متحدہ ہندوستان کی وکالت کیوں

جتنا قائد اعظم نے کانگریس ذہنیت کو سمجھا تھا کاش کہ پاکستان مخالف مسلم شخصیات بھی سمجھ لیتیں

usmandamohi@yahoo.com

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان اگر نہ بنتا تو برصغیر میں مسلمانوں کی طاقت کو کوئی نہیں توڑ سکتا تھا۔ مسلمان متحدہ ہندوستان میں پورے رعب کے ساتھ رہ رہے تھے۔ انھیں اکثریت سے کوئی خطرہ لاحق نہ ہوتا۔ یہ خام خیالی نہیں تو کیا ہے؟

سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر پاکستان کے قیام کو روکنے کے لیے کانگریس سمیت دیگر ہندو جماعتوں نے کیوں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا۔ مسلمانوں کو تو قیام پاکستان ہی کیا ،پاکستان کے قیام کی تجویز سے قبل ہی اکثریت نے دیوار سے لگانا شروع کردیا تھا۔ انتہا پسند ہندو تنظیموں نے انگریزوں کے سامنے ہی جنم لیا تھا جن کا خاص مقصد مسلمانوں کو ہندوستان سے باہر دھکیلنا تھا کیوں کہ ان کے نزدیک یہ باہر سے آئے تھے چنانچہ انھیں باہر ہی بھیج دینا چاہیے اور اگر باہر نکلنے میں مزاحمت کریں تو پھر ان کا صفایا کردیا جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ بہار اور یوپی کے اضلاع میں مسلمانوں کا قتل عام شروع کردیا گیا تھا۔ مسلمانوں کی شدھی بھی شروع ہو چکی تھی، ابھی تو ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت تھی اور پاکستان تو ابھی بنا بھی نہیں تھا، تو مسلمانوں کے ساتھ اکثریت نے یہ برتاؤ شروع کردیا تھا۔ ایک طرف ہندو انتہا پسند پارٹیاں تھیں تو دوسری طرف کانگریس تھی۔

مقصد دونوں کا ایک ہی تھا کہ مسلمانوں کو اب ہندوستان کا حکمران ہونے کی سوچ کو ختم کرا کے انھیں ان کی اوقات کے مطابق رہنے پر مجبور کرنا تھا۔ مہاسبھا اور راشٹریہ سیوک سنگھ مسلمانوں میں ڈر و خوف پیدا کرنے کے علاوہ انھیں غلاموں جیسی زندگی بسر کرنے کی طرف دھکیل رہے تھے جب کہ کانگریس کا رویہ ان دونوں انتہا پسند تنظیموں سے مختلف تھا وہ پیار محبت کے ساتھ مسلمانوں کو ہندوؤں کا بھائی دکھا کر ہندوستان میں ہی ان کا تابناک مستقبل دکھا رہے تھے، بعض مسلمانوں کی مذہبی رسمیں جو ہندوؤں کے لیے سخت ناگوار تھیں انھیں ہمیشہ کے لیے ترک کرانا تھا جیسے کہ گائے کی قربانی اور گائے کے گوشت کو کھانے کی عادت کو ترک کرانا شامل تھا۔

ادھر انتہا پسند ہندو تنظیموں کے ظلم و ستم اور کانگریس کے مکارانہ رویے نے مسلمان دانشوروں اور صاحب ادراک شخصیات کو مستقبل کے بھیانک منظر سے آگاہی بخش دی تھی۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ مستقبل میں ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، وہ اکثریت میں گھر کر اپنی شناخت ہی کھو بیٹھیں گے۔ کہاں وہ ایک ہزار سال تک برصغیر کے سفید و سیاہ کے مالک رہے تھے اور اب انھیں اپنی اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں کرنے دیا جائے گا کیوں کہ وہ اقلیت میں ہیں اور جو بھی کرنا ہے وہ اکثریت کو کرنا ہے ان کی منظوری کے بغیر کچھ نہیں ہو سکے گا۔


وہ ایک ہزار سال تک برصغیر پر اپنی حکمرانی کے حق سے دست بردار ہو رہے تھے کہاں پورے برصغیر پر ان کے نام کا ڈنکا بجتا تھا اور پھر ان کے ہاتھ کچھ بھی نہیں رہے گا۔ شاید یہی خیال تھا کہ مسلمانوں نے پہلے مسلم لیگ بنائی۔ کہتے ہیں مسلم لیگ کو جاگیرداروں اور وڈیروں نے قائم کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اصل میں یہی طبقہ پڑھا لکھا اور ہندو ذہنیت کا اصل تجربہ رکھتا تھا کیوں کہ برسوں سے ان کا ان کے ساتھ واسطہ پڑتا رہا تھا۔ ابتدا میں مسلم لیگ کی منشا ہر گز مسلمانوں کے لیے ایک نئے ملک کو قائم کرنا نہیں تھا اس کا اصل مقصد مسلمانوں میں بیداری پیدا کرنا تھا تاکہ وہ خود کو پہچان سکیں اور مستقبل پر نظر رکھ سکیں۔

1857 کی جنگ آزادی یقینا مسلمانوں اور ہندوؤں نے مل کر لڑی تھی مگر اس کے بعد جو حالات ہوئے وہ مسلمانوں کے لیے مصیبت بن گئے تھے اس لیے کہ انگریزوں کے سامنے مسلمانوں کو اصل مجرم ثابت کیا گیا کہ اصل میں انھوں نے ہندوؤں کو انگریزوں کے خلاف بغاوت کرنے پر آمادہ کیا تھا کیوں کہ مسلمان اپنی بادشاہت کو ہندوؤں کی مدد سے پھر واپس حاصل کرنا چاہتے تھے، اس بات کو انگریزوں نے درست سمجھا کیوں کہ اس میں کچھ غلط نہیں تھا کہ انگریز مسلمانوں کی حکومت کو ختم کرکے ہی ہندوستان پر قابض ہوئے تھے چنانچہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انگریزوں کے دلوں میں اکثریت کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوا اور کھل کھلا انھیں مسلمانوں پر ترجیح دی گئی۔ ان کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی گئی۔

سرکاری نوکریوں کے ان کے لیے دروازے کھول دیے گئے۔ چند ہی سالوں میں اکثریتی افراد اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز ہوگئے جب کہ مسلمان انگریزی تعلیم کو کفر سمجھ کر بھی اس سے دور رہے اور پھر نتیجہ یہ ہوا کہ وہ جہالت اور غربت کے اندھیروں میں ڈوبتے گئے مگر ایسے میں اگر سرسید احمد جیسے مسلم زعما مسلمانوں کو تعلیم کی جانب مائل نہ کرتے تو پھر مسلمانوں کا مستقبل یقینا خوف ناک ہی ہوتا اور وہ پھر واقعی غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو جاتے۔

تعلیم نے مسلمانوں کو شعور دیا، اس میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا شکریہ کہ اس نے ایسے مسلم نوجوان قوم کو دیے کہ جن کی فکر نے برصغیر میں انقلاب برپا کردیا۔ اکثریت فرقے کے سارے مسلم کش منصوبے پھر راز نہ رہے ،ایسے میں قائد اعظم محمد علی جناح جیسے مسلم قوم پرست رہنما مسلم لیگ کے سربراہ مقرر ہوئے وہ کانگریس کو اس کے لیڈروں کی منفی سوچ کے سبب ہی خیرباد کہنے پر مجبور ہوئے تھے ان کی رہنمائی میں برصغیر کے طول و عرض میں ''لے کے رہیں گے پاکستان'' کا نعرہ بلند ہونے لگا۔ پھر پاکستان بن گیا جس کے قیام کو روکنے کے لیے گاندھی نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا مگر انتہا پسند ہندو تنظیم مہاسبھا کے کارکن ناتھو رام گوڈسے نے ان کی جان لے لی۔

اس نے بھری عدالت میں اعتراف جرم کیا تھا اور کہا تھا کہ اس نے گاندھی کو اس لیے مارا کہ اس کی وجہ سے پاکستان بنا جب کہ یہ سراسر جھوٹ اور لغو بات ہے گاندھی تو پاکستان بننے کے بعد بھی پاکستان کو ناکام بنانے کی حکمتیں کرتا رہا۔ اس نے قیام پاکستان کے کچھ ہی دن بعد اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستان کا دورہ کرنے والا ہے جسے قائد اعظم نے خود روکا تھا اس لیے کہ وہ یہاں آ کر نفاق کے بیج بونا چاہتا تھا۔

جتنا قائد اعظم نے کانگریس ذہنیت کو سمجھا تھا کاش کہ پاکستان مخالف مسلم شخصیات بھی سمجھ لیتیں تو شاید وہ کبھی بھی پاکستان کی مخالفت نہ کرتیں۔ جو لوگ آج متحدہ ہندوستان کی وکالت کر رہے ہیں، کاش کہ وہ قائد اعظم کے نظریات اور اس زمانے کی ان کی تقاریر ساتھ ہی اس دور کی تاریخ کا صدق دل سے مطالعہ کریں تو وہ پھر کبھی پاکستان اور اس کے نظریے کے خلاف بات نہ کریں۔
Load Next Story