سی‘ ایچ‘ آتما‘ ایک بھولا بسرا گلوکار
سی۔ایچ۔آتما وہ پہلے گلوکار تھے جنھوں نے انڈیا سے باہر جا کر بھی اسٹیج پروگرام کیے اور بہت شہرت کمائی
شعور کی آنکھ کھولی تو کتابوں اور موسیقی کوگھر میں پایا کہ یہ دونوں شوق میرے والد کے تھے، ویسے تو گھر میں سب ہی اچھی موسیقی اور اچھی کتابیں پڑھتے تھے، دادی جان کو الف لیلا، باغ و بہار، داستان امیر حمزہ اور فسانۂ عجائب زبانی یاد تھیں اور وہ ہمیں وہ کہانیاں سناتی بھی تھیں، میرے بڑے بھائی کو سند باد جہازی کے قصے بہت پسند تھے۔
بچپن ہی میں ماسٹر مدن اورکندن لعل سہگل کے گیت کانوں میں رس گھولتے تھے، یہ وہ دور تھا جب ہرگلوکار سہگل بننا چاہتا تھا، شملہ میں میرے والد اور بخاری صاحب سہگل کے ذاتی دوست تھے، موسیقی کی محفلوں میں والد اور بخاری صاحب ہمیشہ ساتھ ساتھ ہوتے تھے، والد بتاتے تھے کہ ان دنوں سہگل کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا، ہر نیا گلوکار سہگل کی طرح گانا چاہتا تھا، ان میں مکیش سرفہرست ہے۔
جنھوں نے اپنی پہلی فلم '' پہلی نظر'' میں ایک گیت '' دل جلتا ہے تو جلنے دے، آنسو نہ بہا فریاد نہ کر'' اس خوب صورتی سے گایا کہ جب سہگل کو یہ گیت سنایا گیا تو وہ بولے: ''مجھے یاد نہیں آ رہا کہ یہ گیت میں نے کب گایا تھا۔''
یہ مکیش کی بہت بڑی کامیابی تھی، پھر ایک اور گیت فلم ''آگ'' کا ۔۔۔۔ یہ گیت '' زندہ ہوں اس طرح کہ غمِ زندگی نہیں'' بھی مکیش نے سہگل کی آواز میں گایا تھا، اس گیت کو لکھا تھا جناب بہزاد لکھنوی نے لیکن بعد میں مکیش نے اپنا اسٹائل بدل لیا اور اپنی خود کی آواز میں گانے لگے جو بے حد دلکش اور سریلی تھی۔
لیکن ایک گلوکار ایسے بھی تھے جنھوں نے آخر تک سہگل ہی کے انداز و آواز میں گیت گائے، ان کی آواز قدرتی طور پر سہگل سے بہت ملتی تھی۔ وہ گائیک تھے سی۔ ایچ۔ آتما۔ میرے بڑے بھائی، سہگل، مکیش اور سی۔ایچ۔آتما کو بہت پسند کرتے تھے اور جو بھی نیا ریکارڈ بازار میں آتا وہ خرید لاتے۔ سی۔ایچ۔آتما کا اصلی نام آتما حشمت رائے چینانی تھا، لیکن انھوں نے اپنا نام بدل کر سی۔ایچ۔آتما رکھ لیا تھا۔ وہ 3 دسمبر 1923 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔
یہ وہ دور تھا جب ہر طرف کندن لعل سہگل کی دھوم تھی، انھوں نے گائیکی محض شوق میں اپنائی تھی اور ان کی گائیکی کا اتنا شہرہ ہوا کہ لاہور میں ان کو بلا کر H.M.V نے ان کے گانے ریکارڈ کروائے، سی ایچ آتما کے گانوں کی دھوم ملک بھر میں پھیل رہی تھی، لیکن انھوں نے ساری عمر صرف اور صرف سہگل کے انداز ہی کو اپنایا اور پھر ان کی آواز تھی بھی سہگل جیسی۔ H.M.V کا یہ البم او۔پی نیّر کے میوزک میں تھا، البم کا نام تھا ''پریتم آن ملو دکھیا جیا بلائے'' یہ ایک پرائیویٹ البم تھا جو بہت مقبول ہوا۔
یہ البم 1945 میں ریلیز ہوا تھا، بٹوارے کے بعد سی۔ ایچ۔ آتما کا گھرانہ کراچی سے پونے چلا گیا۔ پریتم آن ملو بہت مقبول ہو رہا تھا اور اس کی بے تحاشا مانگ تھی اور وہ خوب بک رہا تھا۔ لاہور میں اس وقت کے مشہور فلم ساز دل سکھ پنچولی کا اپنا ایک اسٹوڈیو ہوا کرتا تھا جہاں انھوں نے یملا جٹ، خاندان، زمیندار اور خزانچی جیسی سپرہٹ فلمیں بنائی تھیں، یہ فلمیں دل سکھ پنچولی آرٹ کے بینر تلے بنائی گئی تھیں، انھوں نے پنجابی اور اردو کئی سپرہٹ فلمیں لوگوں کو دیں جو سب کی سب بے حد مقبول ہوئیں۔
ان فلموں سے اداکار پران اور منورما، گلوکارہ شمشاد بیگم اور ماسٹر غلام حیدر نے بھی فلمی میدان میں قدم رکھا۔ تقسیم کے بعد پنچولی بھی بمبئی چلے آئے تھے۔
سی۔ ایچ۔ آتما نوکری کی غرض سے کلکتہ چلے گئے تھے جہاں وہ کو پائلٹ کی حیثیت سے کام کر رہے تھے، لیکن دل سکھ پنچولی، سی ایچ آتما کے البم '' پریتم آن ملو '' کی کامیابی سے اس درجے متاثر تھے کہ انھوں نے 1951 میں بنائی جانے والی فلم '' نگینہ'' کے لیے انھیں کلکتے سے بمبئی بلوا لیا تھا، نگینہ میں شنکر جے کشن کے سنگیت میں سی۔ ایچ۔ آتما کے تین گیت ریکارڈ ہوئے جن میں تینوں گیت بہت مقبول ہوئے:
(1)۔ روؤں میں ساگر کے کنارے، ساگر ہنسی اڑائے
(2)۔ دل بے قرار ہے مرا
(3)۔ اک ستارہ ہے آکاش میں
یہ تینوں گیت بہت مقبول ہوئے۔
1952 میں دل سکھ پنچولی نے فلم ''آسمان'' کے لیے اوپی نیّر کو موسیقی دینے کو کہا۔ اوپی نیّر اس سے پہلے فلم کنیز کا بیک گراؤنڈ میوزک دے چکے تھے اور '' پریتم آن ملو'' البم میں بھی انھی کا سنگیت تھا۔ 1952 میں فلم ''آسمان'' میں ان کے تین سولو گانے تھے جو بہت مقبول ہوئے تھے:
(1)۔
اس بے وفا جہاں میں وفا ڈھونڈتے رہے
ناداں تھے ہم بھی کتنے کہ کیا ڈھونڈتے رہے
(2)۔
کچھ سمجھ نہیں آئے موہے اس دنیا کی بات
(3)۔
روؤں میں ساگر کے کنارے
ساگر ہنسی اڑائے
فلم ''آسمان'' سے ہی مشہور اداکارہ آشا پاریکھ نے بھی بہ طور چائلڈ اسٹار اپنا فلمی کیریئر شروع کیا تھا۔ 1954 میں ہی دل سکھ پنچولی نے سی۔ ایچ۔ آتما کو بہ طور ہیرو اپنی فلم '' بھائی صاحب'' میں کاسٹ کیا تھا، ان کے ساتھی فنکاروں میں تھے سمرتی بسواس اور پورنیما۔ فلم ''بھائی صاحب'' کے فلم ساز تھے دل سکھ پنچولی کے بھانجے، انھوں نے 26 گجراتی اور 33 اردو فلمیں پروڈیوس کیں۔ 1954 میں وہ فلم '' بلوا منگل'' میں اداکارہ ثریا کے ساتھ بہ طور ہیرو آئے۔ یہ وہی ثریا تھیں جن کی آنکھیں بہت خوب صورت تھیں اور وہ بہت اچھی گلوکارہ بھی تھیں۔
ثریا کو دیو آنند بہت چاہتے تھے اور ان سے شادی کرنا چاہتے تھے، لیکن ثریا کی نانی اس رشتے کے لیے تیار نہ تھیں، عجیب سہانا دور تھا کہ فلمی اداکارہ ہونے کے باوجود وہ کوئی کام اپنی نانی کی مرضی کے خلاف نہیں کرتی تھیں، ثریا اسی طرح نامراد اس دنیا سے چلی گئیں، آخری دنوں میں وہ بہت بیمار پڑ گئی تھیں، لیکن انھیں اب بھی یقین تھا کہ جب وہ گیلری میں جا کر کھڑی ہوں گی، ان کے چاہنے والے انھیں دیکھنے کے لیے فٹ پاتھ پہ کھڑے ہوں گے۔
ایک معروف برطانوی اداکار جن کا نام اس وقت یاد نہیں، شاید وہ گریگوری پیک تھے، جو ثریا کے عشق میں گرفتار ہوگئے تھے اور شادی کرنا چاہتے تھے، لیکن ثریا کا دل تو دیو آنند کے لیے دھڑکتا تھا، انھی کی یاد میں زندگی گزار دی۔
فلم بلوامنگل میں سی۔ ایچ۔ آتما کے آٹھ اور فلم '' بھائی صاحب'' میں انھوں نے چھ گیت گائے، لیکن یہ سب گیت سہگل کی آواز میں تھے، ان کا کہنا تھا کہ ان کی اوریجنل آواز کو کبھی کسی میوزک ڈائریکٹر نے استعمال نہیں کیا۔
اب وہ دور آگیا تھا جب فلمی دنیا میں محمد رفیع، کشور کمار، مکیش اور ''مناڈے'' قدم رکھ چکے تھے اور سہگل کا انداز پرانا ہو گیا تھا۔ اب بھی سی۔ ایچ۔ آتما کو فلموں میں گانے ملتے رہے۔ 1956 کی '' ڈھاکے کی ململ'' سال1955 کی مہاتما کبیر اور سال 1957 کی ''جہازی لٹیرا'' میں انھیں گیت گانے کا موقعہ ملا۔ وہ اپنے دور کے بڑے گلوکار تھے، لیکن سہگل کے انداز کو وہ خود سے الگ نہ کرسکے '' ڈھاکے کی ململ'' کا یہ گیت ''دیا تو جلا ساری رات رے بالم'' بہت مقبول ہوا۔
سی۔ایچ۔آتما وہ پہلے گلوکار تھے جنھوں نے انڈیا سے باہر جا کر بھی اسٹیج پروگرام کیے اور بہت شہرت کمائی۔ نیپال میں جا کر 1957 میں اسٹیج پروگرام کرنے والے وہ پہلے گلوکار تھے۔
ان کی شادی شدہ زندگی کامیاب نہیں رہی جس کا انھیں بہت افسوس رہا۔ سال 1975 میں وہ لندن پروگرام کرنے گئے تو وہاں کا سرد موسم برداشت نہ کرسکے اور 6 دسمبر 1975 کو وہ دنیا چھوڑ گئے۔ سی۔ ایچ۔ آتما کی آواز آج بھی موسیقی سے لگاؤ رکھنے والوں کو یاد رہے گی۔