ٹکراؤ اور مصالحت…
کروڑوں انسانوں کی حکمرانی پر فائز شخص اس باشعور، تحمل مزاج باپ کی مانند ہوتا ہے جو اپنے خاندان کے فیصلے ۔۔۔
QUEBEC CITY:
قومی زندگی میں ناخوش گوار واقعات کے پس پردہ اہم اسباب اور ان اہم اسباب کے پس پردہ چند محرکات کارفرما ہوتے ہیں۔ جمہوری حکمرانی کے اعلیٰ منصب پر فائز سیاست دان اگر ان محرکات کا حقیقی ادراک کرتے ہوئے اپنی سیاسی دانش پر مبنی حکمت عملی وضع کر کے ان محرکات کا فوری سدباب کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو ایسے افراد انسانی سیاسی تاریخ میں کامیاب سیاستدانوں کے نام سے یاد رکھے جاتے ہیں۔ اور یہی طرز فکر و عمل قوموں کی زندگی میں ترقی اور خوشحالی کا موجب بنتا ہے۔
کروڑوں انسانوں کی حکمرانی پر فائز شخص اس باشعور، تحمل مزاج باپ کی مانند ہوتا ہے جو اپنے خاندان کے فیصلے کرتے ہوئے اپنی تمام اولاد کو جرأت مندانہ موقف پر قائم مشورے دینے کا حق فراہم کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح ایک زیرک اور معاملہ فہم کامیاب حکمران بھی جمہوریت کے اعلیٰ ترین اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے قوم کی تقدیر سے متعلق لیے جانے والے اہم ترین فیصلوں میں اپنی قوم کے قائم کردہ محترم اور معزز اداروں سے منسلک معاملہ فہم اور صائب الرائے حضرات کی رائے اور مشوروں کو بھی اپنے اہم فیصلوں میں شامل کرتا ہے۔
ایک کامیاب جمہوری حکمران کبھی بھی اپنے چند ہم مزاج رفقا کی سمجھ بوجھ اور دانش کو عقل کل کا درجہ دے کر ملک و قوم کے اہم ترین فیصلے کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ چند دوستوں اور رفقا کی رائے پر مبنی اہم ترین فیصلے کروڑوں افراد کے مسائل کا خاتمہ کرنے کا باعث نہیں بن سکتے۔ یہی آمرانہ انداز حکمرانی ہے۔ یہی وہ غیر جمہوری طرز فکر و عمل ہے جو جمہوری نظام کو آمرانہ نظام میں بدل دیتا ہے۔ اور اسی فیصلہ سازی کی روش نے مملکت خداداد کو اندرونی اور بیرونی خلفشار اور خطرات کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔
حالیہ الزام تراشیوں نے پوری پاکستانی قوم کو ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا کیے رکھا ہے۔ پورے ملک کے مخلص، محب وطن افراد کو شدید مایوسی کے اندھیروں میں دھکیلنے کا باعث بن رہا ہے الزام تراشیاں، ٹی وی ٹاک شوز، اخبارات کے ادارئیے، ریلیاں، جلسے و جلوس ایسا لگتا ہے کہ جیسے پاکستان کو درپیش تمام سنگین ترین مسائل میں سب سے اہم ترین مسئلہ یہی ہے اور باقی تمام مسائل ثانوی حیثیت اختیار کر چکے ہوں، یقینا قومی سالمیت کے اہم ترین اداروں پر بے بنیاد الزام تراشی کسی بھی قیمت پر قابل قبول نہیں اور کوئی بھی محب وطن اور باضمیر اور ملک کو درپیش سنگین حالات سے آگاہ شخص کسی قیمت پر پاکستان کے اس باعظمت ادارے کو رسوا کرنے کی کسی بھی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دے گا یہی وجہ ہے کہ پوری قوم اس گھناؤنی سازش میں لپٹی ہوئی اس گھٹیا حرکت پر سراپائے احتجاج ہے۔
پوری قوم کو ہیجان اور بے یقینی اور پریشانی کی کیفیت میں مبتلا ہونے سے بچایا جا سکتا ہے دانش اور فہم پر مبنی حکمت عملی کو بروئے کار لاکر اپنی ذہانت پر نازاں اس ادارے کو اس کی شدید غیر ذمے داری کے مظاہرے پر اس کی اخلاقی سرزنش کرتے ہوئے مملکت کو اس پریشانی کی کیفیت میں جانے سے بچایا جا سکتا تھا۔ اب بھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا۔ پانچ سال کے لیے ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن جانے والے حکمران اب بھی اپنی قومی ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے افہام و تفہیم کی راہ پر گامزن ہو کر قوم کو اس مایوسی اور ہیجانی کیفیت سے نکالنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
پاکستان کے جمہوری سیاسی رہنماؤں کا المیہ یہ رہا ہے کہ وہ جمہوریت کے عظیم ترین عوامی فلاحی سیاسی نظام کے نعرے کے تحت ملک کے اقتدار پر جلوہ افروز ہوتے ہیں مگر اپنے روایتی آمرانہ خاندانی پس منظر کے زیر اثر اختیارات اور مزید اختیارات کے حصول میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، جان و مال کے تحفظ، ظلم و زیادتی، کرپشن، بدعنوانی، رشوت اور اقربا پروری، صحت و تعلیم جیسے قومی اور عوامی مسائل کو ختم کرنے کی جدوجہد کرنے کے بجائے شہنشایت جیسے نظام اقتدار کو قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہو جاتے ہیں اور نتیجتاً وہ وقت جو مملکت خداداد کی فلاح و بہبود کے لیے صرف ہونا چاہیے اداروں سے ٹکرانے میں صرف کر دیا جاتا ہے اور قوم ان ہی اندھیروں، مہنگائی، ظلم وزیادتی جیسے سنگین مسائل میں گرفتار رہتی ہے۔
اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا لہٰذا اختیارات اور مزید اختیارات کی نہ ختم ہونے والی خواہش کو ترک کرتے ہوئے حاصل شدہ اختیارات کو پاکستانی قوم کی غریب عوام کی انتہائی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کو بہتر کرنے کے اقدامات کیے جائیں چونکہ جمہوریت ہی عام انسانوں کی جائز خواہشات کے حصول کا وہ بہترین نظام حکومت ہے جو معاشرے میں نافذ ہوتے ہی عوام کے مسائل کو بتدریج حل کرنا شروع کر دیتا ہے یہ وہ سیاسی نظام ہے جو اگر حقیقی طور پر معاشرے میں نافذ العمل ہو جائے تو چند سالوں میں ہی کروڑوں افراد کی جائز آرزوؤں اور خواہشات کی تکمیل کی مضبوط اور طاقتور امید پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے یہی وہ نظام ہے جس نے دونوں عظیم جنگوں کے بعد تباہ حال اور کھنڈرات پر مشتمل قوموں کو چند سالوں میں ترقی یافتہ اقوام بننے کا بھرپور موقع فراہم کیا۔ یہی وہ نظام ہے جو اپنی حقیقی شکل میں نافذ ہو کر بیروزگاری، جہالت، ظلم و زیادتی، بدعنوانی اور کرپشن کا خاتمہ کر کے دولت اور طاقت کے ارتکاز کو ختم کرتا ہے اور غریب اور محروم طبقات کو رب العزت کی عطا کردہ تمام نعمتوں کے حصول اور اس سے مستفید ہونے کے مساوی مواقع فراہم کرتا ہے۔
مگر افسوس پاکستان کے سیاستدانوں نے اس نظام کو صرف اپنے ذاتی، خاندانی، دوستوں کو فوائد پہنچانے کا ذریعہ بناتے ہوئے اس عظیم نظام حکومت پر شدید شکوک و شبہات پیدا کر دیے اب پاکستانی قوم پاکستان میں رائج اس عظیم جمہوری نظام کو جمہوریت کے عالی شان لباس میں ملبوس انتہائی بدصورت اور ظالمانہ طرز حکمرانی سمجھنے لگے ہیں لہٰذا وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنی اس خود غرضانہ، حرص و ہوس پر مبنی انداز حکمرانی کے ذریعے جمہوریت کو بدنام کرنے اور اس کی شکل بگاڑنے سے شدید اعتراض کیا جائے۔
جمہوریت صرف اپنے پانچ سال پورے کر کے اقتدار دوسری پارٹی کو منتقل کرنے کا نام نہیں۔ جمہوریت عوام کو ان کے مسائل سے چھٹکارا دلانے کے ان وعدوں اور عہد و پیمان پر عمل پیرا ہونے کا نام ہے جن پر عمل پیرا نہ ہونے کی پاداش میں حکمرانوں کو اپنے اقتدار سے محروم بھی ہونا پڑتا ہے۔ جمہوریت کا یہ ایک بہترین اور تابناک اصول ہے کہ جو سیاسی حکمران عوام سے کیے ہوئے عہد و پیماں کو پورا نہ کر سکیں انھیں ان پر حکمرانی کرنے کا حق بھی حاصل نہیں رہتا جمہوری حکمرانی کے آئینی اصول اپنے اندر ہی حکومتوں کو ان کی غیر ذمے داری اور عوام الناس سے کی گئی عہد شکنی کے جرم میں آئینی اختیارات احتجاج کو استعمال میں لا کر انھیں بدل ڈالنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں یعنی ہر جمہوری نظام اپنے اندر درمیانی مدت کے انتخابات کا حق استعمال کرنے کا استحقاق بھی رکھتا ہے۔
اس لیے دانش اور فہم کا تقاضا ہے کہ عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کے ہنگامی اقدامات کیے جائیں ایک سال ہونے کو ہے مگر حکومت وقت ابھی تک عوام میں اپنے مسائل حل ہونے کی امید کے چراغ روشن کرنے سے بھی محروم ہے مسائل کیا خاک حل ہوں گے۔ اختیارات اور مزید اختیارات کی رٹ لگانے کے بجائے جو اختیارات موجود ہیں انھیں استعمال کر کے قوم کو بھوک، افلاس، بے روزگاری، لوڈشیڈنگ، قتل و غارت گری، مہنگائی ایسے اعصاب شکن مسائل سے نجات دلانے کی بھرپور کوشش کریں اور اگر ان معاملات کو حل کرنے میں کسی بھی قسم کی مزید غفلت کا مظاہرہ کیا گیا تو کہیں ان اختیارات سے بھی ہاتھ نہ دھونا پڑے جو اس وقت موجودہ حکومت کے پاس ہیں۔