کیا اہم ہے ملک یا جمہوریت
ہمارے لیے پارلیمانی جمہوریت کسی طرح بھی مفید نہیں، ہم نیچے ہی نیچے جا رہے ہیں
دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف نظامِ حکومت رائج ہیں۔امریکا میں صدارتی نظامِ حکومت ہے اور شاندار طریقے سے چل رہا ہے۔وہاں ایک بہت با اختیار صدر ہے ،لیکن امریکی کانگریس اور سینیٹ دونوں کا کافی اہم کردار ہے۔یہی حال فرانس کا ہے۔
فرانس میں بھی صدر بہت با اختیار ہے اور وزیرِ اعظم کی وہ وقعت نہیں جو کسی سربراہِ حکومت کی ہوتی ہے۔برطانیہ میں بادشاہت ہے لیکن بادشاہ برائے نام ریاستِ برطانیہ کا سربراہ ہے۔بادشاہ کے اوپر لازم ہے کہ وزیرِ اعظم کی ایڈوائس پر چلے۔سعودی عرب، اردن،عرب امارات،مسقط اور دوسرے کئی ممالک میں مطلق العنان بادشاہت ہے ۔روس میں صدر ہی سب کچھ ہے۔
چین میں ایک سیاسی پارٹی کی حکومت ہے۔وہاں کیمونسٹ پارٹی نے ملک کی باگ ڈور سنبھال رکھی ہے۔چین کی کیمونسٹ پارٹی نے پچھلے ساٹھ ستر سالوں میں آبادی کی اکثریت کو خطِ غربت کے نیچے سے اُٹھا کر خوشحالی کی منازل سے ہمکنار کیا ہے۔
وہاں تمام اہم فیصلے کیمونسٹ پارٹی کے سالانہ اجلاس میں ہوتے ہیں۔ چینی حکومت ان فیصلوں پر عمل درآمد کرتی اور کرواتی ہے۔اسی طرح افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکا کے کئی ممالک میں فوج اقتدار پر قبضہ کرتی رہی ہے۔ ایسے میںعوامی اقتدار کی بحالی کے لیے ایک لمبی جدوجہد درکار ہوتی ہے۔
1947 میں آزادی سے پہلے یہاں انگریزوں کا قبضہ تھا۔انگلستان میں صدیوں پر محیط سیاسی جد و جہد کے نتیجے میں ایک مضبوط سیاسی عمل اور کلچر پروان چڑھ چکا تھا۔ انگریزوں نے اپنے نظامِ حکومت کی طرز پر اپنے راج کے دنوں میں برصغیر میں بھی سیاسی جدوجہد کا راستہ دکھایا۔ 1875 میں پہلی سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کی بنیاد رکھی گئی۔
انڈین نیشنل کانگریس نے آزادی کی جدوجہد میں بھرپور کردار ادا کیا،لیکن کانگریس کے ہندو زعماء کے رویوں سے مسلمانوں نے محسوس کیا کہ کانگریس در اصل ہندوؤں کی جماعت ہے۔ انگریزوں کی وجہ سے یہ صاف نظر آتا تھا کہ پارلیمانی طرزِ حکومت ہی مستقبل کا نظامِ حکومت ہو گا۔ پارلیمانی طرزِ حکومت میں اکثریت ہی حکومت بناتی ہے۔
برِ صغیر میں چونکہ ہندوؤں کی اکثریت تھی اس لیے خدشہ تھا کہ مسلمان انگریزوں سے آزادی کے بعد ہندوؤں کی غلامی میں نہ چلے جائیں۔اس خیال کے پیشِ نظر مسلمانوں کی ایک سیاسی جماعت کی شدید ضرورت محسوس ہوئی۔
مسلمانوں کو جدید تعلیم کی طرف راغب کرنے کے لیے بنائی گئی ایجوکیشنل کانفرنس کے ڈھاکہ میں 1906میں منعقدہ ایک اجلاس میں طے پایا کہ وہیں اسی وقت آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا جائے۔
یوں مسلمانوں کی ایک سیاسی جماعت کی بنیاد تو رکھ دی گئی لیکن مسلمانوں کو سیاسی جدو جہد کے لیے تیار کرنے کا کام بوجوہ نہ ہوسکا۔اس جماعت میں مسلمان عوام کیrepresentationکرنے والا کوئی نہیں تھا۔
دو تین دہائیوں تک یہی صورتحال رہی۔کہیں 1940 کے قریب اس جماعت کی گراس روٹ لیول پر تھوڑی سی پذیرائی ہونی شروع ہوئی۔یہ بھی تب ہوا جب مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کے مطالبے نے زور پکڑا۔ہماری سیاسی پارٹیاں مغربی طرزِ جمہوریت کے خطوط پر استوار ہوئی ہیں لیکن عوامی سمجھ بوجھ کے انتہائی فقدان کی وجہ سے عوام اپنے صحیح نمایندے اسمبلیوں میں نہیں بھیج پاتے۔شعور اور آگہی کے بغیر ووٹ کا حق بہت مسائل پیدا کرتا ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک میں جتنے حکومتی نظام ہیں،جمہوریت ان سب میں بہترین نظامِ حکومت دکھائی دیتا ہے۔قرآن میں رب تعالیٰ حکم فرماتے ہیں کہ اپنے معاملات شوریٰ بینہم یعنی آپسی مشاورت سے چلاؤ۔جمہوریت میں ہر کوئی حکومت کی تشکیل میں حصہ دار ہوتا ہے کیونکہ وہ وفاقی، صوبائی اور لوکل گورنمنٹ یعنی ہر سطح پر اپنے نمایندوں کا انتخاب کرتا ہے،یوں ہر فرد پر حکومت بنانے کی ذمے داری ہوتی ہے۔
مشہور انگریز شاعر اور پولیٹیکل ایکٹوسٹ بائرن نے کہا تھا کہ جمہوریت میں حکومت عوام کی ہوتی ہے۔یہ عوام کے براہِ راست انتخاب سے تشکیل پاتی ہے اور عوام کے لیے ہوتی ہے لیکن ایسی حکومت تبھی عوام کی امنگوں کے مطابق ہوتی ہے جب عوام باشعور اور ان کی اکثریت صاحب الرائے ہو۔
ایک مشہور ہندو فلاسفر نے جمہوریت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ جمہوری نظام میں تمام اختیار عوام کے نمایندوں کے پاس ہوتا ہے لیکن اگر عوام کند ذہن، نکمے، جاہل، بے شعور یعنی ریٹارڈڈ Retarded ہوں تو پھر کیا یہ ایک ریٹارڈڈ لوگوں کی بنائی ہوئی ریٹارڈڈ حکومت نہیں ہوگی۔ مسلم لیگ کی پاکستان کے لیے جدوجہد میں مسلم عوام کی تربیت بالکل نہیں کی گئی۔
مغربی استعمار نے سب سے پہلے بنگال میں قدم جمائے۔مغربی تعلیم اور مغربی Thought بھی سب سے پہلے وہیں متعارف ہوا۔ برِ صغیر کے وہ حصے جو اس وقت مملکتِ خداداد پاکستان میں شامل ہیں یہاں پر مغربی تعلیم کی روشنی اور اس کے اثرات سب سے آخر میں پہنچے،اس لیے ہم مغربی طرز کی پارلیمانی جمہوریت کے لیے تیار نہیں تھے۔
پاکستان میں پارلیمانی جمہوری نظام ایک انتہائی مہنگا عمل ہے۔قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبران کی تنخواہیں اور مراعات اربوں روپے میں جاتی ہیں۔ چونکہ یہ طبقہ قانون ساز ہے اس لیے ممبران جب چاہتے ہیں ان تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کر لیتے ہیں۔
اس معاملے میں ان کے درمیان کبھی کوئی اختلاف/ جھگڑا نہیں ہوا۔جتنی وزارتیں ہوں گی اتنی ہی اسٹینڈنگ کمیٹیاں ہوتی ہیں۔ان اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے چیئرمینوں کی مراعات بھی بے شمار ہوتی ہیںان کے لیے الگ دفاتر اور عملہ ہوتا ہے۔وزیروں ،وزیرِ مملکتوں اور ایڈوائزروں کی فوج ظفر موج اپنی وزارت سے گاڑیاں اور سہولتیں لینے کے علاوہ وزارت کے ماتحت محکموں سے بھی گاڑیاں لیتے اور مستفید ہوتے ہیں۔
ان کے علاوہ پارلیمانی سیکریٹریوں کے لیے بھی ایسی ہی مراعات عوام کے اوپر بوجھ بنتی ہیں۔یہی حال صوبائی اسمبلیوں بشمول آزاد کشمیر اسمبلی،گلگت،بلتستان اسمبلی کا ہے۔غرضیکہ اخراجات ہی اخراجات ہیں لیکن حاصل کچھ بھی نہیں۔تمام اسمبلیوں کے اجلاس جب جب بھی ہوتے ہیں،ممبران اور اسمبلی اسٹاف کو تنخواہوں اور مراعات کے علاوہ سات دن پہلے سے خصوصی الاؤنس ملنا شروع ہو جاتا ہے اور یہ خصوصی الاؤنس اجلاس کے اختتام کے سات دن بعد تک ملتا رہتا ہے۔
پاکستان میں جمہوریت کے نام پر جو اخراجات کیے جاتے ہیں وہی فنڈز اگر عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبے بنا کر خرچ کیے جائیں تو پاکستان کی دھرتی کا حسن نکھر جائے۔یہ سارا کچھ برداشت کیا جا سکتا ہے اگر جمہوریت کے ثمرات عوام تک پہنچ رہے ہوتے اور ہمارے سیاسی و غیر سیاسی زعما پاکستان کو ایک خوشحال فلاحی مملکت بنانے میں کامیاب ہوئے ہوتے لیکن معیشت ڈوب چکی ہے۔
پہلے لیے ہوئے قرضے اتارنے کے لیے نئے قرضوں کی بھیک مانگنی پڑتی ہے۔ہمارے ذہنی پسماندہ عوام اپنے اپنے پسندیدہ رہنماء سے یہ نہیں پوچھتے کہ جو قرضے لیے گئے ہیں وہ کہاں خرچ ہوئے۔ہم مسلسل رومانس کیے جا رہے ہیں۔ بلاوجہ کسی رہنماء کے گرویدہ ہو جاتے ہیں اور پھر اسی کے آستانے پر پڑے رہتے ہیں۔ہم کارکردگی اور قابلیت بالکل نہیں دیکھتے۔
اندھا دھند تقلید شاید ہمارے خمیر میں ہے،اسی لیے ہم پارلیمانی جمہوریت کے اہل نہیں۔ آمروں اور نااہل سیاست دانوں نے مل کر ملک کو تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا ہے۔ہم اپنے مختصر قومی سفر میں کئی طرح کے نظامِ حکومت آزما چکے ہیں۔
ہم صدارتی نظام کو دیکھ چکے اور آمریتوں کو بھی بھگت چکے ہیں۔ پارلیمانی جمہوریت کو تو مسلسل بھگت رہے ہیں۔صرف بادشاہت رہ گئی ہے لیکن دنیا بھر میں بادشاہتیں زوال پذیر اور دباؤ میں ہیں۔بہرحال ایک بات کھل کر سامنے ہے کہ ہم جمہوریت کی نیلم پری کے بالکل اہل نہیں۔ہم اس کے لیے بنے ہی نہیں۔اگر عوام باشعور،آگاہ اور چوکنے ہوں تو ہر نظام میں کام چل سکتا ہے۔
ہمارے لیے پارلیمانی جمہوریت کسی طرح بھی مفید نہیں۔ہم نیچے ہی نیچے جا رہے ہیں اور حقیقی خطرہ ہے کہ ہم اس پیارے ملک کو مزید کمزور نہ کر دیں۔پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان جاں بلب ہے اور ہم ہیں کہ جمہوریت کا فیشن اپنائے ہوئے ہیں۔ہمیں ہر حال میں ملک کو بچانا ہوگا۔وقتی طور پر جمہوریت کو خیرباد کہہ کر چین کی طرز پر کوئی راستہ نکالنا ہو گا۔
فرانس میں بھی صدر بہت با اختیار ہے اور وزیرِ اعظم کی وہ وقعت نہیں جو کسی سربراہِ حکومت کی ہوتی ہے۔برطانیہ میں بادشاہت ہے لیکن بادشاہ برائے نام ریاستِ برطانیہ کا سربراہ ہے۔بادشاہ کے اوپر لازم ہے کہ وزیرِ اعظم کی ایڈوائس پر چلے۔سعودی عرب، اردن،عرب امارات،مسقط اور دوسرے کئی ممالک میں مطلق العنان بادشاہت ہے ۔روس میں صدر ہی سب کچھ ہے۔
چین میں ایک سیاسی پارٹی کی حکومت ہے۔وہاں کیمونسٹ پارٹی نے ملک کی باگ ڈور سنبھال رکھی ہے۔چین کی کیمونسٹ پارٹی نے پچھلے ساٹھ ستر سالوں میں آبادی کی اکثریت کو خطِ غربت کے نیچے سے اُٹھا کر خوشحالی کی منازل سے ہمکنار کیا ہے۔
وہاں تمام اہم فیصلے کیمونسٹ پارٹی کے سالانہ اجلاس میں ہوتے ہیں۔ چینی حکومت ان فیصلوں پر عمل درآمد کرتی اور کرواتی ہے۔اسی طرح افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکا کے کئی ممالک میں فوج اقتدار پر قبضہ کرتی رہی ہے۔ ایسے میںعوامی اقتدار کی بحالی کے لیے ایک لمبی جدوجہد درکار ہوتی ہے۔
1947 میں آزادی سے پہلے یہاں انگریزوں کا قبضہ تھا۔انگلستان میں صدیوں پر محیط سیاسی جد و جہد کے نتیجے میں ایک مضبوط سیاسی عمل اور کلچر پروان چڑھ چکا تھا۔ انگریزوں نے اپنے نظامِ حکومت کی طرز پر اپنے راج کے دنوں میں برصغیر میں بھی سیاسی جدوجہد کا راستہ دکھایا۔ 1875 میں پہلی سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کی بنیاد رکھی گئی۔
انڈین نیشنل کانگریس نے آزادی کی جدوجہد میں بھرپور کردار ادا کیا،لیکن کانگریس کے ہندو زعماء کے رویوں سے مسلمانوں نے محسوس کیا کہ کانگریس در اصل ہندوؤں کی جماعت ہے۔ انگریزوں کی وجہ سے یہ صاف نظر آتا تھا کہ پارلیمانی طرزِ حکومت ہی مستقبل کا نظامِ حکومت ہو گا۔ پارلیمانی طرزِ حکومت میں اکثریت ہی حکومت بناتی ہے۔
برِ صغیر میں چونکہ ہندوؤں کی اکثریت تھی اس لیے خدشہ تھا کہ مسلمان انگریزوں سے آزادی کے بعد ہندوؤں کی غلامی میں نہ چلے جائیں۔اس خیال کے پیشِ نظر مسلمانوں کی ایک سیاسی جماعت کی شدید ضرورت محسوس ہوئی۔
مسلمانوں کو جدید تعلیم کی طرف راغب کرنے کے لیے بنائی گئی ایجوکیشنل کانفرنس کے ڈھاکہ میں 1906میں منعقدہ ایک اجلاس میں طے پایا کہ وہیں اسی وقت آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا جائے۔
یوں مسلمانوں کی ایک سیاسی جماعت کی بنیاد تو رکھ دی گئی لیکن مسلمانوں کو سیاسی جدو جہد کے لیے تیار کرنے کا کام بوجوہ نہ ہوسکا۔اس جماعت میں مسلمان عوام کیrepresentationکرنے والا کوئی نہیں تھا۔
دو تین دہائیوں تک یہی صورتحال رہی۔کہیں 1940 کے قریب اس جماعت کی گراس روٹ لیول پر تھوڑی سی پذیرائی ہونی شروع ہوئی۔یہ بھی تب ہوا جب مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کے مطالبے نے زور پکڑا۔ہماری سیاسی پارٹیاں مغربی طرزِ جمہوریت کے خطوط پر استوار ہوئی ہیں لیکن عوامی سمجھ بوجھ کے انتہائی فقدان کی وجہ سے عوام اپنے صحیح نمایندے اسمبلیوں میں نہیں بھیج پاتے۔شعور اور آگہی کے بغیر ووٹ کا حق بہت مسائل پیدا کرتا ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک میں جتنے حکومتی نظام ہیں،جمہوریت ان سب میں بہترین نظامِ حکومت دکھائی دیتا ہے۔قرآن میں رب تعالیٰ حکم فرماتے ہیں کہ اپنے معاملات شوریٰ بینہم یعنی آپسی مشاورت سے چلاؤ۔جمہوریت میں ہر کوئی حکومت کی تشکیل میں حصہ دار ہوتا ہے کیونکہ وہ وفاقی، صوبائی اور لوکل گورنمنٹ یعنی ہر سطح پر اپنے نمایندوں کا انتخاب کرتا ہے،یوں ہر فرد پر حکومت بنانے کی ذمے داری ہوتی ہے۔
مشہور انگریز شاعر اور پولیٹیکل ایکٹوسٹ بائرن نے کہا تھا کہ جمہوریت میں حکومت عوام کی ہوتی ہے۔یہ عوام کے براہِ راست انتخاب سے تشکیل پاتی ہے اور عوام کے لیے ہوتی ہے لیکن ایسی حکومت تبھی عوام کی امنگوں کے مطابق ہوتی ہے جب عوام باشعور اور ان کی اکثریت صاحب الرائے ہو۔
ایک مشہور ہندو فلاسفر نے جمہوریت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ جمہوری نظام میں تمام اختیار عوام کے نمایندوں کے پاس ہوتا ہے لیکن اگر عوام کند ذہن، نکمے، جاہل، بے شعور یعنی ریٹارڈڈ Retarded ہوں تو پھر کیا یہ ایک ریٹارڈڈ لوگوں کی بنائی ہوئی ریٹارڈڈ حکومت نہیں ہوگی۔ مسلم لیگ کی پاکستان کے لیے جدوجہد میں مسلم عوام کی تربیت بالکل نہیں کی گئی۔
مغربی استعمار نے سب سے پہلے بنگال میں قدم جمائے۔مغربی تعلیم اور مغربی Thought بھی سب سے پہلے وہیں متعارف ہوا۔ برِ صغیر کے وہ حصے جو اس وقت مملکتِ خداداد پاکستان میں شامل ہیں یہاں پر مغربی تعلیم کی روشنی اور اس کے اثرات سب سے آخر میں پہنچے،اس لیے ہم مغربی طرز کی پارلیمانی جمہوریت کے لیے تیار نہیں تھے۔
پاکستان میں پارلیمانی جمہوری نظام ایک انتہائی مہنگا عمل ہے۔قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبران کی تنخواہیں اور مراعات اربوں روپے میں جاتی ہیں۔ چونکہ یہ طبقہ قانون ساز ہے اس لیے ممبران جب چاہتے ہیں ان تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کر لیتے ہیں۔
اس معاملے میں ان کے درمیان کبھی کوئی اختلاف/ جھگڑا نہیں ہوا۔جتنی وزارتیں ہوں گی اتنی ہی اسٹینڈنگ کمیٹیاں ہوتی ہیں۔ان اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے چیئرمینوں کی مراعات بھی بے شمار ہوتی ہیںان کے لیے الگ دفاتر اور عملہ ہوتا ہے۔وزیروں ،وزیرِ مملکتوں اور ایڈوائزروں کی فوج ظفر موج اپنی وزارت سے گاڑیاں اور سہولتیں لینے کے علاوہ وزارت کے ماتحت محکموں سے بھی گاڑیاں لیتے اور مستفید ہوتے ہیں۔
ان کے علاوہ پارلیمانی سیکریٹریوں کے لیے بھی ایسی ہی مراعات عوام کے اوپر بوجھ بنتی ہیں۔یہی حال صوبائی اسمبلیوں بشمول آزاد کشمیر اسمبلی،گلگت،بلتستان اسمبلی کا ہے۔غرضیکہ اخراجات ہی اخراجات ہیں لیکن حاصل کچھ بھی نہیں۔تمام اسمبلیوں کے اجلاس جب جب بھی ہوتے ہیں،ممبران اور اسمبلی اسٹاف کو تنخواہوں اور مراعات کے علاوہ سات دن پہلے سے خصوصی الاؤنس ملنا شروع ہو جاتا ہے اور یہ خصوصی الاؤنس اجلاس کے اختتام کے سات دن بعد تک ملتا رہتا ہے۔
پاکستان میں جمہوریت کے نام پر جو اخراجات کیے جاتے ہیں وہی فنڈز اگر عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبے بنا کر خرچ کیے جائیں تو پاکستان کی دھرتی کا حسن نکھر جائے۔یہ سارا کچھ برداشت کیا جا سکتا ہے اگر جمہوریت کے ثمرات عوام تک پہنچ رہے ہوتے اور ہمارے سیاسی و غیر سیاسی زعما پاکستان کو ایک خوشحال فلاحی مملکت بنانے میں کامیاب ہوئے ہوتے لیکن معیشت ڈوب چکی ہے۔
پہلے لیے ہوئے قرضے اتارنے کے لیے نئے قرضوں کی بھیک مانگنی پڑتی ہے۔ہمارے ذہنی پسماندہ عوام اپنے اپنے پسندیدہ رہنماء سے یہ نہیں پوچھتے کہ جو قرضے لیے گئے ہیں وہ کہاں خرچ ہوئے۔ہم مسلسل رومانس کیے جا رہے ہیں۔ بلاوجہ کسی رہنماء کے گرویدہ ہو جاتے ہیں اور پھر اسی کے آستانے پر پڑے رہتے ہیں۔ہم کارکردگی اور قابلیت بالکل نہیں دیکھتے۔
اندھا دھند تقلید شاید ہمارے خمیر میں ہے،اسی لیے ہم پارلیمانی جمہوریت کے اہل نہیں۔ آمروں اور نااہل سیاست دانوں نے مل کر ملک کو تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا ہے۔ہم اپنے مختصر قومی سفر میں کئی طرح کے نظامِ حکومت آزما چکے ہیں۔
ہم صدارتی نظام کو دیکھ چکے اور آمریتوں کو بھی بھگت چکے ہیں۔ پارلیمانی جمہوریت کو تو مسلسل بھگت رہے ہیں۔صرف بادشاہت رہ گئی ہے لیکن دنیا بھر میں بادشاہتیں زوال پذیر اور دباؤ میں ہیں۔بہرحال ایک بات کھل کر سامنے ہے کہ ہم جمہوریت کی نیلم پری کے بالکل اہل نہیں۔ہم اس کے لیے بنے ہی نہیں۔اگر عوام باشعور،آگاہ اور چوکنے ہوں تو ہر نظام میں کام چل سکتا ہے۔
ہمارے لیے پارلیمانی جمہوریت کسی طرح بھی مفید نہیں۔ہم نیچے ہی نیچے جا رہے ہیں اور حقیقی خطرہ ہے کہ ہم اس پیارے ملک کو مزید کمزور نہ کر دیں۔پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان جاں بلب ہے اور ہم ہیں کہ جمہوریت کا فیشن اپنائے ہوئے ہیں۔ہمیں ہر حال میں ملک کو بچانا ہوگا۔وقتی طور پر جمہوریت کو خیرباد کہہ کر چین کی طرز پر کوئی راستہ نکالنا ہو گا۔