شہریوں کی ٹیلی فونک گفتگو کی ریکارڈنگز آڈیو لیکس پر وفاق سے جواب طلب
جواب جمع نہ کرانے کی صورت میں سیکریٹریز کو ذاتی حیثیت میں عدالت کے سامنے پیش ہونے کا حکم
ہائی کورٹ نے شہریوں کی ٹیلی فونک گفتگو کی ریکارڈنگز اور آڈیو لیکس کے معاملے پر وفاقی حکومت سے جواب طلب کر لیا۔
وزیراعظم، وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کے سیکریٹریز کو عدالتی سوالات کی روشنی میں مفصل جواب اور بیان حلفی 4 ستمبر تک جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ جواب جمع نہ کرانے کی صورت میں تینوں سیکریٹریز کو ذاتی حیثیت میں 18 ستمبر کو عدالت کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے نجم الثاقب کی درخواست پر سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا جس کے مطابق عدالت کو بتایا گیا کہ اٹارنی جنرل موجود نہیں۔
عدالت نے کہا کہ وفاقی حکومت کا جواب 31 مئی کے آرڈر کے مطابق نہیں سا لیے دوبارہ مفصل جواب جمع کرائیں اور فراہم کی گئی معلومات درست ہونے کا بیان حلفی بھی دیں۔ اگر دو ہفتوں میں جواب داخل نہ کرایا گیا تو 18 ستمبر کو وزیراعظم کے سیکریٹری اور دفاع و داخلہ کے سیکریٹریز ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔
واضح رہے کہ عدالت نے 31 مئی کے آرڈر میں پوچھا تھا کہ کیا آئین اور قانون شہریوں کی کالز کی سرویلنس اور خفیہ ریکارڈنگ کی اجازت دیتا ہے؟ اگر اجازت نہیں تو شہریوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی پر کون سی اتھارٹی ذمہ دار ہے؟ غیر قانونی طور پر ریکارڈ کی گئی کالز کو ریلیز کرنے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی؟
وزیراعظم، وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کے سیکریٹریز کو عدالتی سوالات کی روشنی میں مفصل جواب اور بیان حلفی 4 ستمبر تک جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ جواب جمع نہ کرانے کی صورت میں تینوں سیکریٹریز کو ذاتی حیثیت میں 18 ستمبر کو عدالت کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے نجم الثاقب کی درخواست پر سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا جس کے مطابق عدالت کو بتایا گیا کہ اٹارنی جنرل موجود نہیں۔
عدالت نے کہا کہ وفاقی حکومت کا جواب 31 مئی کے آرڈر کے مطابق نہیں سا لیے دوبارہ مفصل جواب جمع کرائیں اور فراہم کی گئی معلومات درست ہونے کا بیان حلفی بھی دیں۔ اگر دو ہفتوں میں جواب داخل نہ کرایا گیا تو 18 ستمبر کو وزیراعظم کے سیکریٹری اور دفاع و داخلہ کے سیکریٹریز ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔
واضح رہے کہ عدالت نے 31 مئی کے آرڈر میں پوچھا تھا کہ کیا آئین اور قانون شہریوں کی کالز کی سرویلنس اور خفیہ ریکارڈنگ کی اجازت دیتا ہے؟ اگر اجازت نہیں تو شہریوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی پر کون سی اتھارٹی ذمہ دار ہے؟ غیر قانونی طور پر ریکارڈ کی گئی کالز کو ریلیز کرنے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی؟