2014 کے بعد
افغانستان اور پاکستان میں دہشت گرد اپنی جڑیں تیزی سے مضبوط کررہے ہیں
پاکستانی معاشرہ 65 سال گزرنے کے باوجود ابھی تک ان دلدلوں سے باہر نہ آسکا جنھیں دنیا کی بہت ساری نو آزاد قومیں عشروں پہلے عبور کرچکی ہیں۔
آج ہم جس نیم قبائلی جاگیردارانہ نظام کی بھول بھلیوں میں بھٹک رہے ہیں، ہماری معاشرتی زندگی پر اس کے بدترین اثرات ایسی بھیانک شکل اختیار کررہے ہیں کہ نہ صرف ہمارا ملک ہمارا خطہ بلکہ ساری دنیا اس کی لپیٹ میں آرہی ہے۔
دہشت گردی، مذہبی انتہا پسندی کا کلچر اسی قبائلی معاشرے کا وہ ترکہ ہے جو ہمارے مستقبل پر ایک تلوار کی طرح لٹک رہا ہے۔ دہشت گردی کا یہ کلچر پاکستان میں کس نے متعارف کرایا، کیوں کرایا، اس پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔
دنیا کی واحد سپرپاور امریکا نے دوسری عالمی جنگ کے بعد نوآبادیاتی طاقتوں کی شکست و ریخت کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر تو کردیا لیکن اس نئی بڑی طاقت نے ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں دنیا میں امن، آشتی، خوش حالی، محبت، بھائی چارے کی فضا پیدا کرنے کے بجائے وہی سامراجی راستہ اختیار کیا جس پر صدیوں تک نوآبادیاتی حکمران چلتے رہے تھے۔
بیسویں صدی کے آغاز تک ساری دنیا سرمایہ دارانہ طبقاتی استحصال سے اس قدر بے زار آچکی تھی کہ اس کے خلاف اہلِ دانش، سیاسی مفکر، ادیب، شاعر، فلسفی سب نفرت کا اظہار کررہے تھے لیکن امریکی حکمرانوں کی بے حسی کا عالم یہ تھا کہ انھوں نے محض اپنے اس استحصالی نظام کے تحفظ کے لیے سرد جنگ کا آغازکیا اور دنیا کی دوسری بڑی طاقت روس کے ساتھ مقابلے کے اس راستے پر چل پڑے۔
جس میں غریب انسانوں کی محنت کی کمائی کے کھربوں ڈالر سرد جنگ کی نذر کردیے گئے۔ یہی نہیں بلکہ کوریا کی جنگ، ویت نام کی جنگ میں لاکھوں انسانوں کی جانوں کے زیاں کے علاوہ کھربوں ڈالر پھونک دیے گئے۔ اس کے بعد روس کو افغانستان سے نکالنے کے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے پاکستان، افغانستان سمیت دنیا کے کئی مسلم ملکوں سے مجاہدین کو جہاد کے نام پر ورغلا کر اس جنگ میں جھونک دیا گیا۔
روس کو افغانستان سے نکالنے کے بعد یہ تربیت یافتہ مجاہدین فکری انتشار کا شکار ہوگئے۔ ایسے میں قبائلی مشیروں نے ان مجاہدین کے سامنے دنیا کو فتح کرنے اور ساری دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کا وہ سحر انگیز نظریہ پیش کیا، جسے عقل و فہم سے عاری مجاہدین نے اپنے ایمان کا حصّہ بنالیا اور پھر بے لگام قتل و غارت کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کے بجائے فقہی غلبوں کی وحشیانہ جنگ میں بدل گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس جنگ میں صرف پاکستان کے 60-70 ارب خرچ ہوچکے ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مالی نقصانات کا اندازہ کھربوں ڈالروں میں لگایا جارہا ہے۔
ہم اس جنگ کے نقصانات اور فائدوں سے قطع نظر اس کی اس بنیاد پر نظر ڈالیں گے جس نے افغان اور پاکستان کے ان قبائل کو ایک بے لگام اور انسانی تاریخ کی سب سے زیادہ وحشیانہ جنگ میں دھکیل دیا ہے۔
پاکستان اور افغانستان میں جو قبائلی نظام صدیوں سے جاری ہے، اگر پاکستان کی کوئی حکومت قبائلی عوام سے مخلص ہوتی تو سب سے پہلے ان علاقوں میں دو کام کرتی، ایک تعلیم کو عام کرنا اور لازمی قرار دینا، دوسرا کام اس علاقے میں یہاں کی ضرورتوں کے مطابق صنعتی ترقی۔ اگر ان دو شعبوں میں پیش رفت کی جاتی تو نہ آج اس خطے کو دہشت گردی کے کلچر کا سامنا کرنا پڑتا، نہ سامراجی طاقتیں قبائلی عوام کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرسکتیں، نہ یہ خطہ منشیات کی پیداوار کا مرکز بنتا۔
افغانستان اور پاکستان میں دہشت گرد اپنی جڑیں تیزی سے مضبوط کررہے ہیں، ان کا دائرۂ کار پختون خوا سے وسیع ہو کر کراچی اور بلوچستان تک پھیل گیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی ان کے نیٹ ورک میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
امریکا دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ اپنی سرحدوں سے ہزاروں میل دور اس لیے نہیں لڑرہا ہے کہ وہ پاکستان یا افغانستان کے عوام کو دہشت گردی سے بچانا چاہتا ہے بلکہ وہ اس خطے میں یہ جنگ اس لیے لڑرہا ہے کہ وہ اپنی سرحدوں سے ہزاروں میل دور ہی اس بلا کو ختم کرنا چاہتا ہے کہ اس کا رخ امریکا کی طرف نہ ہو۔ بلاشبہ امریکا یہ جنگ ہار چکا ہے اور شکست کا داغ اپنی پیشانی پر سجا کر 2014 تک یہاں سے جانے کا اعلان کررہا ہے کیونکہ امریکی عوام اب اس جنگ میں اربوں ڈالر کا مزید زیاں نہیں چاہتے لیکن لگ یہ رہا ہے کہ 2014 کے بعد بھی دہشت گردی کا سلسلہ اس خطے میں کم نہیں ہوگا بلکہ بڑھے گا، کیونکہ دہشت گرد پاکستان پر قبضہ چاہتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ امریکا کے افغانستان سے جانے کے بعد افغانستان میں اقتدار کن طاقتوں کے ہاتھوں میں آئے گا؟
پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے اس حوالے سے کچھ تیاریاں کر رکھی ہیں۔ اس کی پوری پوری کوشش ہے کہ 2014 کے بعد کا افغانستان پاکستان کا دوست ہو پاکستان کا دشمن نہ ہو۔ لیکن ان طاقتوں کی منصوبہ بندیاں کیا کامیاب ہوں گی؟ یہ سوال اس لیے پیدا ہورہا ہے کہ انتہا پسند عسکری طاقتوں کا ایجنڈا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا معاون نہیں متصادم نظر آتا ہے۔
ادھر امریکا اپنی سامراجی سیاست کے ساتھ افغانستان میں ایک ایسا انتظام کرتا نظر آرہا ہے جس میں پاکستان کی حیثیت سیکنڈری ہو اور بھارت کا کردار زیادہ موثر ہو۔ اگر امریکا اپنی اس حکمت عملی میں کامیاب ہوجاتا ہے تو افغانستان ایک اور نئے جنگی میدان میں بدل جائے گا۔ اس حوالے سے ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عسکریت پسند طاقتیں اس امریکی پلان میں کہاں کھڑی ہوں گی۔
بھارت افغانستان میں اپنے لیے ایک اہم کردار حاصل کرنے کی کوشش تو کررہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ عسکریت پسندوں سے سخت خوف زدہ بھی ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ نے اپنے حالیہ دورۂ پاکستان میں دہشت گردی پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے، دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے دہشت گردی کے خلاف مل کر جدوجہد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ عسکریت پسند دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے پاکستان پر غلبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور بھارت کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان عسکریت پسندوں کے ہاتھوں میں چلا جائے اور اس کے لیے مستقل خطرہ بن جائے۔
چین اور روس کے علاوہ کئی مسلم ملک بھی دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے سیلاب سے خوف زدہ ہیں اور دہشت گردی کے سیلاب کو روکنے کی کوششوں میں معاونت کریں گے۔ اس خطے کے عوام امریکا کو قطعی پسند نہیں کرتے۔ اس تناظر میں اگر دہشت گردی کے خلاف ایشیائی طاقتوں پر مشتمل ایک محاذ تشکیل دیا جائے جس میں پاکستان، بھارت، روس، چین اور مسلم ملک شامل ہوں تو نہ صرف یہ محاذ عسکریت پسندوں کی ناک میں نکیل ڈالنے کے قابل ہوگا بلکہ اسے عوام کی حمایت بھی حاصل ہوگی، سوائے ان عاقبت نا اندیشوں کے جو نئی دہلی پر سبز پرچم لہرانے کے خوابوں میں گم رہتے ہیں اور زمینی حقائق پر نظر ڈالنے کی زحمت نہیں کرتے۔
آج ہم جس نیم قبائلی جاگیردارانہ نظام کی بھول بھلیوں میں بھٹک رہے ہیں، ہماری معاشرتی زندگی پر اس کے بدترین اثرات ایسی بھیانک شکل اختیار کررہے ہیں کہ نہ صرف ہمارا ملک ہمارا خطہ بلکہ ساری دنیا اس کی لپیٹ میں آرہی ہے۔
دہشت گردی، مذہبی انتہا پسندی کا کلچر اسی قبائلی معاشرے کا وہ ترکہ ہے جو ہمارے مستقبل پر ایک تلوار کی طرح لٹک رہا ہے۔ دہشت گردی کا یہ کلچر پاکستان میں کس نے متعارف کرایا، کیوں کرایا، اس پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔
دنیا کی واحد سپرپاور امریکا نے دوسری عالمی جنگ کے بعد نوآبادیاتی طاقتوں کی شکست و ریخت کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر تو کردیا لیکن اس نئی بڑی طاقت نے ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں دنیا میں امن، آشتی، خوش حالی، محبت، بھائی چارے کی فضا پیدا کرنے کے بجائے وہی سامراجی راستہ اختیار کیا جس پر صدیوں تک نوآبادیاتی حکمران چلتے رہے تھے۔
بیسویں صدی کے آغاز تک ساری دنیا سرمایہ دارانہ طبقاتی استحصال سے اس قدر بے زار آچکی تھی کہ اس کے خلاف اہلِ دانش، سیاسی مفکر، ادیب، شاعر، فلسفی سب نفرت کا اظہار کررہے تھے لیکن امریکی حکمرانوں کی بے حسی کا عالم یہ تھا کہ انھوں نے محض اپنے اس استحصالی نظام کے تحفظ کے لیے سرد جنگ کا آغازکیا اور دنیا کی دوسری بڑی طاقت روس کے ساتھ مقابلے کے اس راستے پر چل پڑے۔
جس میں غریب انسانوں کی محنت کی کمائی کے کھربوں ڈالر سرد جنگ کی نذر کردیے گئے۔ یہی نہیں بلکہ کوریا کی جنگ، ویت نام کی جنگ میں لاکھوں انسانوں کی جانوں کے زیاں کے علاوہ کھربوں ڈالر پھونک دیے گئے۔ اس کے بعد روس کو افغانستان سے نکالنے کے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے پاکستان، افغانستان سمیت دنیا کے کئی مسلم ملکوں سے مجاہدین کو جہاد کے نام پر ورغلا کر اس جنگ میں جھونک دیا گیا۔
روس کو افغانستان سے نکالنے کے بعد یہ تربیت یافتہ مجاہدین فکری انتشار کا شکار ہوگئے۔ ایسے میں قبائلی مشیروں نے ان مجاہدین کے سامنے دنیا کو فتح کرنے اور ساری دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کا وہ سحر انگیز نظریہ پیش کیا، جسے عقل و فہم سے عاری مجاہدین نے اپنے ایمان کا حصّہ بنالیا اور پھر بے لگام قتل و غارت کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کے بجائے فقہی غلبوں کی وحشیانہ جنگ میں بدل گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس جنگ میں صرف پاکستان کے 60-70 ارب خرچ ہوچکے ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مالی نقصانات کا اندازہ کھربوں ڈالروں میں لگایا جارہا ہے۔
ہم اس جنگ کے نقصانات اور فائدوں سے قطع نظر اس کی اس بنیاد پر نظر ڈالیں گے جس نے افغان اور پاکستان کے ان قبائل کو ایک بے لگام اور انسانی تاریخ کی سب سے زیادہ وحشیانہ جنگ میں دھکیل دیا ہے۔
پاکستان اور افغانستان میں جو قبائلی نظام صدیوں سے جاری ہے، اگر پاکستان کی کوئی حکومت قبائلی عوام سے مخلص ہوتی تو سب سے پہلے ان علاقوں میں دو کام کرتی، ایک تعلیم کو عام کرنا اور لازمی قرار دینا، دوسرا کام اس علاقے میں یہاں کی ضرورتوں کے مطابق صنعتی ترقی۔ اگر ان دو شعبوں میں پیش رفت کی جاتی تو نہ آج اس خطے کو دہشت گردی کے کلچر کا سامنا کرنا پڑتا، نہ سامراجی طاقتیں قبائلی عوام کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرسکتیں، نہ یہ خطہ منشیات کی پیداوار کا مرکز بنتا۔
افغانستان اور پاکستان میں دہشت گرد اپنی جڑیں تیزی سے مضبوط کررہے ہیں، ان کا دائرۂ کار پختون خوا سے وسیع ہو کر کراچی اور بلوچستان تک پھیل گیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی ان کے نیٹ ورک میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
امریکا دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ اپنی سرحدوں سے ہزاروں میل دور اس لیے نہیں لڑرہا ہے کہ وہ پاکستان یا افغانستان کے عوام کو دہشت گردی سے بچانا چاہتا ہے بلکہ وہ اس خطے میں یہ جنگ اس لیے لڑرہا ہے کہ وہ اپنی سرحدوں سے ہزاروں میل دور ہی اس بلا کو ختم کرنا چاہتا ہے کہ اس کا رخ امریکا کی طرف نہ ہو۔ بلاشبہ امریکا یہ جنگ ہار چکا ہے اور شکست کا داغ اپنی پیشانی پر سجا کر 2014 تک یہاں سے جانے کا اعلان کررہا ہے کیونکہ امریکی عوام اب اس جنگ میں اربوں ڈالر کا مزید زیاں نہیں چاہتے لیکن لگ یہ رہا ہے کہ 2014 کے بعد بھی دہشت گردی کا سلسلہ اس خطے میں کم نہیں ہوگا بلکہ بڑھے گا، کیونکہ دہشت گرد پاکستان پر قبضہ چاہتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ امریکا کے افغانستان سے جانے کے بعد افغانستان میں اقتدار کن طاقتوں کے ہاتھوں میں آئے گا؟
پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے اس حوالے سے کچھ تیاریاں کر رکھی ہیں۔ اس کی پوری پوری کوشش ہے کہ 2014 کے بعد کا افغانستان پاکستان کا دوست ہو پاکستان کا دشمن نہ ہو۔ لیکن ان طاقتوں کی منصوبہ بندیاں کیا کامیاب ہوں گی؟ یہ سوال اس لیے پیدا ہورہا ہے کہ انتہا پسند عسکری طاقتوں کا ایجنڈا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا معاون نہیں متصادم نظر آتا ہے۔
ادھر امریکا اپنی سامراجی سیاست کے ساتھ افغانستان میں ایک ایسا انتظام کرتا نظر آرہا ہے جس میں پاکستان کی حیثیت سیکنڈری ہو اور بھارت کا کردار زیادہ موثر ہو۔ اگر امریکا اپنی اس حکمت عملی میں کامیاب ہوجاتا ہے تو افغانستان ایک اور نئے جنگی میدان میں بدل جائے گا۔ اس حوالے سے ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عسکریت پسند طاقتیں اس امریکی پلان میں کہاں کھڑی ہوں گی۔
بھارت افغانستان میں اپنے لیے ایک اہم کردار حاصل کرنے کی کوشش تو کررہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ عسکریت پسندوں سے سخت خوف زدہ بھی ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ نے اپنے حالیہ دورۂ پاکستان میں دہشت گردی پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے، دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے دہشت گردی کے خلاف مل کر جدوجہد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ عسکریت پسند دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے پاکستان پر غلبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور بھارت کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان عسکریت پسندوں کے ہاتھوں میں چلا جائے اور اس کے لیے مستقل خطرہ بن جائے۔
چین اور روس کے علاوہ کئی مسلم ملک بھی دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے سیلاب سے خوف زدہ ہیں اور دہشت گردی کے سیلاب کو روکنے کی کوششوں میں معاونت کریں گے۔ اس خطے کے عوام امریکا کو قطعی پسند نہیں کرتے۔ اس تناظر میں اگر دہشت گردی کے خلاف ایشیائی طاقتوں پر مشتمل ایک محاذ تشکیل دیا جائے جس میں پاکستان، بھارت، روس، چین اور مسلم ملک شامل ہوں تو نہ صرف یہ محاذ عسکریت پسندوں کی ناک میں نکیل ڈالنے کے قابل ہوگا بلکہ اسے عوام کی حمایت بھی حاصل ہوگی، سوائے ان عاقبت نا اندیشوں کے جو نئی دہلی پر سبز پرچم لہرانے کے خوابوں میں گم رہتے ہیں اور زمینی حقائق پر نظر ڈالنے کی زحمت نہیں کرتے۔