عبرت کدہ‘ عشرت کدہ…

پاکستان کے کسی علاقے میں دو برادریوں کے درمیان جھگڑا ہو گیا جیسا کہ ہوتا ہی رہتا ہے ۔۔۔

ہم سب صبح سویرے بہت شوق سے اخبار پڑھتے ہیں اوراخبار کے مطالعے سے ہی دن کا آغاز کرتے ہیں۔اخبار کے بغیر ناشتا بھی بے مزہ رہتا ہے لیکن شاید اب ہم اس معصوم سی''لذّت '' سے بھی محروم ہو جائیں۔ کیونکہ اب اخبار پڑھنے کے لیے ''جگرا ''چاہیے۔

بہت مشکل ہوا اخبار پڑھنا

قیامت برسر ِ دیوار پڑھنا

اخبار پڑھنا تو پہلے بھی آسان نہیں تھا ۔ ہر اخبار ظلم و جبر اور دہشت و وحشت کی خبروں سے بھرا ہواہوتا ۔ معصوم بچیوں کے ساتھ بھیانک سلوک ' والدین کے ہاتھوں لڑکیوں کا قتل' رشتے سے انکار پر خواتین کا قتل ۔ ''شُبہ'' میں عورتوں کا قتل' چارہ نہ بنانے پر بیوی کا قتل۔ چچا'ماموں کے ہاتھوں معصوم بچیوں کے گلے کٹنا۔ مگراس قسم کی خبریں اب معمول بن گئی ہیں اور شاید آبادی کے ایک بڑے حصّے نے ان کو اہمیت دینا چھوڑ دیا ہے کیونکہ''شقاوت'' ہماری ثقافت کا حصّہ بن چکی ہے ، بلکہ بہت سے اخبار بین تو ایسی ''چٹ پٹی'' خبروں کے منتظر رہتے ہیں کیوںکہ وہ اخبار کو مزید دلچسپ بنا کر پڑھنے والے کو ''مگن'' کرتی ہیں۔ اخبار میں ناول کا لطف آتا ہے اور دن مزے سے گزرتا ہے۔ لیکن اچانک ایسی خبر بھی نازل ہو جاتی ہے کہ جس کو پڑھ کر بڑے بڑے ''سورما'' لر ز جائیں۔ ایک چھوٹی سی خبر کچھ یوں ہے:۔

پاکستان کے کسی علاقے میں دو برادریوں کے درمیان جھگڑا ہو گیا جیسا کہ ہوتا ہی رہتا ہے ۔ ایک برادری کے مسلح افراد نے دشمن برادری کے گھر میں گھس کر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں تین خواتین ہلاک ہوگئیں ۔ ان میں دو عورتیں حاملہ بھی تھیں۔ دونوں برادریوں کے درمیان تصفیہ اور انصاف کا بول بالا کرانے کی خاطر ملک کے ایک سابق وزیر اعظم اور ایک سابق صوبائی وزیر نے اپنی خدمات پیش کیں ۔ ان دو بلند مرتبہ سیاسی رہنمائوں کی سربراہی میں ایک ''جرگہ'' منعقد ہوا ۔ جرم ثابت ہونے پر یہ طے پایا کہ ''قاتل'' برادری ''مقتول'' برادری کومبلغ 53 لاکھ روپے ادا کرے ۔ فی مقتولہ 12لاکھ روپے۔


دو حاملہ خواتین کے ہونیوالے بچوں کے لیے چھ چھ لاکھ روپے اور گھر پر حملہ کرنے کے لیے پانچ لاکھ روپیہ۔ قابل ِ تحسین ہیں یہ انصاف کرنیوالے کہ انھوں نے نومولود کو نظر انداز نہیں کیا بلکہ اس کے چھ لاکھ بھی دھروا لیے ۔ عدل و انصاف کے اس شاہکار کو دونوں برادریوں نے نہایت خوشی سے قبول کیا اور منصفین کی انصاف پسندی کو بہت سراہا۔ فریقین ایک دوسرے سے گلے ملے اور تمام گلے شکوے دور ہو گئے۔ دنیا والے دیکھیں اور سر دُھنیں کہ انصاف تو ایسا ہوتا ہے۔ قائد اعظم کے مزار کے احاطے میں ایک خاتون کے ساتھ زیادتی کرنیوالے لوگ جرم کے واضح ثبوت کے بعد بھی بچ جاتے ہیں اور پھر بانی پاکستان کی قبر کے نیچے ایک تہہ خانہ کسی خاص''شغل'' کے لیے کرائے پر دیا جاتا ہے :

بنا اپنا وطن پیارا وطن عبرت کدہ یارو

مزارِ قائدِ اعظم ہوا عشرت کدہ یارو

(تشنہ)

اور اب ان دونوں واقعات میں ہمارے ''روشن خیال'' دانشوروںاور ''انسان دوست'' رہنمائوںکی بے حسی کو بھی شامل کر لیں اور پھر آنے والے وقت کے بھیانک قہقہے سُننے کے لیے تیار ہو جائیں۔
Load Next Story