پیپلزپارٹی حکومت کی مایوس کن کارکردگی
سید مراد علی شاہ امریکا سے ڈگری یافتہ اور جوان عزم کے ساتھ وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے تھے
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے ایک بار پھر پانچ برس پورے کیے، یوں سندھ میں مسلسل اقتدارکے پندرہ برس مکمل کر لیے۔ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومتوں میں ایم کیو ایم بھی شریک رہی تھی۔
گزشتہ 5 برسوں سے پیپلز پارٹی بلا شرکت غیرے سندھ میں برسرِ اقتدار رہی۔ پیپلز پارٹی 2008 سے 2013 تک وفاق میں حکومت کرتی رہی، پھر مسلم لیگ ن وفاق میں اقتدار میں آئی۔ مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت سے اچھے اور خراب تعلقات کی آمیزش رہی مگر عمران خان کا دور وفاق اور سندھ میں سرد مہری کا دور تھا۔
گزشتہ 16 ماہ سے پیپلز پارٹی وفاق کی مخلوط حکومت کا حصہ رہی۔ پیپلز پارٹی نے پہلے قائم علی شاہ کو وزیر اعلیٰ سندھ بنایا تھا۔ اس دورکے بارے میں کہا جاتا تھا کہ سندھ میں کئی وزراء اعلیٰ تھے جنھیں ایوانِ صدر کی آشیر باد حاصل تھی۔ قائم علی شاہ کا دور بد ترین طرزِ حکومت غیر شفاف نظام کے دور میں تاریخ کا حصہ بن گیا۔
سید مراد علی شاہ امریکا سے ڈگری یافتہ اور جوان عزم کے ساتھ وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے تھے۔ پیپلز پارٹی کے ہمدردوں کو یہ امید تھی کہ مراد علی شاہ کے دور میں سندھ ترقی کے اعتبار سے مثالی صوبہ بن جائے گا مگر گزشتہ برسوں کی کارکردگی سے اندازہ ہوتا ہے کہ سندھ میں صورتحال مایوس کن ہے۔ کسی علاقہ کی ترقی کا اندازہ لگانے والے سارے انڈیکٹر منفی صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔
عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق سندھ میں غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والی آبادی کی شرح 37 فیصد ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دیہی علاقوں میں غربت کی شرح شہروں کے مقابلہ میں زیادہ ہے۔ ترقی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں غربت کی شرح کے اعتبار سے یہ شرح زیادہ ہے۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ سندھ کے جو اضلاع سیلاب سے زیادہ متاثر ہوئے، وہاں یہ شرح زیادہ بڑھ گئی۔
سابق وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے آبائی ضلع بدین میں یہ شرح 53 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ غربت، روزگار اور دیگر وجوہات کی بناء پر سندھ میں خودکشی کی شرح بھی زیادہ ہے۔ سندھ کے پسماندہ اضلاع تھرپارکر اور ٹھٹھہ میں خودکشی کا رجحان بہت زیادہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ اپریل کے مہینہ میں ٹھٹھہ ضلع میں 141 افراد نے خود کشی کی تھی۔
ٹھٹھہ کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ غربت، بے روزگاری، قرض کی عدم ادائیگی اور مسائل کی بناء پر لوگ خودکشی کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ تھر پارکر میں خودکشی کی شرح خطرناک حد تک بڑھی ہے۔ تھر سے تعلق رکھنے والے ایک رپورٹر نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ قرضوں کی عدم ادائیگی مردوں میں خودکشی کی بنیادی وجہ ہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے اندرون سندھ صنعتوں کے قیام پر توجہ نہیں دی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے گزشتہ مہینہ دو بڑے صنعتی منصوبوں کا اعلان کیا تھا مگر اندرون سندھ صنعتیں نہ لگنے کی بناء پر عام آدمی کے پاس روزگار کے متبادل ذرایع بھی نہیں۔ سندھ میں 53 فیصد دیہاتوں کو بجلی مہیا نہ ہوسکی۔ سندھ میں خواندگی کی شرح دیہی علاقوں میں 51 فیصد اور شہری علاقوں میں 76 فیصد ہے۔
سندھ میں خواتین میں خواندگی کی شرح اور بھی کم ہے اور تقریباً 50 فیصد ہے۔ زیادہ بچے اسکول میں داخلہ کی عمر تک پہنچنے کے باوجود اسکول نہیں جاتے، تعلیم صوبائی محکمہ ہے۔ سندھ کی حکومت نے خواندگی کی شرح میں اضافہ کے لیے بنیادی اقدامات اب تک نہیں کیے تھے۔ سندھ میں سرکاری اسکولوں میں فیس نہیں لی جاتی اور درسی کتب طلبہ کو مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے اخبار میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ تین ماہ گزرنے کے باوجود 12 لاکھ بچوں کو کتابیں فراہم نہیں کرسکا ہے۔
شعبہ تعلیم کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا خیال ہے کہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ افسروں اور وزیر صاحب کی آمدنی کا بڑا ذریعہ رہا ہے۔ سندھ کا محکمہ تعلیم تو بدعنوانی اور بدترین طرزِ حکومت کا شاہکار ہے۔
اساتذہ کے تقرر، ان کے ٹرانسفر و پوسٹنگ، حتیٰ کہ حج، عمرہ اور زیارت کا فریضہ انجام دینے کے لیے جانے والے اساتذہ سے بھی '' نذرانہ '' وصول کیے گئے۔ ریٹائر ہونے والے اساتذہ اگر ایک مخصوص رقم متعلقہ عملے کو ادا نہ کریں تو وہ بیچارے برسوں رلتے رہتے ہیں۔ شہری علاقوں میں نوجوان یہ الزام لگاتے ہیں کہ ملازمتوں اور تقرریوں میں سندھ حکومت کے امتیاز پید ا کرنے کے ریکارڈ قائم کیے ہوئے ہیں۔
سندھ بھر میں امن و امان کی صورتحال گزشتہ 15 برسوں سے مسلسل خراب ہے۔ اپر سندھ میں ڈاکوؤں کا راج ہے۔ کندھ کوٹ، کشمور، شکار پور، گھوٹکی اور دیگر کئی اضلاع میں ڈاکو بچوں کو اغواء کر کے تاوان وصول کرتے ہیں۔ ان ڈاکوؤں کا نشانہ خاص طور پر سندھ ہندو برادری کے افراد ہیں۔ گزشتہ دو مہینوں کے دوران کندھ کوٹ اور جیکب آباد وغیرہ کے علاوہ کئی ہندو خاندان ہجرت کر کے بھارت چلے گئے۔
سندھ کی حکومت اپر سندھ کے ڈاکوؤں کے خاتمہ کے لیے خصوصی گرانٹ منظور کرتی ہے۔ ڈاکوؤں کی ہلاکتوں اور کچے کے علاقہ کو فتح کرنے کے دعوے ہوتے ہیں مگر ڈاکوؤں کی سرگرمیوں میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس علاقہ میں انسانی حقوق کی تنظیموں میں کام کرنے والے کارکنوں اور صحافیوں کی متفقہ رائے ہے کہ منتخب اراکین، بااثر سردار اور بڑے جاگیردار ڈاکوؤں کے سرپرست ہیں اور اغواء برائے تاوان سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار ہے۔
حکومت سندھ نے صوبہ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال کے کارناموں کو بیان کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے اخبارات میں کروڑوں روپے کے اشتہارات شایع کرائے گئے مگر کراچی شہر میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعہ جرائم کے خاتمہ کے لیے مانیٹرنگ کا مؤثر نظام اب تک قائم نہیں ہوسکتا ہے مگر اتنا فرق ضروری ہے کہ شہریوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ایسے علاقوں میں جو کلوز ڈور کیمرے لگائے گئے ان کی مدد سے کچھ ملزموں کی شناخت ہوجاتی ہے۔
جب شہریوں نے یہ وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کی تو پولیس کو کچھ اقدامات کرنے پڑے۔ پیپلز پارٹی نچلی سطح تک اختیار کے بلدیاتی نظام کو قبول کرنے کو تیار نہیں، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 15برسوں سے بلدیاتی قانون میں میئر، چیئرمین، یونین کونسل اور کونسلر کو بااختیار بنانے کا معاملہ بحث کا موضوع بنا رہا۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ بلدیاتی نظام کی بعض شقوں کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔
ایک نیا قانون بنا جس کے تحت بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات کے بعد سندھ حکومت نے میئر کے اختیارات میں اضافے کا قانون بنایا۔ اب میئر کراچی کے ڈی اے کی گورننگ باڈی اور کراچی واٹر بورڈ کے سربراہ ہونگے مگر شہر میں تعمیرات کو کنٹرول کرنے والے ادارہ کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں ضم کر کے میئر کے دائرہ کار سے دور کر دیا گیا ہے۔
سندھ اسمبلی نے گزشتہ ہفتہ بلدیاتی ٹاؤنز کے چیئرمین کو بااختیار کرنے کے لیے ایک قانون بنایا ہے جس کے بعد یہ امید ہوچکی ہے کہ بلدیاتی ادارے اپنے بنیادی وظائف کی ادائیگی کے لیے کام کرسکیں گے۔ سندھ حکومت کی بلدیاتی اداروں کو اختیارات نہ دینے کی پالیسی سے کراچی سمیت تمام شہروں کو ترقی کے دور میں پیچھے کردیا ہے۔ ہر شہر میں سیوریج کا نظام ناکارہ ہوا تو خود بلاول بھٹو زرداری کو یہ اقرار کرنا پڑا کہ ان کو اپنے گھر کے لیے پانی کے ٹینکر خریدنے پڑتے ہیں۔
کراچی میں بسوں کے جدید ٹریک تعمیر ہونے تھے، ایک ٹریک میاں نواز شریف حکومت نے تعمیر کیا ہے۔ سندھ حکومت نے گزشتہ کئی برسوں سے ریڈ لائن ٹریک کی تعمیر شروع کی ہوئی ہے جس کے مکمل ہونے کی امید نظر آئی۔ گزشتہ سال سے سندھ حکومت نے 200کے قریب بسیں چلائی ہیں ۔
ٹوٹی سڑکوں اور بدترین طرزِ حکومت کی روایت کی بناء پر توقع یہ ہے کہ یہ بسیں چند سال بعد لاپتہ ہوجائیں گی۔ ماس ٹرانزٹ پروگرام کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ سرکلر ریلوے بحال کی جائے۔ شہر کے پرانے علاقوں میں الیکٹرک ٹرام چلے۔ ریڈ لائن گرین لائن جیسی 10 لائنز تعمیر ہوں، جس سے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ کسی حد تک حل ہوگا۔
کراچی والوں کے لیے انڈر گراؤنڈ ٹرین اور الیکٹرک ٹرام وغیرہ خواب ہی ہیں۔ سندھ حکومت کی اچھی کارکردگی صحت کے شعبہ میں نظر آتی ہے مگر ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر کا کردار مؤثر نہیں ہے، یوں عوام کو نچلی سطح پر علاج کے پرائیوٹ ڈاکٹروں سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ سندھ حکومت کی پالیسیوں سے شہری علاقوں کے نوجوانوں میں مایوسی ہے۔ مجموعی طور پر پیپلز پارٹی کی 15 سالہ کارکردگی مایوس کن ہے۔