افغان طالبان کے دو سال
اگر دیکھا جائے تو طالبان کی موجودہ عبوری حکومت پاکستان کے لیے کوئی خاص فائدہ مند ثابت نہیں ہوئی ہے
افغانستان کی طالبان حکومت کے دو سال مکمل ہو گئے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت امریکی فوجوں کے انخلاء کے بعد قائم ہوئی تھی۔ گو کہ اس حکومت کو عبوری حکومت کہا گیا تھا۔ لیکن جب یہ قائم ہوئی تھی تب ہی سب کو اندازہ تھا کہ یہی مستقل حکومت ہے۔
نہ طالبان نے کبھی انتخابات کروانے ہیں اور نہ ہی کسی اور کے ساتھ شراکت اقتدار کرنی ہے۔ شراکت داری کی ساری بات بھی جھوٹ تھی اور عبوری حکومت والا بھی ڈرامہ ہی تھا۔ طالبان کے یہ دو سال ان کے پہلے دور اقتدار سے کچھ خاص مختلف نہیں ہیں۔ ان کی پہلی حکومت کو بھی دنیا میں کسی نے تسلیم نہیں کیا تھا۔
ان کی اس موجودہ حکومت کو بھی دنیا میں تسلیم نہیں کیا گیا۔ پہلی حکومت کو بھی اقوام متحدہ میں ممبر شپ حاصل نہیں تھی۔ موجودہ حکومت کو بھی حاصل نہیں۔ فرق یہی ہے کہ پہلی حکومت کو پاکستان اور سعودی عرب نے تسلیم کیا ہوا تھا۔
لیکن موجودہ حکومت کو سرکاری طور پر پاکستان اور سعودی عرب نے بھی تسلیم نہیں کیا۔ بہر حال طالبان کی پہلی حکومت سے بھی پاکستان نے مکمل تعاون کیا تھا۔ موجودہ حکومت کے ساتھ بھی تعاون کیا جا رہا ہے۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس بار افغان طالبان کی سفارکاری پہلے سے بہتر ہے۔ چین سے اچھے تعلقات بنائے گئے ہیں۔ روس اور وسطٰی ایشیا ریاستوں سے پہلے سے بہتر تعلقات ہیں۔ یہ درست ہے کہ امریکا نے طالبان حکومت کے آنے کے بعد افغانستان کے اثاثے ضبط کر لیے تھے۔
ان کی مالیت نو بلین ڈالر ہے۔ لیکن پھر بھی پہلے کی نسبت اس بار امریکا سے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ بات چیت ہو رہی ہے۔ محدود تعاون بھی ہو رہا ہے۔ دو سال میں امریکا نے این جی اوز کے ذریعے افغانستان میں دو بلین ڈالر بھی خرچ کیا ہے۔
اس لیے خارجہ محاذ پر جہاں بڑی کامیابیاں نہیں ملی ہیں۔ وہاں رویہ میں بہتری ضرور ہے۔جب افغانستان میں طالبان کی موجودہ عبوری حکومت قائم ہوئی تو پاکستان میں یہ بیانیہ بنایا گیا کہ اشرف غنی کی حکومت بھارت نواز حکومت تھی۔ اشرف غنی کی حکومت میں بھارت نے افغانستان میں دہشت گردی کے اڈے بنائے ہوئے تھے جہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کا نیٹ ورک چلایا جا رہا تھا۔ ہمیں بتایا جاتا تھا کہ بھارت نے افغانستان میں پاکستان کی سرحد کے ساتھ شہروں میں بھارتی قونصلیٹ بنوا لیے ہیں۔
جہاں سے پاکستان مین دہشت گردی کروائی جاتی ہے۔ اشرف غنی را کا نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔ اشرف غنی کا بھارت کی طرف جھکاؤ نظر بھی آتا ہے۔ اس لیے بتایا گیا کہ طالبان کی حکومت آنے سے پاکستان کے لیے بہتری ہوگی۔ افغانستان میں بھارت کی بالادستی کم ہوگی۔ لیکن آج دو سال بعد دیکھیں تو طالبان کی موجودہ عبوری حکومت اور پاکستان کے تعلقات کہاں کھڑے ہیں۔
دیکھا جائے تو دہشت گردی بڑھی ہے اور آج ہم یہ الزام لگانے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں کہ طالبان حکومت کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے۔ جن دہشت گرد گروپوں پر بھارت کی سرپرستی کا الزام لگاتے تھے اب وہ طالبان کی سرپرستی میں زیادہ فعال نظر آرہے ہیں۔ ان کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔ ان کی کارروائیاں بڑھ گئی ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو طالبان کی موجودہ عبوری حکومت پاکستان کے لیے کوئی خاص فائدہ مند ثابت نہیں ہوئی ہے۔ ہم نے خواب تو بہت دیکھے تھے لیکن سارے خواب چکنا چور ہو گئے۔ ہم طالبان کی موجودہ عبوری حکومت کے آنے پر خوش بہت تھے لیکن آج خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ پاکستاان میں دہشت گردی میں ان دو سالوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
آج دیکھا جائے تو دو سال قبل افغان طالبان کو پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کی جتنی حمایت حاصل تھی آج اتنی ہی مخالفت کا سامنا ہے۔ آج کھلے عام ایک دوسرے کے خلاف بیانات دیے جا رہے ہیں۔ اس کا دو سال پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ آج دوستی کم اور محاذ آرائی زیادہ نظر آرہی ہے۔
دو سال پہلے کابل میں چائے کی پیالی کی تصویر بتا رہی تھی کہ پاکستان افغان طالبان کی اس عبوری حکومت کے ساتھ ہے۔ بلکہ دنیا کو یہ تاثر بھی دیاجا رہا تھا کہ ہم ہی لانے والے ہیں۔ آج آرمی چیف کے بیانات اور پاک فوج کے بیانات سامنے ہیں۔ آج ہم افغان طالبان کو پاکستان میں دہشت گردی کا براہ راست ذمے دار ٹھہرا رہے ہیں۔
دوسری طرف افغان طالبان بھی پاک فوج اور پاکستان کے خلاف کھلے بیانات دے رہے ہیں۔ جواب الجواب کا ایک سلسلہ جاری ہے۔ جس سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدہ تعلقات کا اندازہ لگایاجا سکتا ہے۔ان دوسالوں میں پاک افغان سرحدی جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔ افغانستان کی طرف سے جارحیت بھی دکھائی گئی ہے۔ بلکہ پاکستان نے تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔
پاکستان نے بہت محنت سے پاک افغان سرحد پر باڑ لگائی تھی۔ طالبان حکومت نے اس باڑ کو بھی توڑا ہے۔ سرکاری طور پر اس باڑ کی نفی کی گئی ہے۔ باڑ کے ٹوٹنے کی فوٹیج میں طالبان کی سرپرستی نظر آئی ہے۔
تحریک طالبان پاکستان کے حوالے سے بھی پاکستان کو افغان طالبان سے جو امیدیں تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں۔ ہمارا خیال تھا کہ افغان طالبان ہمارے دہشت گرد ہمارے حوالے کر دیں گے۔ اب انھیں افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں میسر نہیں ہونگی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔۔
نہ طالبان نے کبھی انتخابات کروانے ہیں اور نہ ہی کسی اور کے ساتھ شراکت اقتدار کرنی ہے۔ شراکت داری کی ساری بات بھی جھوٹ تھی اور عبوری حکومت والا بھی ڈرامہ ہی تھا۔ طالبان کے یہ دو سال ان کے پہلے دور اقتدار سے کچھ خاص مختلف نہیں ہیں۔ ان کی پہلی حکومت کو بھی دنیا میں کسی نے تسلیم نہیں کیا تھا۔
ان کی اس موجودہ حکومت کو بھی دنیا میں تسلیم نہیں کیا گیا۔ پہلی حکومت کو بھی اقوام متحدہ میں ممبر شپ حاصل نہیں تھی۔ موجودہ حکومت کو بھی حاصل نہیں۔ فرق یہی ہے کہ پہلی حکومت کو پاکستان اور سعودی عرب نے تسلیم کیا ہوا تھا۔
لیکن موجودہ حکومت کو سرکاری طور پر پاکستان اور سعودی عرب نے بھی تسلیم نہیں کیا۔ بہر حال طالبان کی پہلی حکومت سے بھی پاکستان نے مکمل تعاون کیا تھا۔ موجودہ حکومت کے ساتھ بھی تعاون کیا جا رہا ہے۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس بار افغان طالبان کی سفارکاری پہلے سے بہتر ہے۔ چین سے اچھے تعلقات بنائے گئے ہیں۔ روس اور وسطٰی ایشیا ریاستوں سے پہلے سے بہتر تعلقات ہیں۔ یہ درست ہے کہ امریکا نے طالبان حکومت کے آنے کے بعد افغانستان کے اثاثے ضبط کر لیے تھے۔
ان کی مالیت نو بلین ڈالر ہے۔ لیکن پھر بھی پہلے کی نسبت اس بار امریکا سے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ بات چیت ہو رہی ہے۔ محدود تعاون بھی ہو رہا ہے۔ دو سال میں امریکا نے این جی اوز کے ذریعے افغانستان میں دو بلین ڈالر بھی خرچ کیا ہے۔
اس لیے خارجہ محاذ پر جہاں بڑی کامیابیاں نہیں ملی ہیں۔ وہاں رویہ میں بہتری ضرور ہے۔جب افغانستان میں طالبان کی موجودہ عبوری حکومت قائم ہوئی تو پاکستان میں یہ بیانیہ بنایا گیا کہ اشرف غنی کی حکومت بھارت نواز حکومت تھی۔ اشرف غنی کی حکومت میں بھارت نے افغانستان میں دہشت گردی کے اڈے بنائے ہوئے تھے جہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کا نیٹ ورک چلایا جا رہا تھا۔ ہمیں بتایا جاتا تھا کہ بھارت نے افغانستان میں پاکستان کی سرحد کے ساتھ شہروں میں بھارتی قونصلیٹ بنوا لیے ہیں۔
جہاں سے پاکستان مین دہشت گردی کروائی جاتی ہے۔ اشرف غنی را کا نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔ اشرف غنی کا بھارت کی طرف جھکاؤ نظر بھی آتا ہے۔ اس لیے بتایا گیا کہ طالبان کی حکومت آنے سے پاکستان کے لیے بہتری ہوگی۔ افغانستان میں بھارت کی بالادستی کم ہوگی۔ لیکن آج دو سال بعد دیکھیں تو طالبان کی موجودہ عبوری حکومت اور پاکستان کے تعلقات کہاں کھڑے ہیں۔
دیکھا جائے تو دہشت گردی بڑھی ہے اور آج ہم یہ الزام لگانے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں کہ طالبان حکومت کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے۔ جن دہشت گرد گروپوں پر بھارت کی سرپرستی کا الزام لگاتے تھے اب وہ طالبان کی سرپرستی میں زیادہ فعال نظر آرہے ہیں۔ ان کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔ ان کی کارروائیاں بڑھ گئی ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو طالبان کی موجودہ عبوری حکومت پاکستان کے لیے کوئی خاص فائدہ مند ثابت نہیں ہوئی ہے۔ ہم نے خواب تو بہت دیکھے تھے لیکن سارے خواب چکنا چور ہو گئے۔ ہم طالبان کی موجودہ عبوری حکومت کے آنے پر خوش بہت تھے لیکن آج خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ پاکستاان میں دہشت گردی میں ان دو سالوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
آج دیکھا جائے تو دو سال قبل افغان طالبان کو پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کی جتنی حمایت حاصل تھی آج اتنی ہی مخالفت کا سامنا ہے۔ آج کھلے عام ایک دوسرے کے خلاف بیانات دیے جا رہے ہیں۔ اس کا دو سال پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ آج دوستی کم اور محاذ آرائی زیادہ نظر آرہی ہے۔
دو سال پہلے کابل میں چائے کی پیالی کی تصویر بتا رہی تھی کہ پاکستان افغان طالبان کی اس عبوری حکومت کے ساتھ ہے۔ بلکہ دنیا کو یہ تاثر بھی دیاجا رہا تھا کہ ہم ہی لانے والے ہیں۔ آج آرمی چیف کے بیانات اور پاک فوج کے بیانات سامنے ہیں۔ آج ہم افغان طالبان کو پاکستان میں دہشت گردی کا براہ راست ذمے دار ٹھہرا رہے ہیں۔
دوسری طرف افغان طالبان بھی پاک فوج اور پاکستان کے خلاف کھلے بیانات دے رہے ہیں۔ جواب الجواب کا ایک سلسلہ جاری ہے۔ جس سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدہ تعلقات کا اندازہ لگایاجا سکتا ہے۔ان دوسالوں میں پاک افغان سرحدی جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔ افغانستان کی طرف سے جارحیت بھی دکھائی گئی ہے۔ بلکہ پاکستان نے تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔
پاکستان نے بہت محنت سے پاک افغان سرحد پر باڑ لگائی تھی۔ طالبان حکومت نے اس باڑ کو بھی توڑا ہے۔ سرکاری طور پر اس باڑ کی نفی کی گئی ہے۔ باڑ کے ٹوٹنے کی فوٹیج میں طالبان کی سرپرستی نظر آئی ہے۔
تحریک طالبان پاکستان کے حوالے سے بھی پاکستان کو افغان طالبان سے جو امیدیں تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں۔ ہمارا خیال تھا کہ افغان طالبان ہمارے دہشت گرد ہمارے حوالے کر دیں گے۔ اب انھیں افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں میسر نہیں ہونگی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔۔