ہم شافع محشرﷺ کو منہ دکھا سکیں گے
امریکا بھر میں کسی بھی شخص کو آزادی اظہار کے نام پر ’’ہولو کاسٹ‘‘ کے خلاف لکھنے اور تقریر کرنے کی اجازت کیوں نہیں ہے؟
ہم خاکساروں اور گنہ گاروں کی طرف سے اُن پر اربوں کھربوں درود پہنچے جنھیں کائنات میں خاتم النبیینؐ ہونے کا بے مثل اعزاز مرحمت فرمایا گیا۔ ہماری طرف سے اللہ کے آخری رسولؐ پر لاتعداد مرتبہ درود پہنچے جن پر خود خالقِ کائنات درود و سلام بھیجتا ہے۔
شرارِ بُولہبی نے ایک بار پھر چراغِ مصطفوی سے متصادم ہو کر مسلمانوں کی غیرت کو للکارا ہے۔ شیطنت کا یہ شرارہ امریکی سرزمین سے پھوٹا ہے اور امریکی حکومت امریکی آئین کے پردے میں اِس بدبخت کی محافظ و نگہبان بن گئی ہے۔
اِس کا نام نکولا بیسلے (Nakoula Basseley) بتایا گیا ہے جس نے ''مسلمانوں کی معصومیت'' (Innocence of Muslims) نامی فلم بنا کر حُرمتِ رسولؐ پر حملہ آور ہونے کی نہایت قابلِ مذمت ، دل آزار اور غلیظ جسارت کی ہے۔ دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے تمام مسلمانوں کے دل چھلنی ہیں۔
خصوصاً عالمِ عرب امریکا اور فلمساز کے خلاف بھڑک رہا ہے۔ اس آگ نے اب تک دو درجن انسانوں کی جانیں نگل لی ہیں اور اربوں کانقصان ہو چکاہے۔ لیبیا کے شہر بن غازی میں امریکی سفیر کرسٹوفر سٹیونز اور تین امریکی فوجی اِس غصے کی آگ کا ایندھن بن چکے ہیں لیکن فلم کا مجرم نکولا بیسلے بے شرمی اور بے حیائی سے کہہ رہا ہے: ''مرنے والوں کا مجھے افسوس ہے لیکن فلم بنانے کے حوالے سے میں کسی سے معذرت نہیں کروں گا۔'' اُس نے مزید ڈھٹائی سے ریڈیو ''ساوا'' کو انٹرویو دیتے ہوئے گزشتہ روز کہا: ''عربوں کو احتجاج کا حق ہے لیکن انھیں احتجاج کرنے کی تمیز سیکھنی چاہیے۔'' یہ بدبخت مصر کا ایک مسیحی ہے جو معاشی ہجرت کرکے برسوں قبل امریکا جا بسا تھا۔ مجرمانہ ذہنیت رکھنے والی یہ فلم بنانے کا دوسرا کردار سام باسل ہے۔
گستاخانہ فلم کی شکل میں رسولؐ اللہ کی حُرمتِ پاک پر حملہ کرنے والے ان دونوں ملعونوں میں سے اصل مجرم کون ہے، ابھی تک واضح نہیں ہو رہا۔ امریکا اور مغرب اصلی نام کو چھپانے کی ناکام کوششیں کر رہے ہیں لیکن آخر کار نقاب اُتر جائے گا۔ یہ غلیظ اور دلوں کو دکھ پہنچانے والی فلم دراصل مغرب اور امریکا کے اِس دعوے کی بنیاد پر بنائی گئی ہے کہ آزادیٔ اظہار ہر شخص کا بنیادی اور آئینی حق ہے لیکن ہم اِسی امریکا سے چند سوال پوچھنا چاہتے ہیں: کیا امریکا اور مغربی ممالک کی جمہوری حکومتوں کے اندر کسی شخص کو آزادیٔ اظہار کے نام پر یہ کہنے اور لکھنے کی اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ جمہوریت کے برعکس فاشزم اور آمریت کا پرچار شروع کر دے؟
اگر امریکا کو آزادیٔ اظہار سے اتنی ہی محبت ہے تو امریکا بھر میں کسی بھی شخص کو اسی آزادی اظہار کے نام پر ''ہولو کاسٹ'' کے خلاف لکھنے اور تقریر کرنے کی اجازت کیوں نہیں ہے؟ کیا امریکا میں کوئی شخص ہولو کاسٹ کے خلاف فلم بنانے کی جرأت کر سکتا ہے؟ یہودیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ''ہولو کاسٹ'' کے لفظ کو اتنی تقدیس کیوں دی گئی ہے؟ یہ تفاوت و تضاد کیوں؟
اہم سوال یہ ہے کہ کیا عالمِ اسلام متحد ہو کر اِس گستاخ شخص کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرسکتا ہے یا خود 52 سے زیادہ اسلامی ممالک یک جہت اور یک مُشت ہو کر براہِ راست امریکی شہری کو سزا دے سکتے ہیں؟ اِس حساس اور گمبھیر سوال کا جواب ''ہاں'' میں ہے اور اِس کے لیے حجت اور بنیاد بھی ہم امریکی کردار سے حاصل کر سکتے ہیں۔
مثلاً ''امریکا کے نزدیک اُسامہ بن لادن وہ شخص تھا جس نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو ملیا میٹ کرنے کا منصوبہ بنایا، اِس پر اپنی ذاتی جیب سے کئی ملین ڈالر خرچ کیے، اُسی کے فراہم کردہ فنڈز سے 19 کے قریب دہشت گردوں نے امریکا میں اٹھارہ ماہ تک جہاز اڑانے اور انھیں اغوا کرنے کی تربیت حاصل اور بالآخر 11 ستمبر 2001ء کو نیو یارک کے قلب (مین ہیٹن) میں واقع ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے دونوں ٹاورز کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے معدوم کر دیا۔ بقول امریکا، اُسامہ بن لادن محض ایک شخص تھا جس کے فساد انگیز اقدامات سے دنیا کا امن تہ و بالا ہو کر رہ گیا۔
امریکا نے افغانستان کی طالبان حکومت سے مطالبہ کیا کہ اِس شخص کو ہمارے حوالے کر دیا جائے بصورتِ دیگر ہم بدلہ لینے کے لیے افغانستان، اِس کی حکومت اور عوام کو تباہ کرکے اُسے پتھر کے دور میں بھیج دیں گے۔ طالبان کے انکار پر امریکا نے اپنے مطلوب ملزم کو سزا دینے کی خاطر افغانستان کی امارتِ اسلامیہ کو فنا کر دیا اور لاکھوں افغانوں کو قتل اور لاکھوں کو معذوربنا دیا۔
اپنی قومی حمیت کی تباہی کا بدلہ لینے کے لیے، جس کا ذمے دار مبینہ طور پر محض ایک شخص تھا، امریکا نے اسلامی دنیا کے کئی حصوں میں نہ صرف آگ لگا دی بلکہ بدلہ لینے کے طیش میں کئی مغربی مسیحی ممالک کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا۔
اِس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے کیا عالمِ اسلام میں یہ ہمت، جرأت اور غیرت ہے کہ امریکا کے جس شخص نے دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا دل دکھایا ہے، اسے مسلمانوں کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر سکیں؟ کیا تقریباً پانچ درجن اسلامی ممالک اور ڈیڑھ ارب مسلمان توہینِ رسالت کا بدلہ لینے کے لیے امریکا پر حملہ کر سکتے ہیں؟
سلمان رشدی ایسے گستاخِ رسول نے Satanic Verses لکھ کر ہمارے دل دکھائے لیکن مغربی ممالک اِس ملعون کے محافظ بن گئے اور کوئی اس کا بال بھی بیکا نہ کر سکا۔ بل کلنٹن نے اپنے دورِ صدارت میں رُشدی کو وہائٹ ہائوس میں مدعو کیا اور اُسے عزت و اکرام سے نوازا۔
گویا سابق امریکی صدر نے لعنتی رُشدی کو اپنے ہاں مدعو کرکے مسلمانوں کے دل بھی دانستہ دُکھائے اور مسلمانوں کا منہ بھی چڑایا لیکن ردعمل میں ہم سب خاموش رہے۔امریکی پادری ٹیری جونز نے قرآن پاک کو نذرِ آتش کرنے کی دو بار ناپاک جسارت کی لیکن عالم اسلام کے حکمران پھر بھی کچھ نہ کر سکے۔ بنگلہ دیش کی ڈاکٹر تسلیمہ نسرین نے Lajja نامی ناول لکھ کر قرآن اور اللہ کے آخری رسولؐ کی شان میں گستاخیاں کیں لیکن اِس ملعونہ کو بھی مغربی ممالک (خصوصاً ناروے) نے تحفظ فراہم کرکے اُس کی مزید ہمت افزائی کی اور بنگلہ دیشی عوام، حکمران اور ہم سب خاموشی سے، محض ہلکا سا احتجاج کرکے ہاتھ ملتے رہے۔
بھارت نے اِس بدزبان عورت کو اپنے ہاں بلا کر تحفظ بھی فراہم کیا اور اس کے قابلِ مذمت ناول کی خوب تشہیر بھی کی اور اُسے لاکھوں روپے کی رائلٹی سے بھی نوازا۔ یہ ملعونہ آج کل دہلی میں رہائش پذیر ہے اور ہر قسم کے مزے اُڑا رہی ہے اور بھارتی مسلمان خاموش ہیں۔ دلی کی جامع مسجد کے مشہور امام بخاری صاحب بھی خاموش ہیں، دیو بند کے علماء بھی مہر بہ لب ہیں اور بھارت کی جماعتِ اسلامی کی لیڈر شپ بھی چپ ہے۔
کینیڈا کی گستاخ عورت ارشاد مانجی، جو دراصل سوڈانی النسل ہے، نے What is the trouble with Islam لکھ کر اسلامی قوانین کا مذاق بھی اڑایا اور شریعتِ اسلامیہ کی بے حُرمتی بھی کی لیکن مغرب و مشرق میں بسنے والے مسلمان کینیڈین حکومت اور خود بے لگام مصنفہ کے خلاف کوئی قدم اُٹھا سکے نہ احتجاج میں اپنے عافیت کدوں سے باہر نکل سکے۔ حتیٰ کہ کینیڈا میں مقیم پاکستان کے نامور عالمِ دین جناب طاہر القادری صاحب، جو آج کل خود کو ''شیخ الاسلام'' کہلانے پر اصرار کرتے ہیں، بھی اِس بے حیا عورت کے خلاف ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکال سکے۔
ڈنمارک کے اخبار ''جے پوسٹن'' نے نبی کریمؐ کے بارے میں نہایت توہین آمیز اور دل آزار خاکے شایع کیے تو عالمِ اسلام ڈنمارک کے خلاف محض چند روزہ احتجاجات پر خود کو محدود کر سکا۔ افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ اسلامی ممالک کے تقریباً سبھی مسلمان حکمران براہِ راست اِن شاتمانِ رسول کے بارے میں بلند آواز سے کبھی ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکال سکے۔ مسلمانانِ عالم نعرے تو خوب لگاتے ہیں: ''غلامیٔ رسولؐ میں موت بھی قبول ہے'' لیکن دنیا بھر میں پھیلے ڈیڑھ ارب مسلمان عمل کے میدان میں اپنے اِس قول پر کتنا اور کہاں تک پورا اُتر سکے ہیں، اِس کی چند مثالیں ہم نے پیش کر دی ہیں۔
تو کیا ہم اِس قابل ہیں کہ روزِ قیامت جناب شافعِ محشرؐ کو منہ دکھا سکیں؟ اسلام کی مبادیات پر حملہ کرنے اور حُرمت رسولؐ کے خلاف زبان درازی کرنے والوں کے خلاف محض مُٹھیاں بھینچنے، احتجاج میں بازو لہرانے اور عمارات کو آگ دکھانے سے بھلا کیا ہوتا ہے؟
شرارِ بُولہبی نے ایک بار پھر چراغِ مصطفوی سے متصادم ہو کر مسلمانوں کی غیرت کو للکارا ہے۔ شیطنت کا یہ شرارہ امریکی سرزمین سے پھوٹا ہے اور امریکی حکومت امریکی آئین کے پردے میں اِس بدبخت کی محافظ و نگہبان بن گئی ہے۔
اِس کا نام نکولا بیسلے (Nakoula Basseley) بتایا گیا ہے جس نے ''مسلمانوں کی معصومیت'' (Innocence of Muslims) نامی فلم بنا کر حُرمتِ رسولؐ پر حملہ آور ہونے کی نہایت قابلِ مذمت ، دل آزار اور غلیظ جسارت کی ہے۔ دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے تمام مسلمانوں کے دل چھلنی ہیں۔
خصوصاً عالمِ عرب امریکا اور فلمساز کے خلاف بھڑک رہا ہے۔ اس آگ نے اب تک دو درجن انسانوں کی جانیں نگل لی ہیں اور اربوں کانقصان ہو چکاہے۔ لیبیا کے شہر بن غازی میں امریکی سفیر کرسٹوفر سٹیونز اور تین امریکی فوجی اِس غصے کی آگ کا ایندھن بن چکے ہیں لیکن فلم کا مجرم نکولا بیسلے بے شرمی اور بے حیائی سے کہہ رہا ہے: ''مرنے والوں کا مجھے افسوس ہے لیکن فلم بنانے کے حوالے سے میں کسی سے معذرت نہیں کروں گا۔'' اُس نے مزید ڈھٹائی سے ریڈیو ''ساوا'' کو انٹرویو دیتے ہوئے گزشتہ روز کہا: ''عربوں کو احتجاج کا حق ہے لیکن انھیں احتجاج کرنے کی تمیز سیکھنی چاہیے۔'' یہ بدبخت مصر کا ایک مسیحی ہے جو معاشی ہجرت کرکے برسوں قبل امریکا جا بسا تھا۔ مجرمانہ ذہنیت رکھنے والی یہ فلم بنانے کا دوسرا کردار سام باسل ہے۔
گستاخانہ فلم کی شکل میں رسولؐ اللہ کی حُرمتِ پاک پر حملہ کرنے والے ان دونوں ملعونوں میں سے اصل مجرم کون ہے، ابھی تک واضح نہیں ہو رہا۔ امریکا اور مغرب اصلی نام کو چھپانے کی ناکام کوششیں کر رہے ہیں لیکن آخر کار نقاب اُتر جائے گا۔ یہ غلیظ اور دلوں کو دکھ پہنچانے والی فلم دراصل مغرب اور امریکا کے اِس دعوے کی بنیاد پر بنائی گئی ہے کہ آزادیٔ اظہار ہر شخص کا بنیادی اور آئینی حق ہے لیکن ہم اِسی امریکا سے چند سوال پوچھنا چاہتے ہیں: کیا امریکا اور مغربی ممالک کی جمہوری حکومتوں کے اندر کسی شخص کو آزادیٔ اظہار کے نام پر یہ کہنے اور لکھنے کی اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ جمہوریت کے برعکس فاشزم اور آمریت کا پرچار شروع کر دے؟
اگر امریکا کو آزادیٔ اظہار سے اتنی ہی محبت ہے تو امریکا بھر میں کسی بھی شخص کو اسی آزادی اظہار کے نام پر ''ہولو کاسٹ'' کے خلاف لکھنے اور تقریر کرنے کی اجازت کیوں نہیں ہے؟ کیا امریکا میں کوئی شخص ہولو کاسٹ کے خلاف فلم بنانے کی جرأت کر سکتا ہے؟ یہودیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ''ہولو کاسٹ'' کے لفظ کو اتنی تقدیس کیوں دی گئی ہے؟ یہ تفاوت و تضاد کیوں؟
اہم سوال یہ ہے کہ کیا عالمِ اسلام متحد ہو کر اِس گستاخ شخص کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرسکتا ہے یا خود 52 سے زیادہ اسلامی ممالک یک جہت اور یک مُشت ہو کر براہِ راست امریکی شہری کو سزا دے سکتے ہیں؟ اِس حساس اور گمبھیر سوال کا جواب ''ہاں'' میں ہے اور اِس کے لیے حجت اور بنیاد بھی ہم امریکی کردار سے حاصل کر سکتے ہیں۔
مثلاً ''امریکا کے نزدیک اُسامہ بن لادن وہ شخص تھا جس نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو ملیا میٹ کرنے کا منصوبہ بنایا، اِس پر اپنی ذاتی جیب سے کئی ملین ڈالر خرچ کیے، اُسی کے فراہم کردہ فنڈز سے 19 کے قریب دہشت گردوں نے امریکا میں اٹھارہ ماہ تک جہاز اڑانے اور انھیں اغوا کرنے کی تربیت حاصل اور بالآخر 11 ستمبر 2001ء کو نیو یارک کے قلب (مین ہیٹن) میں واقع ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے دونوں ٹاورز کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے معدوم کر دیا۔ بقول امریکا، اُسامہ بن لادن محض ایک شخص تھا جس کے فساد انگیز اقدامات سے دنیا کا امن تہ و بالا ہو کر رہ گیا۔
امریکا نے افغانستان کی طالبان حکومت سے مطالبہ کیا کہ اِس شخص کو ہمارے حوالے کر دیا جائے بصورتِ دیگر ہم بدلہ لینے کے لیے افغانستان، اِس کی حکومت اور عوام کو تباہ کرکے اُسے پتھر کے دور میں بھیج دیں گے۔ طالبان کے انکار پر امریکا نے اپنے مطلوب ملزم کو سزا دینے کی خاطر افغانستان کی امارتِ اسلامیہ کو فنا کر دیا اور لاکھوں افغانوں کو قتل اور لاکھوں کو معذوربنا دیا۔
اپنی قومی حمیت کی تباہی کا بدلہ لینے کے لیے، جس کا ذمے دار مبینہ طور پر محض ایک شخص تھا، امریکا نے اسلامی دنیا کے کئی حصوں میں نہ صرف آگ لگا دی بلکہ بدلہ لینے کے طیش میں کئی مغربی مسیحی ممالک کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا۔
اِس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے کیا عالمِ اسلام میں یہ ہمت، جرأت اور غیرت ہے کہ امریکا کے جس شخص نے دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا دل دکھایا ہے، اسے مسلمانوں کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر سکیں؟ کیا تقریباً پانچ درجن اسلامی ممالک اور ڈیڑھ ارب مسلمان توہینِ رسالت کا بدلہ لینے کے لیے امریکا پر حملہ کر سکتے ہیں؟
سلمان رشدی ایسے گستاخِ رسول نے Satanic Verses لکھ کر ہمارے دل دکھائے لیکن مغربی ممالک اِس ملعون کے محافظ بن گئے اور کوئی اس کا بال بھی بیکا نہ کر سکا۔ بل کلنٹن نے اپنے دورِ صدارت میں رُشدی کو وہائٹ ہائوس میں مدعو کیا اور اُسے عزت و اکرام سے نوازا۔
گویا سابق امریکی صدر نے لعنتی رُشدی کو اپنے ہاں مدعو کرکے مسلمانوں کے دل بھی دانستہ دُکھائے اور مسلمانوں کا منہ بھی چڑایا لیکن ردعمل میں ہم سب خاموش رہے۔امریکی پادری ٹیری جونز نے قرآن پاک کو نذرِ آتش کرنے کی دو بار ناپاک جسارت کی لیکن عالم اسلام کے حکمران پھر بھی کچھ نہ کر سکے۔ بنگلہ دیش کی ڈاکٹر تسلیمہ نسرین نے Lajja نامی ناول لکھ کر قرآن اور اللہ کے آخری رسولؐ کی شان میں گستاخیاں کیں لیکن اِس ملعونہ کو بھی مغربی ممالک (خصوصاً ناروے) نے تحفظ فراہم کرکے اُس کی مزید ہمت افزائی کی اور بنگلہ دیشی عوام، حکمران اور ہم سب خاموشی سے، محض ہلکا سا احتجاج کرکے ہاتھ ملتے رہے۔
بھارت نے اِس بدزبان عورت کو اپنے ہاں بلا کر تحفظ بھی فراہم کیا اور اس کے قابلِ مذمت ناول کی خوب تشہیر بھی کی اور اُسے لاکھوں روپے کی رائلٹی سے بھی نوازا۔ یہ ملعونہ آج کل دہلی میں رہائش پذیر ہے اور ہر قسم کے مزے اُڑا رہی ہے اور بھارتی مسلمان خاموش ہیں۔ دلی کی جامع مسجد کے مشہور امام بخاری صاحب بھی خاموش ہیں، دیو بند کے علماء بھی مہر بہ لب ہیں اور بھارت کی جماعتِ اسلامی کی لیڈر شپ بھی چپ ہے۔
کینیڈا کی گستاخ عورت ارشاد مانجی، جو دراصل سوڈانی النسل ہے، نے What is the trouble with Islam لکھ کر اسلامی قوانین کا مذاق بھی اڑایا اور شریعتِ اسلامیہ کی بے حُرمتی بھی کی لیکن مغرب و مشرق میں بسنے والے مسلمان کینیڈین حکومت اور خود بے لگام مصنفہ کے خلاف کوئی قدم اُٹھا سکے نہ احتجاج میں اپنے عافیت کدوں سے باہر نکل سکے۔ حتیٰ کہ کینیڈا میں مقیم پاکستان کے نامور عالمِ دین جناب طاہر القادری صاحب، جو آج کل خود کو ''شیخ الاسلام'' کہلانے پر اصرار کرتے ہیں، بھی اِس بے حیا عورت کے خلاف ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکال سکے۔
ڈنمارک کے اخبار ''جے پوسٹن'' نے نبی کریمؐ کے بارے میں نہایت توہین آمیز اور دل آزار خاکے شایع کیے تو عالمِ اسلام ڈنمارک کے خلاف محض چند روزہ احتجاجات پر خود کو محدود کر سکا۔ افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ اسلامی ممالک کے تقریباً سبھی مسلمان حکمران براہِ راست اِن شاتمانِ رسول کے بارے میں بلند آواز سے کبھی ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکال سکے۔ مسلمانانِ عالم نعرے تو خوب لگاتے ہیں: ''غلامیٔ رسولؐ میں موت بھی قبول ہے'' لیکن دنیا بھر میں پھیلے ڈیڑھ ارب مسلمان عمل کے میدان میں اپنے اِس قول پر کتنا اور کہاں تک پورا اُتر سکے ہیں، اِس کی چند مثالیں ہم نے پیش کر دی ہیں۔
تو کیا ہم اِس قابل ہیں کہ روزِ قیامت جناب شافعِ محشرؐ کو منہ دکھا سکیں؟ اسلام کی مبادیات پر حملہ کرنے اور حُرمت رسولؐ کے خلاف زبان درازی کرنے والوں کے خلاف محض مُٹھیاں بھینچنے، احتجاج میں بازو لہرانے اور عمارات کو آگ دکھانے سے بھلا کیا ہوتا ہے؟