آزاد مضبوط معیشت کا خواب
غیرملکی امداد کی یہ بیساکھیاں معیشت کی بحالی اور آزاد خارجہ پالیسی کے راستے میں ہمیشہ رکاوٹ رہے گی
نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ پاکستان میں زراعت،کان کنی و معدنیات، آئی ٹی، توانائی اور دفاعی پیداوار کے شعبے میں بیرونی سرمایہ کاری کی وسیع استعداد موجود ہے، نگراں حکومت معیشت کے استحکام اور ترقی کے لیے تمام ممکن اقدامات کرے گی۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل سے متعلق بریفنگ کے دوران کیا۔وزیراعظم کو ایس آئی ایف سی کے تحت بیرونی سرمایہ کاری بڑھانے اور سرمایہ کاروں کی سہولت کے لیے حکومت کی حکمت عملی کے بارے میں بتایا گیا۔
اس وقت ملک کی معیشت جن حالات سے گزر رہی ہے، اس میں نگران حکومت کو مضبوط اقدامات اٹھانے ہونگے۔ نگران حکومت کو منصوبوں کے تسلسل اور دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں کا اختیار پہلے ہی مل چکا ہے اور ان ڈیلز کو حتمی شکل دینا پڑے گی۔
ہمارے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں لیکن ستم ظریفی حالات یہ ہے کہ قومی سطح پر ہمارا رجحان اپنے پاس موجود قدرتی و انسانی وسائل سے فائدہ اٹھانے اور صنعتی مواقع و انفرا اسٹرکچر کی ترقی کے بجائے غیرملکی امداد و قرضوں پر گزارہ کی جانب ہے۔
اس لیے وہ ٹھوس و طویل المدت منصوبہ بندی کے بجائے امداد و قرضوں پر گزارہ کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔
ہماری تمام حکومتوں نے قرضوں کی ادائیگی اور درآمدی ادائیگیوں کے لیے بیرونی فنانسنگ حاصل کرنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کے پروگراموں کا سہارا لیا،ان پروگراموں کی منظوری نے دیگر کثیرجہتی، دو طرفہ اور تجارتی فنانسنگ کے لیے راہ ہموار کی۔
ان تمام میں تجارتی فنانسنگ سب سے مہنگی ہے، بیشتر ماہرین اقتصادیات اور مبصرین کا خیال ہے کہ بے روزگاری کی سطح کو کم کرنے کے لیے معاشی شرح نمو 6سے 7فیصد تک ہونی چاہیے، یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے بالائی حد کو نظر انداز کر کے شرح نمو کو 6فیصد کی سطح سے آگے بڑھا دیا، انھوں نے یہ کام سیاسی فوائد کے حصول کے لیے کیا۔
دراصل سیاست اور معیشت ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں بلکہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور انھیں الگ نہیں کیا جا سکتا،موجودہ سیاسی عمل سست اور ہنگامہ خیز ہے۔ سیاسی استحکام سے معاشی مسائل میں کمی آسکتی ہے اور اس میں کوئی بھی خلل طویل مدتی نقصانات سے ہمکنار کرسکتا ہے۔
پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، صرف 990 کلو میٹر طویل ساحلی پٹی ہی کو دیکھا جائے تو بہت کچھ کیا جاسکتا ہے، قوم قابل، محنتی اور جفاکش ہے۔ پاکستان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ پاکستان میں زرعی معیشت کو طاقت ور بنایا جا سکتا ہے۔ زراعت کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے تو پاکستان اناج میں خود کفیل ہوسکتا ہے۔
بھارت اپنے زرعی سیکٹر کو جدید زرعی ٹیکنالوجی کے ذریعے ترقی دے رہا ہے، اگر انصاف کی بروقت فراہمی، کرپشن اور جاگیرداری نظام کو ختم کر کے چھوٹے کسانوں و کاشت کاروں کو سہولتیں دی جائیں اور انھیں کاشتکاری کے جدید سائنسی اصول اپنانے کی ترغیب دی جائے تو وہ چند برسوں میں ایسا سبز انقلاب لا سکتے ہیں جو ہمیں مہنگی غیر ملکی گندم کی درآمد سے نجات دلا سکتا ہے۔
مختلف ممالک میں بسنے والے90 لاکھ سے زائد پاکستانی سالانہ 30 ارب ڈالرز زر ترسیلات کے ذریعے معیشت کو سہارا دینے میں اہم ہیں، جسے اگلے پانچ سالوں میں بہتر رجحانات و مارکیٹنگ کے ذریعے 50 ارب ڈالرز اور برآمدات کو 40 ارب ڈالرز تک بڑھایا جا سکتا ہے۔
نئے ڈیمز اور آبی ذخائر کی تعمیر سے نہ صرف بجلی کی شدید قلت کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے بلکہ محفوظ کیے جانے والے پانی کو زرعی مقاصد کے لیے استعمال کر کے موسمی تغیرات سے پیدا ہونے والے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
پھلوں و سبزیوں کو کولڈ اسٹوریج میں رکھنے اور ان کی پروسیسنگ کا وسیع تر بندوبست کرکے انھیں بیرونی ممالک میں بھجوا کر خطیر زرمبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے اور مقامی ضروریات بھی پوری کی جاسکتی ہیں۔
تیل و گیس کے جو حالیہ نئے ذخائر، تھر میں کوئلے اور سولر انرجی کے ذریعے اور فنی مہارت سے آراستہ افرادی قوت اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے بروئے کار لا کر پٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر خرچ ہونے والے سالانہ اربوں ڈالر بچائے جا سکتے ہیں۔
اگر ہم اپنی افرادی قوت کو ہنرمند بنانے کے علاوہ جدید ٹکنالوجی سے ہمکنار کر دیں تو ملکی ترقی کی رفتار کئی گنا تیز ہو سکتی ہے۔
یورپ اور امریکا کی ترقی میں ہنرمند افراد نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج چین اور بھارت بھی اسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان کو کمزور جمہوری نظام، حکومت میں بار بار تبدیلیوں اور سیاسی پولرائزیشن کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام کا سامنا ہے۔
طویل المدتی پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے سیاسی عزم کا فقدان غیر موثر طرز حکمرانی اور سست پیش رفت کا باعث بنا ہے۔
مزید برآں، دہشت گردی اور انتہا پسندی نے ملک کے عدم استحکام میں اہم کردار ادا کیا ہے، جس کے نتیجے میں سیکیورٹی کی صورتحال خراب ہے۔
پاکستانی حکام بخوبی آگاہ ہیں کہ جب تک سیکیورٹی معاملات بہتر نہیں بنائے جاتے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ حاصل نہیں ہو سکتا ،سرمایہ ہمیشہ امن کی تلاش میں رہتا ہے کیونکہ اسی مثبت ماحول میں اسے بھرپور طور پر پنپنے کا موقع ملتا ہے۔موجودہ ملکی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں معاشی چیلنجز بھی ایک اہم تشویش کن صورتحال اختیار کر چکے ہیں۔
غربت میں کمی کے لیے حکومت کی کوششوں کے باوجود، پاکستان میں غربت کی شرح بلند ہے، 40 فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔
بے روزگاری ایک اور اہم معاشی چیلنج ہے، جس میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ملازمتیں تلاش کرنے کے باوجود ان کے حصول میں ناکامی سے دوچار ہے۔
افراط زر ایک مستقل مسئلہ رہا ہے، جس میں ضروری اشیاء اور خدمات کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں، جس سے غریبوں کے لیے اپنا پیٹ بھرنا مشکل ہو گیا ہے۔پاکستان میں سماجی مسائل بھی تشویش کا باعث ہیں، جن میں تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور صنفی عدم مساوات اہم چیلنجز ہیں۔
تعلیمی نظام میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے، آبادی کا ایک بڑا حصہ لکھنے پڑھنے سے قاصر ہے جس کے باعث یہ طبقہ اپنے حقوق و فرائض سے بالکل بے خبر ہے جو بدعنوانی کو مزید تقویت بخشتی ہے۔
صحت کی دیکھ بھال تک رسائی محدود ہے، ناکافی فنڈنگ اور وسائل کی کمی کے نتیجے میں صحت کے خراب نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
پاکستان کی معیشت مشکلات کا شکار ہے، اور کرپشن کی اعلیٰ سطح نے اس چیلنج میں حصہ ڈالا ہے۔ بدعنوانی کا مقابلہ کرنے میں حکومت کی نا اہلی نے عوام کے اعتماد کو کھو دیا ہے، اور اس کے نتیجے میں، اقتصادی ترقی اور ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے۔
پاکستان کی معیشت پر بدعنوانی کے اثرات گہرے ہیں، اندازوں کے مطابق اس سے ملک کو ہر سال اربوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔
اس کے نتیجے میں وسائل کی غلط تقسیم، غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی اور غربت کی سطح میں اضافہ ہوا ہے۔ مزید برآں، بدعنوانی نے صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور انفرااسٹرکچر جیسی عوامی خدمات کے بگاڑ میں بھی حصہ ڈالا ہے۔
بدعنوانی پاکستان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان کو درپیش چیلنجز پر قابو پانے کے لیے بدعنوانی سے نمٹنا بہت ضروری ہے، اور اس کے لیے حکومت، سول سوسائٹی اور شہریوں کی مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔
اگرچہ آگے کا راستہ مشکل ہو سکتا ہے، پاکستان کے لیے بدعنوانی کے خاتمے اور ایک زیادہ منصفانہ اور مساوی معاشرے کی تعمیر کے لیے جرات مندانہ قدم اٹھانا بہت ضروری ہے۔ تب ہی پاکستان پائیدار معاشی ترقی، سماجی ترقی اور سیاسی استحکام حاصل کر سکتا ہے۔
ہماری سیاسی قیادت اپنے اقتدار پر ملک کو ترجیح دے اور لوگوں کی صحیح رہنمائی ہو تو وسائل و محنت کو بروئے کار لا کر ترقیاتی اہداف پورے کیے جا سکتے ہیں۔
غیرملکی امداد کی یہ بیساکھیاں معیشت کی بحالی اور آزاد خارجہ پالیسی کے راستے میں ہمیشہ رکاوٹ رہے گی۔ لازم ہے کہ سیاسی جماعتیں تمام تر اختلافات کو پس پشت ڈال کر ملکی استحکام کے لیے مربوط پالیسی تشکیل دیں اور ملکی ترقی کے لیے حل نکالنا چاہیے۔
معیشت کا تعلق تمام شعبہ ہائے زندگی سے ہے، مضبوط معیشتوں نے جارحیت کا سامنا کیا ہے اور قومی سلامتی کو درپیش چیلنجز کا بھی بخوبی مقابلہ کیا ہے، پاکستان کے لیے یہ سب سے بہترین وقت ہے کہ ہم معاشی پیداوار اور استحکام کو اپنی اولین ترجیح بنائیں، ہمیں روشن مستقبل کے لیے اپنی معاشی پالیسیوں میں تسلسل اور استحکام برقرار رکھنا ہوگا، کیونکہ قومی سلامتی معاشی سلامتی سے مشروط ہے۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل سے متعلق بریفنگ کے دوران کیا۔وزیراعظم کو ایس آئی ایف سی کے تحت بیرونی سرمایہ کاری بڑھانے اور سرمایہ کاروں کی سہولت کے لیے حکومت کی حکمت عملی کے بارے میں بتایا گیا۔
اس وقت ملک کی معیشت جن حالات سے گزر رہی ہے، اس میں نگران حکومت کو مضبوط اقدامات اٹھانے ہونگے۔ نگران حکومت کو منصوبوں کے تسلسل اور دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں کا اختیار پہلے ہی مل چکا ہے اور ان ڈیلز کو حتمی شکل دینا پڑے گی۔
ہمارے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں لیکن ستم ظریفی حالات یہ ہے کہ قومی سطح پر ہمارا رجحان اپنے پاس موجود قدرتی و انسانی وسائل سے فائدہ اٹھانے اور صنعتی مواقع و انفرا اسٹرکچر کی ترقی کے بجائے غیرملکی امداد و قرضوں پر گزارہ کی جانب ہے۔
اس لیے وہ ٹھوس و طویل المدت منصوبہ بندی کے بجائے امداد و قرضوں پر گزارہ کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔
ہماری تمام حکومتوں نے قرضوں کی ادائیگی اور درآمدی ادائیگیوں کے لیے بیرونی فنانسنگ حاصل کرنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کے پروگراموں کا سہارا لیا،ان پروگراموں کی منظوری نے دیگر کثیرجہتی، دو طرفہ اور تجارتی فنانسنگ کے لیے راہ ہموار کی۔
ان تمام میں تجارتی فنانسنگ سب سے مہنگی ہے، بیشتر ماہرین اقتصادیات اور مبصرین کا خیال ہے کہ بے روزگاری کی سطح کو کم کرنے کے لیے معاشی شرح نمو 6سے 7فیصد تک ہونی چاہیے، یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے بالائی حد کو نظر انداز کر کے شرح نمو کو 6فیصد کی سطح سے آگے بڑھا دیا، انھوں نے یہ کام سیاسی فوائد کے حصول کے لیے کیا۔
دراصل سیاست اور معیشت ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں بلکہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور انھیں الگ نہیں کیا جا سکتا،موجودہ سیاسی عمل سست اور ہنگامہ خیز ہے۔ سیاسی استحکام سے معاشی مسائل میں کمی آسکتی ہے اور اس میں کوئی بھی خلل طویل مدتی نقصانات سے ہمکنار کرسکتا ہے۔
پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، صرف 990 کلو میٹر طویل ساحلی پٹی ہی کو دیکھا جائے تو بہت کچھ کیا جاسکتا ہے، قوم قابل، محنتی اور جفاکش ہے۔ پاکستان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ پاکستان میں زرعی معیشت کو طاقت ور بنایا جا سکتا ہے۔ زراعت کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے تو پاکستان اناج میں خود کفیل ہوسکتا ہے۔
بھارت اپنے زرعی سیکٹر کو جدید زرعی ٹیکنالوجی کے ذریعے ترقی دے رہا ہے، اگر انصاف کی بروقت فراہمی، کرپشن اور جاگیرداری نظام کو ختم کر کے چھوٹے کسانوں و کاشت کاروں کو سہولتیں دی جائیں اور انھیں کاشتکاری کے جدید سائنسی اصول اپنانے کی ترغیب دی جائے تو وہ چند برسوں میں ایسا سبز انقلاب لا سکتے ہیں جو ہمیں مہنگی غیر ملکی گندم کی درآمد سے نجات دلا سکتا ہے۔
مختلف ممالک میں بسنے والے90 لاکھ سے زائد پاکستانی سالانہ 30 ارب ڈالرز زر ترسیلات کے ذریعے معیشت کو سہارا دینے میں اہم ہیں، جسے اگلے پانچ سالوں میں بہتر رجحانات و مارکیٹنگ کے ذریعے 50 ارب ڈالرز اور برآمدات کو 40 ارب ڈالرز تک بڑھایا جا سکتا ہے۔
نئے ڈیمز اور آبی ذخائر کی تعمیر سے نہ صرف بجلی کی شدید قلت کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے بلکہ محفوظ کیے جانے والے پانی کو زرعی مقاصد کے لیے استعمال کر کے موسمی تغیرات سے پیدا ہونے والے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
پھلوں و سبزیوں کو کولڈ اسٹوریج میں رکھنے اور ان کی پروسیسنگ کا وسیع تر بندوبست کرکے انھیں بیرونی ممالک میں بھجوا کر خطیر زرمبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے اور مقامی ضروریات بھی پوری کی جاسکتی ہیں۔
تیل و گیس کے جو حالیہ نئے ذخائر، تھر میں کوئلے اور سولر انرجی کے ذریعے اور فنی مہارت سے آراستہ افرادی قوت اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے بروئے کار لا کر پٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر خرچ ہونے والے سالانہ اربوں ڈالر بچائے جا سکتے ہیں۔
اگر ہم اپنی افرادی قوت کو ہنرمند بنانے کے علاوہ جدید ٹکنالوجی سے ہمکنار کر دیں تو ملکی ترقی کی رفتار کئی گنا تیز ہو سکتی ہے۔
یورپ اور امریکا کی ترقی میں ہنرمند افراد نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج چین اور بھارت بھی اسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان کو کمزور جمہوری نظام، حکومت میں بار بار تبدیلیوں اور سیاسی پولرائزیشن کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام کا سامنا ہے۔
طویل المدتی پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے سیاسی عزم کا فقدان غیر موثر طرز حکمرانی اور سست پیش رفت کا باعث بنا ہے۔
مزید برآں، دہشت گردی اور انتہا پسندی نے ملک کے عدم استحکام میں اہم کردار ادا کیا ہے، جس کے نتیجے میں سیکیورٹی کی صورتحال خراب ہے۔
پاکستانی حکام بخوبی آگاہ ہیں کہ جب تک سیکیورٹی معاملات بہتر نہیں بنائے جاتے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ حاصل نہیں ہو سکتا ،سرمایہ ہمیشہ امن کی تلاش میں رہتا ہے کیونکہ اسی مثبت ماحول میں اسے بھرپور طور پر پنپنے کا موقع ملتا ہے۔موجودہ ملکی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں معاشی چیلنجز بھی ایک اہم تشویش کن صورتحال اختیار کر چکے ہیں۔
غربت میں کمی کے لیے حکومت کی کوششوں کے باوجود، پاکستان میں غربت کی شرح بلند ہے، 40 فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔
بے روزگاری ایک اور اہم معاشی چیلنج ہے، جس میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ملازمتیں تلاش کرنے کے باوجود ان کے حصول میں ناکامی سے دوچار ہے۔
افراط زر ایک مستقل مسئلہ رہا ہے، جس میں ضروری اشیاء اور خدمات کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں، جس سے غریبوں کے لیے اپنا پیٹ بھرنا مشکل ہو گیا ہے۔پاکستان میں سماجی مسائل بھی تشویش کا باعث ہیں، جن میں تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور صنفی عدم مساوات اہم چیلنجز ہیں۔
تعلیمی نظام میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے، آبادی کا ایک بڑا حصہ لکھنے پڑھنے سے قاصر ہے جس کے باعث یہ طبقہ اپنے حقوق و فرائض سے بالکل بے خبر ہے جو بدعنوانی کو مزید تقویت بخشتی ہے۔
صحت کی دیکھ بھال تک رسائی محدود ہے، ناکافی فنڈنگ اور وسائل کی کمی کے نتیجے میں صحت کے خراب نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
پاکستان کی معیشت مشکلات کا شکار ہے، اور کرپشن کی اعلیٰ سطح نے اس چیلنج میں حصہ ڈالا ہے۔ بدعنوانی کا مقابلہ کرنے میں حکومت کی نا اہلی نے عوام کے اعتماد کو کھو دیا ہے، اور اس کے نتیجے میں، اقتصادی ترقی اور ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے۔
پاکستان کی معیشت پر بدعنوانی کے اثرات گہرے ہیں، اندازوں کے مطابق اس سے ملک کو ہر سال اربوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔
اس کے نتیجے میں وسائل کی غلط تقسیم، غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی اور غربت کی سطح میں اضافہ ہوا ہے۔ مزید برآں، بدعنوانی نے صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور انفرااسٹرکچر جیسی عوامی خدمات کے بگاڑ میں بھی حصہ ڈالا ہے۔
بدعنوانی پاکستان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان کو درپیش چیلنجز پر قابو پانے کے لیے بدعنوانی سے نمٹنا بہت ضروری ہے، اور اس کے لیے حکومت، سول سوسائٹی اور شہریوں کی مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔
اگرچہ آگے کا راستہ مشکل ہو سکتا ہے، پاکستان کے لیے بدعنوانی کے خاتمے اور ایک زیادہ منصفانہ اور مساوی معاشرے کی تعمیر کے لیے جرات مندانہ قدم اٹھانا بہت ضروری ہے۔ تب ہی پاکستان پائیدار معاشی ترقی، سماجی ترقی اور سیاسی استحکام حاصل کر سکتا ہے۔
ہماری سیاسی قیادت اپنے اقتدار پر ملک کو ترجیح دے اور لوگوں کی صحیح رہنمائی ہو تو وسائل و محنت کو بروئے کار لا کر ترقیاتی اہداف پورے کیے جا سکتے ہیں۔
غیرملکی امداد کی یہ بیساکھیاں معیشت کی بحالی اور آزاد خارجہ پالیسی کے راستے میں ہمیشہ رکاوٹ رہے گی۔ لازم ہے کہ سیاسی جماعتیں تمام تر اختلافات کو پس پشت ڈال کر ملکی استحکام کے لیے مربوط پالیسی تشکیل دیں اور ملکی ترقی کے لیے حل نکالنا چاہیے۔
معیشت کا تعلق تمام شعبہ ہائے زندگی سے ہے، مضبوط معیشتوں نے جارحیت کا سامنا کیا ہے اور قومی سلامتی کو درپیش چیلنجز کا بھی بخوبی مقابلہ کیا ہے، پاکستان کے لیے یہ سب سے بہترین وقت ہے کہ ہم معاشی پیداوار اور استحکام کو اپنی اولین ترجیح بنائیں، ہمیں روشن مستقبل کے لیے اپنی معاشی پالیسیوں میں تسلسل اور استحکام برقرار رکھنا ہوگا، کیونکہ قومی سلامتی معاشی سلامتی سے مشروط ہے۔