بد حالی سی بد حالی ہے

عوامی مسائل کی طرف توجہ ہے اور نہ ہی ان کو حل کرنے فکر صرف حکمرانوں کی اس بے فکری نے نئے نئے ایشوز ۔۔۔

قوم کی بد حالی کہنے سے کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کیوں کہ قوم تو ہے ہی 67 سالوں سے بد حال، خوشحالی کی تمنا، تشنہ ہی رہی لیکن اب تو فکر لاحق ہو گئی ہے ریاست کی بد حالی کی وجہ سے۔ سنتے چلے آئے ہیں کہ ملک خوشحال ہو تو عوام بھی خوشحال رہتے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ ملک و قوم کی خوشحالی، خوشحال خان خٹک ایکسپریس کے ساتھ ہی رخصت ہو گئی ہے۔ جب ہی ملک و قوم دونوں بد حالی کا شکار ہیں۔ اﷲ تعالیٰ رحم کرے ہمارے ملک و قوم پر۔ بد حالی کہیں خشک سالی یا قحط کی شکل اختیار نہ کرلے۔

کیونکہ ملک کے حکمرانوں کو نہ ملک کی فکر ہے اور نہ ہی قوم کی۔ سب اپنے اپنے حال میں مگن ہیں۔ مد ہوش ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ حکمرانوں کا ایجنڈا کیا ہے، ملک و قوم کو خوشحالی کی طرف لے جانا ہے یا کہ بد حالی میں غرق کر دینا ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے دائرے ارادت میں محبوس ہے کوئی اس سے باہر نکلنے کی سوچ ہی نہیں رہا ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ انفرادی سوچ اجتماعی سوچ پر غالب آ گئی ہے۔ آج کل ملک کی سیاسی فضا میں جو دھول اڑ رہی ہے اس نے سب کو اندھا کر دیا ہے۔ دھول کے اس پار کیا ہو رہا ہے یا ہونے جا رہا ہے یا ہونے والا ہے یہی وہ سوال ہیں جو سب کے دماغوں میں گھوم رہے ہیں ہر کوئی اس گتھی کو سلجھانے کے لیے متفکر ہے لیکن مسائل کی گتھی ہے کہ سلجھنے نہیں پا رہی ہے۔

میں تو اکثر و بیشتر اس گتھی کے سلجھانے کی بابت فکر میں رہتا ہی ہوں لیکن اب تو نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ ملک کے ممتاز، نامور ادیب، دانشور، کالم نگار، تبصرہ نگار اور تجزیہ نگار بھی اس گتھی کو سلجھانے کی طرف راغب ہو گئے ہیں لیکن سیاسی میدان میں ایسا گھمسان لگا ہوا ہے کہ امن و سکون کی طرف کسی کا دھیان نہیں ہے۔ عوامی مسائل ہیں کہ اپنا پھن اٹھائے عوام کو ڈسنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں لیکن کوئی سپیرا نہیں مل رہا ہے کہ اپنی بانسری کی دھن پر ان مسائل کے پھنوں کو نیچا کر دے اور انھیں واپس اپنی پٹاری میں بند کر دے۔

سپیرا بھی حیران و پریشان ہے کہ آج یہ مسائل کے سانپ نہ جانے اپنے پھن پھیلائے رکھنے پر کیوں مصر ہیں اور میری بانسری کی دھن پر اتنے مد ہوش کیوں ہو گئے ہیں۔ عجب ماحول کا عجب تماشا دیکھنے کو مل رہا ہے۔ معلوم نہیں یہ ماحول کب تک اپنا رنگ جمائے رکھے گا۔ کیا کوئی ماہر سپیرا اٹھے گا بھی نہیں کہ یہ مسائل کے سانپ کو قابو کر لے۔ یہ تو سپیرا جانے یا پھر پھن پھیلائے سانپ۔ ہم تو بس شش و پنج میں پڑے ان مسائل کے پھن پھیلائے سانپوں کا شکار ہیں اور ٹک ٹک ان پر نظر جمائے ہوئے ہیں کہ مسائل کے سانپ اپنے پھن نیچے کر لیں اور پٹاری میں چلے جائیں۔

ملک کی حالت دیکھ کر تو گمان ہونے لگا ہے کہ یہ ''پاکستان'' ہے یا ''مسائلستان'' کیونکہ 66 سالہ تاریخ میں تو یہی مشاہدہ ہوا ہے کہ مسائل کم تو کیا ہوتے بلکہ دن بدن ان میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک مسئلہ حل نہیں ہوتا کہ دوسرا سر اٹھائے کھڑا ہو جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے۔ آیئے! میں بتاتا ہوں کہ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ جتنے مسائل ابھرتے رہیںگے اتنا ہی فائدہ حکمرانوں کا ہو گا۔ ان کی سیاسی دکان چمکے گی۔ ورنہ اندھیرا ہی اندھیرا چھایا رہے گا۔ ہے نا! عجب مسائل کی عجب کہانی؟ ارے بھائی! میں مسائل کی اصل حالت بیان کر رہا ہوں۔ کہانی نہیں سنا رہا۔ کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ پانی نہیں، بجلی نہیں، گیس نہیں۔ اگر ہے بھی تو اتنی کہ کھل کر استعمال نہیں کر سکتے۔

بجلی کو تو آپ اپنی مرضی سے اس لیے استعمال نہیں کر سکتے کہ K الیکٹرک والوں کا ہاتھ سوئچ پر ہی رہتا ہے۔ نظام کمپیوٹرائزڈ ہو گیا ہے تو کیا فرق پڑتاہے۔ کمپیوٹر پر ''آف'' اور ''آن'' کے بٹن فکس کر دو اور سو جائو نظام خود بخود چلتا رہے گا۔ ہاں اگر شکایت سیل سے رابطہ کریںگے تو بھیا! وہاں سے ایک پیغام یہ ملے گا کہ ''آپ کا مطلوبہ نمبر فی الحال مصروف ہے، تھوڑی دیر بعد رابطہ کریں'' یا پھر یہ جواب آئے گا کہ آپ کی شکایت درج کر لی گئی ہے جیسے ہی ''فالٹ'' درست کر لیا جائے گا تو آپ کی بجلی بحال ہو جائے گی۔ یہی حال ٹیلی فون ڈپارٹمنٹ کا ہے۔ کیوں کہ دونوں ''بھائی بھائی'' ہیں، مل جل کر کام کرتے ہیں۔ کوئی کسی کو ناراض کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

جایئے جناب جایئے، دستی پنکھے نکالیے اور جھلتے رہیے۔ خود بخود تھکن سے نیند آ جائے گی۔ ہاں جب بجلی آئے تو ''موٹر'' چلا دیجیے پانی آ جائے گا۔ اب اگر آپ کی موٹر ہی خراب ہے تو بجلی والوں کا کیا قصور۔ جایئے موٹر میکینک کو بلوا لایئے۔ موٹر ٹھیک ہو جائے تو پانی اوور ہیڈ ٹینک میں چڑھا لیجیے۔ ارے یار ! ہر بات کا مسئلہ کیوں بنا دیتے ہیں۔ پانی نہیں، بجلی نہیں، گیس نہیں، خواہ مخواہ کا شور نہ مچایئے۔ ذرا اپنے ہاتھ پیر ہلا لیجیے۔ پلمبر موجود ہے، الیکٹریشن موجود ہے، گیس میکینک موجود ہے، فوراً دوڑ کر جایئے۔ بلوا لایئے۔ اور درست کروا لیجیے۔ مسئلہ حل ہو جائے گا، ارے ہاں! اب تو آدھی رات کا وقت ہے کون ملے گا یار! پلمبر، الیکٹریشن اور گیس میکینک سب ہی سو گئے ہوں گے۔


ایمرجنسی فون ملایا تو وہاں سے بھی یہی جواب آئے گا۔ آپ کا مطلوبہ نمبر اس وقت مصروف ہے۔ تھوڑی دیر بعد رابطہ کیجیے۔ اسے گمبھیر صورت حال بھی کہا جاتا ہے۔ ارے یار! آپ ہر بات کا مسئلہ بنا دیتے ہیں۔ میرا مفید مشورہ یہی ہے کہ مسئلے کو مسئلہ ہی رہنے دو۔ مسئلہ تو مسئلہ ہوتا ہے چھوٹا ہو یا بڑا ہو۔ ان سے نمٹنے کی ذمے داری آپ کی ہے حکمرانوں کی یا یوٹیلٹی اداروں کی نہیں۔ ذرا سوچیے کیا انھوں نے پانی، بجلی، گیس کے کنکشن فراہم کر کے آپ کا مسئلہ حل نہیں کر دیا تھا۔ اب یہ آپ کی قسمت کہ پانی، بجلی، گیس آپ کو مل رہی ہے یا نہیں۔ زیادہ الجھیںگے تو آپ کے تمام کنکشن (پانی، بجلی، گیس) کاٹ دیے جائیں گے اس طرح تمام مسئلے خود بخود حل ہو جائیں گے۔ خالی خولی بحث میں نہ الجھیے ورنہ ہر مسئلہ آپ کا الجھ جائے گا اور اس کو سلجھانے کے لیے قائد اعظم کی تصویروں کو استعمال کرنا پڑے گا۔

یہ پتا ہاتھ میں آیا نہیں کہ پورے بدن میں کرنٹ دوڑ جائے گا اور سب مسئلے آٹو میٹک طریقے سے حل ہو جائیںگے۔ ارے یار! ان چھوٹے موٹے مسئلوں میں کیوں الجھ رہے ہو۔ مہنگائی، بیروزگاری، غربت، ٹیکسوں کی ادائیگی، بچوں کی فیس، گھریلو اخراجات وغیرہ بھی تو مسئلے ہیں۔ ہاں بھئی! عوامی مسائل ہیں۔ اجتماعی مسائل ہیں۔ ان کو زیادہ ترجیح دی جائے گی۔ انفرادی مسائل تو آپ خود بھی حل کر سکتے ہیں مگر اجتماعی مسائل کے لیے حل ڈھونڈنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ ہم مجبور ہیں بھائی۔ ہم آپ کے مسائل آن واحد میں حل نہیں کر سکتے۔ ہمارے پاس جادو کی چھڑی نہیں ہے کہ ادھر حکم ہوا اور ادھر مسئلے کا حل نکل آیا۔ تو بہ توبہ میں کن نادانوں کی باتوں میں الجھ گیا ہوں۔ ان کے اپنے مسائل ہیں۔ یہ خود نمٹ لیں گے۔

آج فلاں جگہ کسی وزیر کی، کسی جگہ وزیر اعظم کی تو کسی جگہ صدر کی تقریبات ہیں وہاں شرکت کر لیں پھر بعد میں مسائل وسائل کی بات کریںگے۔ عوام کے مسائل تو اٹھتے ہی رہتے ہیں۔ ابھی اپنے پاس بہت وقت ہے۔ آیندہ دو سال کے اندر تمام مسائل حل کر لیںگے۔ فکر کی کوئی بات نہیں جب اعلیٰ سطح پر عوامی مسائل کی بات نہیں کی جاتی تو تم کیوں پریشان ہو رہے ہو۔ صدر زندہ باد، وزیراعظم زندہ باد، گورنر زندہ باد، وزیراعلیٰ زندہ باد یہ سب نعرے کس وقت کام آئیںگے۔ اپنے مسائل کے حل کرنے کے وقت کام آئیںگے۔ فکر مت کرو۔ اسی سوچ نے حکومت ہے نہیں قوم کو بھی بد حال کر کے رکھ دیا ہے۔ لیکن حکمرانوں کا حال یہ ہو گیا ہے کہ ساون کے اندھے کو سب ہرا ہی ہرا نظر آتا ہے۔

عوامی مسائل کی طرف توجہ ہے اور نہ ہی ان کو حل کرنے فکر صرف حکمرانوں کی اس بے فکری نے نئے نئے ایشوز (بالخصوص نان ایشوز) چھیڑ دیے ہیں۔ جن کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ جیسے کہ میں نے اپنے سابقہ کالموں میں واضح کر چکا ہوں کہ اگر پرویز مشرف کو لٹکا دیا جائے گا تو کیا بیروزگاری، مہنگائی، پانی کا بحران، بجلی کا بحران، گیس کا بحران، دہشت گردی، لا قانونیت، قتل و غارت گری، بینک ڈکیتیاں، خواتین کے اغوا کے بعد تشدد کر کے قتل کر دیا جانا، نوجوانوں کا اغوا اور تشدد کے بعد قتل کر دیا جانا، فوج کے خلاف الزام تراشیاں، بھاری مینڈیٹ کے زعم میں خود کار کارستانیاں کرنا، یہ سب مسائل حل ہو جائیںگے۔ نئے نئے قوانین نافذ کر کے عوام میں بے چینی پھیلانا وغیرہ وغیرہ ملک و قوم کو بد حالی کی طرف دھکیلنے کے سوا کیا معنی رکھتاہے۔

خدارا! ملک و قوم کی خوش حالی کی طرف توجہ دیں۔ تا کہ ملک مستحکم ہو۔ ہر ادارہ اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کرے گا تو لا قانونیت ختم ہو گی۔ جرائم کا خاتمہ ہو گا۔ حادثات اور سانحات میں بھی کمی آئے گی۔ مگر اس کے لیے نیک نیتی، خلوص اور خدمت کا جذبہ درکار ہو گا۔ محض بیان بازی، سبز باغ دکھانے اور جھوٹے وعدے اور یقین دہانیاں کرانے سے خوش حالی نہیں آئے گی بلکہ بد حالی و بربادی ہی بربادی ہو گی۔ لیکن بات وہیں پر آ جاتی ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ یہاں تو معاملہ یوں ہو گیاہے کہ دودھ کی رکھوالی کے لیے بلی کو بٹھایا جا رہا ہے۔ کہاں تک بد حالی کی نشاندہی کرتا رہوں اب تو میں خود بھی بد حالی کا شکار ہو گیا ہوں۔ نہ بجلی ہے نہ گیس ہے نہ پانی یہ سب کچھ بیان کرتے کرتے میں خود شرم سے پانی پانی ہو گیا ہوں۔

تو عوام کا کیا حال ہو رہا ہوگا۔ کسی کو ملک و قوم کی بدحالی کا احساس تک نہیں ہو رہا۔ سب کے سب چین کی بانسری بجا رہے ہیں اور دہشت گرد بھی شادیانے بجا رہے ہیں کہ ہم نے حکومت کی رٹ کو خاک میں ملادیا۔ سوچ سوچ کر دل میں ایک ہول سا اٹھتا ہے۔ مگر حکومتی ایوانوں میں سب اچھا ہے کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے۔ اب تو ایک نیا مسئلہ کھڑا کر دیا گیا ہے کہ حکومت اور فوج میں اختلافات ڈال کر دونوں کے درمیان خلیج پیدا کر دی گئی، ٹی وی کھولیے تو ہر وقت یہی ریکارڈ چل رہا ہے۔ ٹی وی ٹاکس میں بھی یہی عنوان بحث ملے گا۔ ارے یار! عوام کی فکر کرو، ملک کی ترقی اور استحکام کی بات کرو، قومی یکجہتی، امن و امان، ملکی دفاع اور قانون کی پاسداری کی بات کرو، کیوں ملک و قوم کو ان نان ایشوز کے ذریعے ''بد حال'' کر رہے ہو۔

اتنی غیر معیاری سیاست کی جا رہی ہے جسے اندھوں میں کانا راجہ۔ بد قسمتی سے حکومتی ایوانوں میں بھی سب ہی کانا راجہ نظر آ رہے ہیں۔ عوام با شعور ہیں نہ صرف سیاسی بلکہ معاشی، سماجی، ثقافتی امور پر گہری سوچ و فکر رکھتے ہیں حکومتی منفی ہتھکنڈوں کو خوب سمجھتے ہیں اور انھیں ناکام بنانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ جب اندر ہی اندر پکنے والا لاوا پھٹے گا تو سب کو بہا لے جائے گا۔ نہ کوئی شریف بچے گا نہ کوئی بد معاش۔ ہر طرف آگ کا سمندر ہو گا۔ ارے بھائی! مجھ جیسا معمولی سوچ رکھنے والا انسان ملکی و قومی معاملات کا ادراک رکھتاہے تو تم جو مسند اقتدار پر براجمان ہو ان تمام بیان کردہ حالات کا ادرک نہیں رکھتے۔ رکھتے ضرورت ہو مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دانستہ طور پر ملک و قوم کو اندھیروں میں دھکیل رہے ہو اور بد حالی کا شکار بنا رہے ہو۔

اے حکمرانو! تمہارے پاس بہت وقت ہے ملک و قوم کے مسائل کے سدھار کے لیے نیک نیتی، خلوص دل اور خدمت خلق سے ملک و قوم کو بد حال ہونے سے بچائو۔ بد حالی کی وجہ سے ہی قوم اس وقت نڈھال ہے۔ اٹھو! کمر کسو اور اس بد حال اور نڈھال قوم کو طاقتور بنائو۔ ان کے حوصلے بلند کرو۔ انھیں پست ہمت اور بزدل نہ بنائو۔ یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہو گا جب حکومتی ''فارم'' سے گندے انڈے نکال پھینکو گے۔ باتیں کڑوی تو ضرور لگ رہی ہوںگی مگر حق و صداقت کے راستے پر چلنے کے لیے کڑوی گولیاں کھانا ہی پڑتی ہیں۔ یہ آج کی بات یا آپس کی بات نہیں ہے۔ یہ تو دور رسالت کے وقت کی باتیں ہیں۔ آج ہم ان کی امت میں ہوتے ہوئے بھی ان کے نقش قدم پر کیوں نہیں چل سکتے۔ بات ہے نیک نیتی، خلوص دل اور حب الوطنی کی۔ مگر افسوس کہ آج امت میں یہ ساری باتیں عنقا ہو گئی ہیں۔ افسوس ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں اسلامی اور ایٹمی ملک عطا کیا ہے، پھر بھی ہم اسے بد حالی کی نذر کر رہے ہیں۔
Load Next Story