بھٹو یونیورسٹی آف لا کی قانونی حیثیت مشکوک ہوگئی

ذوالفقارعلی بھٹوکے نام سے لایونیورسٹی نے تاحال پی بی سی سے الحاق نہیں کیا،طلبا کا کیریئر متاثر ہونیکاخدشہ ہے،اختر حسین

ذوالفقارعلی بھٹوکے نام سے لایونیورسٹی نے تاحال پی بی سی سے الحاق نہیں کیا،طلبا کا کیریئر متاثر ہونیکاخدشہ ہے،اختر حسین فوٹو: فائل

قانون کی تعلیم کے لیے حکومت سندھ کے تحت تعلیم دینے والے اداروں کی ڈگریوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی کیونکہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے نام سے لا یونیورسٹی نے تاحال پاکستان بار کونسل سے الحاق کے لیے درخواست ہی نہیں دی ہے جبکہ میمن گوٹھ میں واقع شہید ذوالفقار علی بھٹو کالج کی درخواست بھی منظور نہیں کی گئی ہے۔

یہ بات پاکستان بار کونسل کی ایجوکیشن کمیٹی کے چیئرمین اختر حسین نے ایکسپریس سے گفتگو میں بتائی، اختر حسین ایڈووکیٹ نے کہا کہ ان تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے والے طلبا کا کیریئر متاثر ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ ان اداروں کے طلبا کو ملنے والی ایل ایل بی،ایل ایل ایم اور پی ایچ ڈی سمیت تمام ڈگریوںکی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی، اختر حسین ایڈووکیٹ نے کہا کہ پیشہ ورانہ (پروفیشنل) تعلیم کے اداروں کے لیے لازم ہے کہ وہ متعلقہ شعبے کے عملی ماہرین پر مشتمل اداروں سے منظوری لیں اس طے شدہ اصول کے تحت میڈیکل کالجوں اور یونیورسٹیوں کی ڈگریاں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ،انجینئرنگ کی ڈگریاں پاکستان انجینئرنگ کونسل کی منظوری سے مشروط ہیں اسی طرح قانون کے شعبے میں پیشہ ورانہ تعلیم کے اداروں کے لیے پاکستان بار کونسل کے آئینی ادارے سے الحاق ضروری ہے۔


الحاق کی درخواست آنے کے بعد کونسل ان اداروں کے معیار ، چارٹر اور دیگر معاملات کا جائزہ لیتی ہے، شہید ذوالفقار علی بھٹو لا یونیورسٹی نے تاحال بارکونسل سے الحاق کے لیے درخواست دی اورنہ ہی اس یونیورسٹی کا بنیادی ڈھانچہ اسٹرکچر موجود ہے جبکہ میمن گوٹھ میں واقع کالج میں تعلیم کا سلسلہ جاری ہے لیکن بار کونسل اس کے معیار سے مطمئن نہیں، واضح رہے کہ بعض اخبارات میں ایڈمنسٹریٹر رئوف اختر فاروقی کے حوالے سے شائع ہوا ہے کہ سروے نمبر 18 کورنگی میں 13.19 ایکڑ زمین کا قبضہ اسی ہفتے یونیورسٹی کو دیا جائے گا، تاہم اسی بیان میں ایڈمنسٹریٹرنے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ زمین کے ساڑھے 6 ایکڑ رقبے پر تجاوزات قائم ہیں۔

ذرائع کے مطابق لا یونیورسٹی کے قیام کے لیے 1145ملین روپے کی منظوری دی گئی ہے اس فنڈ میں خورد برد کے لیے بہت سی لابیاں سرگرم ہیں اس لیے قانونی تقاضے پورے کیے بغیر جولائی سے تعلیمی سیشن شروع ہونے کے دعوے کیے جارہے ہیں اور اعلیٰ حکام کوصورتحال سے بے خبر رکھا جارہا ہے، قانون کے تعلیمی اداروں کے لیے 2013 میں سندھ اسمبلی نے قانون سازی کی تھی لیکن درمیان میں انتخابات کے باعث نگراں حکومت آگئی، معاملات کی صورتحال بدل گئی ،قانون کی منظوری کے بعد یونیورسٹی اور کالج کے لیے فنڈز مختص کیے جارہے ہیں، منصوبوں کی تعمیر کیلیے پراجیکٹ ڈائریکٹر کی تقرری کے بغیر ہی فنڈز جاری کیے جارہے ہیں۔
Load Next Story