سانحہ جڑانوالہ سانحہ جڑانوالہ کے مسیحیوں پر سماجی اور نفسیاتی اثرات

 انسانیت سوز واقعے پر دُکھ اور درد میں ڈوبی ایک تحریر

فوٹو : فائل

(ایازمورس ایکسپریس کے سنڈے میگزین کے صفحات پر ایک عرصے سے لکھ رہے ہیں۔ وہ اپنی تحریروں کے ذریعے لوگوں میں امید، حوصلہ اور امنگ جگاتے ہیں۔ تاہم ان کا زیرنظر مضمون اس دُکھ اور مایوسی کا اظہار ہے جو جڑانوالہ جیسے سانحات کا منطقی نتیجہ ہے۔ یہ الفاظ جڑانوالہ کے المیے اور اس سے پہلے ہونے والے ایسے ہی سانحات پر پاکستانی مسیحیوں کے زخمی احساسات کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ یہ تحریر پڑھ کر آپ کو اس کرب، تکلیف اور اندیشوں کا اندازہ بخوبی ہوسکتا ہے جن سے ہمارے ہم وطن مسیحی اس سانحے کے بعد دوچار ہیں۔ انچارج سنڈے میگزین)

جب سے جڑانوالہ کے سانحے کے بارے میں معلوم ہوا ہے یقین مانیں، جسم، رُوح اور ذہن مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ گذشتہ چند دنوں سے دل بوجھل ہے اور سوچ افسردگی میں ڈوب گئی ہے۔ یوں لگتا ہے جسے کسی نے مجھ سے جینے کی وجہ اور آس چھین لی ہو۔

سوشل میڈیا پر ملنے والی تصاویریں اور ویڈیوز دیکھ کے دل بیٹھ جاتا ہے تو سوچتا ہوں کہ میں یہاں کراچی میں بیٹھا اپنے گھر پر اس تکلیف میں ہوں تو جن کے گھروں میں یہ آگ لگی ہے اُنہوں نے پہلی رات کیسے گزاری ہوگی؟ میں نے پہلی مرتبہ دُنیا بھر میں بسنے والے پاکستانی مسیحیوں میں ہر سطح کے لوگوں کو اتنا مایوس، دُکھی اور پریشان ہوتا دیکھا ہے۔

وہ لوگ جو اپنے وطن کا پرچم نہ صرف پاکستان میں بلکہ عالمی سطح پر بڑے فخر سے تھام ہوئے ہیں، ان کے لیے یہ المیہ کسی قیامت سے کم نہیں ہے۔ میں خود میں الفاظ کا سمندر سمجھتا ہوں، لیکن آج مجھے بھی اپنا اندر خالی محسوس ہو رہا ہے، لیکن بڑی ہمت کرکے اُن دُکھی مسیحیوں کو تسلی دینے کے لیے قلم اٹھایا ہے اور اُن کے ساتھ اظہار یکجہتی اور قومی سطح پر پاکستانی مسیحیوں کے خدشات، جذبات اور تحفظات کو بیان کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔

بے شک اس سانحے کے بعد پاکستانی میڈیاچینلز اور صحافیوں نے بڑی بہادری کا مظاہرہ کیا اور حقائق کو سامنے لائے، لیکن ایک چیز وہ لوگ اور اکثر پاکستانی نہیں سمجھ پائیں گے کیوںکہ وہ اس حقیقت کا تجربہ نہیں کرتے کہ یہ ایک سانحہ نہیں بلکہ یہ ایسی قیامت ہے جو مسیحیوں کے لیے ہجرت سے بڑھ کر ہے کیوںکہ اس واقعے کے ساتھ ہی اُن کے دلوں اور ذہنوں میں ماضی کے واقعات کی ریل گاڑی چل پڑی ہے، جس کے مستقبل میں روکنے کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا ہے۔

ایک اور اہم نقطہ نظر جو ہمارے دوست پیش کرتے ہیں کہ یہ واقعات پاکستانی مذہبی اقلیتوں کے ساتھ اس لیے پیش آتے ہیں کہ ان کی اکثریت پس ماندہ اور معاشی طور پر غریب ہے۔

یہ نکتہ بلکہ غلط ہے کیوںکہ اگر ایسی کوئی حقیقت ہوتی تو جڑانوالہ میں اسسٹنٹ کمشنر شوکت مسیح سندھو تو ایک طاقت ور عہدے پر فائز تھے، وہ ریاست کا چہرہ تھے، اگر وہ اس حادثے میں محفوظ نہیں رہے تو کوئی بھی پڑھا لکھا، طاقت ور اور باشعور مسیحی کسی بھی طرح سے محفوظ نہیں ہو سکتا ہے۔

یہ ایک دو محلوں کی بات ہوتی، کسی دوردراز کے علاقے کا واقعہ ہوتا تو سمجھ میں آتا کہ پولیس، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ریاست کو اطلاع ملنے میں دیر ہوئی اور ریاست کو اپنی کارروائی کرنے سے پہلے یہ سب کچھ ہوا۔

یہ سب کچھ دن دہاڑے پورے شہر میں پولیس اور ریاست کے سامنے ہوا، لیکن، پولیس ناکام، بلکہ خاموش تماشائی بنی رہی۔ ایک اور موقف بڑی دلیری سے پیش کیا جارہا ہے کہ شکر ہے کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ارے بھائی ہوش کے ناخن لو، یہ سب مسیحیوں کی اپنی دانش مندی کی بدولت ہوا، کیوںکہ وہ ماضی کے واقعات سے بخوبی واقف تھے کہ ہجوم انسانوں کو راکھ بنانے میں دیر نہیں لگائیں گے، اس لیے اُنہوں نے خود اپنے گھروں کو خالی کرکے اپنا سب کچھ چھوڑ کر زندہ بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی۔

اگر ان میں کوئی بھی صلح، مفاہمت اور معافی تلافی کی کوشش بھی کرتا تو اس کا انجام آگ کے شعلوں میں جلنا ہوتا۔ یہ نہ پولیس کی کام یابی اور ریاست کی کارگردگی ہے بلکہ مقامی مسیحیوں کی اپنی حکمت علمی کا نتیجہ ہے ورنہ اس ملک میں آپ کسے ٹھیلے کو ہاتھ لگا کر تو دیکھیں وہ اپنے تحفظ کے لیے کیسے دفاع کرتا ہے۔

یہ مسیحیوں کے غریب ہونے کا معاملہ نہیں بلکہ اُن کے خلاف پائی جانے والی ایک منظم اور معاشرتی سطح پر مضبوط نفرت ہے، اور ظلم کرنے والوں کو بخوبی علم ہے کہ وہ نہ تو قانون کے شکنجے میں آئیں گے، اور نہ ہی اُن کا معاشرہ اُن کو حقارت کی نظر سے دیکھے گا۔

میری پیدائش اور ابتدائی تعلیم جنوبی پنجاب کی ہے۔ مجھے پنجابی مسیحی ہونے پر فخر ہے، میں خود کو دھرتی کا بچہ سمجھتا ہوں، مجھے اپنی حب الوطنی کو کسی کو ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں، کیوںکہ پاکستانی مسیحیوں کو وطن سے محبت مطالعہ پاکستان کی کتابوں سے نہیں سکھائی جاتی بلکہ ماں کے دودھ کے ساتھ ہی پلا دی جاتی ہے۔ میں نے اپنی جوانی کراچی میں گزار ی ہے اور مجھے یہ کہنے دیں کہ پنجاب میں سندھ کی نسبت مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسیحیوں کے لیے تعصب اور نفرت کہیں زیادہ ہے۔

پاکستانی مسیحیوں نے مسلسل ایسے واقعات سے یہ سبق سیکھ لیا ہے کہ اب کوئی بھی اُن جتنی مرضی تسلی دلائے کہ وہ اس وطن کے برابر کے شہری ہیں ان کے آباؤاجداد نے تحریک ِ پاکستان، قیام پاکستان اور بقائے پاکستان کے لیے قربانیاں دی ہیں۔


مسیحی لوگوں نے ہجرت کے وقت مسلمانوں کو اپنے گھروں میں پناہ دی تھی، ان کے تعلیمی اداروں نے معاشرے میں علم کی روشنی بانٹی تھی۔ اب وہ ایسی کسی سنہری باتوں اور خوابوں میں نہیں آئیں گے، اُن کے لیے 11اگست کو قائداعظم کی گئی تقریر کی اہمیت ٹی وی کے ایک ٹکر کے برابر ہے جسے لوگ ایک مرتبہ پڑھ کر سوچتے بھی نہیں ہیں۔ اُن کے لیے اب صرف یہ اہم اور ضروری ہے کہ وہ پاکستان میں ایسے کسی بھی واقعے میں خود کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں، جائیداد، مال، معاشی حیثیت، سماج میں عزت تو دُور کی بات ہے۔

خوش آئندہ امر یہ ہے کہ اس مرتبہ آرمی چیف، وزیراعظم، مذہبی راہ نماؤں اور سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے کھل کر اس واقعے کی مذمت کی ہے۔

لیکن سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا یہ آگ مذمت سے بجھے جائے گی؟ کیا اس کے لیے ریاست اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ٹھوس اقدامات کرکے اس سانحے کو ٹیسٹ کیس بنائیں گے تاکہ مستقبل کے لیے ایک مثال قائم ہو اور کوئی ایسی عبرت ناک حرکت کرنے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچے۔

یہاں سب سے اہم کام پورے پاکستان میں پولیس کو تربیت دینے کا ہے جو ہر مرتبہ انتہائی ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ پولیس اس نوعیت کے احساس کیسز کو بھی عام صورت حال سمجھ کر معمول کی کارروائی کرتی ہے۔ ویسے بھی پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کا سب سے زیادہ واسطہ پولیس کے محکمے سے پڑتا ہے۔

آپ کسی بھی مسیحی کے ساتھ پاکستان کے کسی بھی علاقے میں پولیس اسٹیشن چلے جائیں آپ کو پولیس کے رویے میں واضح فرق نظر آئے گا۔ اس ضمن میں پولیس کے اعلیٰ عہدے داروں کو سوچ کی ضرورت ہے کہ وہ ایسے واقعات میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کیوں رکھتی ہے۔

ویسے اس سانحے کے بعد میری اپنی سوچ میں بہت تبدیلی آئی ہے، یقین نہیں ہوتا جن نکات پر کبھی سوچا نہیں تھا۔ اب ان پر غور اور عمل کرنے کا دل چاہ رہا ہے کیوںکہ ریاست نے پاکستانی مسیحیوں سے سوتیلی جیسا بھی رویہ نہیں رکھا ہے۔

اب وہاں کے مسیحیوں کو تسلی دینے کے لیے اُن کے اپنے مذہبی راہ نما، سیاسی قائدین اور ریاستی نمائندے آئیں گے، اُن کے گھر اور مالی نقصان کا ازالہ بھی ہوجائے گا۔ شاید مقامی مسیحی اس سانحے کو ہجرت سمجھ کر واپس آگئے ہوں گے لیکن ہجرت میں بھی اپنے پرانے ملک کو چھوڑ کر نئے ملک میں اس لیے لوگ آئے تھے کہ وہ آزاد ملک میں اپنے لوگوں کے ساتھ رہیں گے، لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے کہ اُنہیں واپس اُنہیں لوگوں کے ساتھ رہنے کے لیے جانا ہوگا۔

انھیں اُسی بستی میں واپس جانا ہوگا جہاں یہ ظلم ہوا اور اس کی یادیں ان کے دل ودماغ کو ناگ بن کر ڈستی رہیں گی۔ انہیں اُن ہی لوگوں کے ساتھ دوبارہ زندگی بسر کرنی ہوگی جو کل تک اُن کے خون کے پیاسے تھے۔

ذرا تصور کریں اُن مسیحیوں کی کیا ذہنی اور نفسیاتی کیفیت ہوگی جو دوبارہ اُن ہی گھروں رہیں گے، وہ کیسے رات کو سوئیں گے، اپنا گھر چھوڑ کر باہر کام پر جائیں گے۔ اُن ہی لوگوں کے ساتھ فیکٹری میں مزدوری کریں گے، اُن ہی لوگوں کے گھروں میں کام کریں گے۔

یہ سب بھی سوچ کر دل قبول کر لیتا ہے کہ شاید انسان ہیں اور وقت بدل جائے، ماضی سمجھ کر بھول جائیں، لیکن اُن بچوں کا کیا ہوگا جن کے ننھے ذہنوں نے اس ظلم، نفرت کی آگ میں اپنے کھلونے، کتابیں، اسکول یونیفارم راکھ ہوتے دیکھے ہیں، جنہوں نے اپنی بائبل کو جلتے دیکھا؟وہ کیسے اپنے اسکول میں ٹیچر کی اس بات پر یقین کر پائیں گے کہ وہ پاکستانی تو کیا انسان بھی ہیں۔

وہ بچے کیسے اپنے گھر سے باہر کھیلنے کے لیے جائیں گے، وہ والدین کیسے اپنے بچوں کو گھر وں میں اکیلے چھوڑ کر کام پر جا سکیں گے؟ متاثرہ خاندانوں کے نوجوان کیسے بہتر زندگی کے لیے معاشرے میں جدوجہد کریں گے، جب کہ ان کے ذہنوں میں یہ سوال ہوگا کہ معاشرہ ان کی ترقی کو قبول کر سکے گا؟ وہ مسیحی کیسے اپنے چرچز میں بغیر کسی حفاظت کے عبادت کر سکیں گے، وہ کیسے کسی مذہبی عدل وانصاف کی باتوں پر یقین کرسکیں گے؟ وہ کیسے کسی سیاسی اور سماجی راہ نما کا یقین کریں گے وہ ان کے تحفظ کے لیے موجود ہیں؟

ایسے بے شمار خدشات، اندیشے اور خوف ہیں جو کنڈلی مارے بیٹھے اور دل ودماغ میں سرسرا رہے ہیں۔

ریاست ان کے اس کا خوف کا ازالہ کیسے کرے گی؟ مجھے یہ سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔

صرف ایک لمحے کے لیے تصور کریں ہم دُنیا کی ایٹمی طاقت ہیں، اکیسویں صدی میں رہتے ہیں اور آج کے جدید دُور میں ایسے سوال کوئی معصوم بچہ صدرِ پاکستان سے پوچھے کہ جناب آپ بین المذاہب آہنگی کا پرچم ٹی وی پر لہرا کر کہتے تھے کہ پاکستانی مذہبی اقلیتوں کو مکمل آزادی حاصل ہے، آپ ہمیں آئین میں دیے گئے تحفظ اور بنیادی حقوق دینے بجائے صرف زندہ رہنے کا حق دے سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب پاکستانی مسیحی 76 سال سے تلاش کررہے ہیں۔
Load Next Story