خدمت خلق کی فضیلت
’’ساری مخلوق اﷲ کا کنبہ ہے، اﷲ کے نزدیک سب سے پسندیدہ بندہ وہ ہے جو اس کی عیال کے لیے سب سے زیادہ نافع ہو۔‘‘
مخلوق خدا کی خدمت، وقت کی ضرورت بھی ہے اور بہت بڑی عبادت بھی۔ کسی انسان کے دکھ درد کو بانٹنا حصولِ جنّت کا ذریعہ ہے۔ کسی زخمی دل پر محبت و شفقت کا مرہم رکھنا اﷲ کی خُوش نودی کا ذریعہ ہے۔
کسی مقروض کے ساتھ تعاون کرنا اﷲ کی رحمتوں اور برکتوں کو حاصل کرنے کا ایک بڑا سبب ہے۔ کسی بیمار کی عیادت کرنا مسلمان کا حق بھی ہے اور سنّت رسول کریم ﷺ بھی۔ کسی بھوکے کو کھانا کھلانا عظیم نیکی اور ایمان کی علامت ہے۔
اﷲ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے، مفہوم:
''اور اﷲ ہی کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ، قرابت داروں، یتیموں، ناداروں، رشتے داروں، ہمسایوں، اجنبیوں، پاس بیٹھنے والوں، مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں، سب کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ بے شک! اﷲ تکبّر کرنے والے اور بڑائی کرنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔'' (سورۃ النسائ)
حضرت عبداﷲ بن عمرو بن عاص رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:
''جو شخص اپنے کسی بھائی کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے اور پانی پلائے گا اﷲ تعالیٰ اسے (دوزخ کی) آگ سے سات خندق جتنے فاصلے کی دُوری پر کردے گا اور دو خندق کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے۔'' (حاکم المستدرک)
اسلام اﷲ تعالی کا نازل کردہ اور پسندیدہ دین ہے، اس دین میں سب سے زیادہ کام یاب انسان اسے کہا گیا ہے جو اپنی دین داری کے ساتھ لوگوں کے لیے زیادہ مفید اور کارآمد ہو۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:
''ساری مخلوق اﷲ کا کنبہ ہے، اﷲ کے نزدیک سب سے پسندیدہ بندہ وہ ہے جو اس کی عیال کے لیے سب سے زیادہ نافع ہو۔'' (المعجم الکبیر)
خدمت خلق کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم پہلی وحی نازل ہونے کے بعد گھر تشریف لائے تو غم گسار شریک حیات ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا نے کیفیت کو دیکھ کر عرض کیا، مفہوم:
''اﷲ تعالی آپ ﷺ کو ہرگز ضایع نہیں کرے گا، کیوں کہ آپ ﷺ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں، بے سہارا لوگوں کی مدد کرتے ہیں، مہمانوں کی خاطر تواضع کرتے ہیں اور آسمانی حوادث میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔'' (بخاری شریف)
ان پانچوں اوصاف جن کا خصوصیت سے ام المومنین خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے تذکرہ کیا ان سب کا تعلق خدمت خلق کے مختلف پہلوؤں سے ہے اس میں حسن سلوک بھی ہے اور بدنی و مالی تعاون بھی ہے۔
رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم:
''اسلام کا بہترین عمل کھانا کھلانا اور سلام کو رواج دینا ہے۔'' (بخاری شریف)
آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا، مفہوم: ''جو آسودہ ہو کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو وہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔'' (المستدرک للحاکم)
حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، نہ دوسرے پر ظلم کرتا ہے نہ اسے (دشمن کے) سپرد کرتا ہے۔ جو مسلمان بھائی کی ضرورت میں کام آئے گا اﷲ تعالیٰ اس کی ضرورت میں کام آئے گا اور جو کسی مسلمان کے رنج اور غم کو دور کرے گا اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی مصیبت کو دور کر دے گا اور جو کسی مسلمان کے عیب چھپائے گا اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیب کو چھپائے گا۔'' (بخاری و مسلم)
حضرت ابُوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ایک فرمان مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:
''اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا، اے آدم کے بیٹے! میں بیمار ہُوا، تُونے میری عیادت نہ کی۔ انسان حیران ہو کر کہے گا: اے میرے رب! تُو تو رب العالمین ہے، میں تیری کس طرح عیادت کرتا۔ پھر اﷲ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہُوا، اگر تُو اس کی عیادت کرتا تو اسے میرے پاس پاتا۔ اﷲ تعالیٰ فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا تُونے مجھے کھانا نہ دیا۔
بندہ عرض کرے گا: اے پروردگار! تُو رب العالمین ہے، تجھے کس طرح کھانا کھلاتا۔ حق تعالیٰ فرمائے گا: کیا یاد نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا، لیکن تُونے اسے کھانا نہ کھلایا، اگر تو اُسے کھانا کھلاتا تو اس کا ثواب میرے یہاں پاتا۔ اسی طرح اﷲ فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے پانی مانگا تو تُونے مجھے پانی نہیں پلایا۔ انسان کہے گا: اے میرے رب! میں تجھے کس طرح پانی پلاتا، جب کہ تو رب العالمین ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرمائے گا: میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا، مگر تُونے اسے پانی نہ پلایا کیا، تجھے معلوم نہیں کہ اگر تُو اسے پانی پلاتا تو اسے میرے پاس پاتا۔'' (مسلم شریف)
خدمت خلق سے بندہ اﷲ کی رضا اور اس کے قرب کا حق دار بن جاتا ہے کہ اﷲ اس شخص کو پسند فرماتا ہے جو انسانوں کے لیے نفع بخش ہو۔ خدمت کا سب سے اہم ترین فائدہ یہ ہے کہ خادم و مخدوم کے درمیان محبت و الفت کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور باہمی قربت بڑھتی ہے۔ اس کے باعث انسان بُرے اخلاق اور اس کے دامن فریب سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔
کبر و نخوت، ظلم و دہشت، جبر و تشدد، جیسی خطرناک بیماریوں کا علاج خدمت خلق کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے۔ خدمت خلق سے محبت و شفقت اور ہم دردی و اخلاص کے علاوہ ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ خدمت خلق کا فائدہ یہ ہے کہ حق تعالی غیب سے ان کی مدد فر ماتا ہے۔
''اور اﷲ تعالیٰ بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے۔'' (صحیح ابن ماجہ للالبانی)
حضرت ابُوموسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''مومن دوسرے مومن کے لیے ایک عمارت کی طرح ہے کہ اس عمارت کا بعض حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کردیتا ہے۔'' (ترمذی شریف)
اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے واضح لفظوں میں ارشاد فرمایا، مفہوم:
''لوگوں میں بہترین شخص وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے۔'' (کنزالعمال)
اﷲ پاک نعمتوں کو بانٹنے سے بڑھاتا ہے، کم نہیں کرتا تو ہمیں اﷲ پاک کی رضا کی خاطر خدمت خلق کے لیے ہر وقت کوشاں رہنا چاہیے۔
کسی مقروض کے ساتھ تعاون کرنا اﷲ کی رحمتوں اور برکتوں کو حاصل کرنے کا ایک بڑا سبب ہے۔ کسی بیمار کی عیادت کرنا مسلمان کا حق بھی ہے اور سنّت رسول کریم ﷺ بھی۔ کسی بھوکے کو کھانا کھلانا عظیم نیکی اور ایمان کی علامت ہے۔
اﷲ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے، مفہوم:
''اور اﷲ ہی کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ، قرابت داروں، یتیموں، ناداروں، رشتے داروں، ہمسایوں، اجنبیوں، پاس بیٹھنے والوں، مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں، سب کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ بے شک! اﷲ تکبّر کرنے والے اور بڑائی کرنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔'' (سورۃ النسائ)
حضرت عبداﷲ بن عمرو بن عاص رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:
''جو شخص اپنے کسی بھائی کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے اور پانی پلائے گا اﷲ تعالیٰ اسے (دوزخ کی) آگ سے سات خندق جتنے فاصلے کی دُوری پر کردے گا اور دو خندق کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے۔'' (حاکم المستدرک)
اسلام اﷲ تعالی کا نازل کردہ اور پسندیدہ دین ہے، اس دین میں سب سے زیادہ کام یاب انسان اسے کہا گیا ہے جو اپنی دین داری کے ساتھ لوگوں کے لیے زیادہ مفید اور کارآمد ہو۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:
''ساری مخلوق اﷲ کا کنبہ ہے، اﷲ کے نزدیک سب سے پسندیدہ بندہ وہ ہے جو اس کی عیال کے لیے سب سے زیادہ نافع ہو۔'' (المعجم الکبیر)
خدمت خلق کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم پہلی وحی نازل ہونے کے بعد گھر تشریف لائے تو غم گسار شریک حیات ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا نے کیفیت کو دیکھ کر عرض کیا، مفہوم:
''اﷲ تعالی آپ ﷺ کو ہرگز ضایع نہیں کرے گا، کیوں کہ آپ ﷺ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں، بے سہارا لوگوں کی مدد کرتے ہیں، مہمانوں کی خاطر تواضع کرتے ہیں اور آسمانی حوادث میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔'' (بخاری شریف)
ان پانچوں اوصاف جن کا خصوصیت سے ام المومنین خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے تذکرہ کیا ان سب کا تعلق خدمت خلق کے مختلف پہلوؤں سے ہے اس میں حسن سلوک بھی ہے اور بدنی و مالی تعاون بھی ہے۔
رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم:
''اسلام کا بہترین عمل کھانا کھلانا اور سلام کو رواج دینا ہے۔'' (بخاری شریف)
آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا، مفہوم: ''جو آسودہ ہو کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو وہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔'' (المستدرک للحاکم)
حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، نہ دوسرے پر ظلم کرتا ہے نہ اسے (دشمن کے) سپرد کرتا ہے۔ جو مسلمان بھائی کی ضرورت میں کام آئے گا اﷲ تعالیٰ اس کی ضرورت میں کام آئے گا اور جو کسی مسلمان کے رنج اور غم کو دور کرے گا اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی مصیبت کو دور کر دے گا اور جو کسی مسلمان کے عیب چھپائے گا اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیب کو چھپائے گا۔'' (بخاری و مسلم)
حضرت ابُوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ایک فرمان مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:
''اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا، اے آدم کے بیٹے! میں بیمار ہُوا، تُونے میری عیادت نہ کی۔ انسان حیران ہو کر کہے گا: اے میرے رب! تُو تو رب العالمین ہے، میں تیری کس طرح عیادت کرتا۔ پھر اﷲ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہُوا، اگر تُو اس کی عیادت کرتا تو اسے میرے پاس پاتا۔ اﷲ تعالیٰ فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا تُونے مجھے کھانا نہ دیا۔
بندہ عرض کرے گا: اے پروردگار! تُو رب العالمین ہے، تجھے کس طرح کھانا کھلاتا۔ حق تعالیٰ فرمائے گا: کیا یاد نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا، لیکن تُونے اسے کھانا نہ کھلایا، اگر تو اُسے کھانا کھلاتا تو اس کا ثواب میرے یہاں پاتا۔ اسی طرح اﷲ فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے پانی مانگا تو تُونے مجھے پانی نہیں پلایا۔ انسان کہے گا: اے میرے رب! میں تجھے کس طرح پانی پلاتا، جب کہ تو رب العالمین ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرمائے گا: میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا، مگر تُونے اسے پانی نہ پلایا کیا، تجھے معلوم نہیں کہ اگر تُو اسے پانی پلاتا تو اسے میرے پاس پاتا۔'' (مسلم شریف)
خدمت خلق سے بندہ اﷲ کی رضا اور اس کے قرب کا حق دار بن جاتا ہے کہ اﷲ اس شخص کو پسند فرماتا ہے جو انسانوں کے لیے نفع بخش ہو۔ خدمت کا سب سے اہم ترین فائدہ یہ ہے کہ خادم و مخدوم کے درمیان محبت و الفت کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور باہمی قربت بڑھتی ہے۔ اس کے باعث انسان بُرے اخلاق اور اس کے دامن فریب سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔
کبر و نخوت، ظلم و دہشت، جبر و تشدد، جیسی خطرناک بیماریوں کا علاج خدمت خلق کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے۔ خدمت خلق سے محبت و شفقت اور ہم دردی و اخلاص کے علاوہ ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ خدمت خلق کا فائدہ یہ ہے کہ حق تعالی غیب سے ان کی مدد فر ماتا ہے۔
''اور اﷲ تعالیٰ بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے۔'' (صحیح ابن ماجہ للالبانی)
حضرت ابُوموسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''مومن دوسرے مومن کے لیے ایک عمارت کی طرح ہے کہ اس عمارت کا بعض حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کردیتا ہے۔'' (ترمذی شریف)
اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے واضح لفظوں میں ارشاد فرمایا، مفہوم:
''لوگوں میں بہترین شخص وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے۔'' (کنزالعمال)
اﷲ پاک نعمتوں کو بانٹنے سے بڑھاتا ہے، کم نہیں کرتا تو ہمیں اﷲ پاک کی رضا کی خاطر خدمت خلق کے لیے ہر وقت کوشاں رہنا چاہیے۔