تحفظِ ناموس صحابہؓ و اہلِ بیتؓ بِل
ہر مسلمان کا یہ یقین ہے کہ صحابہ کرام، اہل بیت عظام اور امہات المومنین دین کے موقع کے گواہ ہیں
الحمد للہ...الحمدللہ... ثم الحمدللہ
پاکستان کے طول و عرض میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کو مبارک ہو۔ ہزاروں علماء کی قربانیاں رنگ لے آئیں، قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ آف پاکستان میں توہین صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین بل پاس ہوچکا ہے۔
یہ بل دستخط کے لیے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی ٹیبل پر موجود ہے ان کے دستخط کے بعد بل باقاعدہ قانون بن جائے گا۔ پھر نبی آخر الزمان رسول اللہﷺکے خاندان، ازواج مطہراتؓ، صحابہ کرامؓ اور چاروں خلفائے راشدین سمیت مقدس شخصیات کے خلاف توہین آمیز کلمات کہنے والا آزاد نہیں گھوم سکے گا، بلکہ کنفرم سلاخوں کے پیچھے ہوگا۔
21 جولائی 2020 میں مفتی عبدالشکور شہید، مولانا عبدالکبر چترالی اور کئی علماء نے یہ بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جس پر ان کے دستخط بھی موجود ہیں۔ رواں سال جنوری میں اسے پاس کیا گیا تھا۔ یہ بات یاد رہے کہ قومی اسمبلی میں اس بل کو پاس کرانے کا سہرا جے یو آئی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر مذہبی امور مفتی عبدالشکور شہید کے سر ہے جنہوں نے ناموس صحابہ و ناموس اہل بیت پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا۔
نہایت دبنگ اور جرات مندانہ موقف اختیار کیا، بعض حلقوں کا خیال ہے کہ شاید انھیں اسی پاداش میں شہید کیا گیا۔ قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد مرکزی جمعیت اہلحدیث کے رہنما سینیٹر حافظ عبدالکریم نے اسے مولانا عبدالغفور حیدری کے ساتھ مشاورت کے بعد سینیٹ میں پیش کیا، انھیں اس پر جے یو آئی اور جماعت اسلامی کے تمام سینیٹرز کی تائید و حمایت حاصل تھی۔
اس بل کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن پارلیمنٹ میں موجود تمام مذہبی جماعتیں جمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی، مرکزی جمعیت اہلحدیث ڈٹ گئیں۔ مولانا فیض محمد، مولانا عبدالغفور حیدری، سینیٹر طلحہ محمود اور سینیٹرمشتاق احمد نے سینیٹ کے فلور پر اس بل کا بھرپور دفاع کرکے مسلمانان پاکستان کے دل جیت لیے۔ بالخصوص مسلم لیگ ق کے سینیٹر کامل علی آغا نے انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ یوں یہ بل ایوان بالا سے بھی منظور کر لیا گیا۔
یہ بات بھی تاریخ کا حصہ بن گئی ہے کہ 7ستمبر کو مفتی محمود رحمہ اللہ نے حتم نبوت کا بل پاس کرایا تھا اور اب ان کے سیاسی جانشینوں نے 7 اگست کو تحفظ ناموس صحابہؓ واہل بیتؓ بل پاس کرایا ہے۔
یہ بل کیا ہے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ قانون کے مطابق پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 298-الف میں ترمیم کی تجویز پیش کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ جو کوئی الفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہوں یا تحریری، یا مرئی نقوش کے ذریعے یا کسی تہمت، کنایہ، یا درپردہ تعریض کے ذریعے بلاواسطہ رسول پاکﷺ کی ازواج مطہرات (ام المومنین)، یا رسول پاکﷺ کے خاندان کے کسی فرد (اہل بیت) یا رسول اکرمﷺ کے خلفائے راشدین یا ساتھیوں(صحابہ کرام) میں سے کسی کے متبرک نام کی توہین کرے گا تو اسے کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کے لیے دی جائے گی جو تین سال تک ہو سکتی ہے یا جرمانے کی سزا، یا دونوں دی جائیں گی۔ یہ قابل ضمانت جرم تھا مگر موجودہ بل میں اس شق میں ترمیم کردی گئی ہے اب اس جرم کی سزا عمر قید ہوگی جس کی مدت 10 سال سے کم نہیں ہوگی اور یہ جرم ناقابل ضمانت ہوگا۔
عالم ِاسلام میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص ناموس صحابہ، ناموس اہل بیت اور ناموس امہات المومنین ایک حساس موضوع رہا ہے۔ کیونکہ پاکستان دشمن قوتوں نے ہمیشہ اپنے مذموم مقاصد کے لیے اِس حساس موضوع کو اپنا ہتھیار بنایا اور اِسی ہتھیار سے پاکستان کے گلی کوچوں میں فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دی گئی۔
جس کی وجہ سے ہزاروں علمائ، طلبا اور شہری اِن فسادات کی لپیٹ میں آئے۔ ہر مسلمان کا یہ یقین ہے کہ صحابہ کرام، اہل بیت عظام اور امہات المومنین دین کے موقع کے گواہ ہیں۔ گواہوں پر شک نعوذ باللہ پورے دین پر شک کے مترادف ہے۔ صحابہ نبی اور امت کے درمیان، قرآن کے موقع کے گواہ تھے۔ سنت کے موقع کے گواہ تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر دین کے اترنے کے گواہ تھے۔ جبرائیل علیہ السلام کے آنے کے گواہ تھے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتانے کے گواہ تھے۔ پیغمبر کی اک اک اداؤں کے گواہ تھے۔ نبی کی وفاؤں کے گواہ تھے۔ وہ آپﷺ کے ایک ایک عمل کے گواہ تھے۔
اسلام تب باقی ہے جب صحابہ اہل بیت اور امہات المومنین محفوظ ہیں۔ اِن مقدس شخصیات کو درمیان سے نکالیں تو اسلام باقی رہتا ہے نہ ایمان، اور نہ نبوت کا نشان باقی رہتا ہے۔ اسی لیے پاکستان کے مسلمانوں نے ناموس رسالت و ختم نبوت کے دفاع کے بعد سب سے زیادہ زور نبی کریم ﷺ کی تیار کردہ صحابہ کی جماعت اور آپ کے اہل بیت کی ناموس پر دیا۔
یہ وہ عنوان ہے جس پر ہمیشہ مسلمانوں کے دلوں کو زخمی کیا گیا، ان کے جذبات کو آگ دکھانے کی کوشش کی گئی۔ صحابہ کرام ،اہل بیت عظام اور امہات المومنین ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہیں اور اِن مقدس شخصیات کی ناموس پر حملے کو اپنے ایمان پر حملہ تصور کرتا ہے۔
اسلام اور پاکستان دشمن قوتوں نے ہمیشہ ہمارے درمیان سے ہی کچھ کرایے کے ٹٹوؤں کو خریدا اوران کے ذریعے اِس حساس عنوان پر ملک کے امن کو تار تار کرنے کی کوشش کی۔ جب بھی آگ لگانے کی کوشش کی گئی ملک کے جید علمائے کرام میدان عمل میں آئے اور انھوں نے ہمیشہ اپنے عمل سے آگ پر پانی ڈالنے کی کوشش کی۔
صحابہ کرام، اہل بیت اور امہات المومنین کی توہین کے اس ناپاک سلسلے کو روکنے کے لیے حکومتوں نے قانون سازی بھی کی۔ یہی وجہ کہ صحابہ کرام، اہل بیت عظام اور امہات المومنین کی توہین پر پہلے سے جو قانون موجود ہے جس کا ذکر اوپر بھی کیا، اس کے تحت جس شخص پر یہ جرم ثابت ہوجائے اس ملعون کو تین سال قید یا جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے، اسی قانون کے تحت یہ جرم قابل ضمانت بھی ہے۔
جس کا فائدہ ہمیشہ اِن اسلام دشمنوں نے اٹھایا۔ اب پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ نے اس کمزور قانون کی جگہ ایک قدرے مضبوط قانون لانے کا بل منظور کرلیا ہے۔ یہ بہت بڑی خبر ہے جس نے پاکستان میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کے دل جیت لیے ہیں۔
اِس بل میں دوسرا بڑا کام یہ کیا گیا کہ یہ اِسے ناقابل ضمانت جرم قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ ایسی ناپاک جسارت پر ملعونوں کو سزائے موت ہونی چاہیے لیکن یہ بھی اطمینان کی بات ہے کہ یہ جرم ناقابل ضمانت ہوگا اور کم سے کم دس سال سزا ہوگی۔
یقینی طور پر اس سے معاشرے میں ناپاک جسارتوں کا یہ سلسلہ بند ہوجائے گا۔ کوئی بدبخت مقدس شخصیات کی توہین کرنے سے پہلے دس بار سوچے گے۔ معاشرے میں امن قائم ہوگا اور رواداری کو فروغ ملے گا۔ اِس عظیم کامیابی پر پوری قوم سابق وزیر اعظم پاکستان شہبازشریف،آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن، جماعت اسلامی پاکستان کے سربراہ سراج الحق، مرکزی جمعیت اہل حدیث کے سربراہ سینیٹر پروفیسر ساجد میر، جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ صاحبزادہ اویس نورانی کی شکر گزار ہیں۔
اس موقع پر ان شہداء کو خراج عقیدت ضرور پیش کروں گا جنہوں نے دفاع صحابہ و اہلبیت کے عظیم مشن میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے بالخصوص مفتی عبدالشکور شہید کو۔آج ان کی قربانیاں رنگ لے آئیں، اور اسلام کے نام پر بنے اس ملک میں مقدس شخصیات کی ناموس بھی اب محفوظ ہوں گی۔