شہرت کی خواہش

حب جاہ کے طلبگارکا نام منافقوں کی فہرست میں لکھ دیاجاتاہے اوروہ نادان یہ سمجھ رہاہوتاہے کہ اسے اﷲ عزوجل کا قرب حاصل ہے

حب جاہ کے طلبگارکا نام منافقوں کی فہرست میں لکھ دیاجاتاہے اوروہ نادان یہ سمجھ رہاہوتاہے کہ اسے اﷲ عزوجل کا قرب حاصل ہے۔ فوٹو: نیٹ

حضرت سیدنا ابُو محمد مرتعش رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: ''میں نے بہت سے حج کیے اور ان میں سے اکثر سفر حج کسی قسم کا زاد راہ لیے بغیر کیے، پھر مجھ پر آشکار ہوا کہ یہ سب تو میرے نفس کا دھوکا تھا کیوں کہ ایک مرتبہ میری ماں نے مجھے پانی کا گھڑا بھر کر لانے کا حکم دیا تو میرے نفس پر ان کا حکم گراں گزرا، چناں چہ میں نے سمجھ لیا کہ سفر حج میں میرے نفس نے میری موافقت فقط اپنی لذت کے لیے کی اور مجھے دھوکے میں رکھا کیوں کہ اگر میرا نفس فنا ہو چکا ہوتا تو آج ایک حق شرعی پورا کرنا (یعنی ماں کی اطاعت کرنا) اسے (یعنی نفس کو) بے حد دشوار کیوں محسوس ہوتا۔'' (الرسالۃ القشیریۃ)

بعض افراد کی عادت ہوتی ہے کہ وہ عام لوگوں سے تو جُھک جُھک کر ملتے اور ان کے لیے بچھ بچھ جاتے ہیں مگر والدین، بھائی بہنوں اور بال بچوں کے ساتھ ان کا رویہ جارحانہ، غیر اخلاقی اور بسا اوقات سخت دل آزار ہوتا ہے کیوں۔۔۔؟

اس لیے کہ عوام میں عمدہ اخلاق کا مظاہرہ مقبولیت عامہ کا باعث بنتا ہے جب کہ گھر میں حسن سلوک کرنے سے عزت و شہرت ملنے کی خاص امید نہیں ہوتی، اس لیے یہ لوگ عوام میں خوب میٹھے میٹھے بنے رہتے ہیں، اسی طرح جو مسلمان بعض مستحب کاموں کے لیے بڑھ چڑھ کر قربانیاں پیش کرتے مگر فرائض و واجبات کی ادائیگی میں کوتاہیاں برتتے ہیں۔

مثال کے طور ماں باپ کی اطاعت، بال بچوں کی شریعت کے مطابق تربیت اور خود اپنے لیے فرض علوم کے حصول میں غفلت سے کام لیتے ہیں۔

ان کے لیے بھی اس حکایت میں درس عبرت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جن نیک کاموں میں شہرت ملتی اور واہ واہ ہوتی ہے وہ دشوار ہونے کے باوجود بہ آسانی سرانجام پا جاتے ہیں کیوں کہ حب جاہ (شہرت و عزت کی چاہت) کے سبب ملنے والی لذت بڑی سے بڑی مشقت آسان کر دیتی ہے۔ یاد رکھیے! حب جاہ میں ہلاکت ہی ہلاکت ہے۔

حب جاہ و ریا نفس کو ہلاک کرنے والے آخری امور اور باطنی مکر و فریب سے ہے، اس میں علمائ، عبادت گزار اور آخرت کی منزل طے کرنے والے مبتلا کیے جاتے ہیں، اس طرح کہ یہ حضرات بسا اوقات خوب کوششیں کر کے عبادات بجا لانے، نفسانی خواہشات پر قابو پانے بل کہ شبہات سے بھی خود کو بچانے میں کام یاب ہو جاتے ہیں۔

اپنے اعضاء کو ظاہری گناہوں سے بھی بچا لیتے ہیں مگر عوام کے سامنے اپنے نیک کاموں، دینی کارناموں اور نیکی کی دعوت عام کرنے کے لیے کی جانے والی کاوشوں جیسے کہ میں نے یہ کیا، وہ کیا، وہاں بیان تھا، یہاں بیان ہے، بیانات (کرنے یا نعت پڑھنے) کے لیے اتنی تاریخیں بُک ہیں، وہ لوگ ایسے کاموں کے اظہار کے ذریعے اپنے نفس کی راحت کے طلب گار ہوتے ہیں۔

اپنا علم و عمل ظاہر کر کے مخلوق کے یہاں مقبولیت اور ان کی طرف سے ہونے والی اپنی تعظیم و توقیر، واہ واہ اور عزت کی لذت حاصل کرتے ہیں، جب مقبولیت و شہرت ملنے لگتی ہے تو ان کا نفس چاہتا ہے کہ علم و عمل لوگوں پر زیادہ سے زیادہ ہونا چاہیے تاکہ اور بھی عزت بڑھے۔

لہٰذا وہ اپنی نیکیوں، علمی صلاحیتوں کے تعلق سے مخلوق کی اطلاع کے مزید راستے تلاش کرتا ہے اور خالق عزوجل کے جاننے پر کہ میرا رب عزوجل میرے اعمال سے باخبر ہے اور مجھے اجر دینے والا ہے قناعت نہیں کرتا بل کہ اس بات پر خوش ہوتا ہے کہ لوگ اس کی واہ واہ اور تعریف کریں اور خالق عز و جل کی طرف سے حاصل ہونے والی تعریف پر قناعت نہیں کرتا، نفس یہ بات بہ خوبی جانتا ہے کہ لوگوں کو جب اس بات کا علم ہوگا کہ فلاں بندہ نفسانی خواہشات کا تارک ہے، شبہات سے بچتا ہے، راہ خدا میں خوب پیسے خرچ کرتا ہے۔


عبادت میں سخت مشقت برداشت کرتا ہے، خوف خدا اور عشق مصطفی صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم میں خوب آہ و زاری کرتا اور آنسو بہاتا ہے، لوگوں کی اصلاح کے لیے بہت دل جلاتا ہے۔ زبان، آنکھ اور پیٹ کی حفاظت کرتا ہے، تو لوگوں کی زبانوں پر اس بندے کی خوب تعریف جاری ہوگی، وہ اسے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھیں گے، اس کی ملاقات اور زیارت کو اپنے لیے باعث سعادت اور سرمایہ آخرت سمجھیں گے۔

حصول برکت کے لیے مکان یا دکان پر دو قدم رکھنے، چل کر دعا فرما دینے، چائے پینے، دعوت طعام قبول کرنے کی نہایت لجاجت کے ساتھ درخواستیں کریں گے، اس کی رائے پر چلنے میں دو جہاں کی بھلائی تصور کریں گے، اسے جہاں دیکھیں گے خدمت کریں گے اور سلام پیش کریں گے، اس کا جُھوٹا کھانے پینے کی حرص کریں گے۔

اس کا تحفہ یا اس کے ہاتھ سے مس کی ہوئی چیز پانے میں ایک دوسرے پر سبقت کریں گے، اس کی دی ہوئی چیز چومیں گے، اس کے ہاتھ پاؤں کے بوسے لیں گے، احتراماً حضرت، حضور، یاسیّدی وغیرہ کے القابات کے ساتھ خاشعانہ انداز اور آہستہ آواز میں بات کریں گے، ہاتھ جوڑ کر سر جھکا کر دعاؤں کی التجائیں کریں گے۔

لوگوں کے اس طرح کے عقیدت بھرے انداز سے نفس کو بہت زیادہ لذت حاصل ہوتی ہے اور یہ وہ لذت ہے جو تمام خواہشات پر غالب ہے، اس طرح کی عقیدت مندیوں کی لذتوں کے سبب گناہوں کا چھوڑنا اسے معمولی بات معلوم ہوتی ہے کیوں کہ حب جاہ کے مریض کو نفس گناہ کروانے کی بہ جائے الٹا سمجھاتا ہے کہ دیکھ گناہ کرے گا تو عقیدت مند آنکھیں پھیر لیں گے۔

لہٰذا نفس کے تعاون سے معتقدین میں اپنا وقار برقرار رکھنے کے جذبے کے سبب عبادت پر استقامت کی شدت اس کو نرمی و آسانی محسوس ہوتی ہے کیوں کہ باطنی طور پر لذتوں کی لذت اور تمام شہوتوں (یعنی خواہشات) سے بڑی شہوت (یعنی عوام کی عقیدت سے حاصل ہونے والی لذت) کا ادراک (پہچان) کر لیتا ہے، وہ اس خوش فہمی میں پڑ جاتا ہے کہ میری زندگی اﷲ تعالیٰ کے لیے اور اس کی مرضی کے مطابق گزر رہی ہے حالاں کہ اس کی زندگی اس پوشیدہ خواہش کے تحت گزرتی ہے جس کے ادراک سے نہایت مضبوط عقلیں بھی عاجز و بے بس ہیں۔

وہ عبادت خداوندی میں اپنے آپ کو مخلص اور خود کو اﷲ تعالیٰ کے محارم (حرام کردہ معاملات) سے اجتناب کرنے والا سمجھ بیٹھتا ہے' حالاں کہ ایسا نہیں، بل کہ وہ تو بندوں کے سامنے زیب و زینت اور تصنع کے ذریعے خوب لذتیں پا رہا ہے۔

اسے جو عزت و شہرت مل رہی ہے اس پر بڑا خوش ہے، اس طرح عبادتوں اور نیک کاموں کا ثواب ضایع ہو جاتا ہے اور اس کا نام منافقوں کی فہرست میں لکھ دیا جاتا ہے اور وہ نادان یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ اسے اﷲ عزوجل کا قُرب حاصل ہے۔

مشہور محدث حضرت سیدنا سفیان ثوری رحمۃ اﷲ علیہ کہیں مدعو تھے میزبان نے اپنے خادم سے کہا: ''ان برتنوں میں کھانا کھلاؤ جو میں دوسری بار کے حج میں لایا ہوں۔ سیدنا سفیان ثوری نے یہ سن کر فرمایا: مسکین! تُونے ایک جملے میں دو حج ضایع کر دیے۔''

لہٰذا بے ضرورت اپنے حج و عمرہ کی تعداد، تلاوت کردہ قرآن اور درود پاک اور دیگر اوراد پڑھنے کی گنتی بتانے والوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
Load Next Story