یہ کہاں کی جمہوریت ہے

سننے میں آرہا ہے کہ بلدیاتی اداروں کے یہ ٹرانزیشن افسران مزیدچھ ماہ تک بلدیاتی عوامی نمایندوں کی جگہ کام کرتے رہیں گے

shabbirarman@yahoo.com

یہ بات اب صوبہ سندھ کی سیاسی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے کہ جمہوریت کی علمبردار پی پی پی ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر صوبہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کرانے سے راہ فرار اختیار کرتی رہی ہے تاہم تمام تر بہانے تراشنے کے باوجود عدالتی حکم کے تحت سندھ میں دومرحلوں میں بلدیاتی انتخابات کرائے تو گئے مگر تاحال سندھ کے بلدیاتی ادارے فعال نہیں کرائے گئے ہیں جسے آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ کسی کی منگنی ہوگئی ، نکاح بھی ہوگیا ، رخصتی بھی ہوگئی ، اب ان کے یہاں اولاد بھی ہونے والی ہے مگر سندھ کے بلدیاتی ادارے جنھیں عوام اپنے ووٹوں سے منتخب کرچکے ہیں فعالیت کے منتظر ہیں ، کیوں؟ آئیے ! اس کاجائزہ لیتے ہیں۔

عدالتی حکم کے تحت دوسرے مرحلے میں 15جنوری 2023 کو کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے عموما انتخابات نتائج کے فوری بعد حلف برداری ہوتی ہے مگر ایسا نہیں کیا گیا، حلف برداری 19جون 2023 کو لیے گئے یعنی انتخابی نتائج کے چھ مہینے بعد ۔ حلف سے لے کر تاحال دو مہینے کا عرصہ گزر چکا ہے مگر عوام کے منتخب بلدیاتی نمایندے فعال نہیں کیے گئے ہیں انھیں اختیارات سے محروم رکھا گیا ہے ، انھیں بجٹ نہیں دیا جارہا ہے ،ڈپٹی کمشنرز کی منظوری کے بغیر بیچارے عوامی بلدیاتی نمایندے کوئی کام نہیں کرسکتے ، بلدیاتی کونسل غیر فعال کردیے ہیں، تقسیم ہند کی طرح بلدیاتی اداروں میں بھی منتقلی افسران تعینات کردیے گئے ہیں اور بیچارے مظلوم عوام کے منتخب بلدیاتی نمایندے ان افسران کے اشاروں پر ہیں جو یہ ٹرانزیشن افسران کہہ گئے وہ وہی کرنے پر مجبور ہیں ،ایک عجیب صورت حال ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کہاں کی جمہوریت ہے ؟ سننے میں آرہا ہے کہ بلدیاتی اداروں کے یہ ٹرانزیشن افسران مزید چھ ماہ تک بلدیاتی عوامی نمایندوں کی جگہ کام کرتے رہیں گے دوسرے معنوں میں یہ افسران عوام پر اسی طرح مسلط رہیں گے جس طرح انتخابات سے پہلے عوام پر مسلط چلے آرہے ہیں ۔ یہ سراسر طاقت کا سر چشمہ عوام کی رائے کی توہین ہے کہ عوام کے منتخب کردہ بلدیاتی نمایندے اپنے آئینی اختیارات سے محروم رکھے گئے ہیں۔ اس ضمن میں جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن، سیف الدین ایڈووکیٹ سمیت 9 ٹاؤنز چیئرمین نے بلدیاتی اداروں میں ٹرانزٹ افسران کی مدت میں توسیع کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی ہوئی ہے۔

دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 140 کے تحت مقامی حکومتوں کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا۔ 15 جون کو میئر اور ٹاؤن چیئرمین سمیت منتخب نمایندوں کی حلف برداری بھی ہو چکی۔ حکومت سندھ نے بدنیتی کی بنیاد پر لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2023 کے سب سیکشن 2 میں ترمیم کر کے ٹرانزٹ آفسران تعینات کر دیے۔ درخواست کے مطابق ان افسران کی مدت میں مزید توسیع کی گئی جو کہ غیر قانونی ہے۔ ٹرانزٹ افسران کی تعیناتی سے منتخب نمایندوں کے انتظامی اور مالیاتی اختیارات منجمد کردیے گئے۔ اس ترمیم سے بلدیاتی ادارے معطل ہو کر رہ گئے ہیں۔

درخواست میں کہا گیاہے کہ حکومت سندھ کا یہ اقدام آئین پاکستان اور لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کی خلاف ورزی ہے۔ حکومت سندھ کے اس عمل کو کالعدم قرار دیا جائے۔ درخواست میں چیف سیکریٹری سندھ اور سیکریٹری لوکل گورنمنٹ فریق بنایا گیا ہے۔ سندھ کی ایک تہائی آبادی سے زائد کا حامل کراچی شہر اسٹرٹیجک اور سیاسی اعتبار سے بہت بدقسمت رہا، کئی برسوں سے کراچی کے معاملات مختلف صوبائی محکموں کے کنٹرول میں رہے۔ بڑے سفری منصوبوں، ادارہ جاتی اصلاحات اور ریئل اسٹیٹ منصوبوں کے حوالے سے اہم فیصلے غیر شراکتی بنیاد پر کیے جاتے رہے۔


ظاہر ہوتا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کروانا اور ایک فعال بلدیاتی حکومت قائم کرنا سندھ کی صوبائی حکومت کی ترجیح میں نہیں ہے۔ماضی میں بھی کراچی کے بلدیاتی انتخابات صرف اعلیٰ عدلیہ کے سخت فیصلوں کے نتیجے میں ہی ہوئے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ صرف براہِ راست فوجی حکومت کے دور میں ہی کراچی اور دیگر شہروں میں بلدیاتی حکومتوں کو بحال اور بااختیار بنایا گیا ہے۔ جنرل ایوب خان، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف نے بروقت انتخابات اور بااختیار بلدیاتی حکومتوں کو یقینی بنایا۔ ان اقدامات کے نتیجے میں بلدیاتی حکومت کا ایک معقول نظام متعارف کروانے میں مدد ملی۔

اس سے شراکتی جمہوریت، نچلی سطح تک اہلیت سازی، کمزور طبقات کو بااختیار بنانے، حکومت میں خواتین کی شمولیت میں اضافے اور گراس روٹ سطح پر جمہوری روایات پروان چڑھانے میں مدد ملی۔پرویز مشرف کے دور میں کراچی کو سٹی ڈسٹرکٹ کا درجہ دیا گیا۔ تاہم جمہوری طور پر منتخب، وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اسے دوبارہ ٹکڑوں میں تقسیم کردیا۔حالیہ انتخابات کے تحت کراچی میں 25 ٹاؤن اور 233 یونین کمیٹیاں ہیں۔ ان انتخابات کی روشنی میں کراچی کے میئر کا تعلق پی پی پی سے ہے۔

سوال یہ بھی ہے کہ ٹرانزیشن افسران کی موجودگی میں مفلوج منتخب بلدیاتی ادارے شہر کو درپیش پرانے مسائل کو حل کرسکیں گے؟ کراچی کے شہری مدت سے بنیادی ضروریات سے محروم ہیں پینے کے پانی کی عدم دستیابی وکمیابی ، صحت و صفائی کی ناقص صورت حال ،سیوریج کے گمبھیر مسائل، ابلتے گٹر ، نالوں کی عدم صفائی ،تجاوزات ، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ، نایاب فٹ پاتھ ، پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی ،کھیل کے میدانوں کا نہ ہونا ،تفریح مقامات کی کمی ،بارشوں میں شہر کاسیلاب بن جانا ،بلندو بالا عمارتوں کی وجہ سے بنیادی مسائل میں اضافہ ہونا ،بڑھتی ہوئی بے لگام آبادی، ایسے مسائل ہیں جن سے شہری عرصہ دراز سے متاثر ہیں جس کی اہم وجہ شہر میں بلدیاتی انتخابات کا نہ ہونا ہے اب جب کہ بلدیاتی انتخابات ہوچکے ہیں حلف برداریاں بھی ہوچکی ہیں لیکن منتخب بلدیاتی نمایندوں کو اختیارات نہ دینا انھیں سرکاری افسران کے ماتحت رکھنا ایک سوالیہ نشان ہے ؟ جس کا جواب پی پی پی کو دینا ہے۔

سیاسی معاملات کے علاوہ کراچی اس ملک میں خصوصی سیاسی اور انتظامی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ اس بات کو مرحلہ وار تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک بنیادی مسئلہ شہر کی منصوبہ بندی سے متعلق ہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے گریٹر کراچی ریجن پلان 2047 کے حوالے سے کچھ ابتدائی کام ہوا تھا جسے جاری رہنا چاہیے۔ کراچی کی مستقبل کی منصوبہ بندی اور ترقی کے لیے ایک علیحدہ منصوبہ بندی ایجنسی کی تشکیل کرنا ایک بہترین طریقہ ہے۔

اس ایجنسی کی ذمے داری ہونی چاہیے کہ وہ سیاسی مقاصد کو ترقی اور منصوبہ بندی کے قابلِ عمل ماڈل میں ڈھال دے۔ اس ایجنسی کے بنیادی افراد میں شہری منصوبہ سازوں، ماہرین معاشیات، سماجی ماہرین، آرکیٹیکٹس، انجینئر اور قانونی ماہرین شامل ہوسکتے ہیں۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ریاستی امور میں ایڈہاک ازم کو ختم کرکے اور شفافیت بڑھا کر ہم اس شہر اور ملک کی بہتری کو یقینی بنا سکتے ہیں۔
Load Next Story