غیر ملکی سرمایہ کاری کی اہمیت

ایس آئی ایف سی سرمایہ کاروں اور سرمایہ کاری میں سہولت کے لیے ’’سنگل ونڈو‘‘ کی سہولت کا کردار ادا کر سکتی ہے

ایس آئی ایف سی سرمایہ کاروں اور سرمایہ کاری میں سہولت کے لیے ’’سنگل ونڈو‘‘ کی سہولت کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ فوٹو: فائل

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے پاکستان کے معاشی استحکام اور ترقی کے لیے سعودی حکومت کی مسلسل حمایت پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل بالخصوص سعودی عرب سے غیر ملکی سرمایہ کاری کو تیز تر کرنے کی بنیاد رکھے گی۔

نگران وزیراعظم سے سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید احمد المالکی نے ملاقات کی اور عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی۔ اس سلسلے میں انھوں نے توانائی، انفرااسٹرکچر، زراعت، آئی ٹی اور افرادی قوت کو تعاون کے ممکنہ شعبوں کے طور پر اجاگر کیا۔

نگراں وزیراعظم نے معاشی پالیسیز کو جاری رکھنے اور انھیں مزید سپورٹ فراہم کرنے کا عندیہ دیا ہے، یہ خوش آیند امر ہے۔ بلاشبہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے بہترین مواقعے موجود ہیں لیکن اس کے لیے سرمایہ کاروں کو بہترین اور محفوظ ماحول اور سازگار فضا کی فراہمی بے حد ضروری ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب نے سرمایہ کاری، توانائی اور تجارت کے شعبوں میں باہمی تعاون کو بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ حکومت اگر امن و امان کی صورتحال کو مزید بہتر بنا دے اور جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنا دے تو بیرونی سرمایہ کار بھی یہاں سرمایہ کاری میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔

معاشی بحالی کے لیے برآمدات بڑھانے والی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کلیدی اہمیت رکھتی ہے، پاکستان نے ہمیشہ سے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ معاشی، دفاعی اور ثقافتی تعلقات کو اولین ترجیح دی ہے۔ خلیج تعاون تنظیم کے ممالک کا پاکستان کی معیشت میں ایک اہم کردار ہے جو توانائی کی درآمدات اور غیر ملکی زرمبادلہ کا اہم ذریعہ ہیں۔ پاکستانی ورکرز کی سب سے زیادہ تعداد انھی ممالک میں رہائش پذیر ہے۔

بالخصوص سعودی وژن 2030 کے تحت خلیجی ریاستوں میں جاری اقتصادی تنوع اور علاقائی مفاہمت کا عمل پاکستان کے لیے بے تحاشا مواقعے فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جن کے ذریعے جی سی سی کو ترقیاتی شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کیا جا سکتا ہے جب کہ جی سی ریاستوں میں ہنرمند افراد قوت بھجوانے اور تجارتی اشیا کی برآمد کے لیے بھی یہ ایک اہم موقع ہے۔

پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت جی سی سی معیشتوں کی جانب سے ہونے والی سرمایہ کاری کی اہمیت سے واقف ہیں اور انھیں علم ہے کہ ملک کی بحران زدہ معیشت کو پائیدار ترقی کی طرف گامزن کرنے میں یہ اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔

اس اہم اقدام کے ساتھ ساتھ پاکستان سوورین ویلتھ فنڈ (خود مختار دولت کا فنڈ) قائم کرنے کے علاوہ عرب امارات کے ساتھ جامع اقتصادی شراکت داری کا معاہدہ بھی طے پا گیا ہے۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان جی سی سی کے کلیدی معاشی کردار پر اتفاق کو اس ٹھوس پیش رفت کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے جو موجودہ دور میں معاشی، سیاسی، سیکیورٹی اور خارجہ پالیسی کے فرنٹ پر ہوئی ہے۔

سابقہ وفاقی کابینہ نے پاکستان انویسٹمنٹ پالیسی 2023 کے تحت غیرملکی سرمایہ کاروں کو 6 صنعتوں کے علاوہ تمام شعبوں میں سرمایہ کاری کی اجازت دی ہے، پالیسی کا مقصد 20 سے 25 ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کرنا ہے۔

نئی پالیسی میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے کم سے کم ایکویٹی کی شرح ختم کردی گئی ہے، دوسری جانب حکومت نے غیرملکی سرمایہ کاروں کو پورا منافع اپنے ملک کی کرنسی میں بیرون ملک بھیجنے کی اجازت دی ہے۔

کسی بھی ملک کی معاشی ترقی اور استحکام کے لیے سرمایہ کاری بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ سرمایہ کار کمپنیاں جب اپنا سرمایہ مختلف شعبہ جات میں لگاتی ہیں تو اس سے پیداواری عمل بڑھتا ہے، پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے، برآمدات بڑھتی ہیں، روزگار کے مواقعے پیدا ہوتے ہیں، سرمایہ جنریٹ ہوتا ہے اور مقامی کرنسی مضبوط ہوتی ہے۔

پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں معاشی بدحالی پیدا ہوگئی۔ معیشت کا پہیہ رک گیا، امن و امان کی صورتحال خراب ہونے اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ کی وجہ سے سرمایہ کاروں میں عدم تحفظ کا احساس جاگزیں ہوگیا جس کی وجہ سے سرمایہ کاری کا عمل رک گیا اور اس کے اثرات براہ راست ملکی معیشت پر مرتب ہوئے۔

بے روزگاری بڑھ گئی اور عوامی مسائل نے عوامی زندگی کو بری طرح متاثر کیا۔ ان حالات میں چند روز قبل رخصت ہونے والی پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت نے سرمایہ کاروں کو ترغیب دینے اور انھیں ملک میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے متعدد اقدامات اٹھائے، اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے راستے میں رکاوٹیں دور کرنے کے لیے اسپیشل انوسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) قائم کی، جس کے قیام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ زراعت، لائیو اسٹاک، معدنیات، کان کنی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، توانائی اور زرعی پیداوار جیسے شعبوں میں پاکستان کی اصل صلاحیت سے استفادہ کیا جائے۔

ان شعبوں کے ذریعے پاکستان کی مقامی پیداواری صلاحیت اور دوست ممالک سے سرمایہ کاری بڑھائی جائے گی۔


پاکستان کے معاشی مسائل کا حل پیش کرنا اور اس پر صحیح معنوں میں عمل درآمد کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ معاشی صورتحال تشویش ناک ہے۔

چاروں اطراف سے مسائل میں گھری پاکستانی معیشت روز بروز دلدل میں دھنستی دکھائی دے رہی ہے، اگر اسے دلدل سے نکالنے کے لیے بروقت انتظامات نہ کیے گئے تو شاید خوشحالی اور ترقی پاکستانی عوام کے لیے ایک خواب ہی بن کر رہ جائے۔ حالات نارمل نہیں ہیں لیکن ''اجے ڈُلے بیراں دا کج نئیں بگڑیا۔''

ایس آئی ایف سی سرمایہ کاروں اور سرمایہ کاری میں سہولت کے لیے ''سنگل ونڈو'' کی سہولت کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ سرمایہ کاری کے لیے سنگل ونڈو کی سہولت ایک انقلابی قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ بھارت نے نوے کی دہائی میں من موہن سنگھ کی سربراہی میں جب معاشی اصلاحات کی تھیں تو سرمایہ کاروں کے لیے سنگل ونڈو سہولت فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

سرمایہ کاروں اور سرکار کے درمیان سرکاری بابوؤں کی رکاوٹیں ہٹائی گئیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگر کسی فیکٹری کو رجسٹر کروانے میں تین سے چار ماہ کا وقت لگتا تھا وہ صرف ایک دن میں رجسٹر ہونے لگی۔ ہندوستانی معیشت کو بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے کھول دیا گیا۔ ان کے لیے ایک خصوصی شکایت سیل بنایا گیا۔

جہاں سرمایہ کاروں کی شکایات پر چوبیس گھنٹوں کے اندر ایکشن لیا جاتا تھا۔ ان اقدامات سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا اور 1992 میں دیوالیہ ہونے کے قریب ہندوستانی معیشت آج تقریبا ساڑھے پانچ سو ارب ڈالرز سے زیادہ کے ذخائر رکھتی ہے۔

برطانیہ کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن گئی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہندوستان کی ترقی میں صرف سرمایہ کاروں کو سہولت ہی واحد وجہ ہے۔ بہت سے عوامل نے مل کر اسے یہاں تک پہنچایا ہے لیکن سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال رکھنا انتہائی اہم اور بنیادی وجہ ثابت ہوئی ہے۔

پاکستان کی نئی حکمت عملی بہتر دکھائی دے رہی ہے۔ عرب دوست ممالک پاکستان میں زراعت اور لائیو اسٹاک میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

روس اور ایران سے نئے تجارتی معاہدے، چینی کرنسی میں تیل کی ادائیگی، سولہ پاکستانی کمپنیوں کو روس چاول برآمد کرنے کی اجازت اور پاکستانی گوشت کی روسی مارکیٹوں تک رسائی اس بڑے معاشی منصوبے کی طرف پہلے ہی اشارہ کر رہے تھے۔ دور حاضر میں تصورات اور نظریات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔

جنگ اب میدان نہیں ابلاغی اور معاشی محاذ پر لڑی جاتی ہے۔ مضبوط معیشت کسی بھی ملک کو سپر پاور کا درجہ دے سکتی ہے۔

1990میں جنوبی ایشیا کے ممالک میں ڈائریکٹ غیرملکی سرمایہ کاری شروع ہوئی اور نئی منڈیوں کی تلاش میں سرگرداں مغربی کمپنیوں نے بھارت چین سمیت خطے کے تمام ممالک میں اپنی فیکٹریاں اور آؤٹ لیٹ بنانے شروع کر دیے، مگر بدقسمتی سے پاکستانی معیشت سیاسی اتار چڑھاؤ اور خطے کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال کی وجہ سے غیر یقینی کا شکار رہی۔

ملک کی معاشی سمت درست کرنے کے لیے صرف اعلانات کردینا کافی نہیں ہے بلکہ کاروبار کرنے کا ماحول بنانا بھی ضروری ہے۔

اس وقت شرح سود اکیس فیصد سے زائد ہے۔ اس شرح کے ساتھ بینکوں سے قرض لے کر کاروبار کرنے سے مطلوبہ منافع کمانے کے امکانات کم ہیں۔ مہنگائی کم ہونے سے شرح سود میں کمی لانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

بیرونی سرمایہ کاروں کو سہولیات فراہم کر دینا کافی نہیں۔ جب تک مقامی سرمایہ کاروں کو سہولت نہیں دی جائے گی، معیشت کا پہیہ چلنا مشکل ہوسکتا ہے، جو صرف شرح سود کم ہونے سے ہی ممکن ہے۔ اس فیصلے پر بینکوں کو اعتراض ہوسکتا ہے لیکن پچھلے چھ ماہ سے بینکوں نے جتنا پیسہ کمایا ہے وہ بھی ایک ریکارڈ ہے۔

تقریباً تمام شعبے مالی مشکلات کا شکار رہے لیکن بینکنگ شعبہ بہترین منافع کماتا رہا۔ امید کی جا سکتی ہے کہ اب وہ قربانی دینے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ معیشت کے پلان بی کو کامیاب بنانے کے لیے سب کو اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ اسی صورت میں ملک پر موجودہ فیصلوں کے مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور ملک اپنے پیروں پرکھڑا ہو سکتا ہے۔
Load Next Story