اخلاقیات سے عاری اوورسیز پاکستانیوں کا مخصوص ٹولہ
عرب ممالک میں تو مکمل خاموشی ہوگئی ہے کیونکہ یہاں جن پاکستانیوں کو سیاسی بخار چڑھا ہوا تھا، اس کا تسلی بخش علاج ہوگیا
آج کل اوور سیزپاکستانیوں کی سیاسی سرگرمیوں کا چرچہ ہے۔ عرب ممالک میں تو مکمل خاموشی ہو گئی ہے کیونکہ یہاں جن پاکستانیوں کو سیاسی بخار چڑھا ہوا تھا، اس کا تسلی بخش علاج ہو گیا ہے۔ لیکن یورپ بالخصوص برطانیہ اور امریکا میںبخار کی حدت بڑھ گئی ہے۔
برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کا ایک مخصوص ٹولہ اب تمام حدیں پار کر گیا ہے۔ بدتمیزی کرتے ہیںاور گندی گالیاںدیتے ہیں۔ پھر وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کر کے فخر کرتے ہیں۔ امریکا میں بھی چند لوگ پاکستان مخالفت میں ہر حد پار کر رہے ہیں۔
ان کا بس نہیں چل رہا ' ورنہ وہ امریکا سے پاکستان پر حملہ ہی کرادیں۔ دو دن قبل مسلم لیگ (ن) کی رہنما حنا پرویز بٹ کے ساتھ لندن کی سڑکوں پر تحریک انصاف کے حامیوں نے جو کیا ہے، اس کی خود تحریک انصاف کے رہنما بھی مذمت کر رہے ہیں۔لیکن مذمت کا انداز بھی عجیب ہے۔
یہ کہا جا رہا ہے کہ حنا پرویز بٹ کے ساتھ جو ہوا ہے، وہ درست نہیں لیکن نو مئی کے واقعہ میں گرفتار خواتین کی قید کی بھی مذمت کی جائے، جب ان کی قید کی مذمت نہیں کی جاتی توحنا پرویز کے ساتھ ہونے والی بدتمیزی کی کیسے مذمت کی جا سکتی ہے۔
یہ کیسی منطق ہے؟ ان خواتین پر باقاعدہ مقدمات درج ہیں۔ وہ قانون کی حراست میں ہیں، عدالت میں ان کے کیس چل رہے ہیں۔
آپ بتائیں! کیا حنا پرویز بٹ پر پاکستان میںکوئی مقدمہ ہے؟ اگر ایسا نہیں تو پھر ان کا تحریک انصاف کی جیلوں میں قید خواتین کے ساتھ کیسے موازانہ کیا جاسکتا ہے ۔ کیا تحریک انصاف کے دوست یہ کہہ رہے ہیں کہ چونکہ تحریک انصاف کی خواتین نو مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کی وجہ سے قید ہیں، اس لیے کسی بھی مخالف سیاسی جماعت کی خاتون کی عزت محفوظ نہیں رہنے دیں گے۔ واہ ! یہ کیا دلیل ہے۔
میں چوہدری سرور سے متفق ہوں کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو پاکستانی سیاست میں بالکل حصہ نہیں لینا چاہیے۔ وہ جن ممالک میں رہتے ہیں وہاں کی سیاست میں حصہ لیں۔ آج برطانیہ کا وزیر اعظم ایک بھارتی نژاد ہے۔ کیونکہ اس نے برطانیہ کی سیاست میں حصہ لیا۔ برطانیہ امریکا میں مقیم بھارتی باشندے وہاں سیاسی جماعتوں کے ونگ نہیں بناتے ہیں۔
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ایسے پاکستانی شہری جو کسی دوسرے ملک کی نیشنلٹی، گرین کارڈ یا مستقل رہائشی کارڈ رکھتے ہوں، انھیں پاکستان میں نہ تو ووٹ کا حق ہونا چاہیے،نہ انھیں کو وزارت یا عہدہ دیا جانا چاہیے اور نہ ہی ان کو پاکستان کی سیاست میں حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہیے۔
جس نے کسی بھی دوسرے ملک کی شہریت قبول کر لی اس کے لیے پاکستان کی سیاست کے دروازے بند ہونے چاہیے بلکہ وہ وہاں بھی پاکستان کی سیاست پر بیان بازی نہیں کرسکتا۔ جس نے پاکستان میں سیاست کرنی ہے، وہ مکمل پاکستانی ہونا چاہیے۔
وہ اور اس کے بچے پاکستان کے شہری ہونے چاہیے۔ اس لیے میری رائے میں بیرون ملک پاکستانیوں پر پاکستان کی سیاست کے دروازے مکمل طور پر بند کرنے کا وقت آگیا ہے۔ یہ لوگ پاکستان کے لیے کسی نیک نامی نہیں بلکہ بدنامی اور رسوائی کا باعث بن رہے ہیں۔ کیا یہ بدتمیز اور بد تہذیب پاکستانی کسی برطانوی سیاست دان یا بھارتی خاتون سیاستدان کے ساتھ ایسے کر سکتے ہیں جو حنا پرویز کے ساتھ کیا گیا۔نہیں، بالکل نہیں۔ کیونکہ انھیں پتہ ہے کہ پھر ا ن کے ساتھ کیا ہوگا۔
عجیب کلچر شروع ہو گیا ہے کہ چونکہ آپ جس سیاسی جماعت یا سیاستدان کے حامی ہیں، وہ اقتدار سے باہر ہے یا کسی مقدمے میں قید ہے تو پھر پاکستان کے خلاف ہی پراپیگنڈا شروع کر دیا جائے۔ چونکہ ان کی حامی جماعت اور لیڈر اقتدار میں نہیں اس لیے وہ امریکا میں بیٹھ کر امریکی حکومت کو مجبور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان پر پابندیاں لگا دی جائیں۔
پاکستان سے سفارتی تعلقات تب تک ختم کر دیے جائیں جب تک جس جماعت کو وہ سپورٹ کر رہے ہیں، وہ اقتدار میں نہ آجائے۔ وہ آئی ایم ایف سے پاکستان کو قرض ملنے کے خلاف لابی کرتے ہیں اور پھر اس نادم ہونے کے بجائے فخر بھی کرتے ہیں۔ انھیں کوئی شرمندگی بھی نہیں ہے۔ یہ کیسی سیاست، کیسی حب الوطنی اور کیسی پاکستانیت ہے؟
اس بار یوم آزادی پر بھی تحریک انصاف کے حامیوں نے الگ ہی تاریخ رقم کی ہے۔ پہلے تو یہ پراپیگنڈا کیا گیا اس بار یوم آزادی کا بائیکاٹ کیا جائے۔ بائیکاٹ کے لیے باقاعدہ مہم چلائی گئی۔ اس مذموم مہم کو کامیاب بنانے کے لیے ایسی وڈیوز بنائی گئیں جس میں لوگوں کو پاکستان کا پاسپورٹ پھاڑتے ہوئے دکھایا گیا۔
برطانیہ کے شہر بریڈ فورڈ میں قائم پاکستانی قونصلیٹ کی عمارت سے پاکستان کا پرچم اتار کر تحریک انصاف کا پرچم لگاتے دکھایا گیا۔ پاکستانی پرچم کی بے حرمتی کرنے کی ترغیب دی گئی۔ یہ مذموم مہم کئی دن تک چلائی گئی۔ جب اندازہ ہوا کہ یہ کامیاب نہیں ہوگی، محب الوطن اوورسیز پاکستانی ، پاکستانی پرچم کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔عوام کی پاکستانی پرچم کے ساتھ محبت اور لگاؤ اٹوٹ ہے، یہ بھانپ کر اس عیاراور وطن فروش ٹولے نے یوٹرن لیا اور بائیکاٹ سے احتجاج پر آگئے کیونکہ انھیں اندازہ ہوگیا کہ کوئی بائیکاٹ نہیں کرے گا۔
یوم آزادی پر ہمیشہ سب سیاسی جماعتوں نے پاکستان کا پرچم لہرایا ہے۔ سب نے ہمیشہ متحد ہو کر یوم آزادی منایا ہے۔ یہ پہلی بار ہوا کہ پاکستانی پرچم کے بجائے تحریک انصاف والوں نے اپنی سیاسی جماعت کے پرچم کو ترجیح دی ہے۔ کیا ان کے لیے اپنی سیاسی جماعت پاکستان سے بھی آگے ہے۔
بیرون ملک پاکستانی بالخصوص برطانیہ اوور امریکا میں رہائش پذیر یہ بد تمیز لوگ پاکستان کی کوئی اچھی پہچان نہیں ہیں۔ یہ گروہ پاکستان کے لیے بدنامی کا باعث ہیں۔ ان کی تربیت ان کے عمل سے عیاں ہے ، اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس ٹولے کو روکنے کے لیے کچھ کرنا ہوگا۔ صرف برطانیہ ہی نہیں پاکستان میں بھی قانون کو حرکت میں آناہوگا۔
برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کا ایک مخصوص ٹولہ اب تمام حدیں پار کر گیا ہے۔ بدتمیزی کرتے ہیںاور گندی گالیاںدیتے ہیں۔ پھر وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کر کے فخر کرتے ہیں۔ امریکا میں بھی چند لوگ پاکستان مخالفت میں ہر حد پار کر رہے ہیں۔
ان کا بس نہیں چل رہا ' ورنہ وہ امریکا سے پاکستان پر حملہ ہی کرادیں۔ دو دن قبل مسلم لیگ (ن) کی رہنما حنا پرویز بٹ کے ساتھ لندن کی سڑکوں پر تحریک انصاف کے حامیوں نے جو کیا ہے، اس کی خود تحریک انصاف کے رہنما بھی مذمت کر رہے ہیں۔لیکن مذمت کا انداز بھی عجیب ہے۔
یہ کہا جا رہا ہے کہ حنا پرویز بٹ کے ساتھ جو ہوا ہے، وہ درست نہیں لیکن نو مئی کے واقعہ میں گرفتار خواتین کی قید کی بھی مذمت کی جائے، جب ان کی قید کی مذمت نہیں کی جاتی توحنا پرویز کے ساتھ ہونے والی بدتمیزی کی کیسے مذمت کی جا سکتی ہے۔
یہ کیسی منطق ہے؟ ان خواتین پر باقاعدہ مقدمات درج ہیں۔ وہ قانون کی حراست میں ہیں، عدالت میں ان کے کیس چل رہے ہیں۔
آپ بتائیں! کیا حنا پرویز بٹ پر پاکستان میںکوئی مقدمہ ہے؟ اگر ایسا نہیں تو پھر ان کا تحریک انصاف کی جیلوں میں قید خواتین کے ساتھ کیسے موازانہ کیا جاسکتا ہے ۔ کیا تحریک انصاف کے دوست یہ کہہ رہے ہیں کہ چونکہ تحریک انصاف کی خواتین نو مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کی وجہ سے قید ہیں، اس لیے کسی بھی مخالف سیاسی جماعت کی خاتون کی عزت محفوظ نہیں رہنے دیں گے۔ واہ ! یہ کیا دلیل ہے۔
میں چوہدری سرور سے متفق ہوں کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو پاکستانی سیاست میں بالکل حصہ نہیں لینا چاہیے۔ وہ جن ممالک میں رہتے ہیں وہاں کی سیاست میں حصہ لیں۔ آج برطانیہ کا وزیر اعظم ایک بھارتی نژاد ہے۔ کیونکہ اس نے برطانیہ کی سیاست میں حصہ لیا۔ برطانیہ امریکا میں مقیم بھارتی باشندے وہاں سیاسی جماعتوں کے ونگ نہیں بناتے ہیں۔
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ایسے پاکستانی شہری جو کسی دوسرے ملک کی نیشنلٹی، گرین کارڈ یا مستقل رہائشی کارڈ رکھتے ہوں، انھیں پاکستان میں نہ تو ووٹ کا حق ہونا چاہیے،نہ انھیں کو وزارت یا عہدہ دیا جانا چاہیے اور نہ ہی ان کو پاکستان کی سیاست میں حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہیے۔
جس نے کسی بھی دوسرے ملک کی شہریت قبول کر لی اس کے لیے پاکستان کی سیاست کے دروازے بند ہونے چاہیے بلکہ وہ وہاں بھی پاکستان کی سیاست پر بیان بازی نہیں کرسکتا۔ جس نے پاکستان میں سیاست کرنی ہے، وہ مکمل پاکستانی ہونا چاہیے۔
وہ اور اس کے بچے پاکستان کے شہری ہونے چاہیے۔ اس لیے میری رائے میں بیرون ملک پاکستانیوں پر پاکستان کی سیاست کے دروازے مکمل طور پر بند کرنے کا وقت آگیا ہے۔ یہ لوگ پاکستان کے لیے کسی نیک نامی نہیں بلکہ بدنامی اور رسوائی کا باعث بن رہے ہیں۔ کیا یہ بدتمیز اور بد تہذیب پاکستانی کسی برطانوی سیاست دان یا بھارتی خاتون سیاستدان کے ساتھ ایسے کر سکتے ہیں جو حنا پرویز کے ساتھ کیا گیا۔نہیں، بالکل نہیں۔ کیونکہ انھیں پتہ ہے کہ پھر ا ن کے ساتھ کیا ہوگا۔
عجیب کلچر شروع ہو گیا ہے کہ چونکہ آپ جس سیاسی جماعت یا سیاستدان کے حامی ہیں، وہ اقتدار سے باہر ہے یا کسی مقدمے میں قید ہے تو پھر پاکستان کے خلاف ہی پراپیگنڈا شروع کر دیا جائے۔ چونکہ ان کی حامی جماعت اور لیڈر اقتدار میں نہیں اس لیے وہ امریکا میں بیٹھ کر امریکی حکومت کو مجبور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان پر پابندیاں لگا دی جائیں۔
پاکستان سے سفارتی تعلقات تب تک ختم کر دیے جائیں جب تک جس جماعت کو وہ سپورٹ کر رہے ہیں، وہ اقتدار میں نہ آجائے۔ وہ آئی ایم ایف سے پاکستان کو قرض ملنے کے خلاف لابی کرتے ہیں اور پھر اس نادم ہونے کے بجائے فخر بھی کرتے ہیں۔ انھیں کوئی شرمندگی بھی نہیں ہے۔ یہ کیسی سیاست، کیسی حب الوطنی اور کیسی پاکستانیت ہے؟
اس بار یوم آزادی پر بھی تحریک انصاف کے حامیوں نے الگ ہی تاریخ رقم کی ہے۔ پہلے تو یہ پراپیگنڈا کیا گیا اس بار یوم آزادی کا بائیکاٹ کیا جائے۔ بائیکاٹ کے لیے باقاعدہ مہم چلائی گئی۔ اس مذموم مہم کو کامیاب بنانے کے لیے ایسی وڈیوز بنائی گئیں جس میں لوگوں کو پاکستان کا پاسپورٹ پھاڑتے ہوئے دکھایا گیا۔
برطانیہ کے شہر بریڈ فورڈ میں قائم پاکستانی قونصلیٹ کی عمارت سے پاکستان کا پرچم اتار کر تحریک انصاف کا پرچم لگاتے دکھایا گیا۔ پاکستانی پرچم کی بے حرمتی کرنے کی ترغیب دی گئی۔ یہ مذموم مہم کئی دن تک چلائی گئی۔ جب اندازہ ہوا کہ یہ کامیاب نہیں ہوگی، محب الوطن اوورسیز پاکستانی ، پاکستانی پرچم کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔عوام کی پاکستانی پرچم کے ساتھ محبت اور لگاؤ اٹوٹ ہے، یہ بھانپ کر اس عیاراور وطن فروش ٹولے نے یوٹرن لیا اور بائیکاٹ سے احتجاج پر آگئے کیونکہ انھیں اندازہ ہوگیا کہ کوئی بائیکاٹ نہیں کرے گا۔
یوم آزادی پر ہمیشہ سب سیاسی جماعتوں نے پاکستان کا پرچم لہرایا ہے۔ سب نے ہمیشہ متحد ہو کر یوم آزادی منایا ہے۔ یہ پہلی بار ہوا کہ پاکستانی پرچم کے بجائے تحریک انصاف والوں نے اپنی سیاسی جماعت کے پرچم کو ترجیح دی ہے۔ کیا ان کے لیے اپنی سیاسی جماعت پاکستان سے بھی آگے ہے۔
بیرون ملک پاکستانی بالخصوص برطانیہ اوور امریکا میں رہائش پذیر یہ بد تمیز لوگ پاکستان کی کوئی اچھی پہچان نہیں ہیں۔ یہ گروہ پاکستان کے لیے بدنامی کا باعث ہیں۔ ان کی تربیت ان کے عمل سے عیاں ہے ، اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس ٹولے کو روکنے کے لیے کچھ کرنا ہوگا۔ صرف برطانیہ ہی نہیں پاکستان میں بھی قانون کو حرکت میں آناہوگا۔