ڈاکٹر میرا فیلبوس ایک قابل قدر شخصیت

جنھوں نے پاکستان میں تعلیم خواتین کی ترقی اور خوش حالی کے لیے ناقابل فراموش اور گراں قدرخدمات سرانجام دی ہیں

جنھوں نے پاکستان میں تعلیم خواتین کی ترقی اور خوش حالی کے لیے ناقابل فراموش اور گراں قدرخدمات سرانجام دی ہیں ۔ فوٹو : فائل

ذرا تصور کریں کہ اگر کائنات میں عورت کی تخلیق نہ ہوتی، تو یہ دُنیا کیسی ہوتی! ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ اگر کسی بھی خاندان، معاشرے اور ملک وقوم میں تعلیم یافتہ، باشعور اور قائدانہ صلاحیتوں کی حامل عورت نہ ہو تو اُس معاشرے کا کیا حال ہو! پاکستانی معاشرہ مردوں کی بالادستی کی بنیاد پر قائم ہے۔

جہاں عورت کا لیڈرشپ کے کردار میں آنا کسی چیلینج سے کم نہیں۔ وہ بھی آج سے 50 پہلے کے زمانے میں، یقینی طور پر یہ ایک طویل سفر اور جدوجہد تھی جس کے لیے اُس زمانے کی دلیر خواتین کی عظمت کو سلام پیش کرنا چاہیے۔

اس مضمون میں بھی آپ کوایک ایسی ہی عہدساز اور قابل فخر شخصیت سے ملوائیں گے جنہوں نے تعلیم کے میدان اور پاکستان میں خواتین کی ترقی اور خوش حالی کے لیے ناقابل فراموش اور گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔

میری خوشی قسمتی کہیں یا جستجو کی لگن کہ مجھے ایسے لوگوں کی تلاش رہتی ہے جو ایک زندگی میں کئی زندگیوں کا کام کرگئے ہیں۔ میں اپنی ٹریننگ سیشن کے سلسلے میں کراچی سے لاہور گیا تو ہمیشہ کی طرح سوچا کہ ٹریننگ کے بعد جو وقت ملے گا۔

اُس میں چند قابل ذکر شخصیات کے انٹرویو کروں گا ۔ امریکا سے کمانڈر (ر) سلیم اختر میتھوز نے مجھے کئی ایک نام دیے اور ساتھ ڈاکٹر میرا فیلبوس کا ذکر کیا کہ وہ ان دنوں امریکا سے لاہور آئی ہوئی ہیں۔ کمانڈر صاحب نے مجھے نمبر دیا تو میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے اگلے دن ڈاکٹر میرا فیلبوس سے رابطہ کیا۔ ہماری بات چیت ہوئی اور ملاقات کا وقت طے ہوا۔

میں مقررہ وقت پر لاہور میں واقع اُن کے گھر ملنے گیا۔ اُنہوں نے بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا اور ہماری بڑی شان دار گفتگو ہوئی۔ میں نے اُن کا انٹرویو کیا اور چند روز بعد کراچی واپس آگیا۔ اس مضمون کو مکمل کرنے کے لیے ابھی بھی بہت سی چیزیں باقی تھیں۔ گذشتہ ماہ پھر میرا لاہور جانا ہوا تو میں نے اُنہیں فون کیا اور اُن سے دوبارہ ملاقات ہوگئی۔ یہ ملاقات بہت دل چسپ اور مفید ثابت ہوئی۔

آئیے ڈاکٹر میرافیلبوس کی زندگی، خدمات اور اعزازات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ 29 ستمبر 1937 کو لاہور میں ایک مسیحی خاندان میں پیدا ہونے والی ڈاکٹر میرا فیلبوس اپنے لاہوری ہونے پر بے حد ناز اور فخر کرتی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ اُن کے والد ارنسٹ Jivanadham اور والد آئرین Mitter بہت سلیقہ مند اور اُصول پسند والدین تھے جنہوں نے مجھے اور میری بہن کو ایسی تربیت اور ماحول دیا جس کی بدولت شروع سے ہی ہماری ذات میں اعتماد اور شعور اُجاگر ہوا۔ اُنہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم کتھیڈرل اسکول سے حاصل کی اور اُس کے بعد کینیرڈ کالج میں داخلہ لیا۔

وہیں سے جیوگرافی میں ماسٹر ز کیا اور تدریس سے وابستہ ہوگئیں اور بعد میں کالج کی پرنسپل مقرر ہوئیں اور کالج کے تعلیمی معیار اور وقار کو ایک نئی پہچان دی۔ 1960 میں اُن کی شادی تھیوڈور فیلبوس سے ہوئی۔

خُدا نے اُنہیں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا عطا کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر میرا فیلبوس کو اُن کی اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں ستارۂ امتیاز بھی دیا گیا۔ وہ 2007 میں پنجاب کی نگراں حکومت میں بطور وزیرتعلیم اور اقلیتی امور کے فرائض بھی سرانجام دے چکی ہیں۔

ڈاکٹر میرا فیلبوس نے پاکستان میں خواتین کی ترقی اور تعلیم کے لیے وسیع پیمانے پر کام کیا ہے۔ وہ یقین رکھتی ہیں کہ اعلیٰ تعلیم سے آراستہ خواتین باوقار، ذہین، قابل اور تخلیقی افراد کے طور پر معاشرے کی بہتری میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکتی ہیں۔

اُن کے کام کو نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر بے حد پذیرائی حاصل ہوئی ہے، ان میں چند درج ذیل ہیں:

٭ اُنہیں 1982 میں امریکا کے ڈیوڈسن کالج نے قانون میں اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا۔

٭ 1991 میں پریسبیٹیرین چرچ امریکا کی کمیٹی برائے اعلیٰ تعلیم نے ''بین الاقوامی اسکالر ایوارڈ'' دیا۔

٭ 1993 میں صدارتی ایوارڈ ''اعزاز فضیلت'' دیا گیا۔

٭ 1994 میں صدارتی ایوارڈ برائے پرائیڈ آف پرفارمنس دیا گیا۔

٭ فرانسیسی ثقافت کے لیے خدمات پر 2002 میں پالمز اکیڈیمکس دیا گیا۔


٭ وہ پنجاب یونیورسٹی سنڈیکیٹ کی سابق ممبر رہیں۔

٭ 1972 سے ایف سی کالج کی ممبر ہیں۔

اس کے علاوہ وہ خواتین سے متعلق قومی کمیشن کی سابق رکن، عورت فاؤنڈیشن کے قانون کی حکم رانی کے پروگرام کے اسٹریٹجک مشیر، 2001 میں سابق ممبر، فیڈرل ایجوکیشن ایڈوائزری بورڈ، انٹرنیشنل مشن بورڈز کی ممبر، 1975 میں ایشیائی خواتین کے ادارے کی بانی صدر، 1975 میں پاکستان ویمن انسٹی ٹیوٹ کی بانی ڈائریکٹر، 2002 خواتین کی بہتری کے پروگرام کی بانی چیئرپرسن، 2004 سے 2006 تک پاکستان کرکٹ بورڈ (خواتین ونگ) کی پہلی چیئرپرسن، ممبر سنڈیکیٹ فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی، ممبر، بورڈ آف مینجمنٹ، فاطمہ جناح میڈیکل کالج اور 2019 سے2022 تک پنجاب ہیلتھ کمیشن میں کمشنر کے طور اپنی خدمات سرانجام دی چکی ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر میرا فیلبوس اپنے اندر ایک عظیم اور نیک جذبے کی تحریک کو یکجا رکھتی ہی۔ وہ سب کا خیال کرتی ہیں اور اسی طرح دوسروں کی طرف سے ان کو عزت، احترام اور پیار کیا جاتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ڈاکٹر میرا فیلبوس اپنی تمام کوششوں میں کام یاب نہیں ہوئی ہیں، لیکن اُن کے لیے جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے اُنہوں نے دیانت داری، ہم دردی، ہمت اور قربانی کے ساتھ ہر وہ عمل کیا ہے جس سے اُن کی زندگی میں آنے والے تمام لوگوں کو تقویت ملی، اُنہوں نے خود کو بااختیار بنایا اور ان کی حوصلہ افزائی کی گئی جو کسی بھی عظیم لیڈر کی اہم خوبی ہوتی ہے۔

ڈاکٹر میرا فیلبوس،''کام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ ایکٹ'' 2010 کے تحت پہلی محتسب، پنجاب کے طور پر تعینات کیا گیا۔ وہ اس عہدے پر2 مارچ 2013 سے 01 مارچ 2015 تک فائز رہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ اس سلسلے میں اُنہوں نے شروع میں تنہا لیکن بعد میں ایک بھرپور ٹیم کے ساتھ مل کر بے حد کام کیا۔ ٹی وی پر آگاہی کے لیے بے شمار پروگرام کیے، کئی چھوٹے بڑوں شہروں میں وزٹ کیے، عام لوگوں، سیاسی وسماجی راہ نماؤں اور اداروں کے سربراہوں سے ملاقاتیں کیں اور اُنہیں خواتین کے حقوق اور قوانین سے آگاہی دی۔

ڈاکٹر میرا فیلبوس پاکستان کی نام ور ماہر تعلیم ہیں۔ پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں ان کی بے پناہ قدر کی جاتی ہے۔ وہ اس ضمن میں بین الاقوامی سطح پر اپنی منفرد پہچان رکھتی ہیں۔ اُنہیں عالمی سطح کی یونیورسٹیوں میں خطاب کرنے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔

اُنہوں نے چالیس سال سے زائد عرصے تک، پہلے فیکلٹی ممبر اور پھر کنیئرڈ کالج برائے خواتین، لاہور کی پرنسپل کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ تمام خواتین کے لیے ایک تحریک رہی ہیں، بلکہ ایک ''فائٹر'' کے طور بھی مشہور ہیں اور اُنہوں نے متعدد مواقع پر میرٹ کی خلاف ورزی کے خلاف سخت موقف اپنایا اور اپنے اصولوں اور موقف پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا ۔

2013 میں اپنی شائع ہونے والی کتاب ''Kinnaird Remembered'' میں اُنہوں نے کالج کی تاریخ، پس منظر، دل چسپ اور تاریخ ساز واقعات کو بڑی عمدگی سے بیان کیا ہے۔ مجھے اُنہوں نے یہ کتاب بطور تحفہ پیش کی جس کا مطالعہ کرکے مجھے اُن کی تحریری صلاحیتوں کا بھی معترف ہونا پڑا۔ یوں ڈاکٹر میرا فیلبوس کی بے شمار خدمات ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ تعلیم کے میدان میں معیار اور وقار، خواتین کی ترقی اور خوش حالی اور اپنی کیمونٹی کی بہتری کے لیے اُن کا کام قابل ذکر ہے۔

اُنہوں نے اپنی ذات کو پیچھے اور اپنی کاز (مقصد) کو ہمیشہ آگے رکھا اور اپنی زندگی سے مثال دی ہے۔ ہمارے معاشرے کو ایسے رجحان ساز، عالمی معیار اور وقار کے حامل افراد کی سوچ اور افکار کو نئی نسل تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔

مجھے اُنہوں نے خصوصی یاددہانی کروائی کہ میرے شوہر کا ذکر لازمی کیجیے گا کیوںکہ اُن کی معاونت کی بدولت ہی وہ یہ ساری ذمے داریاں احسن طریقے سے سرانجام دے پائیں۔ ڈاکٹر میرا فیلبوس کہتی ہیں کہ وہ ایک بھرپور اور موثر زندگی کے لیے خُدا، اپنے خاندان اور ساتھیوں کی مشکور ہیں جنہوں نے ہر مشکل لمحہ میں اُن کا ساتھ دیا۔ خُدا پر بھروسا، خود پر یقین اور محنت و لگن سے آپ اپنا مقصد حاصل کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کہتی ہیں کہ خواتین کو تعلیم یافتہ، ہنر مند اور بااختیار بننا پاکستان کی خوش حالی اور ترقی کے لیے بہت اہم ہے۔ تعلیم کام یابی کے لیے بنیادی ضرورت ہے۔

میں 21 مئی کو لاہور سے واپس کراچی کے لیے آرہا تھا۔ لاہور ایئرپورٹ پر راستے میں کیولری گراؤنڈ میں واقع اُن کے گھر صرف اُن کی کتاب لینے گیا ۔

اتفاق سے اُن سے ملاقات ہوگئی اور کافی طویل گفتگو ہوگئی۔ یہ گفتگو کوئی عام اور معمولی گفتگو نہیں تھی۔ وہ اپنی زندگی کے ایسے ایسے تجربات اور مشاہدات بیان کررہی تھیں اور میں اُن کے چہرے کے تاثرات اور آنکھوں میں چمک کو بڑے انہماک سے دیکھ رہا تھا اور اُن کی آواز کی فریکوینسی کو بڑے غور سے سن رہا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہورہا تھا جسے وہ مجھے اپنی زندگی کے سفر کی فلم دکھا رہی ہیں اور میں بچوں کی طرح بڑے تجسس سے دیکھ رہا ہوں۔

مجھے یوں لگ ہی نہیں رہا تھا جیسے میں اتنی بڑی شخصیت کے سامنے بیٹھا ہوں، بلکہ یوں محسوس ہورہا تھا جیسے کوئی دو بہت شناسا انسان صدیوں پر محیط تعلق کے متعلق محوگفتگو ہوں۔ اُن کا ایک ایک لفظ میری رُوح میں اتر رہا تھا اور میں قلم سے الفاظ کو قید کرنے کی کوشش کررہا تھا جب کہ وہ لمحات میری رُوح میں پوست ہو کر میری زندگی کا حصہ بن چکے تھے۔ میں نے گھڑی کی جانب نگاہ گی تو میرا ایئرپور ٹ پہنچنے کا وقت ہو رہا تھا۔

میں نے ڈاکٹر صاحبہ سے اجازت چاہی اور اتوار کی شام، لاہور کینٹ کی گلیوں سے ہوتا ہوا علاقہ اقبال ایئرپورٹ پہنچا تو شام ڈھل چکی تھی، ایئرپورٹ پہنچ کر بھی میری رُوح ابھی تک اُن کی گفتگو سے مسرور ہو رہی تھی۔ میں ایئرپورٹ پر کھڑا آسمان کی طرف نگاہ کرکے بالوں کو دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ ایک عورت ایک زندگی میں کیا کیا ہو سکتی ہے۔ مجھے یوں لگا جیسے بادل مجھے سے محوگفتگو ہوں کہ ایک تعلیم یافتہ، باشعورا ور قائدانہ صلاحیتوں کی حامل عورت ایک زندگی میں کئی نسلوں کو سنوار جاتی ہے۔

یہ الفاظ جیسے میرے کانوں تک پہنچے میری ذہن کے نقشے پر ڈاکٹر میرا فیلبوس کی تصویر نمایاں ہوگئی جنہوں نے اپنی ایک زندگی میں کئی زندگیاں سنوار دی ہیں اور کائنات میں عورت کے وجود کی موجودگی کا حقیقی معنی میں ہمارے معاشرے کو احساس دلایا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے معاشرے کی یہ نسل اب نایاب ہوگئی ہے جو اپنی زندگی دوسروں کی خدمت کے لیے وقف کردیتی تھی، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے معاشرتی فلاح اور اجتماعی بہتری کے لیے بلارنگ ونسل، ذات پات، عہدے اور مرتبے کے تعلیم کی روشنی کو عام کیا، جن کی زندگی کا مقصد دوسروں کی راہ نمائی اور بھلائی کرنا تھا، جو تعلیم کے ذریعے خدمت کو عبادت سمجھتے تھے۔

ڈاکٹر میرا فیلبوس نے بھی اپنی زندگی اس مشن کے تحت بسر کی، اس لیے اُنہوں نے اپنی کتاب کے پہلے صفحے پر رابندر ناتھ ٹیگور کا یہ قول لکھا ہے،''میں سو گیا اور خواب میں دیکھا کہ زندگی خوشی ہے۔ میں بیدار ہوا اور دیکھا کہ زندگی خدمت ہے۔ میں نے خدمت کی اور دیکھو، خدمت خوشی تھی۔''
Load Next Story