بلدیاتی اداروں میں ٹرانزٹ افسران کی توسیع پر چیف سیکرٹری کو نوٹس
حکومت سندھ نے آئین سے متصادم قانون سازی کرکے منتخب نمائندوں کے اختیارات سلب کیے، درخواست میں مؤقف
سندھ ہائی کورٹ نے بلدیاتی اداروں میں ٹرانزٹ افسران کی مدت میں توسیع پر چیف سیکرٹری کو نوٹس جاری کردیا۔
عدالت نے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن، سیف الدین سمیت 9 ٹاؤن چیئرمینز کی درخواست پر چیف سیکرٹری، ٹرانزٹ افسران اور ایڈووکیٹ جنرل سے جواب طلب کرلیا۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس احمد علی شیخ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ کے روبرو بلدیاتی اداروں میں ٹرانزٹ افسران کی مدت میں توسیع سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی، جس میں چیف جسٹس نے درخواستگزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ چیئرمین منتخب ہوگئے، حلف اٹھا لیا،اب آپ کے کس کام کو روکا جارہا ہے۔
عثمان فاروق ایڈووکیٹ نے مؤقف دیا کہ حکومت سندھ نے نوٹی فکیشن جاری کرکے منتخب نمائندوں کو غیر فعال کردیا۔ حکومت سندھ نے آئین سے متصادم قانون سازی کرکے منتخب نمائندوں کے اختیارات سلب کیے۔ الیکشن تاخیر سے ہوئے، اپریل میں یوسیز کے الیکشن مکمل ہوئے۔ جون میں سٹی کونسل اور ٹاؤنز کے ایوان مکمل ہوئے، لیکن اختیارات منتقل نہیں کیے جارہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کی کیا ذمے داریاں ہیں جو ادا کرنے میں رکاوٹ ہے، جس پر عثمان فاروق ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ ہمیں مالی اور انتظامی اختیارات استعمال نہیں کرنے دیے جارہے۔
عدالت نے چیف سیکرٹری، ٹرانزٹ افسران اور ایڈووکیٹ جنرل سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 22 ستمبر تک ملتوی کردی۔
درخواست میں چیف سیکرٹری سندھ، سیکرٹری لوکل گورنمنٹ و دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواستگزار نے مؤقف اختیار کیا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 140 کے تحت مقامی حکومتوں کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔
حکومت سندھ نے جماعت اسلامی کی جدوجہد کے بعد ڈھائی سال کی تاخیر سے بلدیاتی الیکشن کروائے۔ 15 جون کو میئر اور ٹاؤن چیئرمین سمیت منتخب نمائندوں کی حلف برداری بھی ہو چکی ہے۔ حکومت سندھ نے بدنیتی کی بنیاد پر بلدیاتی افسر تعینات کر دیے۔
لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2023 کے سب سیکشن 2 میں ترمیم کر کے ٹرانزٹ افسران تعینات کردیے۔ ان افسران کی تعیناتی سے منتخب نمائندوں پر انتظامی اور مالیاتی اختیارات منجمد کر دیے گئے۔ اس ترمیم سے بلدیاتی ادارے معطل ہو کر رہ گئے ہیں۔ حکومت سندھ کا یہ اقدام آئین پاکستان اور لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کی خلاف ورزی ہے۔ حکومت سندھ کے اس عمل کو کالعدم قرار دیا جائے۔
عدالت نے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن، سیف الدین سمیت 9 ٹاؤن چیئرمینز کی درخواست پر چیف سیکرٹری، ٹرانزٹ افسران اور ایڈووکیٹ جنرل سے جواب طلب کرلیا۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس احمد علی شیخ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ کے روبرو بلدیاتی اداروں میں ٹرانزٹ افسران کی مدت میں توسیع سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی، جس میں چیف جسٹس نے درخواستگزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ چیئرمین منتخب ہوگئے، حلف اٹھا لیا،اب آپ کے کس کام کو روکا جارہا ہے۔
عثمان فاروق ایڈووکیٹ نے مؤقف دیا کہ حکومت سندھ نے نوٹی فکیشن جاری کرکے منتخب نمائندوں کو غیر فعال کردیا۔ حکومت سندھ نے آئین سے متصادم قانون سازی کرکے منتخب نمائندوں کے اختیارات سلب کیے۔ الیکشن تاخیر سے ہوئے، اپریل میں یوسیز کے الیکشن مکمل ہوئے۔ جون میں سٹی کونسل اور ٹاؤنز کے ایوان مکمل ہوئے، لیکن اختیارات منتقل نہیں کیے جارہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کی کیا ذمے داریاں ہیں جو ادا کرنے میں رکاوٹ ہے، جس پر عثمان فاروق ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ ہمیں مالی اور انتظامی اختیارات استعمال نہیں کرنے دیے جارہے۔
عدالت نے چیف سیکرٹری، ٹرانزٹ افسران اور ایڈووکیٹ جنرل سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 22 ستمبر تک ملتوی کردی۔
درخواست میں چیف سیکرٹری سندھ، سیکرٹری لوکل گورنمنٹ و دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواستگزار نے مؤقف اختیار کیا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 140 کے تحت مقامی حکومتوں کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔
حکومت سندھ نے جماعت اسلامی کی جدوجہد کے بعد ڈھائی سال کی تاخیر سے بلدیاتی الیکشن کروائے۔ 15 جون کو میئر اور ٹاؤن چیئرمین سمیت منتخب نمائندوں کی حلف برداری بھی ہو چکی ہے۔ حکومت سندھ نے بدنیتی کی بنیاد پر بلدیاتی افسر تعینات کر دیے۔
لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2023 کے سب سیکشن 2 میں ترمیم کر کے ٹرانزٹ افسران تعینات کردیے۔ ان افسران کی تعیناتی سے منتخب نمائندوں پر انتظامی اور مالیاتی اختیارات منجمد کر دیے گئے۔ اس ترمیم سے بلدیاتی ادارے معطل ہو کر رہ گئے ہیں۔ حکومت سندھ کا یہ اقدام آئین پاکستان اور لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کی خلاف ورزی ہے۔ حکومت سندھ کے اس عمل کو کالعدم قرار دیا جائے۔