معروف کاسمیٹکس کمپنی کو ٹیکس چوری مہنگی پڑگئی
تاریخ میں پہلی بار کمپنی کا ٹریڈ مارک، کاپی رائٹس اور مالکان کی جائیدادیں نیلام کرکے ریکوری کی جائیگی
ملک کی معروف کاسمیٹکس کمپنی کو ٹیکس چوری مہنگی پڑگئی۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے تاریخ میں پہلی مرتبہ 57 کروڑروپے کے ٹیکس اور جرمانے کی ریکوری کیلئے کمپنی میسز فارول کاسمیٹکس پرائیویٹ لمیٹڈ (بائیو آملہ) کا ٹریڈ مارک و کاپی رائٹس سمیت بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبران کے نام پر مجموعی طور پر بارہ جائیدادیں 21 اگست 2023 کونیلام کرنے کا اعلان کردیا۔
ایف بی آر نے قومی اخبارات میں نیلامی کا اشتہار شائع کروادیا ہے جس کے مطابق نیلامی 21 اگست 2023 کو کانفرنس ہال فرسٹ فلور کارپوریٹ ٹیکس آفس ٹیکس ہاؤس لاہور میں ہوگی۔ نیلامی میں کامیاب ہونیوالے بولی دہندگان کو مجموعی رقم کا پچیس فیصد موقع پر ڈیمانڈ ڈرافٹ اور پے آرڈر کی صورت میں ادا کرنا ہوگا۔ باقی ماندہ رقم پندرہ دن کے اندر اندر جمع کروانا ہوگی جبکہ نیلامی میں دی جانیوالی بولی پر حکومت کی طرف سے عائد تمام ٹیکس لاگو ہوں گے۔
ایکسپریس کو دستیاب دستاویز کے مطابق میسز فارول کاسمیٹکس پرائیویٹ لمیٹڈ کے ذمہ سیلز ٹیکس کی مد میں پندرہ کروڑ 53 لاکھ اکیانوے ہزار روپے کے واجبات اور اتنی ہی مالیت کا جرمانہ ہے۔ ایف بی آر حکام کا کہنا ہے ایف بی آر کا یہ تاریخی اقدام ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں اٹھایا گیا ہے اس اقدام سے ٹیکس چوروں کی حوصلہ شکنی ہوگی اور ایف بی آر کے ٹیکس ریونیو میں اضافہ ہوگا۔
ایف بی آر کے سینئر افسر نے ایکسپریس کو بتایا کہ مذکورہ کمپنی پر عائد ڈیفالٹ سرچارج کا تعین جائیدادوں کی نیلامی کے بعد کیا جائے گا تاہم ایف بی آرحکام کا کہنا ہے کہ مذکورہ کمپنی کے ٹیکس چوری، ڈیفالٹ سرچارج اور جرمانے کی مد میں مجموعی طور پر 57 کروڑ روپے کے لگ بھگ مالیت کی ٹیکس چوری میں ملوث ہے اور ٹیکس چوری کے کیس میں ذکاء الدین شیخ کے بیٹے پہلے سے ہی گرفتار ہیں۔
مذکورہ افسر نے بتایا کہ ایف بی آر کے کارپویٹ ٹیکس آفس لاہور کی ٹیم نے اس تاریخی کام کا آغاز کیا ہے اور اس کیلئے لیگل ڈیپارٹمنٹ سے باقاعدہ رائے لی گئی تھی جس میں قانونی ٹیم نے اس بات کی تصدیق کی کہ ٹریڈ مارک یا کاپی رائٹس جن کی مالی گڈ ول ہوتی ہے وہ منقولہ جائیداد کے ضمرے میں آتی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ذکا الدین شیخ، ذنیر احمد، خالدہ پروین اور وامق ذکا، محمد اویس اور کاشف ضیاء نامی افراد کے کاروباری یونٹ کے مالکان عادی ٹیکس چور ہیں اور اس سے قبل بھی ان پر کروڑوں روپے کی ٹیکس چوری کے کیس بنے ہوئے ہیں۔
اس فیملی کے دیگر ممبران بھی فارول کاسمیٹکس سے ملتے جلتے ناموں سے اسی برانڈ کی مصنوعات تیار کرکے فروخت کررہے ہیں اوربائیو آملہ شیمپو و دیگر مصنوعات تیار کرنے والی فارول کاسمیٹکس کے مینجنگ پارٹنر اویس احمد اور تیسرے پارٹنر کاشف ضیاء و انکی کمپنی کے خلاف بھی اربوں روپے کی ٹیکس چوری کے کیسوں کی تحقیقات جاری ہیں۔
اس کمپنی کے بھی سیلز ٹیکس رجسٹریشن نمبر معطل ہوچکے ہیں مگر یہ ملی بھگت سے معاملات کو دبالیتے تھے جبکہ محکمہ میں موجود کچھ لوگ سرکاری معلومات لیک کرتے تھے جس کی وجہ سے ریونیو کا نقصان ہورہاتھا مگر ایف بی آر اور ڈائرئیکٹریٹ جنرل اینٹلی جننس اینڈ انویسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو کے سخت ایکشن کے بعد اب کارپوریٹ ریجنل ٹیکس آفس لاہورنے سخت کاروائی کی ہے اورٹیکس چوروں سے ملی بھگت میں ملوث لوگوں کے خلاف بھی تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔
ایف بی آر حکام کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے دوران چشم کشا انکشافات ہوئے ہیں جس میں معلوم ہوا ہے کہ یہ تین پارٹنرز ذکاء الدین شیخ، محمد اویس اورکاشف ضیاء نے میسز فارول کاسمیٹکس پرائیویٹ لمیٹڈ (بائیو آملہ) اور فاروول کاسمیٹک کے نام سے لائنسنس حاصل کر رکھے ہیں۔
ایف بی آر حکام کا کہنا ہے کہ ایک پارٹنر ٹیکس چوری میں جاتا ہے تو دوسرا پارٹنرمحمد اویس سامنے آجاتا ہیں اور اسی برانڈ کی مصنوعات بناکر فروخت کرتے ہیں وہ ڈیفالٹر ہوتا ہے تو کاشف ضیاء سامنے آجاتا ہے اور یہ کھیل ایک عرصے سے جاری ہے۔
حکام کے مطابق اب تینوں پارٹنر ڈیفالٹرز ہوچکے ہیں اور انکی کمپنی کی سیلز ٹیکس رجسٹریشن بھی معطل ہوچکی ہے ٹریڈ مارک بھی ضبط ہوچکا ہے مگر اسکے باوجود کروڑوں روپے کی مصنوعات تیار کرکے فروخت ہورہی ہیں اور سیلز ٹیکس چوری جاری ہے اور ابھی تک پچھلی ٹیکس چوری ریکوری نہیں ہوئی ہے کہ نئی ٹیکس چوری کے کیس بھی زیر تحقیق ہیں۔
ایف بی آر کے سینئر افسر کا کہنا ہے کہ یہ تاریخ میں پہلی بار ہونے جارہا ہے کہ ٹیکس چوری و ڈیفالٹرزکے کاروباری برانڈز کو منقولہ جائیداد قراردیکر ضبط کرکے نیلامی ہونے جارہی ہے اور بڑے ٹیکس چوروں کی غیر منقولہ جائیدادیں اورانکی مصنوعات کے ٹریڈ مارک و کاپی رائٹس نیلام کرکے چوری شدہ ٹیکس واجبات ریکور کرنے کا تاریخی عملی اقدام شروع کردیا ہے۔
اس سے پہلے ایف بی آر کے ماتحت ادارے کی جانب سے ادارہ حقوق دانش کو لکھے جانے والے لیٹر میں ٹیکس ڈیفالٹر فارول کاسمیٹکس پرائیویٹ لمیٹڈ و انکے نادہندہ بورڈ آف ڈائریکٹرزکے نام پر رجسٹرڈ ٹریڈ مارک بائیو آملہ سمیت اس کمپنی کے دوسرے تمام کاپی رائیٹس و ٹریڈ مارکس کی موجودہ حیثیت و دیگر متعلقہ تفصیلات حاصل کی گئی تھیں تاکہ ان نادہندگان کے منجمد شدہ اثاثہ جات اور کمپنی و کمپنی کے نادہندہ بورڈ آف ڈائریکٹرز کے نام رجسٹرڈ تمام ٹریڈ مارک نیلام کرنے کا عمل آگے بڑھایا جاسکے۔
دستاویز کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے ڈائریکٹر جنرل کاپی رائٹس و ٹریڈ مارک،پیٹنٹ و ڈیزائن حقوق دانش آف پاکستان (آئی پی او) کو لکھے جانے والے لیٹر میں بتایا گیا تھا کہ کمپنی 2017سے 31 کروڑ سات لاکھ بیاسی ہزار دو سو بائیس روپے کی ٹیکس ڈیفالٹر ہے اور تمام قانونی چارہ جوئی کے باوجود ٹیکس واجبات کی عدم ادائیگی پر میسز فارول کاسمیٹکس پرائیویٹ لمیٹڈ نامی کمپنی کے مالکان کے نام سے رجسٹرڈ ٹریڈ مارک منجمد کررکھے ہیں اور اسکی فروخت کو ایف بی آر کے این او سی سے مشروط کررکھا ہے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے تاریخ میں پہلی مرتبہ 57 کروڑروپے کے ٹیکس اور جرمانے کی ریکوری کیلئے کمپنی میسز فارول کاسمیٹکس پرائیویٹ لمیٹڈ (بائیو آملہ) کا ٹریڈ مارک و کاپی رائٹس سمیت بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبران کے نام پر مجموعی طور پر بارہ جائیدادیں 21 اگست 2023 کونیلام کرنے کا اعلان کردیا۔
ایف بی آر نے قومی اخبارات میں نیلامی کا اشتہار شائع کروادیا ہے جس کے مطابق نیلامی 21 اگست 2023 کو کانفرنس ہال فرسٹ فلور کارپوریٹ ٹیکس آفس ٹیکس ہاؤس لاہور میں ہوگی۔ نیلامی میں کامیاب ہونیوالے بولی دہندگان کو مجموعی رقم کا پچیس فیصد موقع پر ڈیمانڈ ڈرافٹ اور پے آرڈر کی صورت میں ادا کرنا ہوگا۔ باقی ماندہ رقم پندرہ دن کے اندر اندر جمع کروانا ہوگی جبکہ نیلامی میں دی جانیوالی بولی پر حکومت کی طرف سے عائد تمام ٹیکس لاگو ہوں گے۔
ایکسپریس کو دستیاب دستاویز کے مطابق میسز فارول کاسمیٹکس پرائیویٹ لمیٹڈ کے ذمہ سیلز ٹیکس کی مد میں پندرہ کروڑ 53 لاکھ اکیانوے ہزار روپے کے واجبات اور اتنی ہی مالیت کا جرمانہ ہے۔ ایف بی آر حکام کا کہنا ہے ایف بی آر کا یہ تاریخی اقدام ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں اٹھایا گیا ہے اس اقدام سے ٹیکس چوروں کی حوصلہ شکنی ہوگی اور ایف بی آر کے ٹیکس ریونیو میں اضافہ ہوگا۔
ایف بی آر کے سینئر افسر نے ایکسپریس کو بتایا کہ مذکورہ کمپنی پر عائد ڈیفالٹ سرچارج کا تعین جائیدادوں کی نیلامی کے بعد کیا جائے گا تاہم ایف بی آرحکام کا کہنا ہے کہ مذکورہ کمپنی کے ٹیکس چوری، ڈیفالٹ سرچارج اور جرمانے کی مد میں مجموعی طور پر 57 کروڑ روپے کے لگ بھگ مالیت کی ٹیکس چوری میں ملوث ہے اور ٹیکس چوری کے کیس میں ذکاء الدین شیخ کے بیٹے پہلے سے ہی گرفتار ہیں۔
مذکورہ افسر نے بتایا کہ ایف بی آر کے کارپویٹ ٹیکس آفس لاہور کی ٹیم نے اس تاریخی کام کا آغاز کیا ہے اور اس کیلئے لیگل ڈیپارٹمنٹ سے باقاعدہ رائے لی گئی تھی جس میں قانونی ٹیم نے اس بات کی تصدیق کی کہ ٹریڈ مارک یا کاپی رائٹس جن کی مالی گڈ ول ہوتی ہے وہ منقولہ جائیداد کے ضمرے میں آتی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ذکا الدین شیخ، ذنیر احمد، خالدہ پروین اور وامق ذکا، محمد اویس اور کاشف ضیاء نامی افراد کے کاروباری یونٹ کے مالکان عادی ٹیکس چور ہیں اور اس سے قبل بھی ان پر کروڑوں روپے کی ٹیکس چوری کے کیس بنے ہوئے ہیں۔
اس فیملی کے دیگر ممبران بھی فارول کاسمیٹکس سے ملتے جلتے ناموں سے اسی برانڈ کی مصنوعات تیار کرکے فروخت کررہے ہیں اوربائیو آملہ شیمپو و دیگر مصنوعات تیار کرنے والی فارول کاسمیٹکس کے مینجنگ پارٹنر اویس احمد اور تیسرے پارٹنر کاشف ضیاء و انکی کمپنی کے خلاف بھی اربوں روپے کی ٹیکس چوری کے کیسوں کی تحقیقات جاری ہیں۔
اس کمپنی کے بھی سیلز ٹیکس رجسٹریشن نمبر معطل ہوچکے ہیں مگر یہ ملی بھگت سے معاملات کو دبالیتے تھے جبکہ محکمہ میں موجود کچھ لوگ سرکاری معلومات لیک کرتے تھے جس کی وجہ سے ریونیو کا نقصان ہورہاتھا مگر ایف بی آر اور ڈائرئیکٹریٹ جنرل اینٹلی جننس اینڈ انویسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو کے سخت ایکشن کے بعد اب کارپوریٹ ریجنل ٹیکس آفس لاہورنے سخت کاروائی کی ہے اورٹیکس چوروں سے ملی بھگت میں ملوث لوگوں کے خلاف بھی تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔
ایف بی آر حکام کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے دوران چشم کشا انکشافات ہوئے ہیں جس میں معلوم ہوا ہے کہ یہ تین پارٹنرز ذکاء الدین شیخ، محمد اویس اورکاشف ضیاء نے میسز فارول کاسمیٹکس پرائیویٹ لمیٹڈ (بائیو آملہ) اور فاروول کاسمیٹک کے نام سے لائنسنس حاصل کر رکھے ہیں۔
ایف بی آر حکام کا کہنا ہے کہ ایک پارٹنر ٹیکس چوری میں جاتا ہے تو دوسرا پارٹنرمحمد اویس سامنے آجاتا ہیں اور اسی برانڈ کی مصنوعات بناکر فروخت کرتے ہیں وہ ڈیفالٹر ہوتا ہے تو کاشف ضیاء سامنے آجاتا ہے اور یہ کھیل ایک عرصے سے جاری ہے۔
حکام کے مطابق اب تینوں پارٹنر ڈیفالٹرز ہوچکے ہیں اور انکی کمپنی کی سیلز ٹیکس رجسٹریشن بھی معطل ہوچکی ہے ٹریڈ مارک بھی ضبط ہوچکا ہے مگر اسکے باوجود کروڑوں روپے کی مصنوعات تیار کرکے فروخت ہورہی ہیں اور سیلز ٹیکس چوری جاری ہے اور ابھی تک پچھلی ٹیکس چوری ریکوری نہیں ہوئی ہے کہ نئی ٹیکس چوری کے کیس بھی زیر تحقیق ہیں۔
ایف بی آر کے سینئر افسر کا کہنا ہے کہ یہ تاریخ میں پہلی بار ہونے جارہا ہے کہ ٹیکس چوری و ڈیفالٹرزکے کاروباری برانڈز کو منقولہ جائیداد قراردیکر ضبط کرکے نیلامی ہونے جارہی ہے اور بڑے ٹیکس چوروں کی غیر منقولہ جائیدادیں اورانکی مصنوعات کے ٹریڈ مارک و کاپی رائٹس نیلام کرکے چوری شدہ ٹیکس واجبات ریکور کرنے کا تاریخی عملی اقدام شروع کردیا ہے۔
اس سے پہلے ایف بی آر کے ماتحت ادارے کی جانب سے ادارہ حقوق دانش کو لکھے جانے والے لیٹر میں ٹیکس ڈیفالٹر فارول کاسمیٹکس پرائیویٹ لمیٹڈ و انکے نادہندہ بورڈ آف ڈائریکٹرزکے نام پر رجسٹرڈ ٹریڈ مارک بائیو آملہ سمیت اس کمپنی کے دوسرے تمام کاپی رائیٹس و ٹریڈ مارکس کی موجودہ حیثیت و دیگر متعلقہ تفصیلات حاصل کی گئی تھیں تاکہ ان نادہندگان کے منجمد شدہ اثاثہ جات اور کمپنی و کمپنی کے نادہندہ بورڈ آف ڈائریکٹرز کے نام رجسٹرڈ تمام ٹریڈ مارک نیلام کرنے کا عمل آگے بڑھایا جاسکے۔
دستاویز کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے ڈائریکٹر جنرل کاپی رائٹس و ٹریڈ مارک،پیٹنٹ و ڈیزائن حقوق دانش آف پاکستان (آئی پی او) کو لکھے جانے والے لیٹر میں بتایا گیا تھا کہ کمپنی 2017سے 31 کروڑ سات لاکھ بیاسی ہزار دو سو بائیس روپے کی ٹیکس ڈیفالٹر ہے اور تمام قانونی چارہ جوئی کے باوجود ٹیکس واجبات کی عدم ادائیگی پر میسز فارول کاسمیٹکس پرائیویٹ لمیٹڈ نامی کمپنی کے مالکان کے نام سے رجسٹرڈ ٹریڈ مارک منجمد کررکھے ہیں اور اسکی فروخت کو ایف بی آر کے این او سی سے مشروط کررکھا ہے۔