جمہوریت کی کشتی ساحل پر طوفان

غیر ملک میں پاکستانی سفیروں کی کانفرنس سے خطاب ایک مستحسن قدم ہے ۔۔۔۔


Anis Baqar May 09, 2014
[email protected]

یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ پاکستان قائدین کی وفات کے بعد ان گروہوں کے سپرد ہوگیا جو محض اپنے مفادات کے علاوہ کسی کو بھی نہ جانتے تھے ہمیشہ ایسی پالیسیاں وضع کی گئیں جس میں ایک مخصوص طبقے کو پروان چڑھایا گیا۔ 18 اکتوبر 1958 میں ایوب خان نے جو مارشل لا لگایا ملک پر 22 سرمایہ داروں کا زور تھا جن کو انھوں نے زبردست ضرب لگائی اور نئے سرمایہ داروں اور اسٹیبلشمنٹ سے ابھرتے ہوئے خاندان سیاست کی دہلیز پر قدم رکھنے کے ساتھ کاروبار میں حصہ دار بنے اور یہ معاملہ چلتا رہا۔ ان ہی کی گود سے عوامی رہنما پیدا ہوئے ۔ اس طرح آمریت نے عوامی نمایندگان پروان چڑھائے پہلے مارشل لا کے بعد دوسرا مارشل لا لگا تو مزید نئے رہنما پیدا ہوئے۔ جس نے اپنے ہی تراشے ہوئے رہنما کو تختہ دار پر کھینچ دیا مگر حکومت میں آنے کے بعد اس پارٹی نے تختہ دار پر لے جانے والے سے کوئی انتقام نہ لیا۔

پیپلز پارٹی تو اس میں حد سے گزر گئی کہ بے نظیر کے قتل کی کوئی پیش رفت نہ کی ۔غرض یہ ہے اس ملک کی سیاسی قدریں جو مصالحت اور مصلحت کے فرق سے نابلد ہیں بس ہر برس شہدا کو یاد کرکے پارٹی میں روح پھونکنے کا جذبہ اس طرح پیدا کیا جاتا ہے۔ حکمت عملی کے تجربات کے باوجود اس پہلو پر غور نہیں کیا اور ایک ساتھ کئی محاذ کھول ڈالے۔ جس میں پرویز مشرف کا محاذ ہی کیا کافی نہ تھا کہ بھارت سے تعلقات کے سلسلے میں پسندیدہ ترین ملک کا موضوع اور پھر دہشت گردی ایک بالکل متضاد موضوع، اسی دوران نواز شریف کے دور حکومت میں پرویز مشرف نہیں بلکہ جنرل پرویز مشرف کا میڈیا ٹرائل جس کو افواج پاکستان نے مجموعی طور پر اپنے جنرل کی تضحیک محسوس کی۔

ابھی تو یہ موضوعات گرما گرم تھے کہ حامد میر کا واقعہ جس نے میڈیا میں ایک نئی جنگ چھیڑ دی جس پر نواز لیگ کے لیڈروں کا ردعمل اور چوٹی کے لیڈروں کے بیانات میں تضادات اور حامد میر کا کمیشن پر عدم اعتماد، یہ ایسی غیر ذمے دارانہ چیزیں ہیں کہ پاکستان میں ایسے حالات کبھی پیدا نہ ہوئے ۔ اب آپ خود غور فرمائیں کہ پرویز مشرف کیس کو دیکھیے۔ یہ سعی لاحاصل ہے بلکہ یہ بساط خود یہ نام نہاد جمہوری آقا الٹ دیں گے۔ گورنمنٹ ملازمین اکثر روپیہ دے کر ملازمت حاصل کر رہے ہیں اور زرگری میں مہارت رکھتے ہیں دراصل ہمارے ملک کی حکومتیں ناقص کارکردگی کی بنا پر اپنے تابع لوگوں کو خوش کرتے رہتے ہیں پھر دنیا بھر میں گھومتے ہیں اور کشکول لے کر پھرتے ہیں اور اس کو اپنی معاشی کارکردگی کا نام دیتے ہیں، ڈالر 100 سے کم ہوگیا مگر کتنے عرصے کے لیے کیونکہ پیداواری عمل میں کوئی بہتری تو آئی نہیں۔

لہٰذا روپیہ پھر پھسل کر نیچے آنے کا خطرہ جولائی اگست تک ممکن ہے، نہ بجلی کا بحران کم ہوا نہ بدامنی اور نہ بھتہ خوری ظاہر ہے ایسی صورت میں بیرونی سرمایہ تو پاکستان آنے سے رہا جب دنیا کے لوگ پاکستان میں کرکٹ یا فٹبال میچ کھیلنے پر تیار نہیں جو چند دنوں کا مسئلہ ہوتا ہے تو کاروبار کرنا یعنی بھتہ خوروں، اغوا برائے تاوان والوں کے ہاتھوں کون خود کو گرفتار کرائے گا، پاکستان کی یہ انڈسٹری جو بغیر کسی کل پرزے کے چل رہی ہے بام عروج پر ہے۔ اسی لیے کہ خود حکمرانوں کا زر ملک سے باہر ہے اور بیرون ملک سرمایہ کاری میں مصروف ہیں بغیر منصوبہ بندی کے ملک چلایا جا رہا ہے آبادی پر کوئی کنٹرول نہیں۔

1970 میں پاکستان کی آبادی تقریباً 10 کروڑ تھی جس میں مشرقی پاکستان کی آبادی 6 کروڑ سے زائد تھی ہم نے آبادی کے اس طوفان سے نمٹنے کے لیے ہر سال بے روزگار لوگوں کا طوفان ملک کے ہر حصے سے اٹھ رہا ہے جو بے روزگار ہیں ان لوگوں میں کئی قسم کے لوگ ہیں جو بھیک مانگ سکتے ہیں مگر اپنے علاقے کو چھوڑ کر دوسرے علاقے میں نہیں جاسکتے۔ ایک وہ جو خودکشی کرسکتے ہیں اور بھیک نہیں مانگ سکتے ، پھر وہ لوگ جو جرائم کی دنیا میں جاسکتے ہیں مگر بھیک نہیں مانگ سکتے، چوری، ڈاکہ، اغوا برائے تاوان، تخریبی گروہ، عشرت کدوں کے کارندے بن سکتے ہیں کیونکہ پاکستانی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے اور پاکستانی حکمران ماضی کی طرح جمہوریت کا ڈنکا بجا رہے ہیں۔

پاکستان میں جمہوری حکومت کے کئی ہمنوا ہیں پہلے ہمنوا وہ جو ہر قسم کی اصول پرستی کے خلاف ہیں اور جھوٹی بے مقصد خبروں سے عوام کا پیٹ بھرنا چاہتے ہیں، نیم خواندہ لوگوں کو بڑے عہدوں پر لگانا جو زرداری دور میں شروع ہوا اور آج بھی جاری ہے، چند سو لوگوں کو لیپ ٹاپ تقسیم کرکے یہ سمجھنا کہ ملک میں تعلیم عام ہوگئی اور جمہوریت کی کشتی رواں دواں ہے۔ جدید دور میں اندھیروں میں ڈوبا ہوا ملک کس طرح تجارتی خسارے پورے کرسکتا ہے ابھی جون آنے کو ہے۔

عوام کا مزید خون آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے کہنے پر ٹھٹھرنے کو ہے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف بجلی کے ریٹ اور گیس کے ریٹ اور ٹیکس کے معاملات پر تجاویز پیش کرکے منواتے ہیں مگر کبھی سامان تعیش کی امپورٹ پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتے دنیا کے ہر ملک کی مصنوعات اگر آپ خریدنا چاہیں تو خرید لیں۔ اچار چٹنی سے لے کر مہنگا ترین کاسمیٹکس کیونکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں آخر کمی کس طرح ہوگی بلامقصد غیر ملکی ٹرپ وہ بھی ساتھیوں کے ہمراہ جب کہ خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی بلکہ ایک جملہ کہ ایک ملک سے دوستی کسی دوسرے ملک کے خلاف نہیں۔

غیر ملک میں پاکستانی سفیروں کی کانفرنس سے خطاب ایک مستحسن قدم ہے مگر اس میں پاکستان کی خارجہ پالیسی آزاد خارجہ پالیسی کا مقصد تمام عالمی قوتوں سے یکساں اچھے تعلقات ہیں، اگر چین، ایران اور روس سے اچھے تعلقات ہیں تو کیا ان ممالک کی انگریزی یا اردو نشریات یہاں سنی جاسکتی ہیں مگر سیکڑوں چینل فواحشات اور بے مقصد تفریحات مہیا کرنے میں مصروف ہیں مگر علمی، ادبی، سائنسی معلومات کیا پاکستانی ناظرین کا حق نہیں کیونکہ ہم خود جمہوری اعتبار سے اب تک بالغ نہ ہوئے اس کا ثبوت عمران خان کا مارچ جو الزامات انھوں نے جمہوری کشتی میں بیٹھنے والوں پر لگائے ہیں افسوس ناک ہیں اور دنیا پاکستان کی جمہوریت کو نگاہ بد سے دیکھنے لگی ہے۔

اب تک دہشت گردی ملک کا خاصا تھا اب جمہوری دہشت گردی بھی پاکستان کا خاصا بن گئی ہے ایسا لگنے لگا ہے کہ پاکستان کی نام نہاد جمہوری ٹرین پٹری سے اترنے کو ہے ۔11 مئی کے بعد کیا ہوگا یہ تو بحران کا طوفان بتانے کو ہے۔ جہاں کئی اقسام کے بگولے جمع ہو رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں