متوسط طبقے کے لیے بھی کچھ کریں

الخدمت قابل مبارکباد ہے اور اس کے روح رواں ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی جن کی نگرانی میں یہ رعایتی خدمت متوسط ۔۔۔

apro_ku@yahoo.com

QUEENSTOWN:
میں اس وقت ڈائیگنوسٹک سینٹر میں بیٹھا ہوا اپنا کالم تحریر کر رہا ہوں۔ میرے سامنے ایک اشتہار لگا ہوا ہے مگر یہ اشتہار کمرشل نہیں بلکہ قرآن کی ایک آیت پر مبنی ہے جس کا ترجمہ لکھا ہوا ہے ''اور جس نے کسی ایک انسان کی جان بچائی اس نے گویا پوری انسانیت کی جان بچائی۔''

اسی طرح میرے دائیں جانب ایک اور تحریر خوبصورت فریم میں آویزا ہے کہ ''ہمارے معاشرے کو ان خواتین کی ضرورت ہے جو گھر چلائیں اور ایک بہترین رفیقہ زندگی بن کر ایک صالح اور جاندار خاندان تخلیق کریں''۔ ''جب یقین ہو کہ بیماری اور صحت دونوں اللہ کی طرف سے ہیں تو صحت میں سرمستی کا جواز ہے نہ بیماری میں واویلے کا۔''

اس قسم کی اور بھی بہت سی تحریروں پر مبنی اچھی اور اخلاقی باتیں یہاں آویزا ہیں جو یہاں آنے والوں کو اچھے اخلاق اور تعمیری کردار کی طرف متوجہ کرتی ہیں اور ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔ اس سینٹر کی ایک اور قابل توجہ خوبی یہاں کا صاف ستھرا ماحول ہے گویا جیسے کوئی VIP میڈیکل سینٹر ہو۔ یہ خوبیاں اپنی جگہ لیکن یہاں کی ایک اہم ترین اور بنیادی خوبی نے نہ صرف مجھے کالم تحریر کرنے پر مجبور کیا بلکہ ضرورت پڑنے پر ہمیشہ یہاں آنے پر مجبور کیا اور وہ خوبی ہے کہ اس ڈائیگنوسٹک سینٹر میں آنے والوں کو 70 فیصد تک مختلف ٹیسٹ اور لیبارٹری ٹریٹمنٹ میں ڈسکاؤنٹ کے تحت سروس فراہم کی جاتی ہے۔

میں اپنی فیملی کے لیے اکثر یہاں ٹیسٹ وغیرہ کے سلسلے میں آتا رہتا ہوں جس کی بنیادی وجہ ایک اچھے اور قابل اعتماد ماحول میں بارعایت سروس کی سہولت دستیاب ہونا ہے۔ یہ سہولت متوسط طبقے کے لیے نعمت سے کم نہیں کیونکہ جو ٹیسٹ کراچی شہر کے نامور اور بڑے اسپتالوں میں ہزار یا اس سے زائد چارجز میں ہوتے ہیں وہ یہاں محض 4 یا 5 سو روپے کے قریب چارجز ادا کرکے ہو جاتے ہیں۔ یہ سینٹر الخدمت کے زیر انتظام ہے اور الخدمت ڈائیگنوسٹک سینٹر کے نام سے ناظم آباد نمبر 2 نزد انکوائری آفس کے قریب واقع ہے۔ یہاں راقم نے پتہ اس لیے تحریر کردیا ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں ایسے ایمان دار لوگ جو صرف رزق حلال پر یقین رکھتے ہیں اور مہنگا علاج و معالجہ ان کو پریشان کردیتا ہے وہ کم ازکم اپنے لیبارٹری ٹیسٹ کے لیے یہاں کی سہولت سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔

آج کے کالم میں توجہ اس بات کی جانب دلانا مقصود ہے کہ اس ملک میں زکوٰۃ، خیرات وغیرہ کے نام پر تو بہت کچھ لیا اور دیا جاتا ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ متوسط طبقے یا ادنیٰ متوسط طبقے کے لیے کوئی خدمت کرتا نظر نہیں آتا۔

اس ملک میں مذکورہ بالا طبقات کی آبادی ایک بڑے حصے پر مشتمل ہے مگر ان کی طرف نہ حکومت وقت توجہ دیتی ہے نہ ہی فلاحی ادارے۔ معذرت کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ خیراتی اداروں یا این جی اوز کی بھرمار اس ملک میں ہے مگر یہ ایک جانب تو متوسط اور غیرت مند طبقے کے لیے کچھ فلاحی کام کرتے نظر نہیں آتے بلکہ جو خدمت وہ پیش کرتے ہیں ان سے عام آدمی فائدہ اٹھانے سے ہچکچاتا ہے کیونکہ زیادہ تر ادارے عوام سے زکوٰۃ، فطرہ اور خیرات وغیرہ لیتے ہیں جس سے ظاہر ہے کہ ایک ایسا شخص جو خود یہ عطیات دیتا ہو وہ بھلا ان خیرات والی سہولیات سے کیسے فائدہ اٹھانا چاہے گا؟


پھر ان تنظیموں کی جانب سے جس طرح مستحق افراد کی مدد کی جاتی ہے۔ اس سے تو ایک غیرت مند انسان کی عزت کا جنازہ تو ویسے ہی نکل جاتا ہے مثلاً دیکھیے کہ کراچی شہر میں بعض خیراتی ادارے پہلے بھوکوں کو چار دیواری میں کھانا مفت فراہم کرتے تھے مگر اب کافی عرصے سے ان اداروں نے مین بس اسٹاپوں اور فٹ پاتھوں پر مفت کھانا فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس سے ان کے اداروں کی نیک نامی کا اشتہار تو ضرور لگتا ہے اور چرچہ بھی بہت ہوتا ہے مگر کیا کوئی غیرت مند کھلے عام اس طرح اپنی بھوک مٹانا پسند کرے گا؟

راقم نے یہاں صرف ایک مثال پیش کی ہے ورنہ تو ان کہانیوں پر مشتمل کئی کالم لکھے جاسکتے ہیں۔ یہاں مقصد صرف تنقید کرنا نہیں بلکہ توجہ دلانا ہے کہ جناب! اگر انسانی خدمت کرنی ہے تو حقیقی انسانی خدمت کیجیے لوگوں کی عزت کو سر بازار رسوا نہ کیجیے۔ متوسط اور ادنیٰ متوسط طبقہ جو اس ملک کی کثیر آبادی پر مشتمل ہے ان کے لیے بھی کچھ کیجیے سب سے زیادہ مسائل تو ان ہی لوگوں کے ہیں ایک سبزی بیچنے والا تو بغیر استری کے کپڑے پہن کر بھی اپنا کاروبار کرتا ہے مگر ایک کلرک پینٹ شرٹس لنڈا بازار سے خرید کر لائے تب بھی استری کے بغیر گھر سے باہر نہیں نکل سکتا، اس طبقے کو بھی سہولت فراہم کرنے کے میدان عمل میں آنا چاہیے۔

ان طبقات کے مسائل پر بھی راقم نے متعدد بار قلم اٹھایا ہے اور حکومتی ذمے داروں کی توجہ دلائی ہے مثلاً طالب علموں کے حوالے سے توجہ دلائی کہ انھیں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ لینا ہو یا ملازمت کے لیے درخواستیں دینا ہو، بلاوجہ کا مالی بوجھ کاغذات کی تیاری اور ان کی فوٹو اسٹیٹ اور تصدیق کے لیے اٹھانا پڑتا ہے۔ داخلہ لینا ہو یا ملازمت کے لیے درخواست محض چار سے پانچ کاغذات کی نقول (شناختی کارڈ، میٹرک، انٹر، گریجویشن یا ماسٹر کے سرٹیفکیٹس) کافی ہوتی ہے مگر ان سے نہ جانے کیا کیا طلب کیا جاتا ہے پھر ان کے کئی کئی سیٹ بناکر اور پے آرڈر بناکر جمع کرائے جاتے ہیں۔ پے آرڈر کی رقم ناقابل واپسی ہوتی ہے۔ غرض ایک درد سر اور رقم کا ضیاع ہوتا ہے۔

اس سارے عمل کے دوران ہر فوٹوکاپی کو تصدیق کرانا بھی لازمی شرط ہوتی ہے۔ اب تصدیق کے لیے نوجوان، طالب علم 17 گریڈ کے سرکاری افسر کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ غور کیجیے! کوئی فلاحی ادارہ یا شخص نیکی کے اس کام کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتا ہے کہ آئیے ہم آپ کو کاغذات کی تصدیق کیے دیتے ہیں؟

اسی طرح کتنے ایسے ادارے ہیں جو ان طبقات کے علاقوں میں رعایتی بازار، اسٹالز لگاتے ہیں؟ اسکول کے بچوں کے لیے کتابیں کاپیاں رعایت پر دیتے ہوں؟ علاج و معالجے کی سروس حقیقی معنوں میں معیار کے ساتھ پیش کرتے ہوں تاکہ غیرت مند افراد بھی باعزت طریقے سے ان سے مستفیض ہوں؟

بہرکیف الخدمت قابل مبارکباد ہے اور اس کے روح رواں ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی جن کی نگرانی میں یہ رعایتی خدمت متوسط طبقے کو میسر آرہی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی سہولتیں شہر کے ہر ضلع میں اسی معیار کے ساتھ پیش کی جائیں اور اس میں وہ لوگ بھی سامنے آئیں جو عوام کی حقیقی خدمت کے عمل میں مصروف ہیں۔
Load Next Story