تاریخ اور عوام
سولہویں صدی کے صنعتی انقلاب سے انسان کی سوچ میں تبدیلی آئی اور اس نے مطلق العنانی کی بالادستی کو قبول کرنے کے بجائے
آج ہم جو تاریخ پڑھتے اور جس پر فخر کرتے ہیں، وہ شہنشاہوں، حکمرانوں،جرنیلوں اور غاصبوں کی جھوٹی سچی داستانوں پر مشتمل ہوتی ہے ۔ صدیوں سے استحصال کی چکی میں پستے، ظلم وبربریت کا شکار اور حکمرانوں کے غیض وغضب ٹکراتے ان لاکھوں،کروڑوں انسانوںکی طویل وناختم ہونے والی جدوجہد کے تذکرے خال خال ہی نظر آتے ہیں ۔ہم سلطنت روما کے پھیلائو، فرعونہِ مصر کے جاہ وجلال اور سلطنت کسریٰ کی حشر سامانیوں کے بارے میں تو بہت کچھ جانتے ہیں ۔مگر ظلِ الٰہی کی پیشانی پر پڑی شکن کے نتیجے میں تہہ تیغ کیے گئے ان ہزاروں بے گناہوںاور راہِ حق میں اپنی جانیں نذر کرنے والوں سے تاریخ کے صفحات خالی ہیں ۔
سولہویں صدی کے صنعتی انقلاب سے انسان کی سوچ میں تبدیلی آئی اور اس نے مطلق العنانی کی بالادستی کو قبول کرنے کے بجائے فکری کثرتیت اور اجتماعی فیصلہ سازی کی راہ اپنائی ۔ علم مندروں، مسجدوں اور کلیسائوںکی حدود پھلانگ کر گلی کوچوں میں عام آدمی کی فکری تربیت اور کسبی ضروریات کی تکمیل کا ذریعہ بنا ۔ باشعور دانشوں نے تاریخ نویسی کو شہنشاہوں ،حملہ آوروں اورفتح کے نشے میں سرشار جرنیلوں کی رنگین وسنگین داستان گوئی کے تصور سے آزاد کرا کے گمنام راہوں میں مارے جانے والے ان کروڑوں انسانوں کی حقیقی جدوجہد کا عکاس بنانے کی کوشش کی ، جن کی انتھک محنتوں اور کاوشوں کی بدولت اس دھرتی کی رنگارنگی میں اضافہ ہوا ہے ۔ یوں تاریخ نویسی نے ایک نئی سمت میں سفر کا آغاز کیا۔
بیسویں صدی میں یہ تصور بھی ابھرا کہ اصل تاریخ تو وہ ہے جو نسل در نسل منتقل تو ہوتی ہے ، مگر دستاویزی شکل نہ ہونے کے باعث جلدی ہی اپنے اصل جوہر سے منقطع ہوجاتی ہے ۔ وہ ہزاروں اور لاکھوں لوگ جو ہر دور میں میدان عمل میں سرگرم رہتے ہیں مگر بوجہ اپنی کاوشوں کو قلمبند نہیں کر پاتے یا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ان کی جدوجہد اور خدمات کو دستاویزی شکل دے کر محفوظ بنانے کی ضرورت ہے ۔ تاریخ نویسی کا انداز Oral History کہلایا ۔
Oral History کے بارے میں اہل دانش کا کہنا ہے کہ یہ عوام کی اپنی جدوجہد کی دستاویز ہونے کے سبب حقیقت سے زیادہ قریب ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج محنت کشوں، عوامی حلقوں اور مختلف پیشہ ور تنظیموں کی دستاویزات کو بھی تاریخ کے آرکائیو کا حصہ سمجھا جاتا ہے ۔ اسی طرح اخبارات میں شایع ہونے والی خبریں،گو کہ ایک روز بعد باسی ہوجاتی ہیں ، لیکن آنے والے زمانوں کے لیے وہ اپنے اندر معلومات کا خزینہ رکھتی ہیں، تاریخ کا اہم باب ہیں۔ اخبارات کا آرکائیو ہمیں بہت کچھ یاد دلانے اور کسی مخصوص زمانے کے معاملات ومسائل کو سمجھانے کا ذریعہ ہوتا ہے ۔
یومِ مئی مزدوروں کا عالمی دن۔یہ دن 4 مئی کو شکاگو کیHaymarket کے باہرہونے والے مزدوروں کے قتل عام کی یاد تازہ کرتا ہے۔یہ بھی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ جس نے دنیا بھر کے محنت کشوں کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے منظم جدوجہد کی راہ دکھائی ۔ شکاگو کے محنت کشوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے ان اصول و ضوابط پر عمل درآمد کو یقینی بنادیا، جو انسان کا بنیادی حق ہیں۔ دنیا بھر کی مزدور انجمنیں اور انسان دوست تنظیمیں یہ دن انتہائی تزک واحترام سے مناتی ہیں ۔ بڑے بڑے سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں، ریلیاں نکالی جاتی ہیں اور شکاگو کے شہید ہونے والے مزدوروں کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ دنیا بھر کے محنت کشوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا جاتا ہے۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبرایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پائلر)، جو محنت کشوں پر تحقیق کا ادارہ ہے، نے امسال اس دن کو منانے کی ایک نئی روایت کی بنیاد ڈالی ۔اس نے ایس ایم سہیل فائونڈیشن اور جامعہ کراچی کے پاکستان اسٹڈیزسینٹر کے باہمی اشتراک سے تاریخ اور عوام کے عنوان سے ایک روزہ کانفرنس کا اہتمام کیا جس کے آخری حصے میں معروف ترقی پسندعوامی تاریخ دان ومورخ ڈاکٹر مبارک علی کو سوبھوگیان چندانی اعترافِ کمال ایوارڈدیا۔ساتھ ہی ''تاریخ کے گمنام لوگ'' کے عنوان سے سید سبطِ حسن یادگاری لیکچرکا بھی انعقاد کیا جس کے کلیدی مقرر خود ڈاکٹر مبارک علی تھے ۔
اس کانفرنس کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس میں محنت کشوں کے مسائل و معاملات سے جڑے موضوعات کا انتخاب کیا گیاتھا ۔مثلاً ڈاکٹر ریاض احمد شیخ کے مقالے کا موضوع ''سماجی تبدیلی اور عوامی تحاریک۔چند نئے رجحانات'' تھا۔ معروف دانشور اور جامعہ سندھ میں شعبہ فلسفہ کی استاد پروفیسر امر سندھو نے سندھ ہاری تحریک کے بارے میں فکر انگیز مقالہ پیش کیا جس میں انھوں نے سندھ ہاری تحریک کو شاہ عنایت کے دورمیں ہاریوں کی جدوجہد کا تسلسل قراردیا ۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر حیدر بخش جتوئی جیسا بیباک اور حوصلہ مند رہبر نہ ہوتا تو شاید ہاری تحریک جلد ہی دم توڑ جاتی ۔اوکاڑہ کے ملٹری فارمز میں کئی برسوں سے اپنے حقوق کے لیے نبرد آزماء انجمن مزارعین پنجاب کی رہنماء عقیلہ ناز نے اوکاڑہ کے مزارعین کی تحریک کا تفصیلی احاطہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ جدوجہد آج بھی جاری ہے ۔ لیکن گذشتہ کئی برس سے جاری اس تحریک نے کچھ کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں ۔ عقیلہ نازکے مطابق اس تحریک کے کئی فوائد ہوئے ہیں ۔اول، خواتین اس تحریک میں ہراول دستے کے طورپرشریک ہوئیں، جس سے ان کے سیاسی وسماجی شعور میں اضافہ ہوا اور ان میں تنظیم سازی کا رجحان پیدا ہوا ۔دوئم، لڑکیوں کے لیے تعلیم کے حصول میں حائل رکاوٹوں کا خاتمہ ممکن ہوا ۔ سوئم،محنت کشوں کے درمیان مذہب اور صنفی امتیاز کا خاتمہ ہوا ۔ پروفیسر عابد عباسی نے پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں کے منشوروں میں محنت کشوں کے مسائل کے حل کے لیے کیے گئے وعدوں کا جائزہ لیا ۔اشفاق سلیم مرزا نے عوام کی تاریخ کے دائرہ کار میں اس کے مثبت اور منفی امکانات کا جائزہ لیا۔
معروف دانشور احمد سلیم نے عوام کی تاریخ کے ماخذوںکی دریافت کے بارے میں پر مغز مقالہ پیش کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ عوام کی تاریخ لکھنے کے لیے جس مواد کی ضرورت ہوتی ہے، پاکستان میں اس کا حصول تقریباً ناممکن ہے ۔انھوں نے بڑے دکھ کے ساتھ اظہار کیا کہ شہری آزادیوں کی تحریک ہر قسم کے آرکائیو سے محروم ہے ۔ البتہ بعض افراد کے ذاتی یا نجی آرکائیو میں پاکستان میں جنم لینے والی بعض اہم تحاریک کے بارے میں مواد موجود ہے ۔ان میں ڈاکٹردرمحمد پٹھان نے ذاتی خرچے پر ایک آرکائیو بنایا ہے۔ سائیں جی ایم سید کے پوتے جلال محمود شاہ نے اپنے دادا کی تحاریر،اہم دستاویزات اورتصاویر پرمبنی آرکائیو تشکیل دیا ہے،جس سے عوامی تاریخ نویسی میں اچھی خاصی مدد مل سکتی ہے۔
اسی طرح باچا خان فائونڈیشن میں NAPکی تشکیل اور سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ خود باچا خان کی اپنی دستاویزات محفوظ کی گئی ہیں۔ جن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام آرکائیوذاتی ہونے کے سبب محدود ہیں ۔مثال کے طورپر 1949ء میں فیض احمد فیض مرحوم، میاں افتخار الدین مرحوم اور میاں محمود علی قصوری مرحوم نے سول لبرٹیزکی انجمن قائم کی ۔ مگر یہ زیادہ عرصہ نہیں چل سکی ۔ اس تنظیم کا سراغ پاکستان ٹائمز کے پرانے شماروں اورCID کے ریکارڈ میں ملتا ہے۔
بیشتر ریکارڈ راولپنڈی سازش کیس کے بعدتلف کردیا گیا ۔اس طرح جو دستاویزات میسر ہیں، ان میں اس تنظیم کے بارے میں بہت کم معلومات میسر ہیں ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شہری آزادیوں(Civil Liberties)کو حقوقِ انسانی سمجھنا ایک فکری مغالطہ ہے۔ مگر اس پر کوئی مباحثہ یا مذاکرہ نہیں ہوتا۔آخر میںڈاکٹر مبارک علی نے''تاریخ کے گمنام لوگ'' کے عنوان سے سید سبطِ حسن یادگاری لیکچر دیا ۔ انھوں کہا کہ تاریخ افراد بناتے ہیں ۔ ہر فرد اپنے عمل سے تاریخ تشکیل دے رہا ہوتا ہے ۔ عدالتی ریکارڈ سے مختلف جھگڑوں کی تاریخ واضح ہوتی ہے ۔ ادب کا بھی تاریخ نویسی میں اہم کردار ہوتا ہے ۔ اسی طرح سائنسی ترقی کا تاریخ بنانے میں نمایاں کردارہوتا ہے ۔ ضرورت اس بات کو سمجھنے کی ہے کہ ایک ہی چیز کو مختلف انداز میں کیسے دیکھا جاسکتا ہے ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ پائلر،ایس ایم سہیل فائونڈیشن اور پاکستان اسٹڈیز سینٹر نے مثبت سمت میں قدم اٹھایا ہے۔ پاکستان اسٹڈیز سینٹر کی تو خیر اپنی لائبریری ہے، جس میں حمزہ علوی فائونڈیشن کے تعاون سے چند ماہ قبل توسیع ہوئی ہے اور اس ادارے کے سربراہ ڈاکٹر سید جعفر احمد اسے مزید وسیع کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔اس لیے توقع ہے کہ ڈاکٹر طارق سہیل اور کرامت علی باہمی تعاون سے ایک اعلیٰ سطح کا تحقیقی ادارہ قائم کریں گے جس میں طلبا تحاریک، ٹریڈ یونینوں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں نے اس سماج کی تبدیلی میں جو کردار ادا کیا ہے ، اسے مربوط انداز میں دستاویزی شکل دینے کا سلسلہ شروع کیا جائے گا ۔
سولہویں صدی کے صنعتی انقلاب سے انسان کی سوچ میں تبدیلی آئی اور اس نے مطلق العنانی کی بالادستی کو قبول کرنے کے بجائے فکری کثرتیت اور اجتماعی فیصلہ سازی کی راہ اپنائی ۔ علم مندروں، مسجدوں اور کلیسائوںکی حدود پھلانگ کر گلی کوچوں میں عام آدمی کی فکری تربیت اور کسبی ضروریات کی تکمیل کا ذریعہ بنا ۔ باشعور دانشوں نے تاریخ نویسی کو شہنشاہوں ،حملہ آوروں اورفتح کے نشے میں سرشار جرنیلوں کی رنگین وسنگین داستان گوئی کے تصور سے آزاد کرا کے گمنام راہوں میں مارے جانے والے ان کروڑوں انسانوں کی حقیقی جدوجہد کا عکاس بنانے کی کوشش کی ، جن کی انتھک محنتوں اور کاوشوں کی بدولت اس دھرتی کی رنگارنگی میں اضافہ ہوا ہے ۔ یوں تاریخ نویسی نے ایک نئی سمت میں سفر کا آغاز کیا۔
بیسویں صدی میں یہ تصور بھی ابھرا کہ اصل تاریخ تو وہ ہے جو نسل در نسل منتقل تو ہوتی ہے ، مگر دستاویزی شکل نہ ہونے کے باعث جلدی ہی اپنے اصل جوہر سے منقطع ہوجاتی ہے ۔ وہ ہزاروں اور لاکھوں لوگ جو ہر دور میں میدان عمل میں سرگرم رہتے ہیں مگر بوجہ اپنی کاوشوں کو قلمبند نہیں کر پاتے یا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ان کی جدوجہد اور خدمات کو دستاویزی شکل دے کر محفوظ بنانے کی ضرورت ہے ۔ تاریخ نویسی کا انداز Oral History کہلایا ۔
Oral History کے بارے میں اہل دانش کا کہنا ہے کہ یہ عوام کی اپنی جدوجہد کی دستاویز ہونے کے سبب حقیقت سے زیادہ قریب ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج محنت کشوں، عوامی حلقوں اور مختلف پیشہ ور تنظیموں کی دستاویزات کو بھی تاریخ کے آرکائیو کا حصہ سمجھا جاتا ہے ۔ اسی طرح اخبارات میں شایع ہونے والی خبریں،گو کہ ایک روز بعد باسی ہوجاتی ہیں ، لیکن آنے والے زمانوں کے لیے وہ اپنے اندر معلومات کا خزینہ رکھتی ہیں، تاریخ کا اہم باب ہیں۔ اخبارات کا آرکائیو ہمیں بہت کچھ یاد دلانے اور کسی مخصوص زمانے کے معاملات ومسائل کو سمجھانے کا ذریعہ ہوتا ہے ۔
یومِ مئی مزدوروں کا عالمی دن۔یہ دن 4 مئی کو شکاگو کیHaymarket کے باہرہونے والے مزدوروں کے قتل عام کی یاد تازہ کرتا ہے۔یہ بھی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ جس نے دنیا بھر کے محنت کشوں کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے منظم جدوجہد کی راہ دکھائی ۔ شکاگو کے محنت کشوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے ان اصول و ضوابط پر عمل درآمد کو یقینی بنادیا، جو انسان کا بنیادی حق ہیں۔ دنیا بھر کی مزدور انجمنیں اور انسان دوست تنظیمیں یہ دن انتہائی تزک واحترام سے مناتی ہیں ۔ بڑے بڑے سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں، ریلیاں نکالی جاتی ہیں اور شکاگو کے شہید ہونے والے مزدوروں کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ دنیا بھر کے محنت کشوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا جاتا ہے۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبرایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پائلر)، جو محنت کشوں پر تحقیق کا ادارہ ہے، نے امسال اس دن کو منانے کی ایک نئی روایت کی بنیاد ڈالی ۔اس نے ایس ایم سہیل فائونڈیشن اور جامعہ کراچی کے پاکستان اسٹڈیزسینٹر کے باہمی اشتراک سے تاریخ اور عوام کے عنوان سے ایک روزہ کانفرنس کا اہتمام کیا جس کے آخری حصے میں معروف ترقی پسندعوامی تاریخ دان ومورخ ڈاکٹر مبارک علی کو سوبھوگیان چندانی اعترافِ کمال ایوارڈدیا۔ساتھ ہی ''تاریخ کے گمنام لوگ'' کے عنوان سے سید سبطِ حسن یادگاری لیکچرکا بھی انعقاد کیا جس کے کلیدی مقرر خود ڈاکٹر مبارک علی تھے ۔
اس کانفرنس کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس میں محنت کشوں کے مسائل و معاملات سے جڑے موضوعات کا انتخاب کیا گیاتھا ۔مثلاً ڈاکٹر ریاض احمد شیخ کے مقالے کا موضوع ''سماجی تبدیلی اور عوامی تحاریک۔چند نئے رجحانات'' تھا۔ معروف دانشور اور جامعہ سندھ میں شعبہ فلسفہ کی استاد پروفیسر امر سندھو نے سندھ ہاری تحریک کے بارے میں فکر انگیز مقالہ پیش کیا جس میں انھوں نے سندھ ہاری تحریک کو شاہ عنایت کے دورمیں ہاریوں کی جدوجہد کا تسلسل قراردیا ۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر حیدر بخش جتوئی جیسا بیباک اور حوصلہ مند رہبر نہ ہوتا تو شاید ہاری تحریک جلد ہی دم توڑ جاتی ۔اوکاڑہ کے ملٹری فارمز میں کئی برسوں سے اپنے حقوق کے لیے نبرد آزماء انجمن مزارعین پنجاب کی رہنماء عقیلہ ناز نے اوکاڑہ کے مزارعین کی تحریک کا تفصیلی احاطہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ جدوجہد آج بھی جاری ہے ۔ لیکن گذشتہ کئی برس سے جاری اس تحریک نے کچھ کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں ۔ عقیلہ نازکے مطابق اس تحریک کے کئی فوائد ہوئے ہیں ۔اول، خواتین اس تحریک میں ہراول دستے کے طورپرشریک ہوئیں، جس سے ان کے سیاسی وسماجی شعور میں اضافہ ہوا اور ان میں تنظیم سازی کا رجحان پیدا ہوا ۔دوئم، لڑکیوں کے لیے تعلیم کے حصول میں حائل رکاوٹوں کا خاتمہ ممکن ہوا ۔ سوئم،محنت کشوں کے درمیان مذہب اور صنفی امتیاز کا خاتمہ ہوا ۔ پروفیسر عابد عباسی نے پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں کے منشوروں میں محنت کشوں کے مسائل کے حل کے لیے کیے گئے وعدوں کا جائزہ لیا ۔اشفاق سلیم مرزا نے عوام کی تاریخ کے دائرہ کار میں اس کے مثبت اور منفی امکانات کا جائزہ لیا۔
معروف دانشور احمد سلیم نے عوام کی تاریخ کے ماخذوںکی دریافت کے بارے میں پر مغز مقالہ پیش کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ عوام کی تاریخ لکھنے کے لیے جس مواد کی ضرورت ہوتی ہے، پاکستان میں اس کا حصول تقریباً ناممکن ہے ۔انھوں نے بڑے دکھ کے ساتھ اظہار کیا کہ شہری آزادیوں کی تحریک ہر قسم کے آرکائیو سے محروم ہے ۔ البتہ بعض افراد کے ذاتی یا نجی آرکائیو میں پاکستان میں جنم لینے والی بعض اہم تحاریک کے بارے میں مواد موجود ہے ۔ان میں ڈاکٹردرمحمد پٹھان نے ذاتی خرچے پر ایک آرکائیو بنایا ہے۔ سائیں جی ایم سید کے پوتے جلال محمود شاہ نے اپنے دادا کی تحاریر،اہم دستاویزات اورتصاویر پرمبنی آرکائیو تشکیل دیا ہے،جس سے عوامی تاریخ نویسی میں اچھی خاصی مدد مل سکتی ہے۔
اسی طرح باچا خان فائونڈیشن میں NAPکی تشکیل اور سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ خود باچا خان کی اپنی دستاویزات محفوظ کی گئی ہیں۔ جن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام آرکائیوذاتی ہونے کے سبب محدود ہیں ۔مثال کے طورپر 1949ء میں فیض احمد فیض مرحوم، میاں افتخار الدین مرحوم اور میاں محمود علی قصوری مرحوم نے سول لبرٹیزکی انجمن قائم کی ۔ مگر یہ زیادہ عرصہ نہیں چل سکی ۔ اس تنظیم کا سراغ پاکستان ٹائمز کے پرانے شماروں اورCID کے ریکارڈ میں ملتا ہے۔
بیشتر ریکارڈ راولپنڈی سازش کیس کے بعدتلف کردیا گیا ۔اس طرح جو دستاویزات میسر ہیں، ان میں اس تنظیم کے بارے میں بہت کم معلومات میسر ہیں ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شہری آزادیوں(Civil Liberties)کو حقوقِ انسانی سمجھنا ایک فکری مغالطہ ہے۔ مگر اس پر کوئی مباحثہ یا مذاکرہ نہیں ہوتا۔آخر میںڈاکٹر مبارک علی نے''تاریخ کے گمنام لوگ'' کے عنوان سے سید سبطِ حسن یادگاری لیکچر دیا ۔ انھوں کہا کہ تاریخ افراد بناتے ہیں ۔ ہر فرد اپنے عمل سے تاریخ تشکیل دے رہا ہوتا ہے ۔ عدالتی ریکارڈ سے مختلف جھگڑوں کی تاریخ واضح ہوتی ہے ۔ ادب کا بھی تاریخ نویسی میں اہم کردار ہوتا ہے ۔ اسی طرح سائنسی ترقی کا تاریخ بنانے میں نمایاں کردارہوتا ہے ۔ ضرورت اس بات کو سمجھنے کی ہے کہ ایک ہی چیز کو مختلف انداز میں کیسے دیکھا جاسکتا ہے ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ پائلر،ایس ایم سہیل فائونڈیشن اور پاکستان اسٹڈیز سینٹر نے مثبت سمت میں قدم اٹھایا ہے۔ پاکستان اسٹڈیز سینٹر کی تو خیر اپنی لائبریری ہے، جس میں حمزہ علوی فائونڈیشن کے تعاون سے چند ماہ قبل توسیع ہوئی ہے اور اس ادارے کے سربراہ ڈاکٹر سید جعفر احمد اسے مزید وسیع کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔اس لیے توقع ہے کہ ڈاکٹر طارق سہیل اور کرامت علی باہمی تعاون سے ایک اعلیٰ سطح کا تحقیقی ادارہ قائم کریں گے جس میں طلبا تحاریک، ٹریڈ یونینوں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں نے اس سماج کی تبدیلی میں جو کردار ادا کیا ہے ، اسے مربوط انداز میں دستاویزی شکل دینے کا سلسلہ شروع کیا جائے گا ۔