خاتون ملازم کو ہراساں کرنے پر نیپرا ڈائریکٹر برطرف
وفاقی محتسب کی طرف سے عائد کردہ ’’دو انکریمنٹ روکنے‘‘ کی معمولی سزا کو تبدیل کیا گیا
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے خاتون کو ہراساں کرنے پر نیپرا کے ڈائریکٹر کو نوکری سے نکالنے کی سزا عائد کر دی۔
اعلامیے میں صدر مملکت نے واضح کیا کہ ''کسی نرمی کی گنجائش نہیں!''۔ نامناسب پیغامات، دفتری اوقات سے زائد رکنے کیلئے کہنا، غیر اخلاقی مطالبات ماننے سے انکار پر سنگین نتائج کی دھمکی دینا ہراسانی ہے۔
صدر مملکت نے کہا کہ خاتون اور گواہوں کے بیانات، سی سی ٹی وی فوٹیج، واٹس ایپ پیغامات اور ای میل سے ہراسانی ثابت ہوتی ہے، ملزم نے بلاواسطہ جرم کا اعتراف کیا اور صرف سزا کی شدت کے خلاف اپیل دائر کی، کام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنا ایک سنگین معاملہ ہے اس لیے سزا بڑھا کر ''نوکری سے نکالنے'' کی سزا دینا معقول اور مناسب رہے گا۔
صدر مملکت نے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے ڈائریکٹر، احمد ندیم (ملزم) کی دائر کردہ اپیل مسترد کر دی اور وفاقی محتسب کی طرف سے عائد کردہ ''دو انکریمنٹ روکنے'' کی معمولی سزا کو تبدیل کر دیا۔
خاتون آفس اسسٹنٹ (شکایت کنندہ) نے نیپرا میں ہراساں کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔ خاتون کے الزامات کے مطابق ملزم اپنے دفتر میں بلاتا، ذاتی معاملات پر بات کرتا اور شکل پر تبصرے کرتا، ملزم جسمانی طور پر رابطہ کرنے کی کوشش کرتا، لنچ اور رات کے کھانے کی دعوت دیتا، ملزم غیر ضروری اور نامناسب ٹیکسٹ پیغامات بھی بھیجتا۔
بعد ازاں، نیپرا کی انٹرنل ہراسمنٹ کمیٹی نے تفصیلی انکوائری کی جس میں ملزمان کے خلاف ہراساں کرنے کے الزامات ثابت ہوئے۔ کمیٹی نے ڈائریکٹر سے ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے پر تنزلی کی سزا عائد کرنے کی سفارش کی، فیصلے کے خلاف شکایت کنندہ اور ملزم دونوں نے انسدادِ ہراسیت محتسب کو اپیل دائر کی۔
انسدادِ ہراسیت محتسب نے سزا کو کم کر کے ''تین سال کے لیے دو انکریمنٹ روکنے'' کی سزا دی۔ ملزم اور شکایت کنندہ نے محتسب کے فیصلے کے خلاف صدر مملکت کو اپیلیں دائر کی۔
صدر مملکت نے ایوانِ صدر میں کیس کی ذاتی طور پر سماعت کی، صدر مملکت نے ریکارڈ اور فریقین کے بیانات کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کیا۔
صدر مملکت کے مطابق نیپرا کی کمیٹی کی انکوائری کافی تفصیلی تھی اور تائید میں شواہد موجود ہیں، ملزم نے ہراسانی کی بجائے صرف سزا کی شدت پر اعتراض کیا، ملزم کے رویے سے کام کے ماحول میں خلل پڑا اور خاتون کو ہراساں کیا گیا، ملزم کے رویے نے خاتون کو منصفانہ اور آزادانہ طریقے سے فرائض انجام دینے سے روکا، اس تجربے سے گزرنے والی خواتین کیلئے ہراسانی سنگین نتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔
صدر مملکت نے کہا کہ اگر خواتین کسی صاحبِ اختیار شخص کے غیر اخلاقی مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہیں تو انہیں ملازمت یا ترقی کھونے کا خطرہ ہوتا ہے، ساتھی کے ناپسندیدہ طرزِ عمل نے کام کے ماحول کو مخالف اور ناخوشگوار بنایا، ہراسانی سے خواتین پر بلاواسطہ دباؤ ڈلتا ہے کہ وہ نوکری چھوڑ دیں، بعض اوقات، خاتون ہراساں کیے جانے سے شدید صدمے کا شکار ہوتی ہے۔
صدر مملکت نے کہا کہ ہراسانی کے نتیجے میں خواتین جذباتی اور جسمانی اثرات کا بھی شکار ہو سکتی ہیں، ہراسانی سے خواتین صحیح طریقے سے فرائض انجام دینے سے قاصر ہو جاتی ہیں۔ تمام واقعات، شواہد، سی سی ٹی وی فوٹیج، واٹس ایپ گفتگو سے ملزم کا قصور ثابت ہوتا ہے، ہراسانی ثابت ہو چکی، ملزم کسی رعایت کا مستحق نہیں اور نوکری سے نکالنے کی سزا دی جاتی ہے۔