مزدوروں کا خون رائیگاں نہ جائے
لاکھوں صنعتی، تجارتی اور خاص طور پر تعلیمی اداروں میں انسانوں کو ان کے قانونی اور انسانی حقوق حاصل نہیں ہیں
الیون نائن پاکستان کی تاریخ کا بڑا صنعتی سانحہ ہے، جس دن لاہور اور کراچی کی فیکٹریوں میں ہونے والی خوف ناک آتش زدگی نے سیکڑوں زندگیوں کے چراغ گل کردیے۔
ہزاروں غریبوں سے ان کے پیاروں کو چھین کر نان نفقے سے محروم کردیا۔ ان مرنے والوں میں گھر کے سرپرستوں کے علاوہ ایسے کم سن بچّے اور خواتین بھی شامل ہیں، جنھیں خود سرپرستی اور کفالت کی ضرورت تھی۔ ان کی دل دہلا دینے والی کہانیوں نے ساری قوم کو افسردہ کرکے رکھ دیا ہے۔
دونوں فیکٹریوں کے حادثات میں کئی معاملات میں یکساں پہلو سامنے آئے ہیں مثلاً یہ کہ دونوں میں ہنگامی صورت حال میں اخراج کے راستے تھے نہ ایسی صورت حال سے نمٹنے کے آلات یا کارکنوں کی تربیت تھی، دونوں عمارتوں کی تعمیر میں متعلقہ قواعد اور ضروریات کا خیال بھی نہیں کیا گیا تھا۔ ملازمین ای او بی آئی، سوشل سیکیورٹی، لیبر ڈپارٹمنٹ وغیرہ سے رجسٹرڈ تھے نہ ان کی کوئی یونین تھی جس کی بِنا پر مرنے والے، زخمی اور لواحقین، ورک مین علاج و معالجے کی سہولتوں، پراویڈنٹ فنڈ، گریجویٹی انشورنس جیسے فوائد سے محروم ہوگئے۔ یہ بھی مرنے والوں کے ساتھ مالکان اور متعلقہ اداروں کا ظلمِ عظیم ہے۔ متعلقہ کنٹرولنگ ادارے، لیبر ڈائریکٹریٹ، الیکٹریکل انسپکٹریٹریٹ، سول ڈیفنس، ہیلتھ ڈپارٹمنٹ، سائٹ یا بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، ای او بی آئی، سیسی وغیرہ کی بنیادی ذمے داری تھی کہ قوانین کے تحت فیکٹریوں کے لیے جو معیارات اور پابندیاں عاید کی گئی ہیں ان پر عمل درآمد کراتے، غیر معیاری تعمیرات روکتے، این او سی جاری نہ کرتے، فائر فائٹنگ اور سول ڈیفنس اور بجلی کی تنصیبات کا جائزہ لیتے، خلاف ورزی کی صورت میں مالکان کے خلاف کارروائی کرتے۔ فیکٹری ایکٹ کے تحت آتش زدگی سے بچائو کے لیے ہر فیکٹری کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہے کہ عمومی خارجی راستوں کے علاوہ ایمرجنسی راستے بھی ہوں۔
سلائیڈنگ دروازوں کے علاوہ تمام دروازے باہر کی طرف کھلتے ہوں اور کام کے دوران کھلے رہیں، مناسب فاصلوں پر ایمرجنسی دروازے اور کھڑکیاں اور دیگر راستے ہوں جنھیں ملازمین میں سمجھی جانے والی زبان میں اور علامتی نشانات کے ذریعے مختلف فاصلوں اور مناسب سائز میں سرخ رنگ سے تحریر اور ظاہر کیا جائے۔ آگ کی صورت میں آڈیو پیغام کے ذریعے وارننگ، تمام حصّوں اور ملازمین تک پہنچانے کا انتظام ہو۔
اس سلسلے میں ملازمین کی تربیت بھی کی جائے۔ ان اداروں میں کام کرنے والے افراد کا طبی معائنہ بھی باقاعدگی سے کرایا جائے۔ کم سن بچّوں سے کام نہ لیا جائے، ملازمین کی انشورنس،علاج معالجہ، بیماری، حادثات، اموات یا ریٹائرمنٹ کی صورت میں سہولتوں کے لیے ان کی رجسٹریشن کرائی جائے، عدم تعمیل پر کنٹرولنگ ادارے خلاف ورزی کے مرتکب کے خلاف کارروائی کے پابند ہیں۔
خلاف ورزی کی صورت میں جرمانے اور سزائیں بھی متعین ہیں لیکن کنٹرولنگ ادارے ماہانہ، سہ ماہی، ششماہی اور سالانہ بنیادوں پر فیکٹری مالکان سے لفافے وصول کرکے سب اچھا ہے کی رپورٹ اور سرٹیفکیٹس جاری کردیتے ہیں اور ان قانونی خلاف ورزیوں پر اپنی آنکھیں بند کیے رکھتے ہیں۔ کارکنوں کی شنوائی اور دادرسی کے بجائے مالکان کے ساتھ مل کر ان کا استحصال کرتے ہیں، جو مالکان قانون کے مطابق چلنا چاہتے ہیں، انھیں قانونی محکمہ جاتی کارروائیوں سے اتنا زچ کردیا جاتا ہے کہ وہ اس مروجہ نظام کو قبول کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
اس طرح متعلقہ ادارے کے افراد ملازمین اور ان کے اہل خانہ کی زندگیوں اور مستقبل کے عوض اربوں روپے وصول کرتے ہیں، جس میں محکمۂ محنت، ای او بی آئی، سوشل سیکیورٹی سب سے بڑے استحصالی ادارے ہیں۔ ای او بی آئی کے اربوں روپوں کے اسکینڈل سامنے آتے رہتے ہیں، اونچی سطح کے کرپشن کے علاوہ اس ادارے کے ملازمین صنعتی اداروں، اسکولوں، اسپتالوں سمیت متعدد اداروں سے رشوت کی مد میں خطیر رقم وصول کرتے ہیں، جن اداروں سے معمولی کنٹری بیوشن جمع کیا جاتا ہے، ان کے ملازمین بھی انفرادی حیثیت میں رجسٹرڈ نہیں ہوتے۔
اگر کوئی انکوائری ہوجائے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ متعلقہ ادارے نے اپنے 50 ملازمین کا کنٹری بیوشن جمع کرایا تھا لیکن ناموں کی فہرست نہیں دی جس کے لیے انھیں لیٹر لکھ دیا گیا ہے، جو ادارے اپنے چند کارکنوں کو رجسٹرڈ بھی کروالیتے ہیں تو رجسٹریشن کارڈ اس خوف سے متعلقہ ملازمین کے حوالے نہیں کرتے کہ دوسرے بھی اس کا مطالبہ کرسکتے ہیں، لہٰذا کنٹری بیوشن کا یہ پیسہ ادارے کے افراد کی عیاشیوں پر خرچ ہوتا ہے اور رشوت کا پیسہ اس محکمے کے کرپٹ افراد کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔
ایم ڈی سائٹ لمیٹڈ نے 3 ہزار گز پر قائم اس کثیر المنزلہ عمارت کا الاٹمنٹ منسوخ کردیا، ان کا کہنا ہے کہ سیفٹی قوانین کی خلاف ورزی اور لاپروائی پر یہ اقدام اٹھایا گیا ہے۔ وزارت صنعت و تجارت نے فیکٹری کا این او سی منسوخ کردیا ہے۔ مالک کو ہدایت کی ہے کہ مرنے اور زخمی ہونے والوں کو فی کس پانچ لاکھ روپے ادا کیے جائیں ورنہ زمین نیلام کرکے معاوضہ ادا کیا جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ پہلے کیا یہ سارے محکمے سوئے ہوئے تھے۔ کیا ان کے کہنے پر مالک پانچ لاکھ فی کس کے حساب سے معاوضہ ادا کردے گا یا اس بربادی کے بعد وہ اس کا متحمل بھی ہوسکتا ہے اور وزارت کے پاس اس بات کا کیا اختیار ہے کہ وہ فیکٹری نیلام کرکے معاوضہ ادا کرے۔ حق بات تو یہ ہے کہ غفلت کرکے مرتکب افراد کو برطرف کرکے ان کے خلاف مقدمات قائم کیے جائیں تاکہ آیندہ حادثات سے بچاجاسکے۔
جائے وقوع پر حکومتی، سیاسی اور سماجی تنظیموں سے وابستہ شخصیات کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ دھواں دھار ہٹنگ اور بیان بازی کررہا ہے مگر متاثرین کی دادرسی اور امداد کے لیے عملی طور پر کسی نے کچھ نہیں کیا ہے۔ کوئی جنریٹر جلنے اور بوائلر پھٹنے سے آگ لگنے کی قیاس آرائی کررہا ہے تو کوئی اسے تخریب کاری اور بھتہ خوری کا شاخسانہ قرار دے رہا ہے، کوئی اسے مالکان اور متعلقہ اداروں کی غفلت و لاپروائی سے تعبیر کررہا ہے۔
کوئی وہاں خیرات خانہ اور لنگر خانہ بنانے کا متمنی ہے لیکن قلیل آمدنی سے جسم و جان کا رشتہ قائم رکھنے والے لواحقین جن کے کمانے والے اس دنیا سے کوچ کر گئے ہیں، کے مصائب و آلام اور دکھ درد کا مداوا کرنے کا کسی کے پاس کوئی پروگرام کوئی مطالبہ اور کوئی پریشر نہیں ہے۔ سب سے پہلے تو حکومت کی طرف سے لواحقین کو فی کس کم از کم 10 لاکھ روپے امداد خاندان کے افراد کو ملازمتیں دینے کا مطالبہ ہونا چاہیے۔
پھر متعلقہ وزارتوں اور محکموں مثلاً ڈائریکٹریٹ آف لیبر، سول ڈیفنس انسپکٹریٹ آف الیکٹریکل، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی یا سائٹ لمیٹڈ، ای او بی آئی، سیسی کو شامل تفتیش اور ان کے سربراہوں کی فوری معطل کا مطالبہ ہونا چاہیے تھا تاکہ وہ تحقیقات میں اثرانداز نہ ہوسکیں اور اس مقصد کے لیے ایک اعلیٰ عدالتی کمیشن سے غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ ہونا چاہیے کیونکہ انسانی زندگی کا تو کوئی مداوا و معاوضہ نہیں ہوسکتا لیکن مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کے لیے ان کے ذمے داروں کو کیفر کردار تک پہنچانا اور دوسروں کے لیے عبرت کی مثال بنانا ضروری ہے۔
ملک کے طول و عرض اس قسم کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں صنعتی، تجارتی اور خاص طور پر تعلیمی ادارے ہیں جہاں نہ تو انسانوں کو ان کے قانونی اور انسانی حقوق حاصل ہیں، نہ کسی قسم کے حفاظتی اقدامات ہیں۔ اگر مالکان جرم کے مرتکب پائے جاتے ہیں اور فیکٹری کا پلاٹ کینسل ہوتا ہے تو یہاں مزدور ایونیو قائم کیا جائے، جہاں سے صنعتی کارکنوں کی فلاح و بہبود، ان کی قانونی و سماجی معاونت اور مختلف قسم کے انفرادی تنازعات کے سلسلے میں عدالتی کارروائی کے بجائے باہمی مشاورت، افہام و فہیم کے ذریعے معاملات فوری حل کیے جائیں۔
آجر، اجیر اور حکومتی نمایندوں پر مشتمل کمیٹیاں فریقین کو درپیش مسائل اور عمومی اور روزمرّہ کے معاملات، ملازمین اور انتظامیہ کے درمیان رابطے، ملازمین کی تربیت، حالاتِ کار اور کارکردگی کو موثر بنانے کے لیے سفارشات مرتب کریں۔ قدرت نے غوروفکر، اصلاح احوال، ہنگامی نوعیت کے اقدامات کا ایک اور موقع فراہم کیا ہے۔ ان بے گناہ صنعتی کارکنوں کا خون رائیگاں نہیں جانا چاہیے ورنہ مستقبل میں مزید جانیں رائیگاں ہونے کی راہیں ہموار ہوجائیں گی۔