کراچی کے چار دلیپ کمار دوسری قسط
آرٹسٹوں کو جب پیسہ ہی نہ ملے تو وہ بھلا کیوں فلم میں کام کریں گے
اب ایک مشکل یہ آگئی تھی کہ فلم کا میٹریل ملنا بند ہو گیا تھا اور پھر دوبارہ آنا شروع ہوا تو اس کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ گئی تھیں ایسی صورت میں اداکار طاہر نے پھر اپنی فلم کی شوٹنگ بند کردی تھی اور وہ اچھے دنوں کا انتظار کرنے لگا تھا۔
اب اس کا جنون اس کے گھر والوں اور اس کے دوستوں کو بھی کھلنے لگا تھا۔ یہ جب بھی فلمی صحافیوں سے ملتا تھا تو ان سے شکایت کرتا تھا کہ وہ اس کی فلم کا تذکرہ اپنے اخبار میں نہیں کرتے ہیں، نہ ہی اس کی فلم کی کوئی تصویر لگاتے ہیں۔
کبھی کبھار کوئی اخبار خبر چھاپ دیا کرتا تھا، پھر ایک وقت وہ آیا کہ اداکار طاہر مقروض ہوتا چلا گیا پیسہ ختم قصہ ختم والی کہانی شروع ہوگئی تھی۔
آرٹسٹوں کو جب پیسہ ہی نہ ملے تو وہ بھلا کیوں فلم میں کام کریں گے اب جب بھی طاہر فلم کی شوٹنگ کا پروگرام بناتا تو وہ آرٹسٹوں کا انتظار ہی کرتا رہتا تھا اور وقت گزرتا جاتا تھا اور اداکار طاہر شوٹنگ کے دوران خود ہی اکیلا سنگتراشی میں لگا رہتا تھا اور اس کے حالات کو دیکھتے ہوئے ایک شعر اس پر صادق آتا تھا:
جب برا زمانہ آتا ہے
سایہ بھی جدا ہو جاتا ہے
اب اداکار طاہر ذہنی مریض ہوتا چلا گیا اور اس کی نامکمل فلم ڈبوں میں بند ہو کر اس کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن چکی تھی۔
اب قصہ ہے کراچی کے دوسرے دلیپ کمار کا جس کا گھریلو اور فلمی نام حنیف تھا اور وہ دلیپ کمار سے کافی حد تک شباہت رکھتا تھا، فلمی دنیا میں حنیف کو اداکار دلیپ کمار کی فوٹو کاپی کہا جاتا تھا وہ کراچی کے پرانے علاقے رامسوامی سے جڑے ہوئے مارواڑی محلے میں رہتا تھا، کافی مال دار شخص تھا، اس محلے میں اس کی کئی بلڈنگیں تھیں جن کا کرایہ آتا تھا اور اس کی برادری کے لوگ اس کو چھوٹا دلیپ کمار سمجھتے تھے وہ اپنی برادری کی آن بان تھا وہ ہر وقت خوش لباس رہتا تھا، اتنا خوش لباس فلمی دنیا کا نامور ولن اسلم پرویز بھی مشہور تھا۔
حنیف خوش لباس ہونے کے ساتھ ساتھ خوش گفتار بھی تھا وہ گفتگو میں لکھنوی انداز بھی اختیار کرتا تھا اور اپنی گفتگو کا آغاز ہم سے کیا کرتا تھا، زیادہ تعلیم یافتہ تو نہیں تھا مگر بہت سے تعلیم یافتہ لوگوں سے زیادہ سمجھدار اور خوش اخلاق تھا، میں ان دنوں فلمی صحافت میں آ چکا تھا میرا ایسٹرن فلم اسٹوڈیو میں بھی آنا جانا رہتا تھا اور حنیف سے بھی سلام دعا رہتی تھی۔
میری اس سے ایک دلچسپ ملاقات لی مارکیٹ کے قریب مشہور چمچہ ہوٹل میں ہوئی تھی۔ اس ہوٹل میں چائے کے کپ میں ملائی ڈال کر اور اس ملائی پر تھوڑی چینی کے ساتھ چمچہ بھی ہوتا تھا تاکہ پہلے چمچے سے ملائی کھائی جائے پھر چائے بھی مزے لے لے کر پی جائے۔
حنیف نے میرے منع کرنے کے باوجود میری چائے کا بھی بل دیا تھا، پھر ہماری ملاقاتوں میں بڑی بے تکلفی آگئی تھی، وہ مجھے یہ بھی بتا چکا تھا کہ میں اسی اسٹوڈیو میں بنائی ہوئی چند فلموں میں کام کر چکا ہوں۔
اس کے فلمی سفر کا آغاز بھی اس طرح ہوا کہ کراچی میں سینئر اداکار بٹ کاشر نے ایک فلم کا آغاز کیا وہ کم سرمائے سے فلم شروع ہوئی تھی اس فلم میں اداکار حنیف کو پہلی بار ہیرو کاسٹ کیا گیا تھا۔ دلیپ کمار کے انداز میں حنیف کو اس فلم میں کافی پسند کیا گیا تھا اورکیمرہ مین نے اس کو دلیپ کمار بنا کر پیش کرنے کی پوری پوری کوشش کی تھی۔
فلم ہمیں بھی جینے دو میں پہلی بار اداکارہ روزینہ نے بھی ایک نمایاں کردار کیا تھا جب کہ فلم کی ہیروئن اداکارہ زمرد تھی اور اسی فلم میں ریڈیو پاکستان کی ایک مشہور صداکارہ طلعت صدیقی نے بھی پہلی بار کام کرکے فلم بینوں کو چونکا دیا تھا پھر طلعت صدیقی فلموں کی معروف اداکاراؤں میں شامل ہوگئی تھی۔
اداکار حنیف کی یہ فلم 1963 میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم میں حنیف پر مہدی حسن کی آواز میں ایک گیت بھی فلمایا گیا تھا جسے بڑی شہرت ملی تھی۔ گیت کے بول تھے:
الٰہی آنسو بھری زندگی کسی کو نہ دے
خوشی کے بعد غمِ بے کسی کسی کو نہ دے
اس گیت میں اداکار حنیف نے بڑی خوبصورت اداکاری کی تھی اور اس گیت کی وجہ سے بھی یہ فلم فلم بینوں میں بھی کافی پسند کی گئی تھی، اداکار حنیف کا فلمی سفر کامیابی کے ساتھ آگے بڑھتا جا رہا تھا، اسی دوران اداکار حنیف کو فلم آرزو میں ہیرو کاسٹ کیا گیا، فلم کی ہیروئن نئی اداکارہ ترنم تھی اس فلم میں مسعود رانا کا گایا ہوا ایک دلکش اداکار حنیف پر فلمایا گیا تھا۔
میں تو سمجھا تھا جدائی تری ممکن ہی نہیں
موت بھی آئی تو زانو پہ ترے آئے گی
(جاری ہے)
یہ گیت بھی مسعود رانا کی آواز میں ان دنوں بڑا ہٹ ہوا تھا اور اداکار حنیف کی اداکاری کو بھی فلم کریٹکس اور فلم بینوں نے بھی پسند کیا تھا، کراچی کی چند ہٹ فلموں کے بعد اداکار حنیف کو لاہور کی فلم انڈسٹری میں بھی پذیرائی ملی تھی۔
اس نے لاہورکے نام ور ہدایت کار نذرالاسلام اور ہدایت کار پرویز ملک کی فلموں میں بھی کام کیا تھا جن میں فلم آئینہ اور پاکیزہ بھی تھی۔ حنیف کی یہ بھی خوش قسمتی تھی کہ جب فلم ساز، ہدایت کار اور شاعر نخشب جارچوی نے اپنی فلم میخانہ بنائی تو انھوں نے بھی دلیپ کمار کی مشابہت کی وجہ سے اداکار حبیب کے ساتھ سائیڈ ہیرو میں کاسٹ کیا تھا، فلم میں اداکار حنیف کا پیئر اداکارہ شمیم آرا کے ساتھ بنایا گیا تھا جب کہ حبیب کے ساتھ فردوس کو لیا گیا تھا۔
اس فلم کے دیگر آرٹسٹوں میں رخسانہ، سیما اور لہری بھی شامل تھے اور نخشب جارچوی نے جس اداکارہ فردوس کو اپنی فلم میخانہ میں اچھے انداز سے متعارف کرایا تھا پھر یہی اداکارہ فردوس لاہور کی فلم انڈسٹری کی جان بن گئی تھی اور پنجابی فلموں کو جتنی شہرت ملی اس میں اداکارہ فردوس کو کریڈٹ جاتا ہے۔
پھر ہیر رانجھا کی شوٹنگ کے دوران ہی فردوس اور اعجاز کا عشق شروع ہوا جو شادی تک پہنچا اور یہی فلم اعجاز اور میڈم نور جہاں کے درمیان طلاق کا باعث بنی تھی۔
اداکار حنیف کو مارواڑی، گجراتی، میمنی اور سندھی بھی آتی تھی مگر حنیف نے لاہور جا کر پنجابی فلموں میں بھی کام کیا جن میں '' نوکر ووہٹی دا'' میں مہمان اداکار اور پنجابی فلم نوکر اور خان زادہ میں بھی بڑی اچھی اداکاری کی تھی۔
ولن کے کردار میں فلم چن وریام اور بنارسی ٹھگ میں بھی کام کیا تھا، فلم ہم دونوں میں اداکار کمال کے ساتھ بھی حنیف نے بڑا خوبصورت کردار کیا تھا، یہاں میں اداکار حنیف کی ایک اور بہترین فلم کا تذکرہ بھی کروں گا جو کراچی ہی میں بنائی گئی تھی، فلم قومی سلامتی کے موضوع پر تھی، اس فلم کے مصنف اور ہدایت کار اقبال رضوی تھے، فلم کا نام آزادی یا موت جو 1966 میں ریلیز ہوئی تھی یہ نیازی فلمز کے بینر تلے بنائی گئی تھی۔ صوفیہ بانو، حنیف فلم کے مرکزی کردار تھے۔
بقیہ آرٹسٹوں میں روزینہ، فیروز، سیٹھی، شیخ اقبال بھی تھے۔ فلم کے کیمرہ مین شفن مرزا تھے جب کہ ان کے معاون کیمرہ مین جان محمد جمن تھے پھر جان محمد جمن لاہورکے نام ور کیمرہ مینوں میں شامل رہے۔
اداکار و فلم ساز ہدایت کار رنگیلا کی پروڈکشن میں رہے اور پھر بعد میں ایک کامیاب فلم سازوہدایت کار بن کر لاہور کی فلم انڈسٹری میں بھی اپنا خوب نام چمکایا تھا۔ حنیف کی فلم آزادی موت نے کراچی میں بڑی کامیابی حاصل کی تھی۔
میری اس سے ایک آخری ملاقات بھی بڑی دلچسپ تھی، میں عام دنوں میں صبح کے وقت اور اتوار کو رات کے وقت مارواڑی محلے کی ایک لائبریری میں جاتا تھا۔
ایک اتوار کی رات میں اس لائبریری میں جانے کے لیے جیسے ہی اس کے دروازے کی طرف گیا برابر کی بلڈنگ سے اداکار حنیف اتر کر اسی طرف آ رہا تھا، قریب ہی اس کی لال رنگ کی خوبصورت گاڑی کھڑی تھی، مجھے دیکھتے ہی بولا ارے ہمدم صاحب! آپ ہمارے محلے میں، پھر میں نے پہلی بار بتایا کہ میں تمہارے محلے مارواڑی لائن کے برابر رامسوامی کے علاقے میں رہتا ہوں اور میرا بچپن بھی اسی پرانے محلے میں گزرا ہے تو اس نے خوش ہو کر کہا تھا، یار ہمدم صاحب! پھر تو ہم ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں۔
اور پھر وہ اصرار کرکے گراؤنڈ فلور پر اپنے ایک خاص کمرے میں مجھے لے گیا اور میں حیرت سے اس کے خوبصورت کمرے کو دیکھ رہا تھا۔ دیواروں پر چاروں طرف دلیپ کمار کی تصویریں فریم شدہ جگمگا رہی تھیں، اداکار حنیف نے دلیپ کمار کی فلم انداز، آن، امر، اڑن کھٹولا، بابل اور دیدار کی تصویریں بڑی محبت سے کمرے کی دیواروں پر لگا رکھی تھیں۔
میں تصویریں دیکھ رہا تھا اور حنیف ان تصاویر کی تفصیل بھی بتاتا جا رہا تھا کہ وہ کس کس فلم کی ہیں اور اس نے دلیپ کمار کی وہ فلمیں کتنی کتنی بار دیکھی ہیں، وہ کہہ رہا تھا دلیپ کمار صاحب ہمارے آئیڈیل بھی ہیں، ہمارے روحانی استاد بھی ہیں اور ہم تو ہیں عاشق پرانے اس دلیپ کمار کے۔ اسی دوران باہر سے منگوائی گئی دودھ پتی والی چائے بھی آگئی جو ہم مارواڑی محلے کے ہوٹل کی موہنی کے ساتھ کھا رہے تھے۔
اسی دوران فضا میں تھالی بجانے کی تیز تیز آوازیں آنے لگی تھیں، میں نے حنیف کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا یہ کیسی آوازیں ہیں؟ حنیف نے مسکراتے ہوئے بتایا آپ فکر نہ کریں یہ خوشی کی خبر ہے۔
ہماری برادری میں جس دن جس وقت جس کے بھی گھر میں کسی نئے بچے کی پیدائش ہوتی ہے تو اسی وقت ساری برادری کو اس خوشخبری کی اطلاع تھالیاں بجا کر دی جاتی ہے۔ یہ ہماری برادری کا ایک دستور ہے، ایک رسم ہے جو فوراً پوری کی جاتی ہے۔ اداکار حنیف سے اس بھرپور ملاقات میں بہت ساری دلچسپ باتیں ہوئی تھیں۔
اداکار حنیف نے دو شادیاں کی تھیں اور وہ بہت خوش گوار اور کامیاب زندگی گزار رہا تھا اور ایک کامیاب اداکار تھا۔ اس نے کئی فلموں میں ہیرو کا پھر سائیڈ ہیروز کا اور بہت سی فلموں میں ولن کا کردار بھی ادا کیا تھا اور پاکستان کے ہر بڑے ڈائریکٹر کی فلم میں کام کیا تھا۔ وہ یاروں کا یار تھا، وہ اکثر و بیشتر اپنے دوستوں کی مدد بھی بڑی خاموشی سے کردیا کرتا تھا۔
آج جب میں امریکا کی ریاست نیوجرسی میں بیٹھا اس کے بارے میں لکھ رہا ہوں تو اس کا مسکراتا ہوا چہرہ میری آنکھوں میں بس گیا ہے۔ وہ بہت ہی دریا دل شخصیت کا حامل انسان تھا، میں نے فلم انڈسٹری میں شاذ و نادر ہی ایسے لوگ دیکھے ہیں، اللہ اس کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔( آمین۔)
اب اس کا جنون اس کے گھر والوں اور اس کے دوستوں کو بھی کھلنے لگا تھا۔ یہ جب بھی فلمی صحافیوں سے ملتا تھا تو ان سے شکایت کرتا تھا کہ وہ اس کی فلم کا تذکرہ اپنے اخبار میں نہیں کرتے ہیں، نہ ہی اس کی فلم کی کوئی تصویر لگاتے ہیں۔
کبھی کبھار کوئی اخبار خبر چھاپ دیا کرتا تھا، پھر ایک وقت وہ آیا کہ اداکار طاہر مقروض ہوتا چلا گیا پیسہ ختم قصہ ختم والی کہانی شروع ہوگئی تھی۔
آرٹسٹوں کو جب پیسہ ہی نہ ملے تو وہ بھلا کیوں فلم میں کام کریں گے اب جب بھی طاہر فلم کی شوٹنگ کا پروگرام بناتا تو وہ آرٹسٹوں کا انتظار ہی کرتا رہتا تھا اور وقت گزرتا جاتا تھا اور اداکار طاہر شوٹنگ کے دوران خود ہی اکیلا سنگتراشی میں لگا رہتا تھا اور اس کے حالات کو دیکھتے ہوئے ایک شعر اس پر صادق آتا تھا:
جب برا زمانہ آتا ہے
سایہ بھی جدا ہو جاتا ہے
اب اداکار طاہر ذہنی مریض ہوتا چلا گیا اور اس کی نامکمل فلم ڈبوں میں بند ہو کر اس کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن چکی تھی۔
اب قصہ ہے کراچی کے دوسرے دلیپ کمار کا جس کا گھریلو اور فلمی نام حنیف تھا اور وہ دلیپ کمار سے کافی حد تک شباہت رکھتا تھا، فلمی دنیا میں حنیف کو اداکار دلیپ کمار کی فوٹو کاپی کہا جاتا تھا وہ کراچی کے پرانے علاقے رامسوامی سے جڑے ہوئے مارواڑی محلے میں رہتا تھا، کافی مال دار شخص تھا، اس محلے میں اس کی کئی بلڈنگیں تھیں جن کا کرایہ آتا تھا اور اس کی برادری کے لوگ اس کو چھوٹا دلیپ کمار سمجھتے تھے وہ اپنی برادری کی آن بان تھا وہ ہر وقت خوش لباس رہتا تھا، اتنا خوش لباس فلمی دنیا کا نامور ولن اسلم پرویز بھی مشہور تھا۔
حنیف خوش لباس ہونے کے ساتھ ساتھ خوش گفتار بھی تھا وہ گفتگو میں لکھنوی انداز بھی اختیار کرتا تھا اور اپنی گفتگو کا آغاز ہم سے کیا کرتا تھا، زیادہ تعلیم یافتہ تو نہیں تھا مگر بہت سے تعلیم یافتہ لوگوں سے زیادہ سمجھدار اور خوش اخلاق تھا، میں ان دنوں فلمی صحافت میں آ چکا تھا میرا ایسٹرن فلم اسٹوڈیو میں بھی آنا جانا رہتا تھا اور حنیف سے بھی سلام دعا رہتی تھی۔
میری اس سے ایک دلچسپ ملاقات لی مارکیٹ کے قریب مشہور چمچہ ہوٹل میں ہوئی تھی۔ اس ہوٹل میں چائے کے کپ میں ملائی ڈال کر اور اس ملائی پر تھوڑی چینی کے ساتھ چمچہ بھی ہوتا تھا تاکہ پہلے چمچے سے ملائی کھائی جائے پھر چائے بھی مزے لے لے کر پی جائے۔
حنیف نے میرے منع کرنے کے باوجود میری چائے کا بھی بل دیا تھا، پھر ہماری ملاقاتوں میں بڑی بے تکلفی آگئی تھی، وہ مجھے یہ بھی بتا چکا تھا کہ میں اسی اسٹوڈیو میں بنائی ہوئی چند فلموں میں کام کر چکا ہوں۔
اس کے فلمی سفر کا آغاز بھی اس طرح ہوا کہ کراچی میں سینئر اداکار بٹ کاشر نے ایک فلم کا آغاز کیا وہ کم سرمائے سے فلم شروع ہوئی تھی اس فلم میں اداکار حنیف کو پہلی بار ہیرو کاسٹ کیا گیا تھا۔ دلیپ کمار کے انداز میں حنیف کو اس فلم میں کافی پسند کیا گیا تھا اورکیمرہ مین نے اس کو دلیپ کمار بنا کر پیش کرنے کی پوری پوری کوشش کی تھی۔
فلم ہمیں بھی جینے دو میں پہلی بار اداکارہ روزینہ نے بھی ایک نمایاں کردار کیا تھا جب کہ فلم کی ہیروئن اداکارہ زمرد تھی اور اسی فلم میں ریڈیو پاکستان کی ایک مشہور صداکارہ طلعت صدیقی نے بھی پہلی بار کام کرکے فلم بینوں کو چونکا دیا تھا پھر طلعت صدیقی فلموں کی معروف اداکاراؤں میں شامل ہوگئی تھی۔
اداکار حنیف کی یہ فلم 1963 میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم میں حنیف پر مہدی حسن کی آواز میں ایک گیت بھی فلمایا گیا تھا جسے بڑی شہرت ملی تھی۔ گیت کے بول تھے:
الٰہی آنسو بھری زندگی کسی کو نہ دے
خوشی کے بعد غمِ بے کسی کسی کو نہ دے
اس گیت میں اداکار حنیف نے بڑی خوبصورت اداکاری کی تھی اور اس گیت کی وجہ سے بھی یہ فلم فلم بینوں میں بھی کافی پسند کی گئی تھی، اداکار حنیف کا فلمی سفر کامیابی کے ساتھ آگے بڑھتا جا رہا تھا، اسی دوران اداکار حنیف کو فلم آرزو میں ہیرو کاسٹ کیا گیا، فلم کی ہیروئن نئی اداکارہ ترنم تھی اس فلم میں مسعود رانا کا گایا ہوا ایک دلکش اداکار حنیف پر فلمایا گیا تھا۔
میں تو سمجھا تھا جدائی تری ممکن ہی نہیں
موت بھی آئی تو زانو پہ ترے آئے گی
(جاری ہے)
یہ گیت بھی مسعود رانا کی آواز میں ان دنوں بڑا ہٹ ہوا تھا اور اداکار حنیف کی اداکاری کو بھی فلم کریٹکس اور فلم بینوں نے بھی پسند کیا تھا، کراچی کی چند ہٹ فلموں کے بعد اداکار حنیف کو لاہور کی فلم انڈسٹری میں بھی پذیرائی ملی تھی۔
اس نے لاہورکے نام ور ہدایت کار نذرالاسلام اور ہدایت کار پرویز ملک کی فلموں میں بھی کام کیا تھا جن میں فلم آئینہ اور پاکیزہ بھی تھی۔ حنیف کی یہ بھی خوش قسمتی تھی کہ جب فلم ساز، ہدایت کار اور شاعر نخشب جارچوی نے اپنی فلم میخانہ بنائی تو انھوں نے بھی دلیپ کمار کی مشابہت کی وجہ سے اداکار حبیب کے ساتھ سائیڈ ہیرو میں کاسٹ کیا تھا، فلم میں اداکار حنیف کا پیئر اداکارہ شمیم آرا کے ساتھ بنایا گیا تھا جب کہ حبیب کے ساتھ فردوس کو لیا گیا تھا۔
اس فلم کے دیگر آرٹسٹوں میں رخسانہ، سیما اور لہری بھی شامل تھے اور نخشب جارچوی نے جس اداکارہ فردوس کو اپنی فلم میخانہ میں اچھے انداز سے متعارف کرایا تھا پھر یہی اداکارہ فردوس لاہور کی فلم انڈسٹری کی جان بن گئی تھی اور پنجابی فلموں کو جتنی شہرت ملی اس میں اداکارہ فردوس کو کریڈٹ جاتا ہے۔
پھر ہیر رانجھا کی شوٹنگ کے دوران ہی فردوس اور اعجاز کا عشق شروع ہوا جو شادی تک پہنچا اور یہی فلم اعجاز اور میڈم نور جہاں کے درمیان طلاق کا باعث بنی تھی۔
اداکار حنیف کو مارواڑی، گجراتی، میمنی اور سندھی بھی آتی تھی مگر حنیف نے لاہور جا کر پنجابی فلموں میں بھی کام کیا جن میں '' نوکر ووہٹی دا'' میں مہمان اداکار اور پنجابی فلم نوکر اور خان زادہ میں بھی بڑی اچھی اداکاری کی تھی۔
ولن کے کردار میں فلم چن وریام اور بنارسی ٹھگ میں بھی کام کیا تھا، فلم ہم دونوں میں اداکار کمال کے ساتھ بھی حنیف نے بڑا خوبصورت کردار کیا تھا، یہاں میں اداکار حنیف کی ایک اور بہترین فلم کا تذکرہ بھی کروں گا جو کراچی ہی میں بنائی گئی تھی، فلم قومی سلامتی کے موضوع پر تھی، اس فلم کے مصنف اور ہدایت کار اقبال رضوی تھے، فلم کا نام آزادی یا موت جو 1966 میں ریلیز ہوئی تھی یہ نیازی فلمز کے بینر تلے بنائی گئی تھی۔ صوفیہ بانو، حنیف فلم کے مرکزی کردار تھے۔
بقیہ آرٹسٹوں میں روزینہ، فیروز، سیٹھی، شیخ اقبال بھی تھے۔ فلم کے کیمرہ مین شفن مرزا تھے جب کہ ان کے معاون کیمرہ مین جان محمد جمن تھے پھر جان محمد جمن لاہورکے نام ور کیمرہ مینوں میں شامل رہے۔
اداکار و فلم ساز ہدایت کار رنگیلا کی پروڈکشن میں رہے اور پھر بعد میں ایک کامیاب فلم سازوہدایت کار بن کر لاہور کی فلم انڈسٹری میں بھی اپنا خوب نام چمکایا تھا۔ حنیف کی فلم آزادی موت نے کراچی میں بڑی کامیابی حاصل کی تھی۔
میری اس سے ایک آخری ملاقات بھی بڑی دلچسپ تھی، میں عام دنوں میں صبح کے وقت اور اتوار کو رات کے وقت مارواڑی محلے کی ایک لائبریری میں جاتا تھا۔
ایک اتوار کی رات میں اس لائبریری میں جانے کے لیے جیسے ہی اس کے دروازے کی طرف گیا برابر کی بلڈنگ سے اداکار حنیف اتر کر اسی طرف آ رہا تھا، قریب ہی اس کی لال رنگ کی خوبصورت گاڑی کھڑی تھی، مجھے دیکھتے ہی بولا ارے ہمدم صاحب! آپ ہمارے محلے میں، پھر میں نے پہلی بار بتایا کہ میں تمہارے محلے مارواڑی لائن کے برابر رامسوامی کے علاقے میں رہتا ہوں اور میرا بچپن بھی اسی پرانے محلے میں گزرا ہے تو اس نے خوش ہو کر کہا تھا، یار ہمدم صاحب! پھر تو ہم ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں۔
اور پھر وہ اصرار کرکے گراؤنڈ فلور پر اپنے ایک خاص کمرے میں مجھے لے گیا اور میں حیرت سے اس کے خوبصورت کمرے کو دیکھ رہا تھا۔ دیواروں پر چاروں طرف دلیپ کمار کی تصویریں فریم شدہ جگمگا رہی تھیں، اداکار حنیف نے دلیپ کمار کی فلم انداز، آن، امر، اڑن کھٹولا، بابل اور دیدار کی تصویریں بڑی محبت سے کمرے کی دیواروں پر لگا رکھی تھیں۔
میں تصویریں دیکھ رہا تھا اور حنیف ان تصاویر کی تفصیل بھی بتاتا جا رہا تھا کہ وہ کس کس فلم کی ہیں اور اس نے دلیپ کمار کی وہ فلمیں کتنی کتنی بار دیکھی ہیں، وہ کہہ رہا تھا دلیپ کمار صاحب ہمارے آئیڈیل بھی ہیں، ہمارے روحانی استاد بھی ہیں اور ہم تو ہیں عاشق پرانے اس دلیپ کمار کے۔ اسی دوران باہر سے منگوائی گئی دودھ پتی والی چائے بھی آگئی جو ہم مارواڑی محلے کے ہوٹل کی موہنی کے ساتھ کھا رہے تھے۔
اسی دوران فضا میں تھالی بجانے کی تیز تیز آوازیں آنے لگی تھیں، میں نے حنیف کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا یہ کیسی آوازیں ہیں؟ حنیف نے مسکراتے ہوئے بتایا آپ فکر نہ کریں یہ خوشی کی خبر ہے۔
ہماری برادری میں جس دن جس وقت جس کے بھی گھر میں کسی نئے بچے کی پیدائش ہوتی ہے تو اسی وقت ساری برادری کو اس خوشخبری کی اطلاع تھالیاں بجا کر دی جاتی ہے۔ یہ ہماری برادری کا ایک دستور ہے، ایک رسم ہے جو فوراً پوری کی جاتی ہے۔ اداکار حنیف سے اس بھرپور ملاقات میں بہت ساری دلچسپ باتیں ہوئی تھیں۔
اداکار حنیف نے دو شادیاں کی تھیں اور وہ بہت خوش گوار اور کامیاب زندگی گزار رہا تھا اور ایک کامیاب اداکار تھا۔ اس نے کئی فلموں میں ہیرو کا پھر سائیڈ ہیروز کا اور بہت سی فلموں میں ولن کا کردار بھی ادا کیا تھا اور پاکستان کے ہر بڑے ڈائریکٹر کی فلم میں کام کیا تھا۔ وہ یاروں کا یار تھا، وہ اکثر و بیشتر اپنے دوستوں کی مدد بھی بڑی خاموشی سے کردیا کرتا تھا۔
آج جب میں امریکا کی ریاست نیوجرسی میں بیٹھا اس کے بارے میں لکھ رہا ہوں تو اس کا مسکراتا ہوا چہرہ میری آنکھوں میں بس گیا ہے۔ وہ بہت ہی دریا دل شخصیت کا حامل انسان تھا، میں نے فلم انڈسٹری میں شاذ و نادر ہی ایسے لوگ دیکھے ہیں، اللہ اس کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔( آمین۔)