بجائے خود کو سائرس اعظم کی تاریخ سے منسلک کرتے ہوئے ایران میں شہنشاہت کا ڈھائی ہزار سالہ جشن منایا تو اُس وقت وہ بابل کے بخت نصر کے غرور پر 'نوشتہ دیوار' پڑھنے کی صلاحیت سے عاری ہو چکا تھا۔ بادشاہ کو احساس ہی نہیں تھا کہ ایک عالم دین امام خمینی جسے وہ اپنے تئیں ملک بدر کرکے مطمین ہو چکا تھا، ٹھیک نو برس بعد ڈھائی ہزار سالہ بادشاہت کے غرور کو پاش پاش کر دے گا۔
ایران کی قدیم تاریخ میں اِ ن ڈھائی ہزار برسوں میں 35 بادشاہتیں یعنی بادشاہی خاندان یا سلطنتیں رہیں اور اِس دوران حکمرانوں بادشادہوں، شہنشاہوں کی کل تعداد 416 رہی اور11 فروری1979 ء کو یہ ڈھائی ہزار سالہ دورِ شنہشاہی ایران سے رخصت ہو گیا ، مگر یہ اچانک یا ایک دم نہیں ہوا اور بقول شاعر قابل اجمیری( وقت کرتا ہے پرورش برسوں ۔۔ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا) ۔
سلطنت ِ ایران یہاں اسلام کی آمد سے پہلے اور بعد میں بھی وسیع رقبے کے علاقوں پر پھیلی رہی، اس سلطنت کا مقابلہ، روم ، ترکیہ ، روس سے ہوتا رہا ، نادر شاہ افشار وہ آخری ایرانی شہنشاہ تھا جس کی سلطنت رقبے کے اعتبار سے سنٹرل ایشیا، افغانستان، مشرق وسطیٰ، سلطنت عمان تک پھیلی ہوئی تھی اورآج کے پاکستان کے بھی بہت سے علاقے ایران کے زیر تسلط تھے ۔ نادر شاہ نے مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلا کے دور میں ہندوستان کو تاراج کیا تھا اور وہاں سے تختِ طاوس اور کوہ نور ہیرا سمیت بہت بڑا خزانہ لوٹ کر ایران واپس ہوا تھا۔ نادر شاہ افشار کادور 8 مارچ 1736 ء سے 20 جون1747 ء تک رہا اس کے بعد افشاری سلطنت یا بادشاہت ایران سمیت ایک بڑے علاقے پر 1796 ء تک قائم رہی اوراس دوران اس خاندان کے 7 بادشاہ رہے۔
اس دورانZand Kingdom زاند سلطنت کا دورِ حکومت بھی ایک علاقے پر 1751 ء سے 1794 ء تک رہا اور اس خاندان کے 9 بادشاہ برسراقتدار رہے، پھر ایران پر قاچار بادشاہت کا اقتدار آیا، قاچار بادشاہوں کی حکمرانی 1799 ء سے 1925 تک رہی ۔ یہ دور برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے اعتبار سے اور سلطنت ِبرطانیہ کی بنیاد پر مشرق وسطیٰ اور بعد میں یورپ میں نپولین کے ساتھ جنگوں کے لحاظ سے اہم بھی رہا اور ایسٹ انڈیا کمپنی اور سلطنت برطانیہ نے اس دوران بڑی اہم فتوحات بھی حاصل کیں۔
1799ء میں برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی کو میسور میں سلطان فتح علی ٹیپو کے مقابلے میں ہندوستان کی عظیم فتح حاصل ہوئی، ساتھ ہی برطانیہ کو ہندوستان میںاپنی زیادہ مضبوط بنیاد رکھنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی کے تعاون سے ایران میں بھی اپنا اثرورسوخ قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی، اسی دور میں برطانیہ نے مشرق وسطیٰ خصوصا خلیج فارس کے علاقے خصوصاً سلطنت عمان میں بھی قدم جمانے کی منصوبہ بندی پر عملدآمد شروع کر دیا تھا۔
تاریخ کا گہر امطالعہ کریں تو اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انگریز کی منصوبہ بندی اور اسٹرٹیجی ہمیشہ لاجواب رہی ہے مگر ساتھ ہی بہت سے تاریخی مواقع ایسے تھے جہاں قسمت نے انگر یز کا ساتھ دیا۔ ایران، افغانستان اور سنٹرل ایشیا میں بنیادی طور پر روس اور برطانیہ کے درمیان گریٹ گیم کے حوالے سے سازشیں، لڑائیاں اور جنگیںاسی دور سے شروع ہو چکی تھیں، اسی زمانے میں یکم نومبر 1856 ء سے4 اپریل 1857 ء پانچ مہینے 3 دن اینگلو پرشین جنگ جاری رہی، یہ جنگ ایرانی قاچار بادشاہ اور ہرات پر دعوی کے امیر جن کو کابل کے حکمران اور انگریز کی سپورٹ حاصل تھی ان کے درمیان لڑی گئی اور اس میں فوج کے اعتبار سے ہندوستان میں بنیاد رکھنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجی امداد حاصل تھی ۔
ایرانی فوج کی کمانڈ قاچار خاندان کے ایرانی شہنشاہ تھاماسپ مرزا اور جنرل نصرالدین کی تھی جبکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج جس کو افغانستان کی مدد بھی حاصل تھی اس کی کمانڈ جنرل جیمس کوٹرم ۔ ایم جی فاسٹر اور افغانستان کی جانب سے دوست محمد نے کی، انگریز اور برطانوی فوج تقریباً ایک لاکھ تھی جب کہ ایرانی فوج اس کے مقابلے میں کم تھی ، ایران کو جنگ میں شکست ہوئی، نتیجے میں معاہدہ فارس ہوا اور ایران کو ہرات سے دستبردار ہونا پڑا یہ جنگ 4 اپریل 1857 ء میں یعنی ہندوستان کی جنگ آزادی کے ایک مہینہ 6 دن پہلے ختم ہو گئی اگر یہ جنگ کچھ دیر چلتی تو انگریز کو ہندوستان اور ایران دونوں مقامات پر شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا یہ بھی ممکن تھا کہ اِن دونوں مقامات پر انگریزوں کو شکست ہو جاتی۔
معاہدے کے مطابق ایران نے 1863ء میں ہرات کو افغانستان کے دوست محمد کے حوالے کر دیا مگر ساتھ ہی ایران اور روس کی جنگیں بھی 1804ء ۔1813ء اور پھر 1826ء اور1828 ء کے درمیان رہیں ، پہلی روس، فارس جنگ 1804ء تا 1813ء تک کی جنگوں میں روس اور ایران کے ہزاروں افراد جان بحق ہوئے، یہ جنگ روس کی جانب سے جارجیا اور دیگر علاقوں پر قبضے اور دعویٰ پر ہوئی اور آخر میں روس اور ایران کے درمیان معاہدہ' گلستان' ہوا، جارجیا کے علاقے روس کے حوالے کر دئیے گئے اور داغستان، آرمینیا اور آذربائیجان کے علاقوں پر ایران کے حق کو تسلیم کر لیا گیا، پھر 1826 ء سے1828 ء تک کی روس ایران، فارس،جنگ کے بعد معاہدہ کی صورت میں ایران کے ہاتھ سے جارجیا، آرمینیا ،آذربائیجان کے علاقے بھی نکل گئے۔
1881 ء میں ایران نے سرکاری طور پر ترکمانستان پر Treaty of Akhal معاہدہِ اکحال کے تحت روس کا قبضہ تسلیم کر لیا، یوں ایران اور روس کے درمیان160 سالہ جنگوں اور لڑائیوں کا دور ختم ہوا۔
بیسویں صدی کے آغاز پر ایران کی جو ماضی کی ایک بڑی سلطنت اور ترکیہ ، روس کے مقابلے میں ریجن کی ایک طاقت تھی اب اُس کی وہ حیثیت نہیں رہی تھی۔ دوسری جانب دنیا میں اب سلطنتوں میں بادشاہت کے نظام میں دستور متعارف ہو رہے تھے، خصوصاً یورپ میں تو یہ سلسلہ اٹھارویں صدی عیسوی صدی سے خاصا مضبوط ہو گیا اور بادشاہتوں کے نظام میں عوامی جمہوریت کا رنگ بھی شامل ہو چکا تھا، مگر ہمارے ہاں سلطنت عثمانیہ، افغانستان اورایران میں ابھی ایسی سیاسی اصلاحات متعارف نہیں ہوئی تھیں، بادشاہ مطلق العنان تھے۔
ایران میں انقلابی صورتحال کے بعد 1905 ء میں پہلا آئین نافذ العمل ہوا، قاچار شاہی خاندان1799 ء سے 1925 ء تک 126 سال اقتدار میں رہا لیکن اس دوران ہی ایران مسلسل زوال آمادہ رہا ، مگر ایرانی قوم اُس وقت تک شاہ پرست قوم تھی اس لیے وہ اب بھی قاچار سلطنت سے یہ امید لگائے بیٹھی تھی کہ یہ بادشاہ ایران کی عظمت رفتہ کو ایک بار پھر بحال کر دیں گے، مگر ایسا نہیں ہوا، 1905 ء کے آئین کے تحت 1906 میںایران میں پارلیمنٹ وجود میں آگئی مگر جمہوری مزاج نہیں آسکا 1909 ء میں قاچار بادشاہ کو ایکبار پھر روس کے مقابلے میں شکست ہوئی اور روس نے شمالی ایران کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا، 1911 ء میں قاچار بادشاہت کے خلاف کو چجک خان کی جنگل تحریک شروع ہوئی۔
پہلی جنگِ عظیم کے دوران برطانیہ نے ایران کے مغربی حصے پر قبضہ کر لیا ، پھر پہلی جنگ عظیم شروع ہو گئی تو ایران اگر چہ اس جنگ میں براہ راست شریک نہیں ہوا مگر 1914 ء سے 1920 ء کے دوران ترکوں نے آرمینینز کا قتل عام کیا، اس کے بعد 1921 ء میں ایران میں تاریخ کا بدترین قحط آیا اور یہاں اسی لاکھ سے ایک کروڑ کے درمیان افراد جان بحق ہو گئے۔
اب ایرانی واقعی قاچار سلطنت کے خلاف ہو گئے تھے او رکوئی تبدیلی چاہتے تھے، کیونکہ ایران کے ہمسائے میں ترکیہ میں خلافت ِ عثمانیہ کی شکست کے بعد مصطفی کمال پاشا نے ترکی کو آزاد اور محفوظ کر لیا تھا اور جدید، ماڈرن انداز کی معاشرت کو اپنایا تھا، اسی زمانے میںایران کے دوسرے ہمسایہ یعنی افغانستان میں غازی امان اللہ خان نے انڈیا کی انگریز سرکار کے خلاف تیسری اینگلو افغان جنگ کرکے افغانستان کو مکمل طور پر آزاد کر لیا تھا۔
اسی سال ایران میں قاچار بادشاہ کا تخت الٹ دیا گیا اور جنرل رضاشاہ وزیراعظم ہو گئے اور پھر 1925 ء میں رضا شاہ نے اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا، یوں ایران میں پہلوی سلطنت کا آغاز ہوا، جنگ عظیم اوّل کے دوران ہی روس میں لینن اور اسٹالن کیمونسٹ انقلاب لے آئے تھے۔
ایران کی جدید تاریخ میں معدنی تیل بہت اہمیت رکھتا ہے، برطانیہ کی آئل کمپنی نے 26 مئی 1908 ء کو یہاں تیل کے ذخائردریافت کر لیے، 1909 میں Anglo-persian OIL Company نے یہاںتیل کی پیداوار شروع کر دی تھی، اس کمپنی نے یہاں براہ راست اس پر کنٹرول کے حقوق حاصل کر لیے اور اس میں مستقبل میں 37 سال تک کوئی تبدیلی نہ کرنے کا معاہدہ ہوا، 1935 ء کے بعد اسی کمپنی نے 60 سال کے لیے معاہدہ کر لیا، مگر تیل کی پیداوار کے باوجود ایران میں قابل ذکر خوشحالی نہیں آئی اور ایران نے ترقی نہیں کی۔
1925 ء سے 1941 ء تک پہلوی خاندان کے پہلے بادشاہ رضا شاہ جو ایران کے آخری بادشاہ محمد رضا شاہ کے والد تھے اِ ن کا اقتدار رہا ، اس دوران برطانیہ سوویت یونین مفادات کی وجہ سے ایران میں اِ ن دونوں کے درمیان کھچاؤ شروع ہو گیا۔
قاچار شاہی خاندان کے بعد جب پہلوی جنرل رضا شاہ برسرا قتدار آئے تو عوام نے ان سے امیدیں باندھ لیں، رضاشاہ اس کا ادراک رکھتا تھا وہ یہ جانتے تھے کہ اگر اُنہوں نے جلد عوام کے لیے بڑے کام نہیں کئے تو عوام اِن کے خلاف ہو جائیں گے، اسی دوران شاہ نے ایران میں ریلوے کے ایک پروجیکٹ کو جرمن کمپنی کے حوالے کیا تھا ، جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو
سوویت یونین ، جرمنی کے درمیان اتحاد کا معاہدہ تھا جس کو جرمنی کے ہٹلر نے توڑ دیا اور پھر سوویت یونین جرمنی کے خلاف اتحادیوں کی صف میں شامل ہو گیا۔ اب برطانیہ اورسوویت یونین دونوں یہ چاہتے تھے کہ یہاں سے اسلحہ کی ترسیل ہو اور اس میں یہ ریلوے پروجیکٹ استعمال ہو جس پر جرمن ایران ریلوے پروجیکٹ کے جر من مینجر نے انکار کر دیا۔
یوں سوویت یونین کی فوجیں شمال سے ایران میں داخل ہو گئیںاور برطانوی فوجیں خوزستان اور سنٹرل ایران میں داخل ہوئیں اگرچہ اس موقع پر رضا شاہ کو اُن کے بیٹے نے مشورہ دیا تھا کہ وہ سوویت یونین اور برطانیہ کی بات مان لیں اور جرمن ریلوے پروجیکٹ کو اسلحہ کی ترسیل کے لیے استعمال کرنے دیں مگر رضا شاہ نے انکار کر دیا۔
اس کے بعد 26 اکتوبر 1919 ء میں پیدا ہونے والے رضاشاہ کے بیٹے محمد رضا شاہ کو 22 برس کی عمر میں ایران کا بادشاہ بنا دیا گیا، یہ پہلوی خاندان کے دوسرے اور ایران کے آخری بادشاہ تھے جو 16ستمبر1941 ء کو تحت نشین ہوئے اُن کی پہلی شادی مصری شہزادی فوزیہ سے ہوئی تھی جس کے بارے میں بیان کہا جاتا ہے کہ اُس وقت ایران ترکیہ عراق کے درمیان اتحاد تھا اور ترکیہ کے صدر اتاترک مصطفی کمال پاشا یہ چاہتے تھے کہ مصر بھی اس اتحاد میں شامل ہو جائے اس لیے اُنہوں نے ایران کے بادشاہ کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کی شادی مصر کے بادشاہ کی شہزادی سے کرا دیں یوں محمد رضا شاہ کی پہلی شادی 1939 ء میںمصر کی شہزادی فوزیہ سے ہوئی یہ ملکہ ایران کی ملکہ کے طور پر 1948 ء تک رہیں مگر دونوں میں تعلقات کبھی خوشگوار نہ ہو سکے۔
محمد رضا شاہ کی دوسری شادی ملکہ ثریا اسفندی بختاری سے 1951 ء میں ہوئی اور یہ شادی 1958 ء تک قائم رہی کہا جاتا ہے کہ ملکہ ثریا کے ساتھ اُن کے تعلقات بہت خوشگوار تھے آپس میں محبت بھی تھی مگر شہنشاہ کو ولی عہد کی ضرورت تھی اور ملکہ ثریا سے ولی عہد پیدا نہ ہو سکا۔ محمد رضا شاہ یہ چاہتے تھے کہ وہ ملکہ ثریا کے ہو تے ہو ئے دوسری شادی کر لیں مگر ثریا کو یہ برداشت نہیں تھا تو طلاق کے بعد شہنشاہ رضا شاہ نے تیسری شادی فرح دیبا سے کی جن سے 31 اکتوبر 1960 ء کو ولی عہد کی پیدائش ہوئی جس کے بعد شہنشاہ کی تاج پوشی بھی ہوئی۔
شہنشاہ محمد رضا شاہ کو پہلے شدید نوعت کے سیاسی بحران کا سامنا 21 جولائی 1952 ء میں کرنا پڑا جب ایران کے 35 ویں وزیر اعظم کے طور پر ڈاکٹر مصدق عوام کے بھاری ووٹوں سے منتخب ہوئے۔ یہ 19 اگست 1953 تک ایران کے ایسے وزیراعظم رہے جو ایران میں بر طانیہ امریکہ کے مفادات کے خلاف تھے۔ اُنہوں نے اقتدار میں آتے ہی برطانوی آئل کمپنی کو قومی ملکیت میں لے لیا اور حالات اتنے خراب ہوئے کہ شاہ کی بادشاہت اور جان کو خطرات لاحق ہو گئے اور پھر شاہ ایران ملک سے چلے گئے۔
ڈاکٹر مصدق بائیںباز سے تعلق رکھتے تھے اور اُن کو سوویت یونین کی حمایت حاصل تھی پھر کچھ دن بعد ہی امریکہ کی سی آئی اے اور بر طانوی خفیہ ایجنسی کی سازش سے ڈاکٹر مصدق حسین کی حکو مت کو ختم کر دیا گیا جس میں اہم کردار ایرانی فوج نے ادا کیا تھا، وزیراعظم ڈاکٹر مصدق حسین کو گر فتار کیا گیا اور شہنشاہ ایران واپس وطن آئے تو ڈاکٹر مصدق پر مقدمہ چلایا گیا، پہلے یہ کہا گیا کہ اُن کو سزائے موت دی جا ئے گی بعد میں اُن کو عمر قید کی سزا دی گئی اور اُ ن کے گھر کو ہی جیل قرار دیدیا گیا، جہاں وہ 1967 ء میں انتقال کر گئے تو اُن کو اُن کے گھر کے صحن میں ہی دفن کر دیا گیا۔ 1953 ء کے بعد شاہ ایران ایک جانب امریکہ کے ممنون اور احسان مند تھے تو دوسری جانب اُنہوںنے اب اپنے مخالفین کو دبانے اور مٹانے کے لیے سخت اقدات کئے۔
ایرانی خفیہ ایجنسی اب ملک بھر میں خوف وہراس کی علامت بن گئی تھی کوئی ذرا بھی زبان کو جنبش دیتا تو اُسے گرفتار کر کے مار دیا جاتا یا شدید تشدد کیا جاتا بعض کو ملک بدر کر دیا جاتا۔ ایران نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہوا تھا اور ایران کے علاقے اور خلیج فارس میں امریکہ کا سپاہی تصور کیا جاتا تھا۔
اسی طرح صدر ایوب خان اور پھر صدر جنرل یحٰی خان بھی امریکی حمایت یافتہ تصور کئے جاتے تھے اور ساتھ ہی سعودی عرب بھی امریکہ کا حمایتی تسلیم کیا جاتا تھا لیکن ستر کی دہائی کے آغاز پر جب 1971 میں شہنشاہ محمد رضا شاہ ایران میں بادشاہت کا ڈھائی سالہ جشن منا رہے تھے تو دنیا میں بڑی اہم تبدیلیاں شروع ہوگئی تھیں ، جولائی 1971 ہی میںپاکستان سے امریکی سیکرٹری ہنری کسنجر نے چین کا خفیہ دورہ کر کے چیرمین ماوزے تنگ ، وزیراعظم چواین لائی اورامریکی صدر نکسن کے درمیان مذاکرات کا راستہ ہموار کر دیا تھا ۔
16 دسمبر کو ایران کے مشرقی ہمسائے یعنی پاکستان میں بھارت سے جنگ کے بعد مشرقی حصہ الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا اسی سال شہنشا ہ محمد رضا شاہ نے بھارت کا سرکاری دورہ بھی کیا تھا اور بھارت سے قریبی تعلقات کو مزید مضبوط کر نے کا عہد کیا تھا ۔ 1972 میں امریکہ چین تعلقات استوار ہوئے، چین کو تائیوان کی جگہ اقوام متحدہ میں نہ صر ف جنرل اسمبلی کی رکنیت دیدی گئی بلکہ اس کو سکیورٹی کونسل میں ویٹو پاور اور مستقل رکنیت مل گئی۔ 1973 میں عرب اسرائیل جنگ میں شام ، اردن ، مصر اور اِن کی حمایت کر نے والے ممالک کو اسرائیل کے مقابلے میں جزوی فتح حاصل ہوئی۔
یہ امریکہ بر طانیہ کے لیے ایک بد شگون تو تھا ہی مگر جب 1973 کی جنگ میں سفارتی خارجی عالمی محاذوں پر عرب ممالک نے تیل کو بطور ہتھیار استعمال کیاتو اس اسٹرٹیجی کی وجہ سے صورتحال اور بحرانی ہو گئی۔ پھر 1974 ء میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں OIC کے تحت اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد کروائی جس میں عرب ملکوں کے سربراہان باوجود نظریاتی اختلافات کے ساتھ بیٹھے جیسے لیبیا کے صدر کرنل قدافی اور سعودی عرب کے شاہ فیصل ، تو یہ ایران کے لیے بھی سیاسی الجھن پیدا کر رہے تھے اور تیل کی قیمتوں میں دگنا سے زیادہ اضافہ بھی کر دیا تو ایران پر اس موقع پر امریکہ کو پورا اعتماد تھا کہ تیل پیدا کر نے والے تمام ممالک کے مقابلے میں ایران اپنی پوزیشن امریکہ کے حق میں استعمال کرے گا اور اپنے تیل کی ترسیل بھی جاری رکھے گا اور قیمت میں بھی اضافہ نہیں کرے گا۔
امریکہ کو ایران کے شہنشاہ محمد رضا شاہ پہلوی پر بڑا مان تھاکیونکہ امریکہ نے ہی سی آئی اے کے ذریعے 1953 ء میں شہنشاہ کو واپس تحت دلوایا تھامگر شہنشاہ ایران کے لیے یہ بہت مشکل تھا پھر یہ بھی تھا کہ اُن کے پاس یہ سنہری موقع تھا کہ وہ بھی عرب ممالک کے کی طرح اپنے تیل کی قیمتوں میں بڑا ضافہ کر کے ایران کی سالانہ آمدنی اور فی کس سالانہ آمدنی میں اضافہ کر لیں اُن کا اندازہ یہ تھا کہ اس موقع پر امریکہ پر عالمی طور دباؤ اتنا زیادہ ہے کہ امریکہ شہنشاہ ایران کے خلاف کو ئی کاروائی نہیں کرئے گا کیونکہ پاکستان کے وزیراعظم بھٹو امریکہ کے لیے کو ئی کرادر ادا کر نے کو تیار نہیں تھے پھر سعودی عرب کے بادشاہ شاہ فیصل بھی تیل کی قمیت اور اسرائیل کے خلاف جنگ کے اعتبار سے امریکی پالیسی سے انحراف کر چکے تھے جب کہ ایران وہ ملک تھا کہ جس نے ترکیہ کی طرح اسرائیل کو تسلیم بھی کیا ہوا تھا اور اُس ساتھ سفارتی تعلقا ت بھی تھے یوں شہنشاہ ایران نے بھی عرب ممالک کی طرح اپنے تیل کی قیمتوں میں اسی تناسب سے اضافہ کر دیا اور فوری طور پر امریکہ نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
اسی سال افغانستان میں صدیوں کی قائم بادشاہت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے سردار داؤد خان نے ظاہر شاہ کا تختہ الٹ دیا۔ اُس وقت بظاہر عالمی طاقت کے توازن کے حوالے صورتحال سوویت کے حق میں جاتی دکھائی دے رہی تھی۔ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کو جزوی کامیا بی کی ایک بنیادی وجہ روسی ساخت کے سام میزائل بھی تھے جن کو مرحوم جمال ناصر نے حاصل کیا تھا اور انور سادات نے کامیابی سے استعمال کیا تھا۔
واضح رہے کہ یہ دنیا میں ہو نے والی اُس زمانے کی ایسی اہم جنگ تھی جس میں پہلی بار میزائیل استعمال ہوئے تھے مگر پاکستان کے شہر لاہور میں ہونے والی اسلامی سر براہی کانفرنس نے سابق سوویت یونین کو بھی پر یشان کر دیا تھا کیونکہ اس کانفرنس میں سرمایہ دارنہ نظریات رکھنے والے اور امریکی بلاک سے تعلق رکھنے والے عرب ممالک کی باشاہتیں ،شیوخ بھی تھے اور دوسری جانب اشتراکی نظریات کے حا مل اور روسی بلاک سے سے تعلق رکھنے والے عرب ممالک کے سربراہان بھی تھے ، تمام اسلام کے نام پر جمع ہو ئے تھے اور بہت سے اہم فیصلے اس اسلامی سر براہ کانفرنس میں اسلامی اتحاد کے جذبے کے تحت ہوئے تھے۔
یہ صورتحال سوویت یونین کے لیے امریکہ سے اختلافی اور نظریاتی سیاست اور پالیسی کے باوجود نظریاتی طور پر خلاف تھی، اس موقع پر امریکہ اور سوویت اپنے اپنے طور پر اس صورتحال سے نبٹنے کے تین درجات کے پلان۔ (اے ،بی ،سی) مرتب کر چکے تھے ، شہنشاہ ایران کے خلاف امام خمینی کو اُس وقت وطن بدر کیا گیا تھا جب شہنشاہ نے 28 اکتوبر 1964 ء کو ایک قانون کی منظوری دی تھی جس کے تحت ایران میں امریکی فوجی مشن کے تمام افراد کو سفارت کاروں کے ہم پلہ قرار دے دیا گیا تھا یعنی امریکی فوجیوں کو ایران میں ویانا کنونشن کے تحت یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ جو چاہیں کر لیں اُن پر ایران کا کو ئی قانون لاگو نہیں ہو گا۔
دوسرے روز 29اکتوبر 1964 کو امام خمینی نے قم کے مدرسے میں وہ شہرہ آفاق تقریر کی جو ایران کے انقلاب کا سنگ میل ثابت ہو ئی اس تقریر کے جرم میں امام خمینی کو گرفتار کر کے ملک بدر کر دیا گیا 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد1974 ء میں لاہور میں ہو نے والی اسلامی سربراہ کانفرنس ،یہ ایسے واقعات تھے کہ ان کے بعد اس پورے خطے میں سرد جنگ اپنے انتہا ئی مر حلے میں داخل ہو گئی ۔
عالمی سطح کا مسلم اتحادسوویت یونین ، امریکہ دونوں کے لیے قابل قبول نہیں تھا اس لیے دونوں بلاک ہی اس مسلم اتحاد کو توڑنے کی اپنی اپنی اسٹرٹیجی بنا چکے تھے۔ یہ مسلم اتحاد جو لاہور کی اسلامی سربراہ کانفرنس میں ابھی اپنے ابتدائی مر احل میں تھاپھر امریکی اور سوویت مفادات کی بنیاد پر آپس کی شدید سرد جنگ بھی اپنی جگہ تھی اس کانفرنس سے دو برس پہلے فروری 1972 ء میں جب وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو نے عبوری آئین بنا کر ملک میں پارلیمانی جمہوری نظام کو بحال کیا اور صوبہ بلو چستان جس کوپہلی مرتبہ صوبے کادرجہ دے کر 1970 ء کے انتخابات منعقد ہو ئے تھے ان کے نتا ئج کی بنیا دپر بلوچستان میں پہلے وزیراعلیٰ سر دار عطا مینگل کی پارٹی نیپ اور جمعیت علما کے ساتھ مخلوط صوبائی حکو مت تشکیل دی تھی پھر 1973 ء کے آئین کے نفاذکے بعد بلوچستان کی پہلی صوبائی حکومت کو بھٹو نے صرف 9 ماہ بعد غیر جمہوری انداز میں ختم کر دیا تو صوبہ خیبر پختونحوا میں بھی نیپ اورجمعیت کی مخلوط صوبائی حکومت جس کے وزیراعلیٰ مولانا مفتی محمود تھے۔
اُنہوں نے بھی احتجاجاً استعفیٰ دے دیا بلوچستان میں اس کے فوراً بعد مسلح مزاحمت شروع ہو ئی بھٹو نے اس موقع اس کو بھی شہنشاہ پر دباؤ کے لیے استعمال کیا اور شہنشاہ کو یہ باور کر وایا کہ بلوچ نہ صرف پاکستان کے بلوچستان کی علیحدگی چاہتے ہیں بلکہ اس میں وہ آزاد عظیم بلو چستان کے نام پر ایرانی بلوچستان و سیستان کو بھی اس کے ساتھ شامل کر نا چاہتے ہیں بھٹو نے اپنے وزارت خارجہ کے دور ہی میں شہنشاہ محمد رضا شاہ پہلوی کے بھارت سے خصوصی تعلقات سے یہ اندازہ کر لیا تھاشہنشاہ بھارت ،کو اہمیت دے کر پاکستان کو یہ بتا نا چاہتا ہے پاکستان کے ہمسائے میں بھارت سے اور افغانستان سے پاکستان کے زیادہ بہتر تعلقات نہیں ہیں یوں پاکستان کی مجبوری ہے کہ وہ ایران سے بناکر رکھے اور اس اعتبار سے ایران پاکستان کودباؤ میں رکھ کر ہی تعلقات چاہتا تھا اور پھر پاکستان کے حوالے یہ تاثر ایران نے رکھا کہ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد پاکستان اب اور کمزور پوزیشن پر آگیا ہے۔
بھٹو نے ایک جانب ایران سے آگے شام ، مصر ،، لیبیا سے اچھے تعلقات قائم کئے تو دوسری جانب جب بلو چستان میں بلوچ مزاحمت شروع ہوئی تو یہ تاثر دیااب ایران میں بھی یہی کیفیت ہو جائے گی اس کے بعد بھٹو نے حکمت عملی اختیار کی اور شہنشاہ ایران سے پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے کچھ لاپرواہی کا انداز اختیار کیا تو شہنشاہ کو گھبراہٹ ہوئی اور ایران کی جانب سے خصوصاً بلوچستان کے لیے امداد شروع ہو ئی تمام کالجوں ہائی اسکولوں کے لیے مرسیڈیز بسوں کا تحفہ آیا کو ئٹہ اور لسبیلہ میں ٹیکسٹائل ملیں بنائی گئیں اِن ہی ملوں کی عمارتوںمیں آج بیوٹم اور میرین یو نیورسٹاں قائم ہیں اورپھر سیکورٹی کے اعتبار سے بھی امداد ی رقوم دی گئیں فوری طور پر شہنشاہ کی جڑواں بہن شہزادی اشرف پہلوی نے بلوچستا ن کا خصوصی دورہ کیا پھر شہنشاہ نے جب پاکستان کا دورہ کیا توبھٹو نے اُن کے لیے لاڑکانہ میں موہنجوداڑو کے تہذیبی آثار میں خصوصی آرائش کے بعد مثالی دعوت کا اہتمام کیا جولائی 1977 ء میں بھٹو کی حکومت کے چلے جانے کے بعد جنرل ضیا الحق کا مارشل لا نافذہوا اس حکومت کا بنیادی تاثر بھی اسلامی نظام کا تھا اس کے سال بعد ہی افغانستان میں سردار داؤد کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور یہاں براہ راست سوویت مداخلت شروع ہو گئی۔
اس کے ساتھ ہی ایران میں شہنشاہ کے خلاف تحریک شدت اختیار کرتی گئی 8 ستمبر1978 کو تہران میں فوج کی جانب سے احتجاج کر نے والے بڑے مجمع پر فائرنگ کر دی اور بہت بڑی تعداد میں لوگ جانبحق ہو گئے اس واقعہ کو سیاہ جمعہ یعنی بلیک فرائی ڈے قراردیا گیا اس کے بعد مفاہمت کی جو امیدیں تھیں وہ بھی ختم ہو گئیں اور 16 جنوری 1979 ء کو شاہ کا اقتدار ختم ہو گیا، 1974 ء میں پہلی مرتبہ شاہ ایران کو تشخیص کے بعد بتا یا گیا کہ اُن کو خون کا کینسر ہے اس کے بعد شاہ نے عوام میں آنا کم کر دیا 1978 ء میں شاہ نے اپنا ہنگری اور بلغاریہ کا طویل دورہ منسوخ کر دیا اُنہوں پورا موسم سرما بحیر ہ کیسپین کے ساحل کی شاہی تفریح گاہ میں گذارا اُن کا علاج فارنسیسی ڈاکڑ Jean Bernard نے کیا ، اور اس کا علم کچھ عرصے بعدفرانس کی حکومت کو ہوگیا اور ستمبر 1978 یہ خبر امریکی حکومت کو بھی معلوم ہو گئی اس کے بعد شہنشا ہ نے جلا وطنی میں بھا مانس میں جزیرہ خریدنے کی کوشش کی مگر وہاں کے عوام کے دباؤ کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو سکا قصّہ مختصر وہ امریکہ سمیت کسی بھی مغربی ملک میں سیاسی پناہ حاصل نہ کر سکے آخر مصر میں اُن کو پناہ ملی اور یہاں کینسر ہی کی وجہ سے27 جولائی 1980 ء کوقائرہ میں اُن کا نتقال ہوا وہ1970 ء سے 1977 ء دنیا کے سب سے امیر طاقتور شہنشاہ تھے۔
یوں اُس وقت کے طاقتور شہنشاہ کو آخر عوام قوت کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے ، پھرجلاوطنی میں دنیا سے یوں رخصت ہو ئے کہ جس سلطنت اور ملک کے وہ بادشاہ تھے وہاں دفن بھی نہ ہو سکے ، ایران کے انقلاب پر عالمی سطح کے غیر متعصب غیر جانبدار مورخین اور محققین ایران کے انقلاب کو انقلاب ِ فرانس اور سوویت یونین کے اشتراکی انقلاب کے برابر کا درجہ دیتے ہیں ۔ 18 اپریل 2023 ء میں جب میں یہ آرٹیکل مکمل ہو رہا تھا تو ایک ماہ قبل اس خبر نے امریکہ اور یورپ کو حیران کردیا تھا کہ چین کی کوششوں سے ایران اور سعودی عرب کے تنازعات ختم ہو رہے ہیں اور عنقریب اس حوالے سے دونوں ملکوں میں معاہدہ بھی ہو جائے گا ۔
اسی دوران چین نے اسرائیل اور فلسطین میں دو قومیں دو ریاستوں کی بنیاد پر حماس ، حزب اللہ ، فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیلی حکام کے درمیان مستقل بنیادیوں پر مستحکم اور پائیدار امن کے قیام کے لیے کو ششیں شروع کر دیں اور 18 اپریل 2023 ء کو اس حوالے سے ریاض میں اجلاس بھی ہوا تو اسی روز مرحوم محمد رضا شاہ کے صاحبزادے ولی عہد رضا پہلوی نے اسرائیلی وزیر دفاع کے بیٹے کی دعوت پر نہ صرف اسرائیل کا دورہ کیا بلکہ اُنہوں نے مسجد اقصٰی پر حاضری دینے کی بجائے یہودیوں کی مقدس دیوارِ گریہ پر اپنی بیگم شہزادی کے ہمراہ حاضری دی اور اس موقع پرانہوں نے سائرس اعظم کو خراجِ عقیدت پیش کر تے ہو ئے کہا کہ وہ عظیم ایرانی شہنشاہ جس نے یہاں دوسری مرتبہ ٹیمپل تعمیر کروایا جس نے یہودی قوم کو آزادی دی۔
انہو ں نے اِن نظریا ت کے تحت انقلاب کی بات بھی کی اب یہ معلوم نہیں کہ وہ اسرائیل کے دورے کے بعد قاہرہ میں اپنے والد کی قبر پر بھی جائیں گے یا نہیں اور کیا عراق میں جا کر بخت نصر کے لیے غیبی ہا تھ سے لکھا ہوا یہ جملہ پڑھ سکیں گے جو نوشتہ دیوار تھا اور اُ ن کے ولد شہنشاہ ِ ایران کے لیے بھی تھا ۔ بہرحال 11 فروری1979 ء کو ایران کے آخری شہنشاہ اور دنیا کے امیر ترین ، طاقتور اور مطلق العنان محمد رضا شاہ پہلوی کا اقتدار ختم ہو گیا۔ اور اس کے تقریباً ایک سال پانچ ماہ بعد ہ 27 جولائی 1980 ء مصر کے شہر قاہرہ میں انتقال کر گئے ۔