در بدر خاک بسر مخلوق
ریاست اس تنگ نظر مذہب پرستی کے جن کو قابو کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے
یہ واحد ریاست ہے جہاں نہ حوا کی بیٹی محفوظ ہے اور نہ زلیخا کی بیٹی داد و فریاد کرنے کی اہل ہے ،یہی وہ ریاست ہے جہاں طاقتور حکمران اور ان کے اشاروں پر ناچتے سیاسی ہرکارے انصاف، قانون کی بالادستی اور عوام کے دکھ درد میں زبانی کلامی ہمدردی کے ایسی دفاتر کھولتے ہیں کہ دکھ درد کے تمام الفاظ اپنی بے توقیری اور بے بسی پر صرف شدید درد اور کرب میں ہی مبتلا رہ کر عوام سے شرمندہ شرمندہ رہتے ہیں، مگر مجال جو اس ریاست کے سیاسی وڈیروں، پیر، اور طاقت کے ڈھیر سے نکلے سیاست دان کے روپ میں حکمران کے عیش و عشرت اور سہولت کاری پر کوئی فرق پڑ جائے۔
یہ ایک ایسی ریاست ہیں جہاں کے کرپٹ اور بدنام زمانہ وزرا مقدمات اور جرائم میں مبتلا ہونے کے باوجود اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں اور عوام کو اپنے استحصالی ذہن اور جھوٹ و فریب میں لپٹے ہوئے نعروں سے ''جمہوریت'' انسانی حقوق اور انصاف''دلانے کا درس دیتے ہوئے نہیں تھکتے اور انتہائی ڈھٹائی سے پاپا جونز کا دفاع کر رہے ہوتے ہیں۔
ریاست کی مقدس آئینی کتاب کو کاغذ کا ایک فاضل پرزہ سمجھ کر عوام اور جمہوریت کا گلہ گھونٹ کر بار بار عوام پر ''غیر آئینی طاقت'' کو مسلط کرکے اور عوام کو جذباتی نعروں میں الجھا کر عوام کے حقوق غصب کرنے کا نیا کھیل شروع کرتے ہیں ،بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ حکمران طبقات اور سیاست کرنے والے ارکان کو عدالت کا قاضی ہر وقت سہولت دینے اور طاقت کی آبرو پر سزا دینے کو جہاں تیار رہتا ہے تو وہیں عدلیہ کا یہ قاضی طاقت کے اشارے پر ''صادق و امین'' کے سر ٹیفکیٹ دینے میں بھی دیر نہیں کرتا۔
یہاں کے نظام میں طاقتور حلقے اپنے من پسند سیاستدانوں کے ذریعے عوام اور نسل کو تعلیم سے دور اور جہالت میں پڑے رہنے کا ایسا انجکشن لگوا دیتے کہ عوام اپنے انصاف اور دکھ درد کو خانقاہوں میں عزتوں کو تار تار کرنے والے وڈیرے نما ''پیر'' کے مرید ہونے میں تلاش کرتے ہیں اور ریاست کی طاقت اورنظام'' حوا اور زلیخا کی بیٹیوں'' کی عصمتوں کو لہو لہان کرنے والے ''پیر'' اور ان کی نسل کو ہی ایوان میں لا کر انھیں مزید مکروہ عمل کرنے کی کھلی چھٹی دیتارہتاہے، طاقت اور بے بسی کے اس غیر انسانی نظام میں آج بھی وڈیرہ ِچوہدریِ ،خان،سردار اور سرمائے سے عوام کا استحصال اور حق کھانے والے اور عوام کی عزت نفس کو دربدر کرنے والے نظام کا حصہ بنے بیٹھے ہیں،مگر مجال کہ طاقت کے پجاری عوام کی خاک بسری اور عصمتوں کے سودے ہونے اور ''پیروں'' کی مریدوں کی بیٹیوں پر رال ٹپکانے کو برا سمجھتے ہوں،ہر گز نہیں۔
اگر یقین نہ آئے تو جڑانوالہ کے جلتے ہوئے گھر اور یسوع مسیح کے لاچار و بے بس ماننے اور اس ملک کے وفاداروں کے کھیتوں میں پناہ لینے کو دیکھ لیں ،یاآپ سندھ کے شہر خیرپور کی تحصیل رانی پور پر نظر ڈالیںجہاں ایک پیر نے تشدد کرکے دس سالہ فاطمہ کو موت کے گھاٹ اتاردیا اور کہتا رہا کہ وہ اس مرید کی بچی کو اپنی بچی سمجھتا تھا اور اسی وجہ سے اسے اپنے کمرے میں تحفظ فراہم کرنے کی نیت سے رکھتا تھا،عدالت نے اس اندوہناک واقعے کی اصل وجوہات معلوم کرنے کے لیے فاطمہ کی قبر کشائی کی اجازت دے دی ہے تاکہ حقائق کا پتہ چل سکے ،رانی پور کے اس پیر کے گھر کے دیگر افراد بھی اس پرتشدد کاروائی میں ملوث بتائے گئے ہیں مگر رانی پور کے ''پیر'' کی بیوی کو عدالت نے عبوری ضمانت فراہم کر دی ہے،حالات و واقعات کے قرائن بتاتے ہیں کہ رانی پور کے اس ''پیر'' کے گھر میں اپنے مریدوں کی 53 سے زائد بچیاں خدمت پر مامور ہیں جن میں سے ایک خدمت کار ''اجالا'' کا کہنا ہے کہ ''پیر'' کے گھرانے کے تمام افراد ان پر تشدد کرتے تھے اور سزا کے طور پر گرم پانی ان پر بہا دیا کرتے تھے ۔
تحقیقات کے بعد کیا بات سامنے آتی ہے ،اس سے قطع نظر ننھی فاطمہ کو انصاف ملنے یا ان کے لواحقین کو پر سکون اور با حفاظت زندگی گذارنے کی ضمانت پر عوام کا قطعی بھروسہ نہیں،فاطمہ کی پر تشدد موت اور پیری فقیری نظام کے خلاف پورا سماج سراپا احتجاج ہے،اب دیکھنا یہ ہے کہ اسمبلیوں میں منتخب ہوکر آنے والے یہ بااثر ''پیر'' عوام کے مجرم قرار پا کر کیفر کردار تک پہنچائے جاتے ہیں یا پھر کسی پیر کے پیروں تلے کچھ دنوں بعد کوئی حوا کی بیٹی مسل دی جائے گی اور عوام کو اعلیٰ حکمران طبقات اور سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کی مذمت اور قابل افسوس بیانات پرہی ٹرخایا جائے گا؟
ترقی پسند ادب و دانش نے ہمیشہ سماج کی تمام پرتوں میں انصاف فراہم کرنے اور ان کے جینے کے حق کی آواز بلند کی ہے،یہی وجہ ہے کہ ترقی پسند ادب ریاست کے تمامتر جبر کے باوجود عوام کے تمام طبقات کی آواز رہا ہے،کل بھی ترقی پسند شاعر ساحر لدھیانوی مفلوک الحال عوام اور بے بس عوام اور خواتین کی آواز تھا،آج بھی سات دہائیوں بعد بھی ساحر کی مظلوم کے دکھ درد کی للکار کا جواب کسی کے پاس نظر نہیں آتا،جدید ترقیاتی دنیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی سے لیس حکمران اور سیاست دان حوا، زلیخا،رادھا اور یشودھا کی بیٹی کی عصمتوں کو محفوظ کرنے اور اسے تعلیم دلوانے میں ناکام و نامراد ،عوام کا استحصال مذہب اور جنس کے نام پر کررہے ہیں،سماج کے زخموں سے ٹیسیں اٹھ رہی ہیں مگر طاقت اور جبر کے نظام کے سیاسی حکمران ریاست کی مظلوم ''بیٹی'' اور اس کی مذہبی آزادی کو قید سے نہیں چھڑواسکے ہیں گویا ساحر نے درست ہی تو کہاتھا کہ...
یہاں پیر بھی آچکے ہیں جواں بھی
یہ بیوی بھی ہے بہن اور ماں بھی
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
یشودھا کی ہم جنس،رادھا کی بیٹی
پیمبر کی امت،زلیخا کی بیٹی
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟
لگتا ہے کہ پنجاب کے شہر جڑانوالہ میں اب تک ہم سب کے رہنما، آمر کی نفرت پسند سوچ کے تازیانے کھانے اور اپنے چاہنے والوں کو انصاف اور پر امن زندگی دلوانے میں بے بس ہیں،جنرل ایوب نے اس ملک کے افراد کو برادری اور قومیت کے جاہلانہ لبادے میں لپیٹنے کی جس سوچ کی بنیاد رکھی تھی اس نفرت کی سوچ نے نفاق ڈالنے کی فصل بوئی جو آج پست سوچ کے ساتھ پوری ریاست میں نفرت کا پھن پھیلائے ریاست کے گلی کوچے اور قریئے میں بارود کی بو بھر کر ریاست کے تمام نفوس کو بھسم کردینا چاہتی ہے جب کہ ریاست صرف مذمتی بیان دے کر اپنی نا اہلی اور نظام کی ناکامی کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔
ریاست اس تنگ نظر مذہب پرستی کے جن کو قابو کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے،کہیں ایسا تو نہیں نفرتوں کا یہ الائو آنے والے کل میں ریاست سے امن محبت رواداری اور شانتی کو ہی بھسم کردے !کیا یہ ریاست ان نفرت پسندوں کو ختم کرپائے گی؟
یہ ایک ایسی ریاست ہیں جہاں کے کرپٹ اور بدنام زمانہ وزرا مقدمات اور جرائم میں مبتلا ہونے کے باوجود اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں اور عوام کو اپنے استحصالی ذہن اور جھوٹ و فریب میں لپٹے ہوئے نعروں سے ''جمہوریت'' انسانی حقوق اور انصاف''دلانے کا درس دیتے ہوئے نہیں تھکتے اور انتہائی ڈھٹائی سے پاپا جونز کا دفاع کر رہے ہوتے ہیں۔
ریاست کی مقدس آئینی کتاب کو کاغذ کا ایک فاضل پرزہ سمجھ کر عوام اور جمہوریت کا گلہ گھونٹ کر بار بار عوام پر ''غیر آئینی طاقت'' کو مسلط کرکے اور عوام کو جذباتی نعروں میں الجھا کر عوام کے حقوق غصب کرنے کا نیا کھیل شروع کرتے ہیں ،بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ حکمران طبقات اور سیاست کرنے والے ارکان کو عدالت کا قاضی ہر وقت سہولت دینے اور طاقت کی آبرو پر سزا دینے کو جہاں تیار رہتا ہے تو وہیں عدلیہ کا یہ قاضی طاقت کے اشارے پر ''صادق و امین'' کے سر ٹیفکیٹ دینے میں بھی دیر نہیں کرتا۔
یہاں کے نظام میں طاقتور حلقے اپنے من پسند سیاستدانوں کے ذریعے عوام اور نسل کو تعلیم سے دور اور جہالت میں پڑے رہنے کا ایسا انجکشن لگوا دیتے کہ عوام اپنے انصاف اور دکھ درد کو خانقاہوں میں عزتوں کو تار تار کرنے والے وڈیرے نما ''پیر'' کے مرید ہونے میں تلاش کرتے ہیں اور ریاست کی طاقت اورنظام'' حوا اور زلیخا کی بیٹیوں'' کی عصمتوں کو لہو لہان کرنے والے ''پیر'' اور ان کی نسل کو ہی ایوان میں لا کر انھیں مزید مکروہ عمل کرنے کی کھلی چھٹی دیتارہتاہے، طاقت اور بے بسی کے اس غیر انسانی نظام میں آج بھی وڈیرہ ِچوہدریِ ،خان،سردار اور سرمائے سے عوام کا استحصال اور حق کھانے والے اور عوام کی عزت نفس کو دربدر کرنے والے نظام کا حصہ بنے بیٹھے ہیں،مگر مجال کہ طاقت کے پجاری عوام کی خاک بسری اور عصمتوں کے سودے ہونے اور ''پیروں'' کی مریدوں کی بیٹیوں پر رال ٹپکانے کو برا سمجھتے ہوں،ہر گز نہیں۔
اگر یقین نہ آئے تو جڑانوالہ کے جلتے ہوئے گھر اور یسوع مسیح کے لاچار و بے بس ماننے اور اس ملک کے وفاداروں کے کھیتوں میں پناہ لینے کو دیکھ لیں ،یاآپ سندھ کے شہر خیرپور کی تحصیل رانی پور پر نظر ڈالیںجہاں ایک پیر نے تشدد کرکے دس سالہ فاطمہ کو موت کے گھاٹ اتاردیا اور کہتا رہا کہ وہ اس مرید کی بچی کو اپنی بچی سمجھتا تھا اور اسی وجہ سے اسے اپنے کمرے میں تحفظ فراہم کرنے کی نیت سے رکھتا تھا،عدالت نے اس اندوہناک واقعے کی اصل وجوہات معلوم کرنے کے لیے فاطمہ کی قبر کشائی کی اجازت دے دی ہے تاکہ حقائق کا پتہ چل سکے ،رانی پور کے اس پیر کے گھر کے دیگر افراد بھی اس پرتشدد کاروائی میں ملوث بتائے گئے ہیں مگر رانی پور کے ''پیر'' کی بیوی کو عدالت نے عبوری ضمانت فراہم کر دی ہے،حالات و واقعات کے قرائن بتاتے ہیں کہ رانی پور کے اس ''پیر'' کے گھر میں اپنے مریدوں کی 53 سے زائد بچیاں خدمت پر مامور ہیں جن میں سے ایک خدمت کار ''اجالا'' کا کہنا ہے کہ ''پیر'' کے گھرانے کے تمام افراد ان پر تشدد کرتے تھے اور سزا کے طور پر گرم پانی ان پر بہا دیا کرتے تھے ۔
تحقیقات کے بعد کیا بات سامنے آتی ہے ،اس سے قطع نظر ننھی فاطمہ کو انصاف ملنے یا ان کے لواحقین کو پر سکون اور با حفاظت زندگی گذارنے کی ضمانت پر عوام کا قطعی بھروسہ نہیں،فاطمہ کی پر تشدد موت اور پیری فقیری نظام کے خلاف پورا سماج سراپا احتجاج ہے،اب دیکھنا یہ ہے کہ اسمبلیوں میں منتخب ہوکر آنے والے یہ بااثر ''پیر'' عوام کے مجرم قرار پا کر کیفر کردار تک پہنچائے جاتے ہیں یا پھر کسی پیر کے پیروں تلے کچھ دنوں بعد کوئی حوا کی بیٹی مسل دی جائے گی اور عوام کو اعلیٰ حکمران طبقات اور سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کی مذمت اور قابل افسوس بیانات پرہی ٹرخایا جائے گا؟
ترقی پسند ادب و دانش نے ہمیشہ سماج کی تمام پرتوں میں انصاف فراہم کرنے اور ان کے جینے کے حق کی آواز بلند کی ہے،یہی وجہ ہے کہ ترقی پسند ادب ریاست کے تمامتر جبر کے باوجود عوام کے تمام طبقات کی آواز رہا ہے،کل بھی ترقی پسند شاعر ساحر لدھیانوی مفلوک الحال عوام اور بے بس عوام اور خواتین کی آواز تھا،آج بھی سات دہائیوں بعد بھی ساحر کی مظلوم کے دکھ درد کی للکار کا جواب کسی کے پاس نظر نہیں آتا،جدید ترقیاتی دنیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی سے لیس حکمران اور سیاست دان حوا، زلیخا،رادھا اور یشودھا کی بیٹی کی عصمتوں کو محفوظ کرنے اور اسے تعلیم دلوانے میں ناکام و نامراد ،عوام کا استحصال مذہب اور جنس کے نام پر کررہے ہیں،سماج کے زخموں سے ٹیسیں اٹھ رہی ہیں مگر طاقت اور جبر کے نظام کے سیاسی حکمران ریاست کی مظلوم ''بیٹی'' اور اس کی مذہبی آزادی کو قید سے نہیں چھڑواسکے ہیں گویا ساحر نے درست ہی تو کہاتھا کہ...
یہاں پیر بھی آچکے ہیں جواں بھی
یہ بیوی بھی ہے بہن اور ماں بھی
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
یشودھا کی ہم جنس،رادھا کی بیٹی
پیمبر کی امت،زلیخا کی بیٹی
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟
لگتا ہے کہ پنجاب کے شہر جڑانوالہ میں اب تک ہم سب کے رہنما، آمر کی نفرت پسند سوچ کے تازیانے کھانے اور اپنے چاہنے والوں کو انصاف اور پر امن زندگی دلوانے میں بے بس ہیں،جنرل ایوب نے اس ملک کے افراد کو برادری اور قومیت کے جاہلانہ لبادے میں لپیٹنے کی جس سوچ کی بنیاد رکھی تھی اس نفرت کی سوچ نے نفاق ڈالنے کی فصل بوئی جو آج پست سوچ کے ساتھ پوری ریاست میں نفرت کا پھن پھیلائے ریاست کے گلی کوچے اور قریئے میں بارود کی بو بھر کر ریاست کے تمام نفوس کو بھسم کردینا چاہتی ہے جب کہ ریاست صرف مذمتی بیان دے کر اپنی نا اہلی اور نظام کی ناکامی کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔
ریاست اس تنگ نظر مذہب پرستی کے جن کو قابو کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے،کہیں ایسا تو نہیں نفرتوں کا یہ الائو آنے والے کل میں ریاست سے امن محبت رواداری اور شانتی کو ہی بھسم کردے !کیا یہ ریاست ان نفرت پسندوں کو ختم کرپائے گی؟