نگران اور نگرانی کا مشکل امتحان
نگران کابینہ میں ’اپنے‘ بندوں کی موجودگی ضروری ہے کہ سارا کیا کرایا بقول شخصے پٹڑی سے نہ اترے
انتظار اور تجسس اپنے انجام کو پہنچا، نگران حکومت کے قیام کا پہلا مرحلہ طے ہو گیا۔ جن ناموں کی مارکیٹ میں دھوم تھی ان کے برعکس 'ڈارک ہارس' سینیٹر انوار الحق کاکڑ کا نام بطور نگران وزیر اعظم سب کو حیران کر گیا۔
اتحادی جماعتوں میں سے کچھ شش و پنج میں تھے کہ لگی بندھی مبارک باد کافی ہے یا تحفظات کا اظہار کرنا ہے! بیشتر کو بالآخر روایتی صفات پر شادمانی کا اظہار کرنے میں ہی عافیت نظر آئی کہ نوجوان ہیں، تعلیم یافتہ ہیں، بلوچستان سے ہیں، شش زبان ہیں، گو بلوچستان عوامی پارٹی کے بانی رکن ہیں مگر معروف معنوں میں غیر سیاسی ہیں، گو وزارتی تجربہ نہیں لیکن بلوچستان حکومت کے ترجمان تو رہے ہیں، پچھلے پانچ سال سے سینیٹ میں بھی موجود ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کے تجویز کردہ اور سابق وزیر اعظم شہباز شریف کے تائید کنندہ ہیں۔
پی ڈی ایم کی حکومت کو مئی کے اوائل تک پارلیمنٹ کی مدت بڑھانے کی فکر تھی لیکن نو مئی نے تیل اور تیل کی دھار ہی بدل دی۔ اس دوران البتہ آئی ایم ایف کی بے مروتی نے حکومتی مزہ کرکرا کیے رکھا ۔ آئی ایم ایف کے ساتھ دوست ممالک کی دامے درمے سخنے امداد سے عین آخری روز بڑی مشکل سے معاہدہ طے پایا تو حکومت کی جان میں جان آئی لیکن عوام کی جان سولی پر اٹک گئی۔ جب جب آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہوا عوام کو بجلی، گیس، پٹرول، مہنگائی اور شرح مبادلہ کی طرف سے خیر کی خبر کبھی نہیں ملی۔
ایسے میں حکومت نے عوام کو اچھے دنوں کی تسلی کے لیے لگ بھگ چھ ٹریلین ٖ ڈالرز کی معدنیات موجود ہونے اور اس حکومتی عزم کی نوید دی کہ نکال کے رہیں گے معدنیات۔ نہ صرف نوید دی بلکہ دو تین سرمایہ کاری سیمینار بھی کر ڈالے۔ دوست ممالک کی جانب سے چھبیس ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی شدید خواہش بلکہ ضد کا احوال بھی سنایا۔
ان معدنیات کو زمین سے نکالنے اور کام میں لانے میں کچھ ٹیکنالوجی اور سرمایہ تو درکار ہوگا لیکن کیا کیجیے ، اول ؛ حکومت اپنی شفٹ بدلی میں مصروف تھی ، دوم؛ ہم سادہ لوگوں کو ہاتھ کی میل یعنی پیسہ دھیلا جمع کرنے سے کبھی رغبت نہیں رہی، اب سرمایہ لائیں تو کہاں سے۔ وہ تو اللہ بھلا کرے سابق وزیر اعظم شہباز شریف کا کہ انھوں نے مشکل وقتوں کی خاطر بہت سے امیر ممالک سے دوستی بنائی ہوئی تھی جو کام آئی۔
آئی ایم ایف کی ناں کو ہاں میں بدلنے اور کھربوں ڈالرز کی معدنیات کو نکالنے کے مشکل کام کی رسمِ بسم اللہ میں دوست ممالک کام آئے۔ یوں سابق وزیر اعظم کی سمجھداری سے سرمائے کا بندوبست ہوگیا لیکن دو اندیشے اب بھی جتن سے پکائی کھیر کے درپے تھے۔
اول ؛ سارا بندوبست کرنے والی حکومت تو اپنی 'آئینی مدت' مکمل کرکے جارہی تھی، ان وعدوں اور پروجیکٹس کا کیا بنے گا؟ آنے والی حکومت کا کیا اعتبار اسے ان پروجیکٹس کی سمجھ آئے نہ آئے یا دل کو نہ بھائے تو۔ جاتی حکومت کی دوراندیشی نے اس کا بھی حل ڈھونڈ نکالا۔ ایک اسپیشل انویسٹمنٹ سہولت کونسل تشکیل دی گئی جس میں وہ سب بڑے بڑے نام اور عہدے دار شامل ہیں جن کا نام سن کر دانتوں کو بھی پسینہ آئے، مقصد یہ تھاکہ بیوروکریسی ان پروجیکٹس کو لال جھنڈی لہرا لہرا کر حلال نہ کرے بلکہ' شہباز اسپیڈ ' سے سرمایہ کاری کا عمل جاری رہے۔
دوسرا کام یہ کیا کہ الیکشن کے ڈھول بجانے کے لیے کچھ وقفے کا اہتمام کیا ۔اس سے الیکشن کو فوراً سر پر سوار کرنے کے بجائے نئی حلقہ بندیوں کا عمل بھی مکمل ہو جائے گا، ایک ضمنی فائدہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پی ڈی ایم حکومت اور آئی ایم ایف پیکیج کے اقدامات کا بوجھ بھی اس دوران نگران حکومت کے ذمے لگ جائے گا، عوام کی کمزور یادداشت کو اللہ سلامت رکھے انھیں چار چھ ماہ میں اس قدر اپنی اپنی پڑ جانی ہے کہ سب جانے والی حکومت کو اس کے مقابلے میں اچھا کہیں گے۔
آئی ایم ایف پیکیج کی اگلے سال مارچ میں تکمیل تک ابھی عوام کی 'آہ و بکا' کے کئی مقام آنے ہیں اس لیے ضروری ہوا کہ عین ان دنوں الیکشن کا ڈول ڈال کر آ بیل مجھے مار کی حماقت کیوں کی جائے۔ سمجھداری اسی میں نظر آئی کہ کسی مضبوط آئینی سہارے سے الیکشن کے ڈھول دور ہی بجیں تو سہانے لگیں گے۔
جس طرح اللہ نے اسماعیل میرٹھی کی گائے بنائی اسی طرح پی ڈی ایم حکومت کو سسٹم نے الیکشن کمیشن کی موجودگی اور تعاون سے سرفراز کیا۔ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار پارلیمنٹ نے الیکشن کمیشن کو دے کر اپنی گلو خلاصی کروا لی ۔ اب الیکشن کی تاریخ دینے کا ڈھول الیکشن کمیشن کے گلے میں ہے۔
الیکشن کمیشن اب الیکشن سے پہلے حلقہ بندیوں کی آئینی مجبوری کا نقارہ بجانے پر مجبور ہے۔ پی ڈی ایم سے باہر (سوائے پی پی پی کے) ہر ایک کو الیکشن جلد کروانے کی فکر ہے لیکن پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں اس فکر سے آزاد ہیں۔ سیاست کے طویل اور کہنہ مشق کھلاڑی ہونے کے ناتے جاتی ہوئی حکومت کے کارپردازوں کو علم تھا کہ کرسی اور اقتدار کی راہداریوں کے ملاقاتی بے مروت ہونے میں ذرا دیر نہیں لگاتے ۔
اس لیے نگران کابینہ میں 'اپنے' بندوں کی موجودگی ضروری ہے کہ سارا کیا کرایا بقول شخصے پٹڑی سے نہ اترے۔ اس لیے حیرت نہیں ہوئی کہ نگران کابینہ کے بیشتر چہرے اپنے اپنے تجویز کنندگان کا مجسم تعارف ہیں۔اس کے ساتھ ہی اب نگران حکومت اور نگرانی کا مشکل امتحان شروع ہو گیا ہے۔ ابتدائے حکومت ہو چکی ، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟
اتحادی جماعتوں میں سے کچھ شش و پنج میں تھے کہ لگی بندھی مبارک باد کافی ہے یا تحفظات کا اظہار کرنا ہے! بیشتر کو بالآخر روایتی صفات پر شادمانی کا اظہار کرنے میں ہی عافیت نظر آئی کہ نوجوان ہیں، تعلیم یافتہ ہیں، بلوچستان سے ہیں، شش زبان ہیں، گو بلوچستان عوامی پارٹی کے بانی رکن ہیں مگر معروف معنوں میں غیر سیاسی ہیں، گو وزارتی تجربہ نہیں لیکن بلوچستان حکومت کے ترجمان تو رہے ہیں، پچھلے پانچ سال سے سینیٹ میں بھی موجود ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کے تجویز کردہ اور سابق وزیر اعظم شہباز شریف کے تائید کنندہ ہیں۔
پی ڈی ایم کی حکومت کو مئی کے اوائل تک پارلیمنٹ کی مدت بڑھانے کی فکر تھی لیکن نو مئی نے تیل اور تیل کی دھار ہی بدل دی۔ اس دوران البتہ آئی ایم ایف کی بے مروتی نے حکومتی مزہ کرکرا کیے رکھا ۔ آئی ایم ایف کے ساتھ دوست ممالک کی دامے درمے سخنے امداد سے عین آخری روز بڑی مشکل سے معاہدہ طے پایا تو حکومت کی جان میں جان آئی لیکن عوام کی جان سولی پر اٹک گئی۔ جب جب آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہوا عوام کو بجلی، گیس، پٹرول، مہنگائی اور شرح مبادلہ کی طرف سے خیر کی خبر کبھی نہیں ملی۔
ایسے میں حکومت نے عوام کو اچھے دنوں کی تسلی کے لیے لگ بھگ چھ ٹریلین ٖ ڈالرز کی معدنیات موجود ہونے اور اس حکومتی عزم کی نوید دی کہ نکال کے رہیں گے معدنیات۔ نہ صرف نوید دی بلکہ دو تین سرمایہ کاری سیمینار بھی کر ڈالے۔ دوست ممالک کی جانب سے چھبیس ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی شدید خواہش بلکہ ضد کا احوال بھی سنایا۔
ان معدنیات کو زمین سے نکالنے اور کام میں لانے میں کچھ ٹیکنالوجی اور سرمایہ تو درکار ہوگا لیکن کیا کیجیے ، اول ؛ حکومت اپنی شفٹ بدلی میں مصروف تھی ، دوم؛ ہم سادہ لوگوں کو ہاتھ کی میل یعنی پیسہ دھیلا جمع کرنے سے کبھی رغبت نہیں رہی، اب سرمایہ لائیں تو کہاں سے۔ وہ تو اللہ بھلا کرے سابق وزیر اعظم شہباز شریف کا کہ انھوں نے مشکل وقتوں کی خاطر بہت سے امیر ممالک سے دوستی بنائی ہوئی تھی جو کام آئی۔
آئی ایم ایف کی ناں کو ہاں میں بدلنے اور کھربوں ڈالرز کی معدنیات کو نکالنے کے مشکل کام کی رسمِ بسم اللہ میں دوست ممالک کام آئے۔ یوں سابق وزیر اعظم کی سمجھداری سے سرمائے کا بندوبست ہوگیا لیکن دو اندیشے اب بھی جتن سے پکائی کھیر کے درپے تھے۔
اول ؛ سارا بندوبست کرنے والی حکومت تو اپنی 'آئینی مدت' مکمل کرکے جارہی تھی، ان وعدوں اور پروجیکٹس کا کیا بنے گا؟ آنے والی حکومت کا کیا اعتبار اسے ان پروجیکٹس کی سمجھ آئے نہ آئے یا دل کو نہ بھائے تو۔ جاتی حکومت کی دوراندیشی نے اس کا بھی حل ڈھونڈ نکالا۔ ایک اسپیشل انویسٹمنٹ سہولت کونسل تشکیل دی گئی جس میں وہ سب بڑے بڑے نام اور عہدے دار شامل ہیں جن کا نام سن کر دانتوں کو بھی پسینہ آئے، مقصد یہ تھاکہ بیوروکریسی ان پروجیکٹس کو لال جھنڈی لہرا لہرا کر حلال نہ کرے بلکہ' شہباز اسپیڈ ' سے سرمایہ کاری کا عمل جاری رہے۔
دوسرا کام یہ کیا کہ الیکشن کے ڈھول بجانے کے لیے کچھ وقفے کا اہتمام کیا ۔اس سے الیکشن کو فوراً سر پر سوار کرنے کے بجائے نئی حلقہ بندیوں کا عمل بھی مکمل ہو جائے گا، ایک ضمنی فائدہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پی ڈی ایم حکومت اور آئی ایم ایف پیکیج کے اقدامات کا بوجھ بھی اس دوران نگران حکومت کے ذمے لگ جائے گا، عوام کی کمزور یادداشت کو اللہ سلامت رکھے انھیں چار چھ ماہ میں اس قدر اپنی اپنی پڑ جانی ہے کہ سب جانے والی حکومت کو اس کے مقابلے میں اچھا کہیں گے۔
آئی ایم ایف پیکیج کی اگلے سال مارچ میں تکمیل تک ابھی عوام کی 'آہ و بکا' کے کئی مقام آنے ہیں اس لیے ضروری ہوا کہ عین ان دنوں الیکشن کا ڈول ڈال کر آ بیل مجھے مار کی حماقت کیوں کی جائے۔ سمجھداری اسی میں نظر آئی کہ کسی مضبوط آئینی سہارے سے الیکشن کے ڈھول دور ہی بجیں تو سہانے لگیں گے۔
جس طرح اللہ نے اسماعیل میرٹھی کی گائے بنائی اسی طرح پی ڈی ایم حکومت کو سسٹم نے الیکشن کمیشن کی موجودگی اور تعاون سے سرفراز کیا۔ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار پارلیمنٹ نے الیکشن کمیشن کو دے کر اپنی گلو خلاصی کروا لی ۔ اب الیکشن کی تاریخ دینے کا ڈھول الیکشن کمیشن کے گلے میں ہے۔
الیکشن کمیشن اب الیکشن سے پہلے حلقہ بندیوں کی آئینی مجبوری کا نقارہ بجانے پر مجبور ہے۔ پی ڈی ایم سے باہر (سوائے پی پی پی کے) ہر ایک کو الیکشن جلد کروانے کی فکر ہے لیکن پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں اس فکر سے آزاد ہیں۔ سیاست کے طویل اور کہنہ مشق کھلاڑی ہونے کے ناتے جاتی ہوئی حکومت کے کارپردازوں کو علم تھا کہ کرسی اور اقتدار کی راہداریوں کے ملاقاتی بے مروت ہونے میں ذرا دیر نہیں لگاتے ۔
اس لیے نگران کابینہ میں 'اپنے' بندوں کی موجودگی ضروری ہے کہ سارا کیا کرایا بقول شخصے پٹڑی سے نہ اترے۔ اس لیے حیرت نہیں ہوئی کہ نگران کابینہ کے بیشتر چہرے اپنے اپنے تجویز کنندگان کا مجسم تعارف ہیں۔اس کے ساتھ ہی اب نگران حکومت اور نگرانی کا مشکل امتحان شروع ہو گیا ہے۔ ابتدائے حکومت ہو چکی ، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟